مصر کا انقلاب …کچھ تلخ باتیں
مصر میں صدر محمد مرسی کا تختہ الٹا دیا گیا‘مصر میں تو شور برپا ہونا ہی تھا لیکن پاکستان میں بھی پکاریں پڑگئیں۔
مصر میں صدر محمد مرسی کا تختہ الٹا دیا گیا'مصر میں تو شور برپا ہونا ہی تھا لیکن پاکستان میں بھی پکاریں پڑگئیں۔ سنا ہے جس فوجی سربراہ نے اخوان المسلمین کے اقتدار کا خاتمہ کیا' معزول صدر محمد مرسی نے ہی انھیں اس عہدے پر نامزد کیا تھا' جنرل فتح کی نامزدگی کی ایک وجہ ان کی اہلیہ کا حجاب کرنا بھی بیان کیا جاتا ہے' اس کا مطلب یہ ہے کہ تختہ الٹنے والامصری مسلمان ہی ہے۔ محمد مرسی نے جب اقتدار سنبھالا تو ان کا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا تھا لیکن رموز مملکت کے تقاضے کتنے بے رحم ہوتے ہیں کہ ان کی حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم بھی سعودی عرب نے کیا۔
محمد مرسی کی سیاسی فکر کسی تعارف کی محتاج نہیں۔وہ اسرائیل کے سخت مخالف تھے اور شام میں بشار حکومت کے باغیوں کے زبردست حامی۔ انھوں نے 15 جون کوقاہرہ میں ایک ریلی میں شرکت کی جس میں شام میں جاری خانہ جنگی کو جہاد اور بشار الاسد کے حامیوں کو کافر قرار دیا تھا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی نظر میں شامی حکومت اور اسرائیل ایک جیسے ہیں۔ اب شاید سعودی عرب بھی اسی صف میں شامل ہو گا۔سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ کبھی اپنے دشمن ہو جاتے ہیں اور غیروں کے ساتھ تعلقات قائم ہو جاتے ہیں۔ محمد مرسی امریکا میں خاصا عرصہ رہے لہٰذا وہ سیاسی ضرورتوں اور نظریاتی چپقلش سے بخوبی آگاہ تھے۔
محمد مرسی کا اقتدار میں آنا اور پھر برخاست ہونا' مشرقی وسطیٰ کی سیاسی و نظریاتی کشمکش کا نتیجہ ہے' انھیں اقتدار میں لانے میں پاکستان کا کوئی کردار ہے نہ رخصت کرنے میں کوئی دلچسپی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے دائیں بازو کے دانش ور اور سیاسی جماعتیں مصر کے معاملات میں یوں ناک گسیڑ رہے ہیں' جیسے مصر ان کا اپنا یا پھر کوئی مفتوحہ ملک ہے حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ پاکستانیوں کو وہاں ویزا لے کر جانا پڑتا ہے'بالکل ایسے ہی جیسے چین یا برطانیہ جانے کے لیے ویزا لینا پڑتا ہے۔ پاکستان کے دائیں بازو کا المیہ یہ ہے کہ ان کے سیاسی نظریات میں دوسرے ملکوں اور قوموں کو ہمیشہ فوقیت رہی ہے' پاکستان کے عوام اور مفادات ان کے لیے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ کبھی یہ افغانستان میں جہاد کرتے ہیں اور کبھی برما پہنچ جاتے ہیں۔سوڈان بھی ان کی ترجیحات میں پہلے نمبروں پر ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی مذہبی سیاسی جماعت کو پاکستان کے عوام نے ووٹ دے کر اس قابل نہیں بنایا کہ وہ حکومت بنا سکے۔یہ جماعتیں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات استوار کر کے پریشر گروپ کی شکل اختیار کرتی ہیں اور پھر ایسی پالیسیوں کو پروان چڑھاتی ہیں جن کا عوامی مفادات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے' اس کا بھی پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے' مصر کی اسٹرٹیجک پوزیشن اور اس کے علاقائی مفادات کے تقاضے پاکستان سے یکسر مختلف ہیں۔مصر کے لیے شمالی افریقا کے ممالک اہم ہیں یا اس کے ہمسایوں میں واقع عرب ممالک۔ان ممالک میں ہونے والی تبدیلیاں مصر پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی تبدیلیوں کے مصر پر اثرات مرتب ہوتے ہیں نہ وہاں حکومت کی تبدیلی سے ہمیں کوئی نقصان یا فائدہ ہوتا ہے۔ محمد مرسی اچھے ہیں یا برے 'یہ مصر کے عوام یا اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ ہے یا ان قوتوں کا سر درد ہے جو اس تنازعہ میں فریق ہیں 'ہمارا کردار بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ جیسا ہے۔ محمد مرسی کے خلاف تحریر اسکوائر میں جمع ہونے والے بھی مصر کے لوگ تھے اوراب جو لوگ مظاہرے کر رہے ہیں' وہ بھی وہاں کے رہنے والے ہیں۔ البرادی ہوں یا عدلے منصور یا جنرل فتح' وہ لاہور کے کسی محلے کے غنڈے یا بدمعاش نہیں ہیں کہ ہم ان پر تبرا کرتے پھریںیا ان کی حب الوطنی یا عقیدے پر شک و شبہ کا اظہار کریں۔اسی طرح محمد مرسی اور ان کے ساتھی ہماری کسی یونیورسٹی یا مدرسے کے فارغ التحصیل نہیں کہ ان کے لیے رطب السان ہوا جائے۔
دنیا کے ہر ملک میں سیاسی تقسیم موجود ہے' امریکا' برطانیہ' بھارت غرض ہر جگہ سیاسی پارٹیاں اور گروہ نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوتے ہیںکوئی خود کو قدامت پرست کہلاتا ہے اور کوئی ماڈریٹ یا اعتدال پسند لیکن جمہوری معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا کہ 52 فیصد ووٹ لے کربرسر اقتدارآنے والی پارٹی اپنے اختیارات ایسے استعمال کرے جیسے اسے ملک کے سو فیصد عوام نے مینڈیٹ دیا ہے' جمہوری نظام میں اکثریت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عوام نے اسے امور مملکت چلانے کا مینڈیٹ دیا ہے' اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ 48 فیصد اپوزیشن کے نظریات اور فکر کو باطل قرار دے کر اسے ختم کرنے کا کام شروع کر دے' مصر میں ایسا ہی ہوا' صدر مرسی جو اقدامات اٹھا ہے تھے' ان کا مقصد ملک کی 48 فیصد اپوزیشن کو کچلنا اور ان کی آواز کو خاموش کرناتھا اور اس کے لیے مذہب کو ڈھال بنایا گیا تھا' ظاہر ہے کہ چیونٹی کو بھی ماریں تو وہ اپنی بساط کے مطابق کاٹتی ہے' مصر میں تو پھر طاقتور قوتیں تھی لہذا انھوں نے مرسی حکومت کا خاتمہ کرنے کے لیے وہ سب کچھ کیا جس کی ضرورت تھی۔
اب مصر کی 51 فیصد قوت میدان میں ہے'اس تناسب کو مدنظر رکھیں تو کوئی گروپ بھی ایک دوسرے کو مکمل طور پر کچل نہیں سکتا۔ یہ قانون قدرت ہے کہ اگر دو قوتیں ایک دوسرے کے اختیارات کو تسلیم نہ کریں تو پھران میں تصادم ہوتا ہے' مصر میں ایسا ہی ہونے جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے کئی مسلم ممالک میں ایسی ہی صورتحال ہے۔ شام' یمن' صومالیہ میں یہی لڑائی جاری ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم ایسے نظریات و فکر کے اسیر ہو گئے ہیں' جن کا حقائق سے تعلق نہیں ہوتا' میں اسے دائیں بازو کی رومانیت کہتا ہوں' دائیں بازو کے دانشور خیالوں میںجو حکومتی ماڈل تشکیل دیتے ہیں اسے عملی شکل دینا ممکن نہیں۔ بائیں بازو کے دانشور بھی سوشلسٹ رومانویت کا شکار تھے' وہ مساوات کا مطلب یہ لیتے تھے کہ مالی اعتبار سے تمام انسان ایک حیثیت کے حامل ہو جائیں'افسوس حقائق کی دنیا میں ایسا نہیں ہو سکا۔
سوویت یونین تحلیل ہو گیا تب حقیقت سامنے آئی اور ان کے نظریات المیہ رومانویت میں تبدیل ہو گئے ۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہے جس میں زندگی کی عملی حقیقت بیان کی گئی ہے ۔قارئین آپ کی خدمت میں عرض ہے'تو اپنی نبیڑ' تینوں پرائی نال کی کم۔ (تم اپنے معاملات کو سنبھالو' دوسروں کے معاملے سے تمہارا کیا تعلق) پاکستان میں دائیں بازو والوں نے ہمیشہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑائی ہے اور اپنے پیروکاروں کو بھی یہی سب پڑھایا۔ افغانستان والے پاکستان کو برا بھلا کہتے ہیں' پاکستان کو اپنی تباہی کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ صدر کرزئی پاکستان کے خلاف کسی ممکنہ جنگ میں اپنے اکلوتے صاحبزادے کو بھیجنے کی بات کرتے ہیں اور ہم یہاں گلے پھاڑ پھاڑکر پہاڑ باقی' کوہسار باقی'افغان باقی کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ کراچی' لاہور' اسلام آباد میں بیٹھے دانشور اپنے ہم وطنوں کو بزدل' نان مارشل جب کہ وسط ایشیائی اقوام کو مارشل' بہادر اور ناقابل شکست قرار دیتے ہیں۔ دنیا کے دیگر ملکوں اور قوموں میں بھی دایاں بازو ہو گا لیکن ہم جیسے شاید ہی دنیا کے کسی خطے میں ہوں گے۔
