ہمارا قبضہ مافیا
ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ ہم برائی کو روکنے کے بجائے اس کو بڑھنے دیتے ہیں
اخبارات کی خبروں سے تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے ملک کا بیشتر حصہ ''قبضہ مافیا'' کے قبضے میں ہے اور یہ قبضہ مافیا اتنا بااثر ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس کے خلاف ریاست کو کارروائی کرنے کی جرات نہیں ہوئی اور اس قبضہ مافیا کے قبضے پھلتے پھولتے گئے اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہر طرف قبضہ مافیا کا شور برپا ہے اور اس مافیا سے سرکاری املاک کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مظلوم عوام کی مقبوضہ ذاتی املاک بھی بازیاب کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ بات ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی برائی کا آغاز میں ہی تدارک کر دیا جائے یا اس کو پنپنے نہ دیا جائے تو وہ برائی آغاز میں ہی اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کا دستور نرالا ہے، ہم پہلے تو برائی کو ہوتے دیکھتے رہتے ہیں، اس کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے دیتے ہیں اور یہ جڑیں جب مضبوط ہو کر ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لیتی ہیں تو ہمیں یکایک یہ خیال آتا ہے کہ یہ تو بہت برا ہو گیا، پھر اس کے خاتمے کی کوشش شروع کر دی جاتی ہے۔
لیکن تب تک چونکہ یہ برائی اپنے پنجے انتہائی مضبوطی سے گاڑ چکی ہوتی ہے اس لیے اس کے مضبوط پنجوں سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے اور اس کے لیے ہمیں اپنی پوری طاقت صرف کرنا پڑ جاتی ہے تب جا کر کہیں یہ اپنی جگہ سے ہلتی نظر آتی ہے۔ اور وہ بھی اس صورت میںجب اس کی پشت پناہی پر کمزور لوگ ہوں تب ہی قبضے کے یہ پنجے اکھاڑے جا سکتے ہیں ورنہ ان قبضوں کی طرف میلی نظر سے دیکھنے کی بھی جرات نہیں کی جا سکتی۔
پاکستان میں قبضہ مافیا ایک ایسی طاقت بن چکی ہے جس کے قبضے میں اس ملک کے کئی بااثر لوگ ہیں جو اس مافیا کا دم بھرتے ہیں اور اس کے کاموں میں آسانیاں پیدا کرنے اور اس کو معاونت فراہم کرنے میں اپنا ذاتی اور سرکاری اثر و رسوخ بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کے لیے ملک کے بڑے مفادات کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے اور ایسے کام کر گزرتے ہیں جن کی وجہ سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے، لیکن اس ملکی نقصان پر ان کا ذاتی مفاد حاوی ہو جاتا ہے اس لیے وہ ملکی مفاد کی پروا کیے بغیر اس قبضہ مافیا کی سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں۔
ہماری نئی حکومت جو کہ اب پرانی ہوتی جا رہی ہے اس نے سپریم کورٹ کے ایک حکم کے تحت ملک بھر میں قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن کا آغاز کر رکھا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا ہے کہ قبضہ مافیا کے پنجے اس ملک میں انتہائی مضبوطی سے گڑے ہوئے ہیں اس لیے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ حکومت بھی اس مافیا کے سر پرستوں کے دباؤ میں آ کر اپنی اس مہم کو موخر کر دے گی لیکن خلاف توقع حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم پر من و عن عمل درآ مد جاری رکھا ہوا ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق حکومت کی کھربوں روپے مالیت کی اراضی قبضہ مافیا کے قبضے سے آزاد کرائی جا چکی ہے اور یہ مہم ابھی جاری ہے۔
قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی کا سب سے زیادہ فائدہ یہ ہو اہے کہ قبضہ مافیا کے قبضے سے ایسی اراضی بھی واگزار کرائی گئی ہے جو کہ کسی زمانے میںعوام کے مفاد کے لیے استعمال ہوتی تھی لیکن بعد میں قبضہ مافیا نے اس پر قبضہ کر لیا۔ ان میں کئی ایسے پارک شامل ہیں جن کا سرکاری کھاتوں میں تو وجود برقرار تھا لیکن زمینی حقائق اس سے مختلف تھے، عوامی سہولت کی ان جگہوں پر تعمیرات کر دی گئیں۔ اسی طرح کئی ایسی سڑکیں ہیںجن پر قبضہ مافیا نے قبضہ کر کے راستے بند کر دئے تھے، اب وہ راستے کھل گئے ہیں۔
