نصیرالدین شاہ پر جو گزری
نصیر الدین شاہ کا عمران خان کو دیا گیا جواب اگرچہ سخت ہے مگر ایک بھارتی مسلمان ہونے کی وجہ سے یہ ان کی مجبوری ہے
بھارت کی فلمی صنعت آج سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ یہ ہالی وڈ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی صنعت بن چکی ہے۔ ہالی وڈ کی طرح بالی وڈ کی فلمیں پوری دنیا میں ریلیز ہوتی ہیں اور چند ہی دنوں میں لاکھوں ڈالر کما لیتی ہیں۔ واضح ہو کہ اس ترقی میں مسلم اداکاروں کا کلیدی کردار ہے۔
چین جیسے ملک میں عامر خان، شاہ رخ خان اور سلمان خان چینی اداکاروں سے زیادہ مقبول ہیں۔ ان اداکاروں کے علاوہ بھی کئی مسلم اداکار اور اداکارائیں، ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور موسیقار بھی بھارتی فلمی صنعت کی ترقی میں پیش پیش ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ جن خطرناک حالات میں وہاں اپنی زندگی گزار رہے ہیں وہ ان ہی کی ہمت ہے۔
کچھ عرصہ قبل نامور اداکار اور کئی کامیاب ترین فلموں کے پروڈیوسر عامر خان اور ان کی بیوی کرن راؤ نے حکومتی سرپرستی میں اقلیتوں کے خلاف چلنے والی منظم غنڈہ گردی اور دہشت گردی کے بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب بھارت اقلیتوں کے رہنے کی جگہ نہیں رہا ہے۔ ان کے اس ریمارکس پر بی جے پی کی جانب سے انھیں فوراً دیش کے دشمن کا خطاب دے دیا گیا تھا اور بھارت چھوڑ کر پاکستان میں آباد ہونے کا دھمکی آمیز مشورہ دیا گیا تھا۔
بھارت کے ایک مرحوم دانشور کلدیپ نیر جنھیں بھارت سے زیادہ پاکستان میں لبرل اور ایک سچا سیکولر سمجھا جاتا ہے کا بھی اندرکا ہندو جاگ اٹھا تھا وہ عامر خان کے پیچھے پڑگئے تھے اور انھیں اپنے بیان کو واپس لینے پر مجبورکردیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل سلمان خان کو ایک کالے ہرن کا شکار کرنے کی پاداش میں کئی سال کی سزا سنائی گئی تھی وہ تو خیر ہوگئی کہ انھیں اس جرم میں موت کی سزا نہیں ہوئی ورنہ کئی انتہا پسند ہندو جماعتیں انھیں موت کی سزا دینے کا بھرپور مطالبہ کر رہی تھیں۔
شاہ رخ خان کو ممبئی کی مشہور دہشت گرد تنظیم شیو سینا نے مسلسل تنگ کر رکھا ہے وہ ان کی جان بخشی کے عوض ان سے بھاری بھرکم بھتہ وصول کرتی رہتی ہے۔ مرحوم اوم پوری نے ایک دفعہ پاکستان کی تعریف کردی تھی ہندو غنڈوں کے علاوہ بھارتی میڈیا بھی ان کے پیچھے پڑ گیا تھا۔
بھارتی میڈیا تو ایک عرصے تک ان کے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہا تھا۔ مگر وہ ایک غیر متعصب اور جی دار شخص تھے وہ ذرا نہیں پیچھے ہٹے تھے نہ انھوں نے اپنے الفاظ واپس لیے تھے اور نہ ہی معافی مانگی تھی۔ اس وقت انوپم کھیر بی جے پی کا سب سے بڑا سپورٹر بنا ہوا ہے وہ نسلاً کشمیری پنڈتوں میں سے ہے۔ وہ کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کے خلاف بھی بیانات داغتا رہتا ہے اور مسلمان اداکاروں کے خلاف بھی بیان بازی کرتا رہتا ہے۔ اس کی بیوی نریندر مودی کی خاص چیلی ہے۔
تاہم یہ بات ماننا پڑے گی کہ بھارتی فلم انڈسٹری میں اکثریت لبرل لوگوں کی ہے وہ فرقہ واریت سے دور ہیں اور اسی لیے وہ پاکستانی فنکاروں کو بھی اپنی فلموں میں کام دے دیتے ہیں۔ حال ہی میں عالمی شہرت یافتہ اداکار اور دانشور نصیرالدین شاہ نے بی جے پی کے دور میں ہونے والی غنڈہ گردی اور زیادتیوں پر ایک بیان دے کر خود کو مصیبت میں پھنسا لیا ہے۔ ویسے تو وہ ایک بھارتی شہری ہیں اور ایک ہندوستانی ہونے کے ناتے ان کا بنیادی حق ہے کہ وہ حالات پر لب کشائی کرسکیں اور اپنی تشویش کا اظہار کرسکیں۔
