احتساب کی شفافیت کا سوال
احتساب کسی طور انتقامی کارروائی نہیں لیکن اپوزیشن جماعتوں کو اطمینان دلانا بھی ناگزیر ہے
جمہوری حکومتوں کے طریق کار میں یہ ایک مسلمہ دستور ہے کہ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے مابین کوئی ایشو جنم لے تو تنازع کے تصفیہ یا کرپٹ پریکٹسز کے انسداد کے لیے احتساب ہمہ جہتی و شفاف ہو اور سماجی انصاف کی فراہمی اور انتظامی امور کی انجام دہی میں کرپشن کے بارے میں زیرو ٹالرنس عوام کو نظر آئے اور کسی بااثر سیاسی شخص کی طرف سے قانون کی حکمرانی کو سبوتاژ کرنے اور ریاستی مشینری کو سوالیہ نشان بنانے کی ہر اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
مطلب اس کا یہی ہے کہ تمام ادارے تعلقات کار، اور جمہوری روش و حکومتی فیصلوں اور اقدامات میں باہم جڑے ہوئے ہیں، کوئی لاتعلقی کا عذر خواہ نہیں ہوسکتا، کوئی بحران پیدا ہو تو جوابدہی بھی کثیرجہتی اور اور ہمہ گیر ہونی چاہیے۔
آج خوش قسمتی سے ملک کرپشن کے خاتمہ کی سمت چل پڑا ہے، تمام سیاسی و جمہوری قوتیں بادی النظر میں اس بات پر متفق ہیں کہ احتساب بلاامتیاز ہو، کوئی بدعنوانی میں ملوث ہو تو قانون کے آہنی ہاتھوں سے بچ نہ سکے تاہم زمینی حقائق اور احتساب کے غیر معمولی ریلے کے باعث ملکی سیاسی معاملات خاصے تہلکہ خیز ہو گئے ہیں، احتساب کا عمل ابھی ابتدائی مرحلہ میں ہے مگر سیاسی درجہ حرارت شدت اختیار کر گیا ہے۔
دو بڑی سیاسی جماعتوں کے اہم ترین قائدین، کاروباری شخصیات، حاضر و سابق وزراء، بیوروکریٹس، صنعتکار، بینکار اور سیاسی کارکن منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس کیس میں ای سی ایل میں شامل کیے گئے ہیں، پیر کو سپریم کورٹ میں سماعت ہو گی، جن کے نام ECL لسٹ میں شامل ہیں ان میں آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، سید مراد علی شاہ، سید قائم علی شاہ سمیت 172 افراد کے نام اس لسٹ میں ڈال دیے گئے ہیں، یہ بلاشبہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک ناقابل یقین واقعہ ہے جسے احتساب اور کرپشن کے خاتمہ کے سیاق و سباق میں سیاسی مبصرین ''میک آر بریک'' اقدام سے تعبیر کرتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے منی لانڈرنگ کے خلاف ملکی تاریخ کا بڑا آپریشن کرنے جا رہے ہیں اس لیے سندھ سے چیخیں آنا شروع ہو گئی ہیں، اشرافیہ نے امداد اور قرض کے لیے ملک کو بدنام کیا، وہ اسلام آباد میں سفراء کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے، انھوں نے کہا جہاں آج پاکستان ہے وہ سمجھتے ہیں یہ ہمارے لیے بہت بڑا موقع ہے۔ اب ایک چیز واضح ہو جانی چاہیے کہ پاکستان ایسے آگے نہیں چل سکتا۔ اس سے نکلنے کے لیے ہمیں مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہو گا۔
پیپلز پارٹی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، سابق صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو سمیت دیگر پارٹی لیڈرز نے گزشتہ روز گھوٹکی میں جلسہ عام سے خطاب کیا، اس سے قبل بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر بھی ان کے اسٹیبلشمنٹ اور اپنے مخالفین کے خلاف سخت بیانات میڈیا کی زینت بنے، پی ٹی آئی کے وزراء شیخ رشید اور فیصل واوڈا نے ایک پریس کانفرنس کی اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے سندھ میں گورنر راج کی بات نہیں کی تاہم پی ٹی آئی کراچی کی قیادت کا کہنا ہے کہ وہ ہر قیمت پر سندھ حکومت گرا دینگے جب