حکومت کے اس آپریشن سے عوام کو نقصان بھی ہوا ہے۔ غریبوں نے اپنے روز گار کی بندش کا رونا رویا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو عوام کا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ اگر کسی سڑک پر ناجائز قابضین نے اپنی دکانداری چمکائی ہوئی ہے اور راستے تنگ ہو گئے ہیں تو ان کو اگر راستوں سے ہٹا کر سڑکیں کھلی کر دی گئی ہیں تو اس میں عوام کا ہی مفاد ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ سڑکوں کے ساتھ اور کئی مارکیٹوں کے فٹ پاتھوں پر چھوٹے چھوٹے دکاندار قبضہ مافیاکی سرپرستی میں اپنا کاروبار کر رہے تھے تو یہ کاروبار اب بند ہو چکے ہیں۔
اس کا نقصان تو عام آدمی کو ہوا ہے کہ اس کا کاروبار بند ہو گیا اور اب وہ متبادل جگہوں کی تلاش میں ہیں اور حکومت کو کوس رہے ہیں۔ لیکن جب یہ لوگ سڑکوں کے فٹ پاتھوں پر عوام کی گزرگاہوں کو بند کر رہے تھے تو ان کو کسی نے روکنے کی کوشش نہیں کی اور حالت یہ ہوگئی کہ صرف لاہور شہر میں بڑی مارکیٹوں میں پیدل چلنے والوں کے لیے بھی راستہ تلاش کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ جگہ جگہ ناجائز قابضین راستوں میںاپنی دکانیں سجائے بیٹھے تھے اور قبضہ مافیا کو وہ اس کا باقاعدہ کرایہ ادا کرتے تھے۔ گو کہ ان کی روزی کا یہ ذریعہ بند ہو گیا لیکن عوام کے راستے کھل گئے اور سڑکیں پہلے کی طرح کشادہ نظر آنے لگیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ماضی میں حکومت کا عملہ تہہ بازاری اپنے عملے کے ساتھ سڑک کنارے لگائی گئی ریڑھیوں کو سامان سمیت اٹھا کر ساتھ لے جاتا تھا جس پر بہت واویلا مچتا لیکن اسی عملے کی ملی بھگت سے دوسرے دن وہ ریڑھی بان پھر وہیں اپنی پرانی جگہ پر اپنا کاروبار جمائے نظر آتا۔
ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ ہم برائی کو روکنے کے بجائے اس کو بڑھنے دیتے ہیں اور پھر جب یہ ناسور بن جاتی ہے تو ا س کے خاتمے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ ایسے کئی ناجائز قابضین ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور کسی کی مجال نہی کہ ان کے خلاف کارروائی کر سکے۔ یہ اتنے بااثر ہیں کہ ہمارے ریٹائر ہونے والے سینئر لوگ اس قبضہ مافیا کی ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے وسائل کو استعمال کر کے ان کے مزید قبضوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔
حکومت نے سرکاری اراضی کی واگزاری کی جو مہم شروع کر رکھی ہے خدا کرے وہ کامیاب رہے اور ملک کو بااثر ترین قبضہ مافیا سے بھی آزاد کرائے جس نے گزشہ کئی دہائیوں اس ملک اور ریاست کے سسٹم کو یرغمال بنا رکھا ہے، اور اپنے عملے کو اس قبضہ مافیا کے ساتھ ملی بھگت سے دور رکھے ورنہ یہ بااثر مافیا حکومت کے سسٹم کو درہم برہم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
یہ بات ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی برائی کا آغاز میں ہی تدارک کر دیا جائے یا اس کو پنپنے نہ دیا جائے تو وہ برائی آغاز میں ہی اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کا دستور نرالا ہے، ہم پہلے تو برائی کو ہوتے دیکھتے رہتے ہیں، اس کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے دیتے ہیں اور یہ جڑیں جب مضبوط ہو کر ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لیتی ہیں تو ہمیں یکایک یہ خیال آتا ہے کہ یہ تو بہت برا ہو گیا، پھر اس کے خاتمے کی کوشش شروع کر دی جاتی ہے۔
لیکن تب تک چونکہ یہ برائی اپنے پنجے انتہائی مضبوطی سے گاڑ چکی ہوتی ہے اس لیے اس کے مضبوط پنجوں سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے اور اس کے لیے ہمیں اپنی پوری طاقت صرف کرنا پڑ جاتی ہے تب جا کر کہیں یہ اپنی جگہ سے ہلتی نظر آتی ہے۔ اور وہ بھی اس صورت میںجب اس کی پشت پناہی پر کمزور لوگ ہوں تب ہی قبضے کے یہ پنجے اکھاڑے جا سکتے ہیں ورنہ ان قبضوں کی طرف میلی نظر سے دیکھنے کی بھی جرات نہیں کی جا سکتی۔
پاکستان میں قبضہ مافیا ایک ایسی طاقت بن چکی ہے جس کے قبضے میں اس ملک کے کئی بااثر لوگ ہیں جو اس مافیا کا دم بھرتے ہیں اور اس کے کاموں میں آسانیاں پیدا کرنے اور اس کو معاونت فراہم کرنے میں اپنا ذاتی اور سرکاری اثر و رسوخ بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کے لیے ملک کے بڑے مفادات کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے اور ایسے کام کر گزرتے ہیں جن کی وجہ سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے، لیکن اس ملکی نقصان پر ان کا ذاتی مفاد حاوی ہو جاتا ہے اس لیے وہ ملکی مفاد کی پروا کیے بغیر اس قبضہ مافیا کی سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں۔
ہماری نئی حکومت جو کہ اب پرانی ہوتی جا رہی ہے اس نے سپریم کورٹ کے ایک حکم کے تحت ملک بھر میں قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن کا آغاز کر رکھا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا ہے کہ قبضہ مافیا کے پنجے اس ملک میں انتہائی مضبوطی سے گڑے ہوئے ہیں اس لیے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ حکومت بھی اس مافیا کے سر پرستوں کے دباؤ میں آ کر اپنی اس مہم کو موخر کر دے گی لیکن خلاف توقع حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم پر من و عن عمل درآ مد جاری رکھا ہوا ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق حکومت کی کھربوں روپے مالیت کی اراضی قبضہ مافیا کے قبضے سے آزاد کرائی جا چکی ہے اور یہ مہم ابھی جاری ہے۔
قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی کا سب سے زیادہ فائدہ یہ ہو اہے کہ قبضہ مافیا کے قبضے سے ایسی اراضی بھی واگزار کرائی گئی ہے جو کہ کسی زمانے میںعوام کے مفاد کے لیے استعمال ہوتی تھی لیکن بعد میں قبضہ مافیا نے اس پر قبضہ کر لیا۔ ان میں کئی ایسے پارک شامل ہیں جن کا سرکاری کھاتوں میں تو وجود برقرار تھا لیکن زمینی حقائق اس سے مختلف تھے، عوامی سہولت کی ان جگہوں پر تعمیرات کر دی گئیں۔ اسی طرح کئی ایسی سڑکیں ہیںجن پر قبضہ مافیا نے قبضہ کر کے راستے بند کر دئے تھے، اب وہ راستے کھل گئے ہیں۔
حکومت کے اس آپریشن سے عوام کو نقصان بھی ہوا ہے۔ غریبوں نے اپنے روز گار کی بندش کا رونا رویا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو عوام کا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ اگر کسی سڑک پر ناجائز قابضین نے اپنی دکانداری چمکائی ہوئی ہے اور راستے تنگ ہو گئے ہیں تو ان کو اگر راستوں سے ہٹا کر سڑکیں کھلی کر دی گئی ہیں تو اس میں عوام کا ہی مفاد ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ سڑکوں کے ساتھ اور کئی مارکیٹوں کے فٹ پاتھوں پر چھوٹے چھوٹے دکاندار قبضہ مافیاکی سرپرستی میں اپنا کاروبار کر رہے تھے تو یہ کاروبار اب بند ہو چکے ہیں۔
اس کا نقصان تو عام آدمی کو ہوا ہے کہ اس کا کاروبار بند ہو گیا اور اب وہ متبادل جگہوں کی تلاش میں ہیں اور حکومت کو کوس رہے ہیں۔ لیکن جب یہ لوگ سڑکوں کے فٹ پاتھوں پر عوام کی گزرگاہوں کو بند کر رہے تھے تو ان کو کسی نے روکنے کی کوشش نہیں کی اور حالت یہ ہوگئی کہ صرف لاہور شہر میں بڑی مارکیٹوں میں پیدل چلنے والوں کے لیے بھی راستہ تلاش کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ جگہ جگہ ناجائز قابضین راستوں میںاپنی دکانیں سجائے بیٹھے تھے اور قبضہ مافیا کو وہ اس کا باقاعدہ کرایہ ادا کرتے تھے۔ گو کہ ان کی روزی کا یہ ذریعہ بند ہو گیا لیکن عوام کے راستے کھل گئے اور سڑکیں پہلے کی طرح کشادہ نظر آنے لگیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ماضی میں حکومت کا عملہ تہہ بازاری اپنے عملے کے ساتھ سڑک کنارے لگائی گئی ریڑھیوں کو سامان سمیت اٹھا کر ساتھ لے جاتا تھا جس پر بہت واویلا مچتا لیکن اسی عملے کی ملی بھگت سے دوسرے دن وہ ریڑھی بان پھر وہیں اپنی پرانی جگہ پر اپنا کاروبار جمائے نظر آتا۔
ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ ہم برائی کو روکنے کے بجائے اس کو بڑھنے دیتے ہیں اور پھر جب یہ ناسور بن جاتی ہے تو ا س کے خاتمے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ ایسے کئی ناجائز قابضین ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور کسی کی مجال نہی کہ ان کے خلاف کارروائی کر سکے۔ یہ اتنے بااثر ہیں کہ ہمارے ریٹائر ہونے والے سینئر لوگ اس قبضہ مافیا کی ملازمت کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے وسائل کو استعمال کر کے ان کے مزید قبضوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔
حکومت نے سرکاری اراضی کی واگزاری کی جو مہم شروع کر رکھی ہے خدا کرے وہ کامیاب رہے اور ملک کو بااثر ترین قبضہ مافیا سے بھی آزاد کرائے جس نے گزشہ کئی دہائیوں اس ملک اور ریاست کے سسٹم کو یرغمال بنا رکھا ہے، اور اپنے عملے کو اس قبضہ مافیا کے ساتھ ملی بھگت سے دور رکھے ورنہ یہ بااثر مافیا حکومت کے سسٹم کو درہم برہم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