گمنام تنظیم کا غیرمعروف ترجمان
لاہور کی پرانی انارکلی میں لیکن گزشتہ ہفتے کی شام ایک دھماکا ہو گیا۔ ہم میں سے اکثر لوگوں نے فرض کر لیا کہ...
لاہور:
مصر کی لمحہ بہ لمحہ پیچیدہ اور سنگین تر ہوتی صورتحال کے چند نئے پہلو ذہن میں آئے تھے اور میں اس کالم میں ان کا ذکر کرنا چاہ رہا تھا۔ لاہور کی پرانی انارکلی میں لیکن گزشتہ ہفتے کی شام ایک دھماکا ہو گیا۔ ہم میں سے اکثر لوگوں نے فرض کر لیا کہ خیبر پختون خوا میں اپنی بھر پور موجودگی کا احساس دلوانے کے بعد ان لوگوں نے جن سے عمران خان اور نواز شریف مذاکرات کرنا چاہ رہے ہیں، اب پنجاب کا رُخ کر لیا ہے۔ ایک دن بعد مگر کسی بلوچ نے سیٹلائٹ فون کے ذریعے اس دھماکے کی ذمے داری قبول کر لی اور ہم حیران و پریشان ہو گئے۔
ابھی تک اس دھماکے کے بارے میں جو ابتدائی حقائق سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق اس واقعے میں استعمال کیے جانے والا بم بہت ہی مقامی ساخت کا تھا۔ اس میں کیلوں اور بال بیرنگ جیسا مواد بھی نہیں ڈالا گیا تھا جو پھٹنے کے بعد کسی پُر ہجوم علاقے میں وسیع پیمانے پر ہلاکتوں کا سبب بنتا ہے۔ ایکسپریس ٹربیون کے ایک رپورٹر کے مطابق پولیس اس پہلو پر بھی غور کر رہی ہے کہ ممکن ہے کہ جرائم پیشہ لوگوں کے کسی مقامی گروہ نے ذاتی دشمنی کی بنا پر یہ دھماکا کیا ہو۔
ان تمام اطلاعات کی روشنی میں ایک تقریباََ گمنام بلوچ تنظیم کا کسی غیر معروف ''ترجمان'' کے ذریعے لاہور میں ہونے والے دھماکے کی ذمے داری قبول کر لینا میرے اندر بیٹھے رپورٹر کو ہضم نہیں ہو رہا۔ پتہ نہیں کیوں میں اس شک میں مبتلا ہو چکا ہوں کہ ذمے داری قبول کرنے والوں نے یہ دھماکا کیا ہو یا نہیں مگر پیغام دینا یہ مقصود تھا کہ نواز شریف نے صوبائی اسمبلی میں اپنے لوگوں کی اکثریت کے ہوتے ہوئے بھی ڈاکٹر مالک کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بنا کر غلطی کی ہے۔ نواز شریف کے شہر میں ہونے والا یہ دھماکا اس ''غلطی'' کا ردعمل سمجھا جائے اور اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہا جائے کہ بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کو اپنے ساتھ ملا کر موجودہ حکومت بلوچستان میں دیرپا امن کے قیام کی طرف خیر خیریت سے بڑھ سکتی ہے۔
دُنیا بھر میں جب بھی کوئی تنظیم کسی چھوٹی اور پسماندہ رہ جانے والی قوم کے لیے جدوجہد کرتی ہے تو وہ اس بات کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ باقی اقوام اور خطوں کے لوگ ان کے مسائل کا ادراک کریں اور طاقتور کو اخلاقی دبائو کے ذریعے مجبور کریں کہ وہ ان مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات اُٹھائے۔ پنجاب کے شہروں میں رہنے والے پڑھے لکھے اور متوسط طبقے کی بے پناہ اکثریت برسہا برس تک پاکستان کے چھوٹے صوبوں میں پائے جانے والے احساسِ محرومی سے نہ صرف بے خبر رہی ہے بلکہ کافی متشددانہ انداز میں ان لوگوں کو ''نظریہ پاکستان کے مخالف غیر ملکی ایجنٹ'' کے طور پر دیکھتی رہی جو اس احساس کے ترجمان ہوا کرتے تھے۔
1970 کے انتخابات کے بعد جب مشرقی پاکستان کی منتخب کردہ قیادت کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے وہاں فوجی کارروائی شروع کردی گئی تو ہمارے کئی بہت ہی معتبر صحافی اپنے ڈھاکہ کے دوروں کے دوران وہاں محبت کے زم زم بہتے دیکھتے رہے۔ پنجابیوں میں گنتی کے چند صحافی اور شاعر تھے جن کا اصرار تھا کہ 1970 کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنا ملک کو دو لخت کر دے گا۔ ایسے دانشوروں کو ''غدار'' کہا گیا۔ غداری کی یہ تہمت صرف ریاستی کارندے نہیں لگاتے تھے۔ پنجاب کے عام شہریوں کی اکثریت بھی ایسا محسوس کرتی تھی۔ بھٹو صاحب نے جب نیپ کی اس وقت کے سرحد اور بلوچستان میں بنی حکومتوں کو برطرف کیا تو عوامی سطح پر یہی سوچ برقرار رہی۔
حقیقت یہ ہے کہ نواب اکبر بگٹی کے جنرل مشرف کے آخری دنوں کے دوران قتل کے بعد پنجاب کے لوگوں میں یہ پُر خلوص خواہش پیدا ہوئی کہ بلوچستان کے مسئلے کو کھلے ذہن کے ساتھ سمجھ کر اس کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ نواز شریف کا بڑی سختی اور مصمم ارادے کے ساتھ ڈاکٹر مالک کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بنوانا دراصل اس سوچ کا عملی اظہار ہے۔ بلوچ عوام کے حقوق کی خاطر برسوں سے جدوجہد کرنے والی قیادت اگر اپنے مقصد کے حصول میں پُر خلوص ہے تو اسے پنجابی عوام کی سوچ میں اس تبدیلی کا دل سے خیر مقدم کرنا چاہیے۔ ایک مشکوک نظر آنے والے دھماکے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے بڑی سفاکی سے ان تمام حقیقتوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
ہمارے آج کل کے انٹرنیٹ انقلابیوں کو شاید فرانزفینن کے بارے میں کوئی خبر نہ ہو۔ یہ ایک سیاہ فام نفسیات دان تھا جس نے الجزائر کے لوگوں کو سمجھنے میں عمر گزار دی۔ اس کی ایک کتاب ''افتادگانِ خاک'' کے نام سے سجاد باقر رضوی نے 1970 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں ترجمہ کی تھی۔ اس کا دیباچہ مشہور فرانسیسی دانشور ژاں پال سارتر نے لکھا تھا۔ میری نظر میں اگرچہ اس کتاب سے کہیں زیادہ اہم فینن کی ایک اور کتاب تھی۔ اس کا نام تھا Black Skin White Masks۔ یہ کتاب بنیادی طور پر ان خیالات پر مبنی تھی جو فینن نے بحیثیت ماہر نفسیات سیکڑوں سیاہ فام ذہنی مریضوں کے علاج کے درمیان دریافت کیے تھے۔ ان خیالات میں سب سے خوفناک دریافت یہ تھی کہ اپنی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے جنون میں مبتلا مظلوم اور پسماندہ اقوام سے تعلق رکھنے والے چند بہت ہی حساس اور پرتشدد جدوجہد میں مصروف لوگ بتدریج اپنے آقائوں جیسے ظالم، بے حس اور سفاک ہو جاتے ہیں۔ مجھے دن بدن یہ خدشہ لاحق ہو رہا ہے کہ بلوچستان کے کچھ انتہاء پسند فینن کی دریافت کردہ اس راہ پر چل نکلے ہیں۔ یہ راہ کسی مثبت سمت کی طرف ہرگز نہیں لے جاتی۔ اسے ترک کرنا ہوگا۔ اس کالم کے اختتام پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں نے کوئٹہ کی ہزارہ برادری کو مہاجر نہیں لکھا تھا۔ یہ کمپوزنگ کی غلطی تھی۔