محمد مرسی کی سیاسی فکر کسی تعارف کی محتاج نہیں۔وہ اسرائیل کے سخت مخالف تھے اور شام میں بشار حکومت کے باغیوں کے زبردست حامی۔ انھوں نے 15 جون کوقاہرہ میں ایک ریلی میں شرکت کی جس میں شام میں جاری خانہ جنگی کو جہاد اور بشار الاسد کے حامیوں کو کافر قرار دیا تھا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی نظر میں شامی حکومت اور اسرائیل ایک جیسے ہیں۔ اب شاید سعودی عرب بھی اسی صف میں شامل ہو گا۔سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ کبھی اپنے دشمن ہو جاتے ہیں اور غیروں کے ساتھ تعلقات قائم ہو جاتے ہیں۔ محمد مرسی امریکا میں خاصا عرصہ رہے لہٰذا وہ سیاسی ضرورتوں اور نظریاتی چپقلش سے بخوبی آگاہ تھے۔
محمد مرسی کا اقتدار میں آنا اور پھر برخاست ہونا' مشرقی وسطیٰ کی سیاسی و نظریاتی کشمکش کا نتیجہ ہے' انھیں اقتدار میں لانے میں پاکستان کا کوئی کردار ہے نہ رخصت کرنے میں کوئی دلچسپی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے دائیں بازو کے دانش ور اور سیاسی جماعتیں مصر کے معاملات میں یوں ناک گسیڑ رہے ہیں' جیسے مصر ان کا اپنا یا پھر کوئی مفتوحہ ملک ہے حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ پاکستانیوں کو وہاں ویزا لے کر جانا پڑتا ہے'بالکل ایسے ہی جیسے چین یا برطانیہ جانے کے لیے ویزا لینا پڑتا ہے۔ پاکستان کے دائیں بازو کا المیہ یہ ہے کہ ان کے سیاسی نظریات میں دوسرے ملکوں اور قوموں کو ہمیشہ فوقیت رہی ہے' پاکستان کے عوام اور مفادات ان کے لیے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ کبھی یہ افغانستان میں جہاد کرتے ہیں اور کبھی برما پہنچ جاتے ہیں۔سوڈان بھی ان کی ترجیحات میں پہلے نمبروں پر ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی مذہبی سیاسی جماعت کو پاکستان کے عوام نے ووٹ دے کر اس قابل نہیں بنایا کہ وہ حکومت بنا سکے۔یہ جماعتیں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات استوار کر کے پریشر گروپ کی شکل اختیار کرتی ہیں اور پھر ایسی پالیسیوں کو پروان چڑھاتی ہیں جن کا عوامی مفادات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے' اس کا بھی پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے' مصر کی اسٹرٹیجک پوزیشن اور اس کے علاقائی مفادات کے تقاضے پاکستان سے یکسر مختلف ہیں۔مصر کے لیے شمالی افریقا کے ممالک اہم ہیں یا اس کے ہمسایوں میں واقع عرب ممالک۔ان ممالک میں ہونے والی تبدیلیاں مصر پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی تبدیلیوں کے مصر پر اثرات مرتب ہوتے ہیں نہ وہاں حکومت کی تبدیلی سے ہمیں کوئی نقصان یا فائدہ ہوتا ہے۔ محمد مرسی اچھے ہیں یا برے 'یہ مصر کے عوام یا اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ ہے یا ان قوتوں کا سر درد ہے جو اس تنازعہ میں فریق ہیں 'ہمارا کردار بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ جیسا ہے۔ محمد مرسی کے خلاف تحریر اسکوائر میں جمع ہونے والے بھی مصر کے لوگ تھے اوراب جو لوگ مظاہرے کر رہے ہیں' وہ بھی وہاں کے رہنے والے ہیں۔ البرادی ہوں یا عدلے منصور یا جنرل فتح' وہ لاہور کے کسی محلے کے غنڈے یا بدمعاش نہیں ہیں کہ ہم ان پر تبرا کرتے پھریںیا ان کی حب الوطنی یا عقیدے پر شک و شبہ کا اظہار کریں۔اسی طرح محمد مرسی اور ان کے ساتھی ہماری کسی یونیورسٹی یا مدرسے کے فارغ التحصیل نہیں کہ ان کے لیے رطب السان ہوا جائے۔
