گرج بابو بڑا اداکار نہیں تھا مگر۔۔۔۔
اداکار گرج بابو بڑا اداکار تو نہ تھا مگر وہ ایک بڑی شخصیت ضرور تھا
اداکارگرج بابو نصف صدی سے زیادہ عرصے تک فلمی دنیا سے وابستہ رہنے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو گیا، وہ ایک بڑا اداکار تو نہ تھا مگر وہ ایک بڑی شخصیت ضرور تھا۔
اس کا سب سے بڑا اعزاز ایک یہ تھا کہ جب مشرقی پاکستان میں اردو فلموں کا آغاز ہوا تو اس نے مغربی اور مشرقی پاکستان کی فلم انڈسٹری کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا تھا۔ اس نے ہیرو کے علاوہ بے شمار فلموں میں ہر طرح کے کردار ادا کیے تھے اور ان گنت فلموں میں اس نے پروڈکشن کنٹرولر کے طور پر بھی کام کیا تھا۔
وہ ایک باصلاحیت فن کار بھی تھا اور ایک محنتی انسان بھی تھا ۔ اس نے ڈھاکہ میں بھی اورکراچی میں بھی کسی بھی فلمساز اور ہدایت کارکوکبھی مایوس نہیں کیا تھا۔ دونوں فلمی مراکز میں وہ فلمی دنیا کی ضرورت رہا تھا لیکن جب وہ دنیا سے رخصت ہوا تو پاکستان کے کسی بھی ٹی وی چینل نے گرج بابو کے بارے میں تیس سیکنڈ کا تذکرہ کرنا بھی گوارا نہیں کیا ۔
صد افسوس گرج بابو ایک ایسا اداکار تھا جس نے بمبئی کی فلم انڈسٹری سے اپنے فلمی کیریئرکا آغازکیا تھا ۔ یہ اس دور کی بات ہے جب انڈین فلم انڈسٹری کے مرکز بمبئی میں مہ جبین نے مینا کماری بن کر ممتاز جہاں نے مدھو بالا بن کر اور خوبرو نوجوان یوسف خان نے دلیپ کمار کے نام کے ساتھ فلموں میں اپنے کام کا آغاز کیا تھا اور خوب شہرت پا رہے تھے۔ اسی دورکے آگے پیچھے ایک نوجوان گرج سنگھ کے نام سے بمبئی کی فلمی دنیا میں داخل ہوا تھا، ابتدا ہی سے وہ اپنی روٹی روزی فلموں میں چھوٹے چھوٹے کردار ادا کرکے کما رہا تھا پھر جب ہندوستان کا بٹوارہ ہوگیا تھا تو مسلمان فنکاروں کو تعصب کی آندھی نے بڑا نقصان پہنچایا تھا۔
گرج بابو (گرج سندھ) بھی اپنے حالات سے پریشان ہوکر مشرقی پاکستان آگیا تھا اور پھر ڈھاکہ کی فلم انڈسٹری میں بنگالی فلم سازوں کے پروڈکشن آفسوں میں چکر لگانے لگا، پھر جب اسے اچھی طرح بنگالی بولنی آگئی تو یہ بنگالی فلموں میں اپنے اصلی نام کے ساتھ اداکارکی حیثیت سے شامل ہوگیا ، جب ڈھاکہ میں اردو فلموں کا باقاعدہ آغاز ہوا توگرج بابو ان اردو فلموں کا بھی حصہ بنتا چلا گیا ۔ اس دورکی کئی اردو فلموں گوری ، بہانہ ،کیسے کہوں اور فلم ساز واداکار رحمن کی فلم درشن قابل ذکر تھی۔
ان کے علاوہ بھی بہت سی فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کیے پھر جب رحمان نے اپنی فلمیں کنگن اور ملن شروع کیں توگرج بابو اداکار رحمان کی پروڈکشن میں بحیثیت پروڈکشن منیجرکام کرتا رہا جب گرج بابوکراچی آیا تو اس نے فلم ''بارہ بجے'' میں ایک اچھا کردار ادا کیا تھا مگر اب اسے اداکاری سے زیادہ پروڈکشن کے معاملات سے زیادہ دلچسپی ہوگئی تھی اور یہ کراچی کے کئی فلم سازوں و ہدایت کاروں قدیرخان، جاوید ہاشمی، اقبال یوسف اور قمر زیدی کی فلموں سے بھی وابستہ رہا ۔ جہاں اس کی بحیثیت اداکار ضرورت پڑتی تھی یہ اپنے کردار بھی خوبصورتی سے نبھاتا تھا۔