مصر کی لمحہ بہ لمحہ پیچیدہ اور سنگین تر ہوتی صورتحال کے چند نئے پہلو ذہن میں آئے تھے اور میں اس کالم میں ان کا ذکر کرنا چاہ رہا تھا۔ لاہور کی پرانی انارکلی میں لیکن گزشتہ ہفتے کی شام ایک دھماکا ہو گیا۔ ہم میں سے اکثر لوگوں نے فرض کر لیا کہ خیبر پختون خوا میں اپنی بھر پور موجودگی کا احساس دلوانے کے بعد ان لوگوں نے جن سے عمران خان اور نواز شریف مذاکرات کرنا چاہ رہے ہیں، اب پنجاب کا رُخ کر لیا ہے۔ ایک دن بعد مگر کسی بلوچ نے سیٹلائٹ فون کے ذریعے اس دھماکے کی ذمے داری قبول کر لی اور ہم حیران و پریشان ہو گئے۔
ابھی تک اس دھماکے کے بارے میں جو ابتدائی حقائق سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق اس واقعے میں استعمال کیے جانے والا بم بہت ہی مقامی ساخت کا تھا۔ اس میں کیلوں اور بال بیرنگ جیسا مواد بھی نہیں ڈالا گیا تھا جو پھٹنے کے بعد کسی پُر ہجوم علاقے میں وسیع پیمانے پر ہلاکتوں کا سبب بنتا ہے۔ ایکسپریس ٹربیون کے ایک رپورٹر کے مطابق پولیس اس پہلو پر بھی غور کر رہی ہے کہ ممکن ہے کہ جرائم پیشہ لوگوں کے کسی مقامی گروہ نے ذاتی دشمنی کی بنا پر یہ دھماکا کیا ہو۔
ان تمام اطلاعات کی روشنی میں ایک تقریباََ گمنام بلوچ تنظیم کا کسی غیر معروف ''ترجمان'' کے ذریعے لاہور میں ہونے والے دھماکے کی ذمے داری قبول کر لینا میرے اندر بیٹھے رپورٹر کو ہضم نہیں ہو رہا۔ پتہ نہیں کیوں میں اس شک میں مبتلا ہو چکا ہوں کہ ذمے داری قبول کرنے والوں نے یہ دھماکا کیا ہو یا نہیں مگر پیغام دینا یہ مقصود تھا کہ نواز شریف نے صوبائی اسمبلی میں اپنے لوگوں کی اکثریت کے ہوتے ہوئے بھی ڈاکٹر مالک کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بنا کر غلطی کی ہے۔ نواز شریف کے شہر میں ہونے والا یہ دھماکا اس ''غلطی'' کا ردعمل سمجھا جائے اور اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہا جائے کہ بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کو اپنے ساتھ ملا کر موجودہ حکومت بلوچستان میں دیرپا امن کے قیام کی طرف خیر خیریت سے بڑھ سکتی ہے۔
دُنیا بھر میں جب بھی کوئی تنظیم کسی چھوٹی اور پسماندہ رہ جانے والی قوم کے لیے جدوجہد کرتی ہے تو وہ اس بات کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ باقی اقوام اور خطوں کے لوگ ان کے مسائل کا ادراک کریں اور طاقتور کو اخلاقی دبائو کے ذریعے مجبور کریں کہ وہ ان مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات اُٹھائے۔ پنجاب کے شہروں میں رہنے والے پڑھے لکھے اور متوسط طبقے کی بے پناہ اکثریت برسہا برس تک پاکستان کے چھوٹے صوبوں میں پائے جانے والے احساسِ محرومی سے نہ صرف بے خبر رہی ہے بلکہ کافی متشددانہ انداز میں ان لوگوں کو ''نظریہ پاکستان کے مخالف غیر ملکی ایجنٹ'' کے طور پر دیکھتی رہی جو اس احساس کے ترجمان ہوا کرتے تھے۔
