افغان تنازع کا سیاسی حل

افغانستان میں قیام امن سیاسی مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے کیونکہ فوجی حل تو بری طرح ناکام ہوا ہے


Editorial December 28, 2018
افغانستان میں قیام امن سیاسی مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے کیونکہ فوجی حل تو بری طرح ناکام ہوا ہے (فوٹو: فائل)

پاکستان، افغانستان میں امن کے لیے پرعزم ہے کیونکہ افغانستان میں امن، پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہے۔

ان خیالات کا اظہار پاک فوج کے سپہ سالار قمر جاوید باجوہ نے افغانستان میں اتحادی فوج کے سربراہ جنرل آسٹن اسکاٹ ملر سے ہونے والی ملاقات کے دوران کیا۔ ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور، خاص طور پر علاقائی سلامتی اور افغانستان میں جاری مصالحتی عمل پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا، فریقین نے اس موقعے پر افغان تنازع کے سیاسی حل کے حوالے سے مشترکہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کی سربراہی میں مفاہمتی عمل سے ہی امن آسکتا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے دہشتگردی کے خلاف کوششوں اور موثر سرحدی انتظام کی ضرورت پر زور دیا ۔

یہ درست ہے کہ سانحہ نائن الیون کے بعد افغانستان عالمی طاقتوں کا تختہ مشق بنا ہوا ہے، پاکستان بھی اس سے براہ راست متاثر ہوا ہے۔ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کے واقعات اور خودکش بم دھماکوں میں ملوث ملزمان کی جائے پناہ افغانستان رہا ہے۔ امریکا نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا عندیہ دیا ہے۔ جس کے بعد اب خطے میں ایک نیا منظرنامہ ابھر رہا ہے۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اور افغانستان پڑوسی برادر اسلامی ملک ہونے کے ناتے تاریخی، ثقافتی، لسانی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ یہ رشتے اٹوٹ ہیں، دونوں کا انحصار ایک دوسرے پر ہے اور دونوں الگ الگ رہ بھی نہیں سکتے۔ پاکستان کا موقف روز اول یہی رہا ہے کہ افغان مسئلے کا سیاسی حل نکالا جائے۔اس موقف کی حمایت چین بھی کرتا ہے ۔

اس ضمن میں چین نے کہا ہے کہ افغان تنازع کا افغان قیادت میں ہونے والے امن مذاکرات سے ہی حل ممکن ہے۔ پاکستان اور چین اسٹرٹیجک شراکت داری کے ذریعے افغان تنازع کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں اپنا کردارادا کریں گے۔ وزارت خارجہ کی ترجمان نے پریس بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہ چین میں دونوں ممالک نے اتفاق کیا تھا کہ ملٹری آپریشنز افغان تنازعہ کو حل کرنے میں مددگار نہیں ہو سکتے۔صرف سیاسی مصالحت اور قابل عمل طریقے ہی سے کوئی حل نکال سکتے ہیں۔ پاکستان اور چین کے مابین سدا بہار اسٹرٹیجک تعاون کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے حوالے سے سوال پرکہا کہ امریکا اپنے تمام اقدامات کے حوالے سے اپنے فیصلے خود کرتا ہے۔

افغانستان کے حوالے سے چین کا نقطہ نظر ہمیشہ مستقل رہا ہے۔ ہمیشہ سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ملٹری آپریشنز افغان تنازعے کو حل کرنے میں مددگار نہیں ہوسکتے۔صرف جامع اور سیاسی مصالحت پر مبنی امن عمل ہی افغان قیادت میں عملی حل نکال سکتا ہے۔ یہ تو بات ہوئی چین کے افغانستان کے بارے میں واضح اور دوٹوک موقف کی۔ مسئلہ افغانستان کے حل کے حوالے سے ایران بھی ایک فریق ہے ۔ ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق افغانستان کے ہمسایہ ملک ایران میں سلامتی کے نگران اعلیٰ ترین ریاستی ادارے کے حکام نے افغان طالبان کے نمایندوں سے مکالمے کی تصدیق کردی ہے۔

ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری علی شام خانی نے تسنیم کو بتایا، ''افغان حکومت کو اطلاع کردی گئی ہے کہ ایران نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں اور یہ عمل آیندہ بھی جاری رہے گا''ایرانی نیوز ایجنسی تسنیم کو اسلامی جمہوریہ ایران کے بہت بااثر اور پاسداران انقلاب کہلانے والے دستوں کے انتہائی قریب سمجھا جاتا ہے۔ اس بارے میں اپنے مراسلے میں تسنیم نے یہ نہیں بتایا کہ ایرانی حکام اور افغان طالبان کے نمایندوں کے مابین مذاکرات کہاں ہوئے۔ایرانی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری شام خانی نے کابل میں افغان حکام کے ساتھ اپنی ملاقات میں انھیں بتایا، ''اسلامی جمہوریہ (ایران) ہمیشہ ہی سے خطے میں استحکام کے لیے اہم ترین ستونوں میں سے ایک رہی ہے اور دو ہمسایہ ممالک کے طور پر ایران اور افغانستان کے مابین تعاون یقینی طور پر ہندوکش کی اس ریاست کو درپیش سلامتی کے موجودہ مسائل کے حل میں معاون ثابت ہوگا۔''

پاکستان ،چین اور ایران کا یکساں موقف جنرل قمرجاوید باجوہ کی خواہش امن کی تائید وحمایت کرتا نظر آتا ہے ۔ دوسری جانب ترجمان دفترخارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں بھارتی سفارتی عملے کو ہراساں کرنے کے الزامات بے بنیاد ہیں کیونکہ پاکستان ویانا کنونشن کا احترام کرتا ہے، پاکستان میں بھارتی سفارت کار پوری آزادی سے کام کر رہے ہیں۔ ترجمان نے بنگلہ دیش میں انتخابات میں مداخلت کے الزامات بھی مسترد کردیے۔ ڈاکٹر محمد فیصل نے بتایا کہ 341 پاکستانی قیدی بھارتی جیلوں میں قید ہیں، سزا پوری کرنے والے 45 قیدی ہیں جن میں 12 عام شہری اور 33 ماہی گیر ہیں ، جن کی واپسی کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں، پاکستانی ہائی کمیشن نے بھارت میں قانونی ٹیم کی مدد حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت ہرطرح کا دباؤ ڈال کر پاکستان کا امیج دنیا بھر میں خراب کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے اور وہ سازشیں کرنے سے باز بھی نہیں آتا ۔ افغانستان میں بھی اس وقت بھارتی اثرورسوخ کافی نظر آرہا ہے ، بھارتی پروپیگنڈے کو درست بتانے والے بعض افغانستان کے رہنما پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی سے بھی باز نہیں آتے ہیں ، حالانکہ لگ بھگ چار دہائیوں سے افغان مہاجرین کو پناہ دینے اور ہر طرح کی مالی واخلاقی امداد دینے کا صلہ ہرگز الزام تراشی نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستانی فوج ایک پروفیشنل فوج ہے جس کا لوہا اقوام عالم مانتی ہے ۔گزشتہ روز جی ایچ کیو میں پاکستان میں روس کے سفیر ایلیکزے یوریوش دیدوف نے بھی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی۔ اس موقعے پر علاقائی سلامتی باہمی تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ملاقات کے دوران روسی سفیر نے اپنی حکومت کی جانب سے پاکستان کے دس فوجی افسروں اور دو سپاہیوں کے لیے آرڈر آف فرینڈشپ ، تمغہ جرأت اور میڈل فار دی کامن ویلتھ ان ریسکیو آرمی چیف کے حوالے کیے۔ روسی سفیر نے آرمی چیف کو دولت مشترکہ میڈل اور روسی کوہ پیمائی فیڈریشن کا تعریفی خط بھی پہنچایا ۔ یہ سب اعزازات صلہ تھے جولائی 2018 میں روسی کوہ پیما کی مدد کرنے کا۔ پاک آرمی ایوی ایشن کے جوانوں نے اپنی جانوں پرکھیل پر 20 ہزار 650 فٹ اونچی لاٹوک ون چوٹی پر انتہائی مشکل موسمی حالات میں امدادی آپریشن سرانجام دیکر روسی کوہ پیما الیگزینڈرگوکوف کو بچایا تھا اور یہ ریسکیو آپریشن 6 دن جاری رہا تھا۔ سفارتی سطح پر روس کا اعتراف پاکستان اور روس کے تعلقات کو مزید بہتر بنانے میں معاون اور مددگار ثابت ہوگا اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آئینگے کیونکہ نئے عالمی منظر نامے میں روس بھی ایک سپرپاورکی حیثیت اختیارکرچکا ہے ۔

افغانستان میں قیام امن سیاسی مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے کیونکہ فوجی حل تو بری طرح ناکام ہوا ہے، افغانوں کے خون میں شامل ہے کہ وہ بیرونی حملہ آورکو قبول نہیں کرتے،اس بات کی گواہی تاریخ میں درج ہے۔ یہ بات اب پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے کہ پاکستان،ایران اور چین مسئلہ افغانستان کے حوالے سے ایک پیج پر ہیںجب کہ امریکا کو بھی اسی پیج پرآنا پڑے گا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں