جناب وزیراعظم نے نوٹس لیا

بات ہم یہاں سے شروع کریں گے کہ ہمارے وزیراعظم نے کرپشن کا نوٹس لے لیا ہے اور فوراً بعض اداروں کو نوٹس بھیج بھی دیا...


Saad Ulllah Jaan Baraq July 09, 2013
[email protected]

بات ہم یہاں سے شروع کریں گے کہ ہمارے وزیراعظم نے کرپشن کا نوٹس لے لیا ہے اور فوراً بعض اداروں کو نوٹس بھیج بھی دیا ہے کہ اداروں سے فوراً کرپٹ اہل کاروں کا صفایا کر دیا جائے، اس نوٹس در نوٹس میں جو نوٹس لینے کی بات ہے، وہ یہ ہے کہ فی الحال یہ نزلہ عضو ضعیف یعنی کنٹریکٹ ملازمین پر گرا ہے یعنی کنٹریکٹ پر کام کرنے والے افسران کو فوراً فارغ خطی دے دی جائے، یہ وضاحت اس نوٹس میں واضح نہیں ہے کہ جو غیر کنٹریکٹ یعنی پکے ملازم ہیں۔

کیا وہ کرپٹ نہیں ہیں یا ان کو نکالنا ضروری نہیں ہے اور یہ بھی واضح نہیں ہوا کہ ان کنٹریکٹ ملازمین کی جگہ دوسرے ملازمین آئیں گے یا نہیں اور اگر آئیں گے تو ۔۔ زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا ۔۔ اور بھی ہزار باتیں ہیں جن میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگلی حکومت کے کنٹریکٹ ملازمین ہمیشہ کرپٹ ہی کیوں ہوتے ہیں اور ان کی جگہ نئی حکومت جو بھرتیاں کرتی ہے وہ سارے کے سارے اتنے ایمان دار کیوں ہوتے ہیں، خیر کرپشن اور ملازمین اور ان کے اندر باہر کرنے کا سلسلہ تو چلتا رہے گا یہاں ہم صرف ''نوٹس'' کا نوٹس لینا چاہتے ہیں، آپ کو لفظ ''نوٹس'' سے کچھ یاد آتا ہے اور جب بھی یاد آتا ہے تو دل میں اک ہوک سی اٹھتی ہے،

ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے

جو ہر اک بات پر کہتا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

جس غالب کی ہم بات کرنا چاہتے ہیں وہ مرا تو نہیں ہے لیکن مرا ہوا ہی سمجھ لیجیے اور مرا ہوا بھی ایسا جو سوا لاکھ کا بالکل بھی نہیں ہوتا کیوں کہ یہ ہاتھی نہیں اونٹ ہے جس کی کوئی کل بھی سیدھی نہیں تھی اور جس کا کبھی کسی کو پتہ نہیں لگتا کہ کس کروٹ بیٹھے گا اور جس نے عرب کے خیمے میں صرف گردن گھسانے کی اجازت پائی تھی لیکن تھوڑی دیر بعد عرب خیمے سے باہر اور یہ اندر تھا، اب کب تک معموں میں بات کی جائے، یہ ذکر خیر جنرل مشرف کا ہے جس کے گھٹنے مسلم لیگ والے یوں چھوتے تھے جیسے پوپ کے گھٹنے کیتھولک عیسائی چھوتے تھے۔جنرل موصوف کے گھٹنوں اور وردی کے علاوہ ''نوٹس'' بھی بڑے مشہور تھے، وہ بات بات پر نوٹس لیتے تھے اور اتنے زیادہ نوٹس لیتے تھے کہ اگر چند سال اور رہ پاتے تو ''بابائے نوٹس'' کا خطاب پاتے، ان دنوں اخباروں میں اکثر خبریں آتیں کہ صدر نے مہنگائی کے خلاف نوٹس لے لیا، صدر نے چینی کی قلت کا نوٹس لے لیا، صدر نے زلزلہ زدگان کی امداد میں گھپلوں کا نوٹس لے لیا۔

صدر نے چوہوں کا نوٹس لے لیا جو اناج کو نقصان پہنچاتے ہیں، صدر نے بلیوں کا نوٹس لے لیا کہ وہ چوہے کیوں نہیں پکڑتی، معلوم نہیں وہ یہ نوٹس لینے کے بعد کہاں رہتے تھے اگر اس جگہ کا پتہ چل جائے تو اس میں کم سے کم اٹھارہ کروڑ نوٹس تو موجود ہوں گے، اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ صدر نوٹس لے رہے ہوں اور وہ بھی باوردی صدر اور وزیراعظم نوٹس نہ لے، چنانچہ صدر کے اتباع کو فریضہ جان کر وزیراعظم شوکت عزیز بھی نوٹس پر نوٹس لینے لگے ۔کہتے ہیں، اس نے اتنے زیادہ نوٹس لیے ہیں کہ سوئس بینک بھی حیران رہ گئے اور بول اٹھے کہ نوٹس لینا تو کوئی شوکت عزیز سے سیکھے، تو ممکن ہی نہیں کہ صدر اور وزیراعظم نوٹس لینے میں اتنے بزی ہوں اور باقی کے وزیر نوٹس نہ لیں، چنانچہ سارے کے سارے وزیر نوٹس لینے میں جت گئے اور ایسے نوٹس لیے اور اتنے نوٹس لیے کہ خود بے چارے نوٹسوں کی چیخیں نکل گئیں، آپ تو جانتے ہیں کہ اس زمانے میں ہمارے صوبے پر صالحین کا بابرکت سایہ تھا جو نوٹس لینے میں ویسے بھی بہت زیادہ مشہور تھے چنانچہ ملک بھر میں چاروں طرف نوٹس ہی نوٹس لیے جانے لگے۔

پنس میں گزرے ہیں جو کوچے سے وہ میرے

کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے

اس دور نوٹس میں نوٹس لینے کا فیشن اتنا زوروں پر تھا کہ ایسا کوئی شخص باقی ہی نہیں رہا تھا جو نوٹس لینے کا دھندہ نہیں کرتا ہو، حتیٰ کہ بیویاں بھی شوہروں کا نوٹس اپنے پاپوش مبارک سے لینے لگیں، مہنگائی کا نوٹس تو اتنا زیادہ لیا جاتا رہا کہ بے چاری مہنگائی کی شکل تک ایک نوٹس جیسی ہو گئی تھی۔ آپ سے کیا پردہ اس ملک گیر و ھمہ گیر نوٹس بازی کو دیکھ کر ہمارے خربوزے نے بھی رنگ پکڑا ،کسی اور چیز پر تو ہمارا بس نہیں چلتا تھا چنانچہ دن میں تین بار کھانے اور آٹھ دس بار پانی کا نوٹس لینے لگے، لیکن افسوس کہ جس طرح برا وقت گزر جاتا ہے، اسی طرح اچھا وقت بھی گزر جاتا ہے، جناب جنرل صاحب کا بھی نوٹس لے لیا گیا، بہت دیر میں سہی لیکن نوٹس بہرحال لے لیا گیا بلکہ اب بھی لیا جارہا ہے،

اسی باعث تو قتل ''نوٹساں'' سے منع کرتے تھے

اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر

خیر وہ تو نوٹس لینے والا جانے اور اس کا نوٹس نہ لینے والے جانیں، ہمیں نواز شریف کے کرپشن کا نوٹس لینے پر یاد آیا کہ دنیا میں کتنے بڑے بڑے نوٹس لینے والے آئے اور نوٹس لیے بغیر بے نوٹس ہو کر رہ گئے،

غرۃ اوج بنائے عالم امکاں نہ ہو

اس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن

اب کے جناب وزیراعظم میاں نواز شریف نے کرپشن کا جو نوٹس لیا ہے، اس کے حشر کے بارے میں تو نہیں کہا جا سکتا لیکن بہرحال انھوں نے نوٹس لینا تھا وہ لے لیا اور یہی بہت ہے جہاں تک ان چیزوں کا تعلق ہے جن کا نوٹس لیا جاتا ہے تو بعض چیزیں بڑی ڈھیٹ ہوتی ہیں ،کسی نوٹس سے ان کو ذرا بھر بھی شرم نہیں آتی، اسی بات پر بزرگوں نے کہا ہے کہ اگر کوئی بے شرم ہو جائے تو اس کا علاج نہ حکیم لقمان کے پاس ہے نہ سقراط بقراط کے پاس بلکہ ڈاکٹر کنڈولیزچاؤلہ اور جوہی چاؤلہ کے پاس بھی اس کا علاج نہیں ہوتا،

شرم اک دائے ناز ہے اپنے سے ہی سہی

ہیں کتنے بے حجاب جو یاں ہیں حجاب میں

صرف اس ایک مہنگائی کو لے لیجیے، اب تک پاکستان میں ایسی حکومت نہیں آئی ہے جس نے اس کا نوٹس نہ لیا ہو لیکن مجال ہے جو یہ ذرا بھی شرم کا دامن پکڑے بدستور بے شرم ہو کر بازاروں میں ناچ رہی ہے اور جب چھوٹی بہن کا یہ حال ہے تو کرپشن تو اس کی بڑی بہن ہے، اس کا نوٹسوں سے کیا بگڑ جائے گا۔ نوٹس آتے جاتے ہیں بلکہ نوٹس لینے والے بھی آتے ہیں اور جاتے ہیں لیکن یہ کم بخت ویسی ہی آنکھ مٹکا اس کے ساتھ کرتی رہتی ہے۔

نازک خیالیاں مری توڑیں عدو کا دل

میں وہ بلا ہوں شیشے سے ''نوٹس'' توڑ دوں

ویسے اس نوٹس سے ایک فائدہ تو ہو جائے گا، پچھلی حکومتوں کے لائے ہوئے کنٹریکٹ ملازمین کے پوٹے اب تک امید ہے بھر چکے ہوں گے، کم از کم اتنا دانا وہ چگ چکے ہوں گے کہ اگلی باری تک گزارہ کر سکیں، اب ان کی جگہ نئے پرندے آجائیں گے جو بے چارے تیرہ برس کا بن باس کاٹ چکے ہیں اور جن کے پوٹے بالکل ہی خالی ہو چکے ہیں، رہا کھیت تو کون پوچھتا ہے کہ کھیت پر کیا گزرتی ہے جو بھی گزرے گی گزریں گے گزارنے والے ۔۔۔ اور نوٹس لینے والے بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں