’’تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘

الیکشن کے دنوں میں جب عوام کے درد میں ڈوبی سیاسی جماعتوں کے ’’منشور‘‘ کو ہم نے سیاسی فتور کا نام دیا تو ہمارے مختلف...

الیکشن کے دنوں میں جب عوام کے درد میں ڈوبی سیاسی جماعتوں کے ''منشور'' کو ہم نے سیاسی فتور کا نام دیا تو ہمارے مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے دوستوں نے اس پر خوب ناک بھوں چڑھائی بلکہ کچھ دوستوں نے تو باقاعدہ ''آستینیں'' چڑھانے میں بھی دیر نہیں کی۔ لیکن اب آپ منصف بن کر فیصلہ کیجیے کہ ہم نے سیاسی جما عتوں کے ''منشور'' کو سیاسی فتور کا نام دے کر ٹھیک کیا یا غلط؟ الیکشن کے دنوں میں تمام سیاسی جما عتوں نے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ''منشور'' دیے لیکن یہاں ہم ان سیاسی جماعتوں کا ذکر کریں گے جو اب اقتدار کی ''چوسنی'' منہ میں لیے بیٹھی ہیں۔ الیکشن میں جن تین سیاسی جماعتوں کا شور و غوغا تھا وہ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی صورت میں اقتدار کا حصہ ہیں۔

ن لیگ نے الیکشن کے دنوں میں عوام سے جو وعدے کیے تھے ان میں مہنگائی پر کنٹرول اور مہنگائی کو کم کرنے کا وعدہ بھی شامل تھا، بے روزگاروں کو روزگار کی فراہمی ن لیگ کے دوستوں کا دوسرا اہم ترین نعرہ تھا، تنخواہوں میں اضافے کی نوید اسی جماعت کا ایک اور سہا نا انتخابی خواب تھا، اسی منشور میں آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرنے اور ڈرون حملوں پر امریکا سے ''آنکھ لڑا ئی'' کی نوید بھی سنا ئی گئی تھی لیکن؟ کیا مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے ن لیگ نے کسی سنجیدہ قدم کے اٹھانے کی ابتداء کی؟ کیا بے روزگاروں کے لیے کاغذی حد تک ہی سہی کو ئی پالیسی آج تک پیش کی گئی؟ کیا سرکاری، نیم سرکا ری اور نجی اداروں کے ملا زمین کے بارے میں انسانی اور عوامی توقعات کے مطابق کو ئی قدم اٹھایا گیا؟ جواب نہیں میں ملے گا۔

تحریک انصاف اقتدار کی غلام گردشوں میں پہنچنے والی دوسری سیاسی جماعت ہے الیکشن کے دنوں کی تحریک انصاف اور اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کے سیاسی طرز عمل کا موازنہ کیجیے۔ قومی مسائل اور امور پر بے لاگ، سخت اور دو ٹوک پا لیسی اختیار کر نے والی تحریک انصاف کیوں بیک فٹ پر کھیل رہی ہے؟ الیکشن میں تحریک انصاف اور اس کے رہنمائوں کو تمام عوامی مسائل نظر آ رہے تھے۔ مگر اب وہ عوامی مسائل تحریک انصاف کو کیوں نظر نہیں آ رہے۔ مانا کہ ابھی انھیں اقتدار کی پالکی میں گئے چند دن ہو ئے ہیں۔ مگر حضور! کسی بھی حکومت کی ابتدائی ''اٹھان'' سے ہی اس کے مستقبل کے بارے میں سیاسی اور صحافتی پنڈت کو ئی رائے قائم کر تے ہیں۔


