افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا اور بھارت
بھارتی تبصرہ نگاروں کے مطابق امریکی فوجی انخلاء کے بعد افغانستان پھر سے خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے
KARACHI:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغانستان سے امریکی فوج نکالنے کے اعلان سے بھارت میں تشویش اور فکر مندی کا احساس پیدا ہورہا ہے کیونکہ افغان طالبان کے خلاف بھارت کا رویہ بہت سخت رہا ہے لیکن نئی صورت حال میں طالبان کی افغانستان میں حیثیت بہت اہم ہونے کی توقع ہے۔
بھارتی میڈیا میں جاری ہونے والے تبصروں میں کہا جا رہا ہے کہ امریکی فوج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں طالبان اور پاکستان کی حیثیت میں بہت اضافہ ہو جائے گا جب کہ یہ صورت حال بھارت کے لیے بہت سی مشکلات لے کر آئے گی۔
بھارت کے ایک سابق انٹیلی جنس افسر اوی ناش موہنن نے اکنامک ٹائمز میں شایع ہونے والے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ بھارت کو سب سے پہلے تو امریکا سے بات کرنی چاہیے کہ اپنی فوج کا انخلا نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی بھارت کو طالبان کے ساتھ رابطہ قائم کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ طالبان کو اپنے بارے میں مطمئن کر دیا جائے کیونکہ امریکا کے جاتے ہی صدر اشرف غنی کی حکومت فوراً ہی گر جائے گی اور اختیارات طالبان کے ہاتھ میں آ جائیں گے۔ یوں امریکی فوج کے جاتے ہی افغانستان میں بھارتی اثر ورسوخ بھی صفر کے درجے پر پہنچ جائے گا۔
واضح رہے امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ امریکا افغانستان میں موجود 14 ہزار سے زائد فوج میں سے تقریباً آدھی واپس بلانا چاہتا ہے تاہم اس صورت حال سے افغانستان کے ساتھ ساتھ پورے خطے میں اس کے اثرات پڑیں گے۔
پاکستان نے بھی اس اعلان کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ کو فوری طور پر چین، روس اور ایران کے دورے پر بھیج دیا گیا تاکہ کابل حکومت کے ساتھ اس نئی صورت حال کے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا جائے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان پہلے ہی طالبان کو امن سلسلے میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس حوالے سے یو اے ای میں طالبان نمایندے امریکی اور افغان حکومت کے نمایندوں سے براہ راست بات چیت کر رہے ہیں۔
بھارتی تبصرہ نگاروں نے یہ خطرہ بھی ظاہر کیا ہے کہ امریکی فوجی انخلاء کے بعد افغانستان پھر سے خانہ جنگی کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ تجزیہ نگاروں نے یہ بھی کہا ہے کہ طالبان کے طاقتور ہونے کا اثر ان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے علاوہ مقبوضہ کشمیر پر بھی پڑے گا جو بھارت کے لیے اچھی خبر نہیں ہو گی۔ یوں دیکھا جائے تو بھارت کے پالیسی ساز اور اس کے سیاسی ودفاعی ماہرین افغانستان میں ہونے والی نئی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، پاکستان کو بھی اس صورت حال پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے افغانستان سے امریکی فوج نکالنے کے اعلان سے بھارت میں تشویش اور فکر مندی کا احساس پیدا ہورہا ہے کیونکہ افغان طالبان کے خلاف بھارت کا رویہ بہت سخت رہا ہے لیکن نئی صورت حال میں طالبان کی افغانستان میں حیثیت بہت اہم ہونے کی توقع ہے۔
بھارتی میڈیا میں جاری ہونے والے تبصروں میں کہا جا رہا ہے کہ امریکی فوج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں طالبان اور پاکستان کی حیثیت میں بہت اضافہ ہو جائے گا جب کہ یہ صورت حال بھارت کے لیے بہت سی مشکلات لے کر آئے گی۔
بھارت کے ایک سابق انٹیلی جنس افسر اوی ناش موہنن نے اکنامک ٹائمز میں شایع ہونے والے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ بھارت کو سب سے پہلے تو امریکا سے بات کرنی چاہیے کہ اپنی فوج کا انخلا نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی بھارت کو طالبان کے ساتھ رابطہ قائم کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ طالبان کو اپنے بارے میں مطمئن کر دیا جائے کیونکہ امریکا کے جاتے ہی صدر اشرف غنی کی حکومت فوراً ہی گر جائے گی اور اختیارات طالبان کے ہاتھ میں آ جائیں گے۔ یوں امریکی فوج کے جاتے ہی افغانستان میں بھارتی اثر ورسوخ بھی صفر کے درجے پر پہنچ جائے گا۔
واضح رہے امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ امریکا افغانستان میں موجود 14 ہزار سے زائد فوج میں سے تقریباً آدھی واپس بلانا چاہتا ہے تاہم اس صورت حال سے افغانستان کے ساتھ ساتھ پورے خطے میں اس کے اثرات پڑیں گے۔
پاکستان نے بھی اس اعلان کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ کو فوری طور پر چین، روس اور ایران کے دورے پر بھیج دیا گیا تاکہ کابل حکومت کے ساتھ اس نئی صورت حال کے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا جائے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان پہلے ہی طالبان کو امن سلسلے میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس حوالے سے یو اے ای میں طالبان نمایندے امریکی اور افغان حکومت کے نمایندوں سے براہ راست بات چیت کر رہے ہیں۔
بھارتی تبصرہ نگاروں نے یہ خطرہ بھی ظاہر کیا ہے کہ امریکی فوجی انخلاء کے بعد افغانستان پھر سے خانہ جنگی کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔ تجزیہ نگاروں نے یہ بھی کہا ہے کہ طالبان کے طاقتور ہونے کا اثر ان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے علاوہ مقبوضہ کشمیر پر بھی پڑے گا جو بھارت کے لیے اچھی خبر نہیں ہو گی۔ یوں دیکھا جائے تو بھارت کے پالیسی ساز اور اس کے سیاسی ودفاعی ماہرین افغانستان میں ہونے والی نئی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، پاکستان کو بھی اس صورت حال پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