مانا کہ راستہ ہے کٹھن
کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے مزید 30 جنازے اٹھے۔ قبرستان میں ایک لمبی سرنگ تیار کی گئی اور پھول سے چہرے، چاند سے...
کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے مزید 30 جنازے اٹھے۔ قبرستان میں ایک لمبی سرنگ تیار کی گئی اور پھول سے چہرے، چاند سے لوگ مٹی کے سپرد کر دیے گئے۔ کئی سال سے یہ جنازے اٹھ رہے ہیں اور قبرستان کی طرف جا رہے ہیں۔ مارنے والے علی الاعلان اعترافیہ بیان جاری کرتے ہیں کہ ''ہم نے مارا ہے''۔ ''نام نبیؐ کا لینے والے الفت سے بیگانے کیوں!'' سمجھ میں نہیں آتا۔ مساجد اور امام بارگاہوں پر نہتے معصوم، عبادت میں مصروف غریب انسانوں پر خودکش حملے اور درندوں کا اعلان کہ ''ہم نے مارا ہے۔'' امریکی ڈرون حملے بھی جاری ہیں اور ساری دنیا کو علم ہے کہ یہ امریکا کر رہا ہے، پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ پاکستان کا دل شہر کراچی اور طرح کی پریشانیوں میں مبتلا ہے۔ کئی سال سے معیشت برباد ہے۔ بھتے کی شکل میں کاروباری سرمایہ نکل چکا، کاروباری حضرات بچا کچا سرمایہ لے کر دوسرے ملکوں میں آباد ہو چکے ہیں علاقے فتح کرنے کی جنگیں ہو رہی ہیں۔ کھلم کھلا مسلح موٹر سائیکل سوار آتے ہیں تین تین، چار چار کی ٹولیوں میں بٹ جاتے ہیں، گلیوں میں چاروں طرف فائرنگ کرتے ہیں، کچھ مر ے باقی لب مرگ، کچھ زخمی۔۔۔اور قاتل چلے جاتے ہیں۔
نئی حکومت کے سامنے مسائل کا انبار لگا ہوا ہے۔ دوست بہت کم ہیں، دشمن بہت زیادہ ہیں۔ فی الحال دشمنوں سے بھی بنا کر چلنے کا وقت ہے۔ بہت سے محاذ کھلنے کو بے قرار ہیں، مگر نئی مرکزی حکومت سارے محاذ نہیں کھول سکتی۔ 1۔ بجلی کا محاذ کھلا ہے، اس محاذ پر حکومت کام کر رہی ہے۔2۔ قرضوں کا محاذ کھلا ہے، آئی ایم ایف کے جال میں مدتوں سے ہم پھنسے ہوئے ہیں، بقول جالب:
مدتوں سر اٹھا کے چل نہ سکا
اس کے کھاتے میں جس کا نام آیا
اس کے کھاتے میں ہمارا نام ڈلوانے والوں کی تیسری نسل اسمبلیوں میں بیٹھی ہے۔ اس کھاتے سے ان کے باپ داداؤں نے اتنا کچھ اپنی نسلوں کے لیے چھوڑا ہے کہ انھیں کچھ اور کام دھندہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان مرحومین کے پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں، بھتیجے، بھانجے، بیٹی، بہوئیں، داماد سب خوب مزے میں ہیں اور زندگی کی بہاریں لوٹ رہے ہیں۔ لاکھوں روپوں کے کوٹ پینٹ، ٹائی، جوتے، برانڈڈ۔ خواتین لاکھوں روپے کے ہینڈ بیگ، آنکھوں پر لگانے اور کبھی زلفوں میں اٹکانے والے چشمے، قیمتی سینڈل، ہزاروں کا میک اپ، قیمتی لباس اور پھر اسمبلیوں میں ''آنیاجانیاں'' کے لیے ہیبت ناک کروڑوں روپوں کی گاڑیاں۔ اور ان کا کہنا ہے کہ ''یہ سب شان و شوکت، عزت، انھیں اللہ نے دی ہے''۔ اللہ کے دیے گئے ''ٹھاٹ باٹ'' کے خلاف پتہ نہیں محاذ کب کھلے گا اور کون کھولے گا؟
زخم زخم میرا شہر کراچی روز نئے نئے مسئلوں میں گھرتا چلا جا رہا ہے۔ لیاری کا ثاقب باکسر، رینجرز کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا۔ لیاری سے چار پانچ ہزار کا جلوس، ویگنوں، کاروں، موٹر سائیکلوں اور پیدل ''ریڈ زون'' میں واقع رینجرز ہیڈکوارٹر پہنچا اور ممبر قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل کی قیادت میں ایک گھنٹہ دھرنا دیا۔ شہر میں گھنٹوں ٹریفک جام رہا، ایمبولینسوں میں نازک حال مریض تڑپ رہے تھے اور سڑکوں سے ''مجبور پولیس'' غائب تھی۔ لیاری کی قدیم کچھی کمیونٹی بدین نقل مکانی کر گئی۔ مگر آج کی اطلاع ہے کہ بلوچ کچھی مفاہمت اور صلح ہو گئی ہے۔ بہت خوش آیند اقدام ہے۔ مگر امن کی کیا ضمانت! اس شہر کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ جگہ جگہ، محلہ محلہ کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے۔ پانی میں کلورین نہیں ہے۔ اس وجہ سے چند ہلاکتیں ہو چکی ہیں، لوگوں کو ناک میں پانی ڈالنے سے منع کیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی میں موجود نگلیریا جراثیم ناک کے ذریعے دماغ میں پہنچ کر اسے کھا لیتا ہے اور بندے کی موت واقع ہو جاتی ہے ویسے بھی اس شہر کے شہریوں کا دماغ ''حالات'' کھا چکا ہے۔ اب اس شہر کے شہری بغیر دماغ کے چل پھر رہے ہیں۔ میں بھی بس جو جی میں آ رہا ہے لکھتا چلا جا رہا ہوں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کیا لکھنا مناسب ہے کیا غیر مناسب۔ مگر اب کیا سوچنا سمجھنا؟
ویگنوں میں ٹھنسے ہوئے، دروازوں پر لٹکتے ہوئے، جنگلوں اور ویگنوں کی چھتوں پر سوار، غریب موت کا سفر سمجھ کر سفر کرتے ہیں، دہشت گردوں کی گولیوں سے بچ گئے، ویگن نے صحیح سالم پہنچا دیا تو گھر پہنچ گئے ورنہ قبرستان۔
ادھر کوئٹہ میں علی آباد کے ہزارہ برادری والے معصوم بچے بچیاں اپنے جانے والے پیاروں کی یاد میں شمعیں جلائے اس بات کا اعادہ کر رہے ہیں کہ وہ اجالوں کے منتظر رہیں گے اور اندھیرے ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے۔ وزیراعظم نواز شریف، ہزارہ برادری سے اظہار یکجہتی کے لیے کوئٹہ پہنچے ان کے ساتھ مرکزی وزیر داخلہ چوہدری نثار، مرکزی وزیر اطلاعات پرویز رشید، صوبہ بلوچستان نواز لیگ کے صدر ثناء اللہ زہری، ممبر قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی، سینیٹر میر حاصل بزنجو، وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک سمیت مختلف فورسز کے لوگ بھی موجود تھے۔
وزیر اعظم کہہ رہے تھے کہ ہم دہشت گردی کو روکنے کے لیے مزید سخت اقدامات کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ صرف 20 بازاروں کے شہر کوئٹہ میں دہشت گردوں کو کیوں نہیں روکا جاتا؟ اس سوال کا جواب وزیر اعظم کو ضرور حاصل کرنا چاہیے۔ ہزارہ برادری کے لوگ بھی حیران پریشان نظر آ رہے تھے۔ شاید وہ بھی جنازے اٹھا اٹھا کر ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں۔ اب ان پڑھے لکھے قابل اور خوبصورت لوگوں کے پاس کہنے سننے کو کچھ بھی نہیں رہا۔ وزیر اعظم کہہ رہے تھے میں چین جا رہا ہوں، واپس آ کر پھر کوئٹہ آؤں گا۔ ہم لاپتہ افراد کا بھی حساب لیں گے۔ میں بلوچستان کو تنہا نہیں چھوڑوں گا۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ خیبر پختون خوا سے کراچی تک ہر جگہ ہم صوبائی حکومتوں کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ یہ ہمارا فرض ہے جسے ہم ضرور ادا کریں گے۔
عمران خان بہت بڑی سیاسی قوت بن کر ابھرے ہیں، ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ بہت اچھا ہے کہ عمران خان حالات کی نزاکت کا خیال رکھتے ہوئے نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ مل کر چلنے کے لیے تیار ہیں۔ یہی ''ٹرائیکا'' مل کر ملک کو بحرانوں سے نکال سکتا ہے۔ ہمیں اندازہ ہے کہ محاذ بے شمار ہیں مگر سب محاذوں کو ایک ساتھ نہیں کھولا جا سکتا۔ یہ بات عوام نے مان لی اور پاکستان کے عوام جن کا جینا مرنا اپنی دھرتی سے جڑا ہوا ہے اچھے دنوں کے انتظار میں اور بھی دکھ سہہ لیں گے۔ مگر عمران خان! بہت کچھ تمہارے حصے کا کام ہے، یقینا خدا نے تمہیں نئی زندگی دی ہے اور یہ نئی زندگی پاکستان کے نام ہے۔ یہ نئی زندگی پاکستان کے کام میں لگانا ہے۔ نواز و شہباز شریف! روشنی جہاں سے بھی ملے لے لو، وقت بہت کٹھن ہے، ایک طرف سنہرا پاکستان ہے اور دوسری طرف گہری بہت گہری کھائی!
نواز، عمران، شہباز! غریب عوام کے قریب قریب بود وباش اپناؤ، یہ تمہارے گھروں کی کھڑکیوں دروازوں پر جھولتے قیمتی پردے، یہ قالین، یہ دیدہ زیب کرسیاں، غریب عوام کو یہ سب مت دکھاؤ۔ سادہ کرسیوں پر بیٹھو، اسی میں بھلائی ہے۔ اور مانا کہ راستہ کٹھن ہے مگر چلتے رہنا ہے۔