راؤ انوار ایک ضرورت کا نام ہے
میرا دل نہیں مانتا کہ راؤ انوار ایسے کاموں میں ملوث ہوں گے
کراچی پولیس کے سب سے معروف معطل ایس ایس پی راؤ انوار احمد خان کی جانب سے عدالت عظمی میں درخواست جمع کرائی گئی ہے کہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کرنے کا حکم دیا جائے تاکہ وہ عمرے کی ادائیگی اور اپنے بچوں کے ضروری خاندانی معاملات طے کرنے کے لیے بیرونِ ملک جا سکیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کے خلاف محض ایف آئی آر کا درج ہونا یا مقدمے کا زیرِ سماعت ہونا ملزم کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کے لیے ناکافی وجہ ہے۔اگرچہ وہ باقاعدگی سے ہر سماعت پر حاضر ہو رہے ہیں تاہم ان کے خلاف اب تک باقاعدہ چارج شیٹ بھی پیش نہیں ہو سکی۔چنانچہ مقدمے کا جلد فیصلہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ایسے کئی ہائی پروفائیل مقدمات ہیں جن کے ملزموں کے نام ای سی ایل پر نہیں ڈالے گئے مثلاً بے نظیر بھٹو قتل کیس ، بارہ مئی کا سانحہ ، ایان علی کیس وغیرہ۔
راؤ انوار نے اپنی درخواست میں کہا کہ انھوں نے دورانِ ملازمت ہمیشہ آگے بڑھ کر اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر مجرم گروہوں کو تتر بتر کرنے ، کالعدم تنظیموں کے ارکان اور خطرناک مجرموں کی سرکوبی کے لیے پیش کیں تاکہ اپنے زیرِ اختیار علاقے میں امن و آشتی بحال رہ سکے۔انھوں نے اپنی جرات کے سبب محکمے میں عزت کمائی۔ مجرموں کے خلاف مستعد و متحرک کردار ادا کرنے کے نتیجے میں وہ ہمیشہ سنگین مجرموں کی ہٹ لسٹ پر رہے اور ان پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے۔ انٹیلی جینس ایجنسیاں بھی ان کی جان کو لاحق متعدد خطرات سے پیشگی آگاہ کرتی رہیں۔
راؤ انوار کے بقول انھوں نے اپنے فرائضِ منصبی بنا کسی ذاتی منفعت کی توقع کے اور اپنی سلامتی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بے لوثی سے انجام دیے۔عام لوگوں کے تحفظ کے لیے غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں محکمہ پولیس کی جانب سے متعدد تعریفی اسناد اور مالی انعامات ملے نیز قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں اور تاجر طبقے کی جانب سے بھی انعامی شیلڈز عطا ہوئیں۔چنانچہ وہ بھی اسی مساوی قانونی سلوک کے مستحق ہیں کہ جو دیگر ملزموں کو آئین کے آرٹیکل چار اور پچیس کے تحت روا رکھا جاتا ہے۔
وہ یقین دلاتے ہیں کہ جب بھی ٹرائیل کورٹ نے سماعت کے لیے طلب کیا۔بلا ہچکچاہٹ حاضر ہو جائیں گے۔
عدالتِ عظمی کو راؤ انوار نے اپنا نام ای سی ایل سے ہٹانے کی جو درخواست دی ہے ممکن ہے جب تک یہ کالم آپ کی نگاہ سے گذرے تب تک اس درخواست پر کوئی فیصلہ آجائے۔البتہ جب سے یہ درخواست پڑھی ہے میرے آنسو نہیں تھم رہے۔یہ سوچ سوچ کے دل پارہ پارہ ہے کہ ہم کسی بھی جوہرِ قابل کی قدر آخر کیوں نہیں کرتے اور اس کی خوبیوں کو نظرانداز کر کے کردار کشی پر ہی کیوں کمر بستہ رہتے ہیں۔
راؤ انوار جیسے بے لوث ، حرص و طمع سے پاک اور ہمیشہ خوفِ خدا سے لرزتے ہوئے اپنے اختیارات کا استعمال کرنیوالے ، اپنی تنخواہ میں بال بچوں کا پیٹ پالنے والے ایماندار و فرض شناس اور ہر وقت عوام کی جان و مال کے تحفظ میں گھلنے والے افسروں کی قدر نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ یہ قوم اس وقت ہر طرح کے جرائم اور دہشتگردی سے جوجھ رہی ہے۔
حاسدوں نے راؤ انوار صاحب کی عزت و خوداری خاک میں ملانے کے لیے کیا کیا گھٹیا حرکتیں نہ کیں۔حتیٰ کہ ستائیس سالہ نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا الزام بھی راؤ انوار پر تھوپ دیا گیا اور یہ عنصر نظرانداز کر دیا گیا کہ زندگی اور موت تو اوپر والے کے ہاتھ میں ہے جس کی جیسے قضا آتی ہے اسے کوئی نہیں بدل سکتا۔یہ تک کہا گیا کہ راؤ انوار نے چار سو کے لگ بھگ افراد مشکوک پولیس مقابلوں میں ہلاک کیے۔مگر آج تک انھیں ایک مقدمے میں بھی سزا نہیں ہوئی۔جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ یہ تک کہا گیا کہ راؤ انوار پر جو قاتلانہ حملے ہوئے ان میں سے اکثر انھوں نے خود اپنے اوپر کروائے تاکہ ان سے پیدا ہونے والی ہمدردی کے عوض ترقی ، مراعات و منفعت و عزت اور بااثر لوگوں کی قربت میسر رہ سکے۔
اس تناظر میں مجھے گذشتہ برس اپریل میں روزنامہ ڈان میں شایع ہونے والی ایک خبر یاد آ رہی ہے جس کے مطابق ایک سابق ایس ایس پی نیاز کھوسہ نے الزام لگایا کہ راؤ انوار نے ان کے بیٹے کو غیر قانونی حراست میں رکھا۔نیاز کھوسہ نے اپنے وکیل رشید رضوی کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ میں دائر آئینی درخواست میں استدعا کی کہ راؤ انوار نے پچاسی ارب روپے منی لانڈرنگ کے ذریعے پاکستان سے باہر بجھوانے اور دبئی اور برطانیہ میں املاک خریدنے کے الزامات کی نیب سے تحقیقات کرائی جائیں۔
درخواست کے مطابق راؤ انوار نے یہ دولت زمینوں پرقبضے اور دیگر بدعنوانیوں کے ذریعے پچھلے نو برس میں بطور ایس ایس پی ملیر کمائی۔درخواست میں اس حسنِ اتفاق کی چھان بین کی بھی استدعا کی گئی کہ کس طرح انیس سو چوراسی سے راؤ انوار بطور سب انسپکٹر اور انسپکٹر ائیرپورٹ پولیس اسٹیشن پر ہی تعینات رہے اور بعد ازاں بطور ایس پی اور ایس ایس پی بھی ملیر میں ہی رہے۔درخواست میں کہا گیا کہ ایس ایس پی راؤ انوار کی علانیہ تنخواہ ستر ہزار روپے ہے لیکن اس تنخواہ میں ایف ٹین سیکٹر اسلام آباد میں وہ مکان کیسے لیا گیا کہ جس کی مارکیٹ ویلیو پچاس کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ راؤ انوار مئی دو ہزار بارہ سے فروری دو ہزار سترہ تک نواسی بار بیرونِ ملک گئے۔ان تمام معاملات کی نہ صرف باقاعدہ چھان بین کروائی جائے بلکہ راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ ہائی کورٹ کے ڈویژنل بنچ نے نیاز کھوسہ کی درخواست کی ابتدائی سماعت کی۔یہ کیس اب کس مرحلے میں ہے ، کیا نیب کے حوالے ہوا کہ نہیں۔کسی کو علم ہو تو فقیر کو مطلع کرے۔
مگر میرا دل نہیں مانتا کہ راؤ انوار ایسے کاموں میں ملوث ہوں گے۔جب انھیں نقیب اللہ محسود کیس میں ڈالا گیا اور جے آئی ٹی بنائی گئی تب سے اب تک جے آئی ٹی رپورٹ کہاں تک پہنچی ، رپورٹ ٹرائیل کورٹ میں پیش ہوئی کہ نہیں ، راؤ انوار اپنے گھر میں ہی نظربند رہے یا جیل بھی منتقل ہوئے۔اب تک کتنے گواہ بیان دے چکے ہیں۔کون کون اپنے بیان پر قائم ہے یا رہے گا ؟
راؤ انوار جیسے مستعد افسروں کی ہر حکومت ، ادارے ، گروہ اور پارٹی کو ضرورت ہوتی ہے تاکہ ہر قیمت پر ریاستی رٹ قائم ہو سکے۔ایسے افسروں کے لیے ایک در بند ہوتا ہے تو دس اور کھل جاتے ہیں۔یہ ریاست پر بوجھ نہیں بلکہ قومی اسٹرٹیجک اثاثہ ہوتے ہیں۔راؤ انوار چند دن بعد ریٹائر ہو جائیں گے یا ہو سکتا ہے باقی زندگی سلاخوں کے پیچھے گذاریں یا گنگناتے ہوئے باعزت بری ہو جائیں کہ
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے مجھے شکار کرے
ویسے بھی راؤ انوار کسی شخص کا نہیں ایک رویے ، کردار اور ریاستی و نجی ضرورت کا نام ہے۔
ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)