بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
اس میں شک نہیں کہ جب تک ’’ہتھیار بردار‘‘ لوگ اشرافیہ کے قبضے میں ہیں عام انسان مجبور محض بنا ہوا ہے
حالیہ انتخابات کے بعد اشرافیہ ایک انارکی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کر رہی تھی، اس مسئلے پرکئی بار عوام کو ماضی کی طرح اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی۔
اشرافیہ محو حیرت ہے کہ عوام نے انھیں ٹھکرا دیا، ہماری خود غرض اور عوام دشمن سیاسی اشرافیہ جب بھی کسی کرائسس میں پھنس جاتی ہے تو ملک کے سیدھے سادے غریب عوام کو مس گائیڈ کرکے سڑکوں پر لانے کی کوشش کرتی ہے، لیکن اس بار اشرافیہ عوام کو استعمال کرنے کی کوششوں میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔
انتخابات کے فوری بعد پنجاب میں عوام کو مشتعل کرکے استعمال کرنے کی بھرپورکوشش کی لیکن بری طرح ناکام ہوگئی۔ اشرافیہ پاکستان کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھتی ہے اور اس ملک کے عوام کو اپنی رعایا سمجھتی ہے۔ اس حوالے سے 2018 کے الیکشن کے بعد پنجاب کے عوام کو ورغلا کر سڑکوں پر لانے کی بھرپور کوشش کی لیکن اس بار وہ اپنی کوششوں میں ناکام ہوگئی اس ناکامی سے وہ مایوس بھی ہوئی ہے اور سخت مشتعل بھی۔
سیاسی اشرافیہ پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھتی ہے اور کسی کو اقتدار کی طرف بڑھتا دیکھتی ہے تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ وہ ماضی کی طرح زبان اور قومیت کے نام پر عوام کو استعمال کرنے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن عوام اس کی اندھا دھند لوٹ مار سے ناراض ہی نہیں مشتعل بھی ہیں ۔ عوام کے رویے میں آنے والی اس تبدیلی نے اسے مایوس بھی کیا ہے اور مشتعل بھی کیا ہے اسے اقتدار چھن جانے کا دکھ تو بہت ہے لیکن اصل دکھ اور غصہ یہ ہے کہ ان کی وراثت پر ایک مڈل کلاسر قبضہ کرنے جا رہا ہے۔
اس مڈل کلاسر کو طرح طرح سے آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کرتی رہی لیکن ایک تو یہ مڈل کلاسر ضدی ہے دوسرے عوام اب ان کی لوٹ مار سے آگاہ ہو رہے ہیں۔ اشرافیہ نے ماضی کی طرح آنکھ بند کرکے اقتدار کی مسند پر پاؤں رکھنے کی کوشش کی لیکن اس کی لوٹ مار کی داستانیں اس قدر عام ہوگئیں کہ ہر گھر میں اس کی آواز بازگشت سنائی دے رہی ہے وہ عوام جو اس کے آگے سر جھکا کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے تھے اب اسے آنکھیں دکھا رہے ہیں۔
عوام کو آسانی سے بے وقوف بنانے والی عوام دشمن اشرافیہ حیران ہے کہ جن گھروں سے اسے غیر مشروط ووٹ ملتے تھے ان گھروں سے انکار ہورہا ہے اسے اس کی بدقسمتی ہی کہیں کہ اس بار اس کی اربوں کی کرپشن کے اتنے اسکینڈلز عوام میں آگئے ہیں کہ سوائے ان نفسیاتی غلاموں کے جو ہمیشہ اشرافیہ کے عادی غلام کی طرح اس کے سامنے سر بسجود رہتی ہے اب نفرت سے اس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ مایوسی کا عالم یہ ہے کہ جو اس کی راہ میں آرہا ہے وہ اس سے بھڑ رہی ہے ہمیشہ اسے پراسرار طاقتوں کی مدد ملتی تھی اس بار مدد کی بات تو دور کی اس کے خلاف اربوں کی کرپشن کے اسکینڈلز مارکیٹ میں آرہے ہیں ۔اشرافیہ کے خلاف کرپشن کے کئی کیس عدلیہ میں آگئے ہیں اور لمبی سزاؤں بھاری جرمانوں کا سامنا ہے۔ شیر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھا دھاڑ رہا ہے۔
اس حوالے سے ہم سارا الزام اشرافیہ کو ہی نہیں دیں گے بلکہ اس نظام کو بھی ذمے دار ٹھہرائیں گے جو نیک سے نیک انسانوں کو لالچ کی دلدل میں اس طرح اتارتا ہے کہ لالچیوں کا صرف لالچ کے کیچڑ میں لتھڑا ہوا منہ نظر آتا ہے جسم کا باقی حصہ لالچ کے کیچڑ میں لتھڑا ہوا ہوتا ہے۔ ماضی میں بھی یہ اشرافیہ عوام کو بے وقوف بناکر اقتدار پر قبضہ کرتی رہی لیکن اس بار میڈیا نے عوام کو اس قدر آگہی دی کہ اشرافیہ کی کوئی چال عوام کو بے وقوف نہیں بناسکتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی ترغیب انسان کو اندھا کر دیتی ہے اور انسان دولت کے لالچ میں اندھا ہوکر یہ بھی بھول جاتا ہے کہ وہ غریبوں کا حق اربوں روپے کیوں چھیننا چاہتا ہے اس نظام کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ انسان اس حقیقت کو بھی بھول جاتا ہے کہ وہ عمر طبعی کو پہنچ کر فنا ہوجاتا ہے اور وہ دولت کے ڈھیر جن پر وہ قابض ہے یہیں رہ جاتے ہیں۔
یہ حقیقت کس قدر عبرت ناک ہے کہ وہ اشرافیہ جو اپنے محل سے باہر نکلتی تو جبری احترام میں سڑکیں بند ہوجاتیں آج وہ احترام نفرت میں بدل گیا ہے اور لوگ ان مسترد شدہ شاہوں کو دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں۔ بلاشبہ دولت انسان کو ایک شاہانہ زندگی گزارنے کے مواقعے فراہم کرتی ہے لیکن جس دولت میں عوام کا خون شامل ہو وہ دولت نہیں عوام کے جسموں سے نکلی ہوئی وہ غلاظت ہے جس سے خوددار انسان نفرت کرتے ہیں اور جسم کو بچا کر نکل جاتے ہیں ایسی دولت کے ڈھیر جس کو باشعور انسان ہاتھ لگاتے ہوئے ابکائیاں لیتا ہے اسے اشرافیہ سینے سے لگا کر رکھتی ہے۔
آج انسان دولت کے ان مالکوں کوحیرت سے دیکھ رہا ہے اور اس کے محافظوں کے ہاتھوں میں خطرناک ہتھیار دیکھ کر دور سے گزر جاتا ہے لیکن کل یہی بھی ہوسکتا ہے کہ غریب عوام جو ایک انتہائی دردناک زندگی گزار رہے ہیں کل جب وہ اس حقیقت سے واقف ہوجائیں گے کہ جس دولت کی آج اشرافیہ مالک بنی بیٹھی ہے وہ ان کی محنت کی کمائی ہے تو پھر وہ اپنی محنت کی کمائی کو غاصبوں سے چھڑانے کے لیے سینہ تان کر کھڑے ہوجائیں گے جس کی طرف دیکھتے ہوئے آج وہ ڈرتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ جب تک ''ہتھیار بردار'' لوگ اشرافیہ کے قبضے میں ہیں عام انسان مجبور محض بنا ہوا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب غریب آدمی اپنے حق اپنی دولت کی ملکیت سے واقف ہو جاتا ہے تو دولت کی حفاظت کرنے والے دولت چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں ۔ انسانی تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ جب نہتے عوام کو احساس ہوا کہ ان کا حق صدیوں سے چھینا جا رہا ہے تو انھوں نے ہر رکاوٹ کو ٹھوکروں سے اڑا کر اپنا حق حاصل کرلیا۔ یہ ماضی میں ہوتا رہا ہے اور ظلم اسی طرح ہوتا رہا تو عوام اپنا حق حاصل کرنے کے لیے ہر رکاوٹ کو ٹھوکروں سے ہٹا کر اپنا حق حاصل کرلیں گے۔
اشرافیہ محو حیرت ہے کہ عوام نے انھیں ٹھکرا دیا، ہماری خود غرض اور عوام دشمن سیاسی اشرافیہ جب بھی کسی کرائسس میں پھنس جاتی ہے تو ملک کے سیدھے سادے غریب عوام کو مس گائیڈ کرکے سڑکوں پر لانے کی کوشش کرتی ہے، لیکن اس بار اشرافیہ عوام کو استعمال کرنے کی کوششوں میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔
انتخابات کے فوری بعد پنجاب میں عوام کو مشتعل کرکے استعمال کرنے کی بھرپورکوشش کی لیکن بری طرح ناکام ہوگئی۔ اشرافیہ پاکستان کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھتی ہے اور اس ملک کے عوام کو اپنی رعایا سمجھتی ہے۔ اس حوالے سے 2018 کے الیکشن کے بعد پنجاب کے عوام کو ورغلا کر سڑکوں پر لانے کی بھرپور کوشش کی لیکن اس بار وہ اپنی کوششوں میں ناکام ہوگئی اس ناکامی سے وہ مایوس بھی ہوئی ہے اور سخت مشتعل بھی۔
سیاسی اشرافیہ پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھتی ہے اور کسی کو اقتدار کی طرف بڑھتا دیکھتی ہے تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ وہ ماضی کی طرح زبان اور قومیت کے نام پر عوام کو استعمال کرنے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن عوام اس کی اندھا دھند لوٹ مار سے ناراض ہی نہیں مشتعل بھی ہیں ۔ عوام کے رویے میں آنے والی اس تبدیلی نے اسے مایوس بھی کیا ہے اور مشتعل بھی کیا ہے اسے اقتدار چھن جانے کا دکھ تو بہت ہے لیکن اصل دکھ اور غصہ یہ ہے کہ ان کی وراثت پر ایک مڈل کلاسر قبضہ کرنے جا رہا ہے۔
اس مڈل کلاسر کو طرح طرح سے آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کرتی رہی لیکن ایک تو یہ مڈل کلاسر ضدی ہے دوسرے عوام اب ان کی لوٹ مار سے آگاہ ہو رہے ہیں۔ اشرافیہ نے ماضی کی طرح آنکھ بند کرکے اقتدار کی مسند پر پاؤں رکھنے کی کوشش کی لیکن اس کی لوٹ مار کی داستانیں اس قدر عام ہوگئیں کہ ہر گھر میں اس کی آواز بازگشت سنائی دے رہی ہے وہ عوام جو اس کے آگے سر جھکا کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے تھے اب اسے آنکھیں دکھا رہے ہیں۔
عوام کو آسانی سے بے وقوف بنانے والی عوام دشمن اشرافیہ حیران ہے کہ جن گھروں سے اسے غیر مشروط ووٹ ملتے تھے ان گھروں سے انکار ہورہا ہے اسے اس کی بدقسمتی ہی کہیں کہ اس بار اس کی اربوں کی کرپشن کے اتنے اسکینڈلز عوام میں آگئے ہیں کہ سوائے ان نفسیاتی غلاموں کے جو ہمیشہ اشرافیہ کے عادی غلام کی طرح اس کے سامنے سر بسجود رہتی ہے اب نفرت سے اس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ مایوسی کا عالم یہ ہے کہ جو اس کی راہ میں آرہا ہے وہ اس سے بھڑ رہی ہے ہمیشہ اسے پراسرار طاقتوں کی مدد ملتی تھی اس بار مدد کی بات تو دور کی اس کے خلاف اربوں کی کرپشن کے اسکینڈلز مارکیٹ میں آرہے ہیں ۔اشرافیہ کے خلاف کرپشن کے کئی کیس عدلیہ میں آگئے ہیں اور لمبی سزاؤں بھاری جرمانوں کا سامنا ہے۔ شیر جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھا دھاڑ رہا ہے۔
اس حوالے سے ہم سارا الزام اشرافیہ کو ہی نہیں دیں گے بلکہ اس نظام کو بھی ذمے دار ٹھہرائیں گے جو نیک سے نیک انسانوں کو لالچ کی دلدل میں اس طرح اتارتا ہے کہ لالچیوں کا صرف لالچ کے کیچڑ میں لتھڑا ہوا منہ نظر آتا ہے جسم کا باقی حصہ لالچ کے کیچڑ میں لتھڑا ہوا ہوتا ہے۔ ماضی میں بھی یہ اشرافیہ عوام کو بے وقوف بناکر اقتدار پر قبضہ کرتی رہی لیکن اس بار میڈیا نے عوام کو اس قدر آگہی دی کہ اشرافیہ کی کوئی چال عوام کو بے وقوف نہیں بناسکتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی ترغیب انسان کو اندھا کر دیتی ہے اور انسان دولت کے لالچ میں اندھا ہوکر یہ بھی بھول جاتا ہے کہ وہ غریبوں کا حق اربوں روپے کیوں چھیننا چاہتا ہے اس نظام کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ انسان اس حقیقت کو بھی بھول جاتا ہے کہ وہ عمر طبعی کو پہنچ کر فنا ہوجاتا ہے اور وہ دولت کے ڈھیر جن پر وہ قابض ہے یہیں رہ جاتے ہیں۔
یہ حقیقت کس قدر عبرت ناک ہے کہ وہ اشرافیہ جو اپنے محل سے باہر نکلتی تو جبری احترام میں سڑکیں بند ہوجاتیں آج وہ احترام نفرت میں بدل گیا ہے اور لوگ ان مسترد شدہ شاہوں کو دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں۔ بلاشبہ دولت انسان کو ایک شاہانہ زندگی گزارنے کے مواقعے فراہم کرتی ہے لیکن جس دولت میں عوام کا خون شامل ہو وہ دولت نہیں عوام کے جسموں سے نکلی ہوئی وہ غلاظت ہے جس سے خوددار انسان نفرت کرتے ہیں اور جسم کو بچا کر نکل جاتے ہیں ایسی دولت کے ڈھیر جس کو باشعور انسان ہاتھ لگاتے ہوئے ابکائیاں لیتا ہے اسے اشرافیہ سینے سے لگا کر رکھتی ہے۔
آج انسان دولت کے ان مالکوں کوحیرت سے دیکھ رہا ہے اور اس کے محافظوں کے ہاتھوں میں خطرناک ہتھیار دیکھ کر دور سے گزر جاتا ہے لیکن کل یہی بھی ہوسکتا ہے کہ غریب عوام جو ایک انتہائی دردناک زندگی گزار رہے ہیں کل جب وہ اس حقیقت سے واقف ہوجائیں گے کہ جس دولت کی آج اشرافیہ مالک بنی بیٹھی ہے وہ ان کی محنت کی کمائی ہے تو پھر وہ اپنی محنت کی کمائی کو غاصبوں سے چھڑانے کے لیے سینہ تان کر کھڑے ہوجائیں گے جس کی طرف دیکھتے ہوئے آج وہ ڈرتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ جب تک ''ہتھیار بردار'' لوگ اشرافیہ کے قبضے میں ہیں عام انسان مجبور محض بنا ہوا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب غریب آدمی اپنے حق اپنی دولت کی ملکیت سے واقف ہو جاتا ہے تو دولت کی حفاظت کرنے والے دولت چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں ۔ انسانی تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ جب نہتے عوام کو احساس ہوا کہ ان کا حق صدیوں سے چھینا جا رہا ہے تو انھوں نے ہر رکاوٹ کو ٹھوکروں سے اڑا کر اپنا حق حاصل کرلیا۔ یہ ماضی میں ہوتا رہا ہے اور ظلم اسی طرح ہوتا رہا تو عوام اپنا حق حاصل کرنے کے لیے ہر رکاوٹ کو ٹھوکروں سے ہٹا کر اپنا حق حاصل کرلیں گے۔