جب ڈھاکہ سے شبنم اور روبن گھوش نے کراچی میں سکونت اختیار کی تو گرج بابو نے اپنی دیرینہ دوستی کے ناتے ان دونوں کو کراچی میں ایڈجسٹ ہونے میں شب و روز ان کی مدد کی تھی پھر جب شبنم اور روبن گھوش لاہور شفٹ ہوگئے اور وہاں کی فلموں میں کام کرنا شروع کیا تو گرج بابو لاہور میں بھی شبنم، روبن گھوش، ہدایت کار نذرالاسلام اور کیمرہ مین افضل چوہدری کی گڈ بک میں رہا، پھر اس نے ایک اداکارہ نینا سے شادی کرلی تھی اور اس سے اس کی دو بیٹیاں تھیں نعیمہ گرج اور ظل ہما گرج۔ نعیمہ گرج نے کراچی اسٹیج پر اپنی اداکاری کا آغازکیا وہ اسٹیج کا دور تھا اور اس زمانے میں معین اختر ، اسمٰعیل تارا ، لیاقت سولجر، شہزاد رضا اور عمر شریف کراچی اسٹیج کی ضرورت بن گئے تھے۔
کراچی کا اسٹیج ان آرٹسٹوں کی وجہ سے چل رہا تھا اور پروڈیوسر فرقان حیدر نے بھی اسٹیج ڈراموں میں اپنی ایک پہچان پیدا کرلی تھی ۔ پھر پتہ چلا کہ گرج بابو کی اپنی بیوی نینا سے علیحدگی ہوگئی اور نینا اپنی چھوٹی بیٹی ظل ہما کو بمبئی لے گئی وہاں اس کی بیٹی نے کئی فلموں میں بطور رقاصہ کئی ڈانس پکچرائز کرائے مگر اس کی بیٹی کو کوئی نمایاں مقام نہیں مل سکا تو نینا اپنی بیٹی کے ساتھ واپس پاکستان آگئی اور پھر نینا کی دونوں بیٹیوں نے اسٹیج کی اداکاری کو ہی اپنا وسیلہ بنالیا ، جب لاہور کی فلم انڈسٹری پر زوال آیا تو میں بھی لاہور چھوڑ کر واپس کراچی آگیا اور ریڈیو پاکستان کراچی کے نیٹ ورک پر کئی کمرشل ریڈیو پروگرام بحیثیت پروڈیوسر اور رائٹر کرتا رہا۔
کراچی میں بھی فلم انڈسٹری سست روی کا شکار تھی، صرف اسٹیج اور ٹیلی ویژن ڈرامے چل رہے تھے۔کراچی میں اپنا ایک ادارہ "Sounds Concept" کے نام سے بنایا اور مختلف ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے لیے کام کرتا رہا ،اسی دوران میں نے ایک اسٹیج ڈرامہ ''مقدرکا سکندر'' کے نام سے لکھا اور پھر اسے اپنے ٹی وی سیلزکے دیرینہ دوست ایم۔کیو زمان کے ساتھ آدم جی کے اسٹیج پر پیش کرنے کا اعلان کیا تو اس خبر کے بعد گرج بابو نے ایک ملاقات کے دوران کہا۔ ''یار ہمدم! آپ اپنے ڈرامے میں میری چھوٹی بیٹی ظل ہما کو بھی کاسٹ کرلو۔ وہ آج کل اسٹیج پر اچھا کام کر رہی ہے۔'' پھر ''مقدر کا سکندر'' میں جن آرٹسٹوں کو کاسٹ کیا گیا ان میں خالد ظفر، انیل چوہدری، اسمٰعیل تارا، شہزاد رضا، رزاق راجو اور عمر شریف کے ساتھ ظل ہما بھی شامل تھی ۔
یہ ڈرامے کی اس وقت کی اے ون کاسٹ تھی اس ڈرامے کی ڈائریکشن بھی میں نے دی تھی۔ یہ ڈرامہ اپنے دور کا ایک ہٹ ڈرامہ ثابت ہوا اور پھر دوسرے سال بھی آدم جی کے اسٹیج پر انھیں آرٹسٹوں کے ساتھ دوبارہ پیش کیا گیا تھا۔ اس دوران میں ''بول بالا'' کے نام سے نیٹ ورک پر ریڈیوکے لیے ایک کمرشل پروگرام پروڈیوس کیا کرتا تھا۔ ساتھ ہی دو اور پروگرام تھے ستاروں کے گیت ، ایک گھر کی کہانی، ''بول بالا'' ڈنٹونک ٹوتھ پاؤڈر والوں کا پروگرام تھا ۔ میں اپنے پروگرام کے ہر ہفتے خطوط لینے ڈنٹونک کے مالک علوی صاحب کے دفتر جایا کرتا تھا ۔
ایک دن جب میں سامعین کے خطوط لینے ان کے دفتر میں پہنچا تو سب سے پہلے میری ملاقات گرج بابو سے ہوئی۔میں نے پوچھا '' گرج بابو! آپ یہاں کیسے آئے ہیں۔'' وہ بولے '' ہمدم میاں! فلم والوں کی خدمت کرتے کرتے میں اب تھک گیا ہوں ، چند ایک کو چھوڑ کر یہ فلم والے بڑے ہی بے حس ہیں اب میں نے فلمی دنیا سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلی ہے اور علوی صاحب کے آفس میں باقاعدہ ملازمت کرلی ہے اب آپ جب بھی اس آفس میں آئیں گے آپ کی خدمت بھی میرے ذمے ہوگی۔'' میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ '' گرج بابو! میں تو خود آپ کا فین ہوں۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے گا۔''
امریکا آنے سے پہلے گرج بابو سے میری آخری ملاقات ایک فلمی تقریب میں ہوئی تھی ۔ اداکارکمال،گرج بابو اور میں ساتھ ہی ساتھ بیٹھے تھے۔ میں اورکمال صاحب گرج بابوکی دلچسپ باتوں سے خوب لطف اندوز ہورہے تھے۔گرج بابو اپنے نام سے ہٹ کر ایک بہت ہی نرم دل شخصیت کا مالک تھا ۔ دھیمے دھیمے لہجے میں باتیں کرتا ، ملنساری ، ایثار اور خدمت انسانی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اللہ گرج بابوکو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ (آمین)
اس کا سب سے بڑا اعزاز ایک یہ تھا کہ جب مشرقی پاکستان میں اردو فلموں کا آغاز ہوا تو اس نے مغربی اور مشرقی پاکستان کی فلم انڈسٹری کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا تھا۔ اس نے ہیرو کے علاوہ بے شمار فلموں میں ہر طرح کے کردار ادا کیے تھے اور ان گنت فلموں میں اس نے پروڈکشن کنٹرولر کے طور پر بھی کام کیا تھا۔
وہ ایک باصلاحیت فن کار بھی تھا اور ایک محنتی انسان بھی تھا ۔ اس نے ڈھاکہ میں بھی اورکراچی میں بھی کسی بھی فلمساز اور ہدایت کارکوکبھی مایوس نہیں کیا تھا۔ دونوں فلمی مراکز میں وہ فلمی دنیا کی ضرورت رہا تھا لیکن جب وہ دنیا سے رخصت ہوا تو پاکستان کے کسی بھی ٹی وی چینل نے گرج بابو کے بارے میں تیس سیکنڈ کا تذکرہ کرنا بھی گوارا نہیں کیا ۔
صد افسوس گرج بابو ایک ایسا اداکار تھا جس نے بمبئی کی فلم انڈسٹری سے اپنے فلمی کیریئرکا آغازکیا تھا ۔ یہ اس دور کی بات ہے جب انڈین فلم انڈسٹری کے مرکز بمبئی میں مہ جبین نے مینا کماری بن کر ممتاز جہاں نے مدھو بالا بن کر اور خوبرو نوجوان یوسف خان نے دلیپ کمار کے نام کے ساتھ فلموں میں اپنے کام کا آغاز کیا تھا اور خوب شہرت پا رہے تھے۔ اسی دورکے آگے پیچھے ایک نوجوان گرج سنگھ کے نام سے بمبئی کی فلمی دنیا میں داخل ہوا تھا، ابتدا ہی سے وہ اپنی روٹی روزی فلموں میں چھوٹے چھوٹے کردار ادا کرکے کما رہا تھا پھر جب ہندوستان کا بٹوارہ ہوگیا تھا تو مسلمان فنکاروں کو تعصب کی آندھی نے بڑا نقصان پہنچایا تھا۔
گرج بابو (گرج سندھ) بھی اپنے حالات سے پریشان ہوکر مشرقی پاکستان آگیا تھا اور پھر ڈھاکہ کی فلم انڈسٹری میں بنگالی فلم سازوں کے پروڈکشن آفسوں میں چکر لگانے لگا، پھر جب اسے اچھی طرح بنگالی بولنی آگئی تو یہ بنگالی فلموں میں اپنے اصلی نام کے ساتھ اداکارکی حیثیت سے شامل ہوگیا ، جب ڈھاکہ میں اردو فلموں کا باقاعدہ آغاز ہوا توگرج بابو ان اردو فلموں کا بھی حصہ بنتا چلا گیا ۔ اس دورکی کئی اردو فلموں گوری ، بہانہ ،کیسے کہوں اور فلم ساز واداکار رحمن کی فلم درشن قابل ذکر تھی۔
ان کے علاوہ بھی بہت سی فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کیے پھر جب رحمان نے اپنی فلمیں کنگن اور ملن شروع کیں توگرج بابو اداکار رحمان کی پروڈکشن میں بحیثیت پروڈکشن منیجرکام کرتا رہا جب گرج بابوکراچی آیا تو اس نے فلم ''بارہ بجے'' میں ایک اچھا کردار ادا کیا تھا مگر اب اسے اداکاری سے زیادہ پروڈکشن کے معاملات سے زیادہ دلچسپی ہوگئی تھی اور یہ کراچی کے کئی فلم سازوں و ہدایت کاروں قدیرخان، جاوید ہاشمی، اقبال یوسف اور قمر زیدی کی فلموں سے بھی وابستہ رہا ۔ جہاں اس کی بحیثیت اداکار ضرورت پڑتی تھی یہ اپنے کردار بھی خوبصورتی سے نبھاتا تھا۔
جب ڈھاکہ سے شبنم اور روبن گھوش نے کراچی میں سکونت اختیار کی تو گرج بابو نے اپنی دیرینہ دوستی کے ناتے ان دونوں کو کراچی میں ایڈجسٹ ہونے میں شب و روز ان کی مدد کی تھی پھر جب شبنم اور روبن گھوش لاہور شفٹ ہوگئے اور وہاں کی فلموں میں کام کرنا شروع کیا تو گرج بابو لاہور میں بھی شبنم، روبن گھوش، ہدایت کار نذرالاسلام اور کیمرہ مین افضل چوہدری کی گڈ بک میں رہا، پھر اس نے ایک اداکارہ نینا سے شادی کرلی تھی اور اس سے اس کی دو بیٹیاں تھیں نعیمہ گرج اور ظل ہما گرج۔ نعیمہ گرج نے کراچی اسٹیج پر اپنی اداکاری کا آغازکیا وہ اسٹیج کا دور تھا اور اس زمانے میں معین اختر ، اسمٰعیل تارا ، لیاقت سولجر، شہزاد رضا اور عمر شریف کراچی اسٹیج کی ضرورت بن گئے تھے۔
کراچی کا اسٹیج ان آرٹسٹوں کی وجہ سے چل رہا تھا اور پروڈیوسر فرقان حیدر نے بھی اسٹیج ڈراموں میں اپنی ایک پہچان پیدا کرلی تھی ۔ پھر پتہ چلا کہ گرج بابو کی اپنی بیوی نینا سے علیحدگی ہوگئی اور نینا اپنی چھوٹی بیٹی ظل ہما کو بمبئی لے گئی وہاں اس کی بیٹی نے کئی فلموں میں بطور رقاصہ کئی ڈانس پکچرائز کرائے مگر اس کی بیٹی کو کوئی نمایاں مقام نہیں مل سکا تو نینا اپنی بیٹی کے ساتھ واپس پاکستان آگئی اور پھر نینا کی دونوں بیٹیوں نے اسٹیج کی اداکاری کو ہی اپنا وسیلہ بنالیا ، جب لاہور کی فلم انڈسٹری پر زوال آیا تو میں بھی لاہور چھوڑ کر واپس کراچی آگیا اور ریڈیو پاکستان کراچی کے نیٹ ورک پر کئی کمرشل ریڈیو پروگرام بحیثیت پروڈیوسر اور رائٹر کرتا رہا۔
کراچی میں بھی فلم انڈسٹری سست روی کا شکار تھی، صرف اسٹیج اور ٹیلی ویژن ڈرامے چل رہے تھے۔کراچی میں اپنا ایک ادارہ "Sounds Concept" کے نام سے بنایا اور مختلف ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے لیے کام کرتا رہا ،اسی دوران میں نے ایک اسٹیج ڈرامہ ''مقدرکا سکندر'' کے نام سے لکھا اور پھر اسے اپنے ٹی وی سیلزکے دیرینہ دوست ایم۔کیو زمان کے ساتھ آدم جی کے اسٹیج پر پیش کرنے کا اعلان کیا تو اس خبر کے بعد گرج بابو نے ایک ملاقات کے دوران کہا۔ ''یار ہمدم! آپ اپنے ڈرامے میں میری چھوٹی بیٹی ظل ہما کو بھی کاسٹ کرلو۔ وہ آج کل اسٹیج پر اچھا کام کر رہی ہے۔'' پھر ''مقدر کا سکندر'' میں جن آرٹسٹوں کو کاسٹ کیا گیا ان میں خالد ظفر، انیل چوہدری، اسمٰعیل تارا، شہزاد رضا، رزاق راجو اور عمر شریف کے ساتھ ظل ہما بھی شامل تھی ۔
یہ ڈرامے کی اس وقت کی اے ون کاسٹ تھی اس ڈرامے کی ڈائریکشن بھی میں نے دی تھی۔ یہ ڈرامہ اپنے دور کا ایک ہٹ ڈرامہ ثابت ہوا اور پھر دوسرے سال بھی آدم جی کے اسٹیج پر انھیں آرٹسٹوں کے ساتھ دوبارہ پیش کیا گیا تھا۔ اس دوران میں ''بول بالا'' کے نام سے نیٹ ورک پر ریڈیوکے لیے ایک کمرشل پروگرام پروڈیوس کیا کرتا تھا۔ ساتھ ہی دو اور پروگرام تھے ستاروں کے گیت ، ایک گھر کی کہانی، ''بول بالا'' ڈنٹونک ٹوتھ پاؤڈر والوں کا پروگرام تھا ۔ میں اپنے پروگرام کے ہر ہفتے خطوط لینے ڈنٹونک کے مالک علوی صاحب کے دفتر جایا کرتا تھا ۔
ایک دن جب میں سامعین کے خطوط لینے ان کے دفتر میں پہنچا تو سب سے پہلے میری ملاقات گرج بابو سے ہوئی۔میں نے پوچھا '' گرج بابو! آپ یہاں کیسے آئے ہیں۔'' وہ بولے '' ہمدم میاں! فلم والوں کی خدمت کرتے کرتے میں اب تھک گیا ہوں ، چند ایک کو چھوڑ کر یہ فلم والے بڑے ہی بے حس ہیں اب میں نے فلمی دنیا سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلی ہے اور علوی صاحب کے آفس میں باقاعدہ ملازمت کرلی ہے اب آپ جب بھی اس آفس میں آئیں گے آپ کی خدمت بھی میرے ذمے ہوگی۔'' میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ '' گرج بابو! میں تو خود آپ کا فین ہوں۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے گا۔''
امریکا آنے سے پہلے گرج بابو سے میری آخری ملاقات ایک فلمی تقریب میں ہوئی تھی ۔ اداکارکمال،گرج بابو اور میں ساتھ ہی ساتھ بیٹھے تھے۔ میں اورکمال صاحب گرج بابوکی دلچسپ باتوں سے خوب لطف اندوز ہورہے تھے۔گرج بابو اپنے نام سے ہٹ کر ایک بہت ہی نرم دل شخصیت کا مالک تھا ۔ دھیمے دھیمے لہجے میں باتیں کرتا ، ملنساری ، ایثار اور خدمت انسانی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اللہ گرج بابوکو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ (آمین)