مرسی اور امریکا

مصر 8 کروڑ سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کو عرب دنیا میں اہم مقام حاصل ہے، مصر کا محل وقوع انتہائی اہم ہے۔

tauceeph@gmail.com

KARACHI:
مصر 8 کروڑ سے زیادہ آبادی والا ملک ہے جس کو عرب دنیا میں اہم مقام حاصل ہے، مصر کا محل وقوع انتہائی اہم ہے۔ ایک طرف اس کی سرحد جنوبی افریقہ کو چھوتی ہے، پھر بحر اوقیانوس سے ہوتی ہوئی بحر احمر تک پہنچ جاتی ہے۔ ایک طرف افریقی ممالک لیبیا اور سوڈان اس کے پڑوسی ہیں تو دوسری طرف فلسطین اور اسرائیل ہیں، یمن بھی اس کا پڑوسی ملک ہے۔ مصر آبادی کے اعتبار سے دنیا کا 15 واں بڑا ملک ہے۔ مصردیگر عرب ممالک کی طرح تیل کی دولت سے محروم ہے۔ اس کی معیشت کا انحصار سیاحت، زراعت، صنعت اورسروسز پر ہے۔

انسانی ترقی کے اعشاریہ HDI میں مصر 133ویں نمبر پر تعینات ہے۔ اس کی فی کس آمدنی 6 ڈالر کے قریب ہے۔ حسنی مبارک نے 30 سال سے زائد عرصے تک مصر پر حکومت کی۔ دو سال قبل عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ گزشتہ سال مصر میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ دائیں بازو کی قدامت پرست تنظیم اخوان المسلمین نے مسلح جدوجہد چھوڑکر انتخابات میں حصہ لیا۔ محمد مرسی ان انتخابات کے نتیجے میں صدر منتخب ہوئے۔ محمد مرسی نے ماضی کی پالیسیوں کو فراموش کرتے ہوئے امریکا اور اسرائیل سے تعلقات برقرار رکھے۔ انھوں نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش کی ، لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔

امریکی نواز مقتدر حلقوں سے ان کی بن نہ سکی، اس کے خلاف لاکھوں عوام احتجاج کے طور پر التحریر اسکوائر پر جمع ہوگئے۔ فوج نے صدر مرسی کو مستعفیٰ ہونے کا الٹی میٹم دیدیا۔صدر مرسی نے فوج کے دباؤ پر مستعفی ہونے سے انکار کیا۔ اس کے بعد فوج نے اقتدار سنبھال لیا۔ صدر مرسی گرفتار ہوگئے جس پر مصر میں ہنگاموں کا دور شروع ہوا ہے ۔ ان ہنگاموں میں مرنے والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ فوج کے غیر آئینی اقدام کی حمایت آئینی عدالت اور دنیا کی سب سے بڑی اسلامی یونیورسٹی الازہر نے بھی کی۔ سعودی عرب نے بھی فوجی بغاوت کی حمایت کا اعلان کردیا۔ اگرچہ امریکا اور اسرائیل نے محتاط رویہ اختیار کیا ہوا ہے مگر سعودی عرب کی فوجی بغاوت کی حمایت سے واضح ہوگیا ہے کہ امریکا کہیں نہ کہیں فوج کی پشت پناہی کررہا ہے۔ جب سلطنتِ عثمانیہ ختم ہوئی تو مصر پر برطانیہ کا قبضہ ہوا، مصر نے برطانیہ سے 1922 میں آزادی حاصل کی۔ اس کے بعد شاہ فاروق کا اقتدار قائم ہوا۔