انھوں نے اترپردیش میں ایک پرتشدد ہندو غنڈوں کے ہجوم کے ہاتھوں ایک پولیس انسپکٹر کی ہلاکت پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج کل بھارت میں ایسے حالات ہوگئے ہیں کہ یہاں ایک انسان کے مقابلے میں گائے کی موت کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اب اس شیطانی جن کو واپس بوتل میں بند کرنا بہت مشکل ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں اپنے بیٹوں عماد اور امان کی فکر ہے کیونکہ انھوں نے اپنے بچوں کو کسی خاص مذہب کی تعلیم نہیں دی۔
اگر کل کوئی بھیڑ انھیں آگھیر لیتی ہے تو وہ کیا بتائیں گے کہ وہ کون ہیں؟ انھوں نے مزید کہا کہ انھیں اس پر خوف نہیں بلکہ غصہ آتا ہے، بدقسمتی سے نصیرالدین کے اس بیان کو انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ کچھ پڑھے لکھے ہندوؤں کو بھی برا لگا اور انھوں نے سوشل میڈیا پر نصیرالدین شاہ کو پاکستان کا ٹکٹ کٹوانے کے مشورے کے ساتھ انھیں غدار کا خطاب بھی دے دیا لیکن نصیرالدین شاہ نے گھبرانے کے بجائے ٹیوٹر پر ان متعصبانہ بیانات کا منہ توڑ جواب دیا۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت ہمارا وطن ہے اور کسی کی ہمت نہیں کہ وہ ہمیں یہاں سے نکال سکے۔
اترپردیش کے بی جے پی کے سربراہ مہیندرا پانڈے نے نصیرالدین کی 1999 میں ریلیز ہونے والی فلم سرفروش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ نصیرالدین نے اپنی ایک فلم میں پاکستانی ایجنٹ کا کردار ادا کیا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ انھیں اب اپنے اس کردار کو آگے بڑھانا چاہیے۔ ایک پروفیسر راکیش سہنا نے ٹوئٹ کرکے کہا ہے کہ نصیرالدین نے بھارت کو بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ ان کے لیے بھارت سے زیادہ جو محفوظ ملک ہے وہ وہاں کیوں نہیں چلے جاتے۔ بھارت کے 80 فیصد ہندوؤں نے ان کے دھرم کو نہیں دیکھا اور انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ انھوں نے خوب دل بھر کے کمایا ہے اب اسی دیش کو بد نام کرنے پر تل گئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نصیرالدین کے بیان پر پورے ہی بھارت میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے۔ چاروں طرف سے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ رام دیو جو نریندر مودی کے دور میں ایک سادھو سے ارب پتی کاروباری بن چکا ہے اس نے تو نصیرالدین کے خلاف محاذ کھڑا کردیا ہے۔ اس کا سخت بیان اخباروں میں چھپ چکا ہے کہ نصیرالدین نے بھارت کے وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے انھیں اپنے بیان پر معافی مانگنا چاہیے یا پھر پاکستان چلے جانا چاہیے۔
نصیرالدین شاہ صرف اداکار ہی نہیں مصنف بھی ہیں۔ گزشتہ دنوں انھیں اجمیر میں منعقدہ کلچرل فیسٹیول میں شرکت کرنا تھی اور اپنی کتاب کی تقریب میں بھی حصہ لینا تھا مگر ان کے خلاف جاری متعصبانہ فضا میں ان کا اجمیر جانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ فیسٹیول کے شروع ہوتے ہی بی جے پی اور دوسری انتہا پسند تنظیموں کے غنڈوں نے ان کے خلاف نعرے بازی شروع کردی تھی اور ان کی تصاویر کو نذر آتش کردیا تھا جس پر وہاں کی انتظامیہ نے نصیرالدین کو فیسٹیول میں شرکت نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا مگر انھوں نے اس مشورے کو نظرانداز کرکے فیسٹیول میں حصہ لیا اور اپنی تقریر بھی کی۔