1970 کے انتخابات کے بعد جب مشرقی پاکستان کی منتخب کردہ قیادت کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے وہاں فوجی کارروائی شروع کردی گئی تو ہمارے کئی بہت ہی معتبر صحافی اپنے ڈھاکہ کے دوروں کے دوران وہاں محبت کے زم زم بہتے دیکھتے رہے۔ پنجابیوں میں گنتی کے چند صحافی اور شاعر تھے جن کا اصرار تھا کہ 1970 کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنا ملک کو دو لخت کر دے گا۔ ایسے دانشوروں کو ''غدار'' کہا گیا۔ غداری کی یہ تہمت صرف ریاستی کارندے نہیں لگاتے تھے۔ پنجاب کے عام شہریوں کی اکثریت بھی ایسا محسوس کرتی تھی۔ بھٹو صاحب نے جب نیپ کی اس وقت کے سرحد اور بلوچستان میں بنی حکومتوں کو برطرف کیا تو عوامی سطح پر یہی سوچ برقرار رہی۔
حقیقت یہ ہے کہ نواب اکبر بگٹی کے جنرل مشرف کے آخری دنوں کے دوران قتل کے بعد پنجاب کے لوگوں میں یہ پُر خلوص خواہش پیدا ہوئی کہ بلوچستان کے مسئلے کو کھلے ذہن کے ساتھ سمجھ کر اس کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ نواز شریف کا بڑی سختی اور مصمم ارادے کے ساتھ ڈاکٹر مالک کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بنوانا دراصل اس سوچ کا عملی اظہار ہے۔ بلوچ عوام کے حقوق کی خاطر برسوں سے جدوجہد کرنے والی قیادت اگر اپنے مقصد کے حصول میں پُر خلوص ہے تو اسے پنجابی عوام کی سوچ میں اس تبدیلی کا دل سے خیر مقدم کرنا چاہیے۔ ایک مشکوک نظر آنے والے دھماکے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے بڑی سفاکی سے ان تمام حقیقتوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
ہمارے آج کل کے انٹرنیٹ انقلابیوں کو شاید فرانزفینن کے بارے میں کوئی خبر نہ ہو۔ یہ ایک سیاہ فام نفسیات دان تھا جس نے الجزائر کے لوگوں کو سمجھنے میں عمر گزار دی۔ اس کی ایک کتاب ''افتادگانِ خاک'' کے نام سے سجاد باقر رضوی نے 1970 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں ترجمہ کی تھی۔ اس کا دیباچہ مشہور فرانسیسی دانشور ژاں پال سارتر نے لکھا تھا۔ میری نظر میں اگرچہ اس کتاب سے کہیں زیادہ اہم فینن کی ایک اور کتاب تھی۔ اس کا نام تھا Black Skin White Masks۔ یہ کتاب بنیادی طور پر ان خیالات پر مبنی تھی جو فینن نے بحیثیت ماہر نفسیات سیکڑوں سیاہ فام ذہنی مریضوں کے علاج کے درمیان دریافت کیے تھے۔ ان خیالات میں سب سے خوفناک دریافت یہ تھی کہ اپنی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے جنون میں مبتلا مظلوم اور پسماندہ اقوام سے تعلق رکھنے والے چند بہت ہی حساس اور پرتشدد جدوجہد میں مصروف لوگ بتدریج اپنے آقائوں جیسے ظالم، بے حس اور سفاک ہو جاتے ہیں۔ مجھے دن بدن یہ خدشہ لاحق ہو رہا ہے کہ بلوچستان کے کچھ انتہاء پسند فینن کی دریافت کردہ اس راہ پر چل نکلے ہیں۔ یہ راہ کسی مثبت سمت کی طرف ہرگز نہیں لے جاتی۔ اسے ترک کرنا ہوگا۔ اس کالم کے اختتام پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں نے کوئٹہ کی ہزارہ برادری کو مہاجر نہیں لکھا تھا۔ یہ کمپوزنگ کی غلطی تھی۔