کہ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ گورنر راج کسی کا خواب تو ہو سکتا ہے جو پورا نہیں ہو گا، سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں نے بھی سندھ میں گورنر راج کو شوشہ اور وفاق اور ایک صوبائی آئینی اکائی کے درمیاں افسوسناک تصادم کی مہم جوئی قرار دیا ہے، بعض سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ احتساب کو لاؤڈازم سے بچانا اور میڈیا ٹرائل کی نذر کر دینے سے بہتر ہے کہ تمام عدالتی کارروائی کو جائز اور دباؤ سے آزاد قانونی راستہ بنانے سے نہ روکا جائے، سیاسی رہنماؤں کو جے آئی رپورٹ یا دیگر قانونی معاملات پر یکطرفہ رائے نہیں دینی چاہیے۔ قانونی پروسس کے تحت کیسز چلیں گے۔
اسی طرح بڑی پارٹیز کی قیادت کرنے والے سیاستدانوں اور حکمرانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ عدالتی معاملات کے باب میں سیاسی پلیٹ فارم پر ڈیبیٹ سے گریز کریں، اس سے سیاسی افراط و تفریط بڑھے گی، عدالتی معاملات سے ملکی امور کی انجام دہی کا جمہوری تسلسل جاری رہنا شرط ہے، فروعی باتوں سے فضا کو مکدر کرنا کسی کے فائدہ میں نہیں۔
یاد رہے عالمی شہرت یافتہ صحافی باب وڈوارڈ نے کہا تھا کہ ''میرا اس بات پر یقین ہے کہ واٹر گیٹ کیس سے صرف یہی ثابت ہوا کہ سسٹم چل رہا ہے، خاص طور پر عدلیہ، کانگریس اور ایک آزاد پراسیکیوٹر جو ایگزیکٹو برانچ میں اپنی ذمے داری پوری کر رہا ہو۔'' اس بلیغ پیرائے میں ہماری عدلیہ، سیاسی رہنماؤںٕ، حکمرانوں اور میڈیا کے لیے غورو فکر کا بیش بہا سامان پنہاں ہے۔
جمہوریت نام ہی شفافیت اور جوابدہی کا ہے، اگر احتساب پر عمومی اتفاق رائے اپوزیشن جماعتوں کا ایمان ہے تو دوسری جانب اہل اقتدار بھی اس الزام کا روادارانہ جواب دیں کہ احتساب کسی طور انتقامی کارروائی نہیں اور اپوزیشن جماعتوں کو اطمینان دلانا بھی ناگزیر ہے، مزید براں پی ٹی آئی کے نیب زدگان کا جو ذکر میڈیا میں آتا ہے اس کا ازالہ بھی اسی صورت ممکن ہے کہ احتساب کے سکے کے دونوں جانب ملزمان قانون کے پلڑے میں نمایاں نظر آنے چاہئیں۔ جبھی احتساب کی شفافیت نکھر کر سامنے آئے گی۔
مطلب اس کا یہی ہے کہ تمام ادارے تعلقات کار، اور جمہوری روش و حکومتی فیصلوں اور اقدامات میں باہم جڑے ہوئے ہیں، کوئی لاتعلقی کا عذر خواہ نہیں ہوسکتا، کوئی بحران پیدا ہو تو جوابدہی بھی کثیرجہتی اور اور ہمہ گیر ہونی چاہیے۔
آج خوش قسمتی سے ملک کرپشن کے خاتمہ کی سمت چل پڑا ہے، تمام سیاسی و جمہوری قوتیں بادی النظر میں اس بات پر متفق ہیں کہ احتساب بلاامتیاز ہو، کوئی بدعنوانی میں ملوث ہو تو قانون کے آہنی ہاتھوں سے بچ نہ سکے تاہم زمینی حقائق اور احتساب کے غیر معمولی ریلے کے باعث ملکی سیاسی معاملات خاصے تہلکہ خیز ہو گئے ہیں، احتساب کا عمل ابھی ابتدائی مرحلہ میں ہے مگر سیاسی درجہ حرارت شدت اختیار کر گیا ہے۔
دو بڑی سیاسی جماعتوں کے اہم ترین قائدین، کاروباری شخصیات، حاضر و سابق وزراء، بیوروکریٹس، صنعتکار، بینکار اور سیاسی کارکن منی لانڈرنگ اور جعلی اکاؤنٹس کیس میں ای سی ایل میں شامل کیے گئے ہیں، پیر کو سپریم کورٹ میں سماعت ہو گی، جن کے نام ECL لسٹ میں شامل ہیں ان میں آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، سید مراد علی شاہ، سید قائم علی شاہ سمیت 172 افراد کے نام اس لسٹ میں ڈال دیے گئے ہیں، یہ بلاشبہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک ناقابل یقین واقعہ ہے جسے احتساب اور کرپشن کے خاتمہ کے سیاق و سباق میں سیاسی مبصرین ''میک آر بریک'' اقدام سے تعبیر کرتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے منی لانڈرنگ کے خلاف ملکی تاریخ کا بڑا آپریشن کرنے جا رہے ہیں اس لیے سندھ سے چیخیں آنا شروع ہو گئی ہیں، اشرافیہ نے امداد اور قرض کے لیے ملک کو بدنام کیا، وہ اسلام آباد میں سفراء کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے، انھوں نے کہا جہاں آج پاکستان ہے وہ سمجھتے ہیں یہ ہمارے لیے بہت بڑا موقع ہے۔ اب ایک چیز واضح ہو جانی چاہیے کہ پاکستان ایسے آگے نہیں چل سکتا۔ اس سے نکلنے کے لیے ہمیں مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہو گا۔
پیپلز پارٹی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، سابق صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو سمیت دیگر پارٹی لیڈرز نے گزشتہ روز گھوٹکی میں جلسہ عام سے خطاب کیا، اس سے قبل بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر بھی ان کے اسٹیبلشمنٹ اور اپنے مخالفین کے خلاف سخت بیانات میڈیا کی زینت بنے، پی ٹی آئی کے وزراء شیخ رشید اور فیصل واوڈا نے ایک پریس کانفرنس کی اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے سندھ میں گورنر راج کی بات نہیں کی تاہم پی ٹی آئی کراچی کی قیادت کا کہنا ہے کہ وہ ہر قیمت پر سندھ حکومت گرا دینگے جب کہ سید مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ گورنر راج کسی کا خواب تو ہو سکتا ہے جو پورا نہیں ہو گا، سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں نے بھی سندھ میں گورنر راج کو شوشہ اور وفاق اور ایک صوبائی آئینی اکائی کے درمیاں افسوسناک تصادم کی مہم جوئی قرار دیا ہے، بعض سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ احتساب کو لاؤڈازم سے بچانا اور میڈیا ٹرائل کی نذر کر دینے سے بہتر ہے کہ تمام عدالتی کارروائی کو جائز اور دباؤ سے آزاد قانونی راستہ بنانے سے نہ روکا جائے، سیاسی رہنماؤں کو جے آئی رپورٹ یا دیگر قانونی معاملات پر یکطرفہ رائے نہیں دینی چاہیے۔ قانونی پروسس کے تحت کیسز چلیں گے۔
اسی طرح بڑی پارٹیز کی قیادت کرنے والے سیاستدانوں اور حکمرانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ عدالتی معاملات کے باب میں سیاسی پلیٹ فارم پر ڈیبیٹ سے گریز کریں، اس سے سیاسی افراط و تفریط بڑھے گی، عدالتی معاملات سے ملکی امور کی انجام دہی کا جمہوری تسلسل جاری رہنا شرط ہے، فروعی باتوں سے فضا کو مکدر کرنا کسی کے فائدہ میں نہیں۔
یاد رہے عالمی شہرت یافتہ صحافی باب وڈوارڈ نے کہا تھا کہ ''میرا اس بات پر یقین ہے کہ واٹر گیٹ کیس سے صرف یہی ثابت ہوا کہ سسٹم چل رہا ہے، خاص طور پر عدلیہ، کانگریس اور ایک آزاد پراسیکیوٹر جو ایگزیکٹو برانچ میں اپنی ذمے داری پوری کر رہا ہو۔'' اس بلیغ پیرائے میں ہماری عدلیہ، سیاسی رہنماؤںٕ، حکمرانوں اور میڈیا کے لیے غورو فکر کا بیش بہا سامان پنہاں ہے۔
جمہوریت نام ہی شفافیت اور جوابدہی کا ہے، اگر احتساب پر عمومی اتفاق رائے اپوزیشن جماعتوں کا ایمان ہے تو دوسری جانب اہل اقتدار بھی اس الزام کا روادارانہ جواب دیں کہ احتساب کسی طور انتقامی کارروائی نہیں اور اپوزیشن جماعتوں کو اطمینان دلانا بھی ناگزیر ہے، مزید براں پی ٹی آئی کے نیب زدگان کا جو ذکر میڈیا میں آتا ہے اس کا ازالہ بھی اسی صورت ممکن ہے کہ احتساب کے سکے کے دونوں جانب ملزمان قانون کے پلڑے میں نمایاں نظر آنے چاہئیں۔ جبھی احتساب کی شفافیت نکھر کر سامنے آئے گی۔