دنیا کے ہر ملک میں سیاسی تقسیم موجود ہے' امریکا' برطانیہ' بھارت غرض ہر جگہ سیاسی پارٹیاں اور گروہ نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوتے ہیںکوئی خود کو قدامت پرست کہلاتا ہے اور کوئی ماڈریٹ یا اعتدال پسند لیکن جمہوری معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا کہ 52 فیصد ووٹ لے کربرسر اقتدارآنے والی پارٹی اپنے اختیارات ایسے استعمال کرے جیسے اسے ملک کے سو فیصد عوام نے مینڈیٹ دیا ہے' جمہوری نظام میں اکثریت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عوام نے اسے امور مملکت چلانے کا مینڈیٹ دیا ہے' اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ 48 فیصد اپوزیشن کے نظریات اور فکر کو باطل قرار دے کر اسے ختم کرنے کا کام شروع کر دے' مصر میں ایسا ہی ہوا' صدر مرسی جو اقدامات اٹھا ہے تھے' ان کا مقصد ملک کی 48 فیصد اپوزیشن کو کچلنا اور ان کی آواز کو خاموش کرناتھا اور اس کے لیے مذہب کو ڈھال بنایا گیا تھا' ظاہر ہے کہ چیونٹی کو بھی ماریں تو وہ اپنی بساط کے مطابق کاٹتی ہے' مصر میں تو پھر طاقتور قوتیں تھی لہذا انھوں نے مرسی حکومت کا خاتمہ کرنے کے لیے وہ سب کچھ کیا جس کی ضرورت تھی۔
اب مصر کی 51 فیصد قوت میدان میں ہے'اس تناسب کو مدنظر رکھیں تو کوئی گروپ بھی ایک دوسرے کو مکمل طور پر کچل نہیں سکتا۔ یہ قانون قدرت ہے کہ اگر دو قوتیں ایک دوسرے کے اختیارات کو تسلیم نہ کریں تو پھران میں تصادم ہوتا ہے' مصر میں ایسا ہی ہونے جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے کئی مسلم ممالک میں ایسی ہی صورتحال ہے۔ شام' یمن' صومالیہ میں یہی لڑائی جاری ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم ایسے نظریات و فکر کے اسیر ہو گئے ہیں' جن کا حقائق سے تعلق نہیں ہوتا' میں اسے دائیں بازو کی رومانیت کہتا ہوں' دائیں بازو کے دانشور خیالوں میںجو حکومتی ماڈل تشکیل دیتے ہیں اسے عملی شکل دینا ممکن نہیں۔ بائیں بازو کے دانشور بھی سوشلسٹ رومانویت کا شکار تھے' وہ مساوات کا مطلب یہ لیتے تھے کہ مالی اعتبار سے تمام انسان ایک حیثیت کے حامل ہو جائیں'افسوس حقائق کی دنیا میں ایسا نہیں ہو سکا۔
سوویت یونین تحلیل ہو گیا تب حقیقت سامنے آئی اور ان کے نظریات المیہ رومانویت میں تبدیل ہو گئے ۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہے جس میں زندگی کی عملی حقیقت بیان کی گئی ہے ۔قارئین آپ کی خدمت میں عرض ہے'تو اپنی نبیڑ' تینوں پرائی نال کی کم۔ (تم اپنے معاملات کو سنبھالو' دوسروں کے معاملے سے تمہارا کیا تعلق) پاکستان میں دائیں بازو والوں نے ہمیشہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑائی ہے اور اپنے پیروکاروں کو بھی یہی سب پڑھایا۔ افغانستان والے پاکستان کو برا بھلا کہتے ہیں' پاکستان کو اپنی تباہی کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ صدر کرزئی پاکستان کے خلاف کسی ممکنہ جنگ میں اپنے اکلوتے صاحبزادے کو بھیجنے کی بات کرتے ہیں اور ہم یہاں گلے پھاڑ پھاڑکر پہاڑ باقی' کوہسار باقی'افغان باقی کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ کراچی' لاہور' اسلام آباد میں بیٹھے دانشور اپنے ہم وطنوں کو بزدل' نان مارشل جب کہ وسط ایشیائی اقوام کو مارشل' بہادر اور ناقابل شکست قرار دیتے ہیں۔ دنیا کے دیگر ملکوں اور قوموں میں بھی دایاں بازو ہو گا لیکن ہم جیسے شاید ہی دنیا کے کسی خطے میں ہوں گے۔