گزشتہ صدی کی 50 کی دھائی میں جونیئر فوجی افسروں نے شاہ فاروق کا تختہ الٹا۔ جنرل نجیب اس بغاوت کی قیادت کررہے تھے۔ ان کے سربراہ کرنل جمال ناصر تھے۔ یوں مشرقِ وسطیٰ میں سب سے پہلے مصر میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ جمال ناصر صدر بن گئے۔ انھوں نے 1956میں نہر سوئز کو قومیانے کا فیصلہ کیا۔ صدر ناصر نے عرب نیشنلزم کا نعرہ بلند کیا۔ برطانیہ ، فرانس اور اسرائیل نے نہر سوئز پر حملہ کیا۔ اس موقعے پر سوویت یونین نے مصر کی حمایت کی۔ امریکا کی پشت پنائی کی بناء پر سعودی عرب برطانیہ اور فرانس کے ساتھ تھا۔ ادھر مصر سوشلسٹ بلاک کے قریب ہوا۔ مصر میں قومی جمہوری حکومت قائم ہوئی۔ جمال ناصر 1967 میں اسرائیل سے شکست کے باوجود مقبول ترین رہنما رہے۔ اخوان المسلمین نے جمال ناصر حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کی جس کی بناء پر کہا جاتا تھا کہ سعودی عرب اور امریکا اخوان المسلمین کی درپردہ حمایت کررہے تھے۔

جمال ناصر کے انتقال کے بعد امریکی سی آئی اے نے مصری فوج میں دراڑ ڈالی اور انورالسادات صدر بن گئے۔ انھوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا مگر ایک جماعتی آمریت برقرار رہی۔ اخوان المسلمین کے ایک مسلح دستے نے انور السادات کو قاہرہ میں فوجی پریڈ کے دوران ہلاک کردیا۔ یوں حسنی مبارک اقتدار پر قابض ہوئے۔ انھوں نے ایک جماعتی آمریت کے ذریعے ملک کو چلایا۔ حسنی مبارک نے 2005 میں سیاسی اصلاحات کیں۔ انھوں نے نجی اخبارات اور ٹی وی چینلز کو کام کرنے کی اجازت دی اور کثیر جماعتی انتخابات کے منصوبے پر غور کیا۔ مصر میں خواندگی کی شرح بڑھنے اور متوسط طبقے کے اضافے سے سوشل میڈیا کا اثر بڑھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حسنی مباک کی آمریت کو چیلنج کردیا گیا۔


نئے آئین کے نفاذ کے بعد اخوان المسلمین کے محمد مرسی برسر اقتدار آئے جنہوں نے اعلیٰ تعلیم امریکا میں حاصل کی ہے۔ اگرچہ مرسی نے امریکا اور سعودی عرب سے بہتر تعلقات کی کوشش کی اور اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرلیا مگر مجموعی طور پر اخوان المسلمین نے قدامت پرستانہ پالیسیاں اپنائیں۔ ان پالیسیوں کی بناء پر اقلیتی مذہبی قوت عیسائیوں میں عدم تحفظ پیدا ہوا۔ لوگوں کی انفرادی آزادی ،حقِ خلوتRight to privacy اور شہری آزادیوں پر قدغن لگنے سے مصر کے شہریوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔ عیسیائی فرقے اور لبرل نظریات رکھنے والے لاکھوں افراد محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔عجیب ستم ظریفی یہ ہے کہ سعودی عرب مصر میں شہری آزادیوں پر پابندیوں کے خلاف احتجاج میں شریک ہوگیا ۔

مصر میں فوجی انقلاب سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید گنجلک ہوگئے۔ اخوان المسلمین کی قیادت نے فوجی بغاوت کے خلاف پرامن احتجاج کا فیصلہ کیا ہے ۔اگر فوجی حکومت نے اس احتجاج کو سختی سے کچلا تو مذہبی انتہاپسند اخوان کی پالیسی کو تبدیل کردیں گے۔ یوں الجزائر کی

طرح مصر بھی دہشت گردی کا شکار ہوجائے گا۔ اس عرصے میں مشرقِ وسطیٰ میں اہم تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ امریکا کی مدد سے لیبیا میں ایک سیکیولر ذہن رکھنے والے کرنل قذافی کو عبرت کا نشان بنادیا گیا۔شام میں امریکا کی مدد کے باوجود اسد کی حکومت قائم ہے۔ لاکھوں لوگ خانہ جنگی سے جان بچانے کے لیے دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔ لیبیا میں القاعدہ کے فکری جانشیں اقتدار میں ہیں ،جب کہ امکان ہے کہ مصر میں فوجی کارروائی صورتحال کو مزید خراب کردے گی۔ یہ بات درست ہے کہ صدر مرسی کی پالیسیوں نے ملک کے ایک بڑے حصے میں بے چینی پیدا کردی ہے اور لوگ سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں مگر فوجی بغاوت نے مصر کی صورتحال کو مزید گمبھیر کردیا ہے۔ فوج اگر اقتدار پر قبضہ نہ کرتی اور عوام کا ایک بڑا حصہ اپنا احتجاج جاری رکھتا تو یا تو حکومت طاقت سے اس احتجاج کوروکتی جس کی بناء پر مرسی حکومت غیر مقبول ہوجاتی اگر اس احتجاج کی وجوہات کو محسوس کرتے ہوئے حکومت اپنی پالیسی میں تبدیلی کرتی تو جمہوری نظام مستحکم ہوتا۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اسرائیل صدر مرسی کی حکومت سے مطمئن نہیں تھا۔

اسرائیل کے دباؤ پر امریکی حکومت نے مصر میں جنرلوں کی حوصلہ افزائی کی۔ یوں مرسی کی قانونی حکومت ختم ہوئی۔ مگر ماہرین اس کو مستقبل کے لیے خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا کی ایڈہاک پالیسیوں کی بناء پر افغانستان میں طالبان اور عراق میں صدر صدام کی حکومت مستحکم ہوئی۔ اب پھر مصر میں ایڈہاک نتائج کی حامل پالیسی پر عملدرآمد خوفناک ہوگا۔ صدر مورسی آئین کے تحت منتخب ہوئے تھے۔ ان کی حکومت کا خاتمہ آئینی طریقے سے ہی ہونا چاہیے۔ فوج کا اقتدار نہ صرف مصر بلکہ خطے کے دوسرے ممالک کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوگا۔ مصر عرب دنیا کا اہم ترین ملک ہے۔ مصر میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائی اور یہودی بھی آباد ہیں۔ کرنل جمال ناصر اپنے دورِ اقتدار میں سعودی عرب، امریکا اور اسرائیل سے نبردآزما رہے۔ انھوں نے نہر سوئز کو قومیا کر مصر کی بیمار معیشت کوبہتر کیا۔ جمال ناصر ملک میں کثیر الجماعتی نظام قائم کرنے پر توجہ نہیں دے سکے۔

پھر امریکا نے فوجی افسروں کے ذریعے مصر کی شکل تبدیل کردی۔ یوں ایک نئی مڈل کلاس پیدا ہوئی۔ مگر خواندگی کی شرح میں اضافے اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں ایک نیا شعور پیدا ہوا۔ 50 کی دھائی سے اخوان المسلمین ایک منظم جماعت تھی، اس لیے وہ انتخابات میں کامیاب ہوئی۔ اگرجمہوری عمل جاری رہتا تو اخوان المسلمین کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا۔ اب امریکا کی ایماء پر فوجی کارروائی نے نہ صرف مصر کو خطرناک صورتحال میں کھڑا کردیا ہے بلکہ دیگر عرب ممالک میں جمہوری جدوجہد کو بھی نقصان پہنچا یا ہے۔تاہم امریکی پالیسی ساز اداروں کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ نہ صرف مصر بلکہ سعودی عرب اور عراق سمیت تمام ممالک میں جمہوریت کے قیام میں ہی مستقبل کا راستہ ہے۔ مصر میں فوجی بغاوت کی حمایت ،بحرین اور سعودی عرب میں بادشاہت کی حمایت اور عراق میں جمہوری نظام کی کوشش جیسی متضاد پالیسیاں خطے میں منفی نتائج مرتب کریں گی اور نئے طالبان طرز کی تنظیموں کو مضبوط کریں گی۔
Load Next Story