نصیرالدین ہی کیا اس وقت کسی بھی مسلمان رہنما کے بھارتی دہشت گردی کے خلاف زبان کھولنے پر وہاں کے بی جے پی کے رہنماؤں کی جانب سے تابڑ توڑ متعصبانہ بیانات آنا شروع ہوجاتے ہیں اور انھیں بے عزت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ نصیرالدین شاہ کے واقعے سے متاثر ہوکر وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ قائد اعظم نے جو کہا تھا وہ آج بھارت میں بالکل سچ ثابت ہو رہا ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ دوسرے نمبر کے شہریوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ قائد اعظم کانگریس سے اس لیے علیحدہ ہوگئے تھے کیونکہ ان کو احساس ہوگیا تھا کہ کانگریس جو ہندوستان مانگ رہی ہے اس میں مسلمانوں کو برابری کے حقوق نہیں ملیں گے۔ نصیرالدین شاہ نے عمران خان کے بیان پر کہا ہے کہ خان صاحب اپنے ملک کی فکر کریں۔ بھارت میں جمہوریت ہے ہم اپنے مسائل خود حل کرلیں گے۔
نصیرالدین شاہ کا عمران خان کو دیا گیا جواب اگرچہ سخت ہے مگر ایک بھارتی مسلمان ہونے کی وجہ سے یہ ان کی مجبوری ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں تمام ہی اقلیتیں ہندو غنڈوں کے رحم و کرم پر ہیں جنھوں نے ان کا جینا حرام کر دیا ہے مگر اس کے باوجود اقوام متحدہ اور سپر پاور امریکا اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کے خلاف بھارت پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتے البتہ پاکستان کو ضرور نشانہ بنایا جاتا ہے۔
چین جیسے ملک میں عامر خان، شاہ رخ خان اور سلمان خان چینی اداکاروں سے زیادہ مقبول ہیں۔ ان اداکاروں کے علاوہ بھی کئی مسلم اداکار اور اداکارائیں، ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور موسیقار بھی بھارتی فلمی صنعت کی ترقی میں پیش پیش ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ جن خطرناک حالات میں وہاں اپنی زندگی گزار رہے ہیں وہ ان ہی کی ہمت ہے۔
کچھ عرصہ قبل نامور اداکار اور کئی کامیاب ترین فلموں کے پروڈیوسر عامر خان اور ان کی بیوی کرن راؤ نے حکومتی سرپرستی میں اقلیتوں کے خلاف چلنے والی منظم غنڈہ گردی اور دہشت گردی کے بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب بھارت اقلیتوں کے رہنے کی جگہ نہیں رہا ہے۔ ان کے اس ریمارکس پر بی جے پی کی جانب سے انھیں فوراً دیش کے دشمن کا خطاب دے دیا گیا تھا اور بھارت چھوڑ کر پاکستان میں آباد ہونے کا دھمکی آمیز مشورہ دیا گیا تھا۔
بھارت کے ایک مرحوم دانشور کلدیپ نیر جنھیں بھارت سے زیادہ پاکستان میں لبرل اور ایک سچا سیکولر سمجھا جاتا ہے کا بھی اندرکا ہندو جاگ اٹھا تھا وہ عامر خان کے پیچھے پڑگئے تھے اور انھیں اپنے بیان کو واپس لینے پر مجبورکردیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل سلمان خان کو ایک کالے ہرن کا شکار کرنے کی پاداش میں کئی سال کی سزا سنائی گئی تھی وہ تو خیر ہوگئی کہ انھیں اس جرم میں موت کی سزا نہیں ہوئی ورنہ کئی انتہا پسند ہندو جماعتیں انھیں موت کی سزا دینے کا بھرپور مطالبہ کر رہی تھیں۔
شاہ رخ خان کو ممبئی کی مشہور دہشت گرد تنظیم شیو سینا نے مسلسل تنگ کر رکھا ہے وہ ان کی جان بخشی کے عوض ان سے بھاری بھرکم بھتہ وصول کرتی رہتی ہے۔ مرحوم اوم پوری نے ایک دفعہ پاکستان کی تعریف کردی تھی ہندو غنڈوں کے علاوہ بھارتی میڈیا بھی ان کے پیچھے پڑ گیا تھا۔
بھارتی میڈیا تو ایک عرصے تک ان کے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہا تھا۔ مگر وہ ایک غیر متعصب اور جی دار شخص تھے وہ ذرا نہیں پیچھے ہٹے تھے نہ انھوں نے اپنے الفاظ واپس لیے تھے اور نہ ہی معافی مانگی تھی۔ اس وقت انوپم کھیر بی جے پی کا سب سے بڑا سپورٹر بنا ہوا ہے وہ نسلاً کشمیری پنڈتوں میں سے ہے۔ وہ کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کے خلاف بھی بیانات داغتا رہتا ہے اور مسلمان اداکاروں کے خلاف بھی بیان بازی کرتا رہتا ہے۔ اس کی بیوی نریندر مودی کی خاص چیلی ہے۔