کے پی کے اور پنجاب کی حکومتوں میں کیا فرق ہے؟ کچھ بھی نہیں، دو نوں صوبوں میں میڈ یا کے بل پر ''یوں کریں گے، یوں نہ کریں گے'' کی گردان جاری ہے۔ جہاں مرکز میں بھوک و افلاس اور مہنگائی کے ہاتھوں سفید پوش اور متوسط طبقہ نڈ ھال ہے بالکل اسی طر ح صوبوں میں بھی یہی حالات ہیں پی پی نے سندھ میں حکو مت بنائی اور خوب بنائی، دیکھ لیجیے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے؟ معمار قوم تنخواہیں نہ ملنے پر خود سوزیاں کر رہے ہیں، کراچی کے کچھ علاقے میدان جنگ بن چکے ہیں اور جہاں زیادہ خرابی نہیں وہاں عام شہری گھروں سے نکلتے ہوئے ڈر رہے ہیں۔ سندھ میں حکومت کہا ں ہے؟ کیا اب عوام کو اپنی حکومت ڈھونڈنے کے لیے اخبارات میں اشتہار دینا پڑ ے گا؟

فرمائیے! نئی حکومتوں اور نئی سیاسی جماعتوں کی آمد کے بعد کیا بدلا؟ چہرے بدلے، سیاسی جماعتیں بدلیں بس اور بس۔ جہاں تک عوامی خستہ حالی کی بات ہے وہ وہی کی وہی ہے جہاں پہلے تھی۔ کل بھی ڈرون حملے ہو رہے تھے آج بھی ڈرون حملے ہو رہے ہیں، کل بھی ہر دکان دار قانون سے مادر پدر آزاد تھا اور آج بھی وہی دکان دار بڑے دھڑلے سے اپنی مرضی کے نرخوں پر عام شہریوں کو لو ٹ رہا ہے، گزشتہ عہد حکومت میں بھی چپڑاسی، کلرک اور سفید پو ش طبقے کی اولاد ہاتھو ں میں ڈگریاں لیے روز گار کے لیے دربدر تھیں، آج بھی بے روزگار نو جوان مایوسی کی تصویر بنے ہر قدم پر آپ کو نظر آئیں گے مہنگائی کے ہاتھوں سفید پوش، مزدور اور ملا زم پیشہ طبقہ کل بھی سر پکڑے ہو ئے تھا اور آج بھی اسی سفید پو ش طبقے کو جان کے لا لے پڑ ے ہو ئے ہیں۔ کل بھی اعلیٰ عدلیہ عام آدمی کو اس کا حق دلوانے کے لیے دہائی دے رہی تھی اور دوسری جانب اس کے فیصلوں کی بے توقیری کے قصے زبان زد عام تھے اور آج بھی اعلیٰ عدلیہ عوامی حقوق کی پا مالی پر دہا ئی دے رہی ہے مگر سننے والا کو ئی نہیں۔

اخبارات میں بھی چیف جسٹس کے ریمارکس شہ سرخیوں کے ساتھ شا یع ہو ئے ہیں کہ ''کر پشن کی حد ہے نیچے سے اوپر تک ہر طرف چوری ہے '' اگر کسی مہذب ملک میں اعلی عدلیہ کے چیف جسٹس یہ ریمارکس دیتے تو اس ملک میں اب تک ایک بھو نچال آ چکا ہوتا وہاں حکومت اپنا قبلہ درست کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیتی۔ لیکن! یہاں کو ئی سننے والا نہیں، جب اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کو بر سر اقتدار گروہ ''سپر سیڈ'' کر ے پھر اس معاشرے میں عوام کی دہا ئی کس نے سننی ہے؟ عوام کے اس سوچ میں کسی حد تک حقیقت ہے کہ یہ ملک صرف افسر شاہی اور ''قلیل فیصد'' کے لیے ہی ہے۔ باقی طبقات اپنی خیر منائیں۔ لیکن سوال پھر وہی کے ہمارے سیاست دان اور سیاسی جماعتیں جو کام نہیں کر سکتیں پھر ان کا وعدہ عوام سے کیوں کر تی ہیں؟ اور دوسرا سوال یہ کے عوام کب تک سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں بے وقوف بنتے رہیں گے؟ ان سوالوں کے جواب حکمران اور عوام ہی بہتر طور پر د ے سکتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ سیاسی جماعتیں اپنی منشور پیش کر تے وقت وہ خواب اپنے عوام کو دکھا ئیں جنہیں اقتدار میں آ کر وہ حقیقت کا روپ دینے پر قادر ہوں۔
Load Next Story