تاہم یہ بات ماننا پڑے گی کہ بھارتی فلم انڈسٹری میں اکثریت لبرل لوگوں کی ہے وہ فرقہ واریت سے دور ہیں اور اسی لیے وہ پاکستانی فنکاروں کو بھی اپنی فلموں میں کام دے دیتے ہیں۔ حال ہی میں عالمی شہرت یافتہ اداکار اور دانشور نصیرالدین شاہ نے بی جے پی کے دور میں ہونے والی غنڈہ گردی اور زیادتیوں پر ایک بیان دے کر خود کو مصیبت میں پھنسا لیا ہے۔ ویسے تو وہ ایک بھارتی شہری ہیں اور ایک ہندوستانی ہونے کے ناتے ان کا بنیادی حق ہے کہ وہ حالات پر لب کشائی کرسکیں اور اپنی تشویش کا اظہار کرسکیں۔
انھوں نے اترپردیش میں ایک پرتشدد ہندو غنڈوں کے ہجوم کے ہاتھوں ایک پولیس انسپکٹر کی ہلاکت پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج کل بھارت میں ایسے حالات ہوگئے ہیں کہ یہاں ایک انسان کے مقابلے میں گائے کی موت کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اب اس شیطانی جن کو واپس بوتل میں بند کرنا بہت مشکل ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں اپنے بیٹوں عماد اور امان کی فکر ہے کیونکہ انھوں نے اپنے بچوں کو کسی خاص مذہب کی تعلیم نہیں دی۔
اگر کل کوئی بھیڑ انھیں آگھیر لیتی ہے تو وہ کیا بتائیں گے کہ وہ کون ہیں؟ انھوں نے مزید کہا کہ انھیں اس پر خوف نہیں بلکہ غصہ آتا ہے، بدقسمتی سے نصیرالدین کے اس بیان کو انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ کچھ پڑھے لکھے ہندوؤں کو بھی برا لگا اور انھوں نے سوشل میڈیا پر نصیرالدین شاہ کو پاکستان کا ٹکٹ کٹوانے کے مشورے کے ساتھ انھیں غدار کا خطاب بھی دے دیا لیکن نصیرالدین شاہ نے گھبرانے کے بجائے ٹیوٹر پر ان متعصبانہ بیانات کا منہ توڑ جواب دیا۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت ہمارا وطن ہے اور کسی کی ہمت نہیں کہ وہ ہمیں یہاں سے نکال سکے۔
اترپردیش کے بی جے پی کے سربراہ مہیندرا پانڈے نے نصیرالدین کی 1999 میں ریلیز ہونے والی فلم سرفروش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ نصیرالدین نے اپنی ایک فلم میں پاکستانی ایجنٹ کا کردار ادا کیا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ انھیں اب اپنے اس کردار کو آگے بڑھانا چاہیے۔ ایک پروفیسر راکیش سہنا نے ٹوئٹ کرکے کہا ہے کہ نصیرالدین نے بھارت کو بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ ان کے لیے بھارت سے زیادہ جو محفوظ ملک ہے وہ وہاں کیوں نہیں چلے جاتے۔ بھارت کے 80 فیصد ہندوؤں نے ان کے دھرم کو نہیں دیکھا اور انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ انھوں نے خوب دل بھر کے کمایا ہے اب اسی دیش کو بد نام کرنے پر تل گئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نصیرالدین کے بیان پر پورے ہی بھارت میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے۔ چاروں طرف سے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ رام دیو جو نریندر مودی کے دور میں ایک سادھو سے ارب پتی کاروباری بن چکا ہے اس نے تو نصیرالدین کے خلاف محاذ کھڑا کردیا ہے۔ اس کا سخت بیان اخباروں میں چھپ چکا ہے کہ نصیرالدین نے بھارت کے وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے انھیں اپنے بیان پر معافی مانگنا چاہیے یا پھر پاکستان چلے جانا چاہیے۔
نصیرالدین شاہ صرف اداکار ہی نہیں مصنف بھی ہیں۔ گزشتہ دنوں انھیں اجمیر میں منعقدہ کلچرل فیسٹیول میں شرکت کرنا تھی اور اپنی کتاب کی تقریب میں بھی حصہ لینا تھا مگر ان کے خلاف جاری متعصبانہ فضا میں ان کا اجمیر جانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ فیسٹیول کے شروع ہوتے ہی بی جے پی اور دوسری انتہا پسند تنظیموں کے غنڈوں نے ان کے خلاف نعرے بازی شروع کردی تھی اور ان کی تصاویر کو نذر آتش کردیا تھا جس پر وہاں کی انتظامیہ نے نصیرالدین کو فیسٹیول میں شرکت نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا مگر انھوں نے اس مشورے کو نظرانداز کرکے فیسٹیول میں حصہ لیا اور اپنی تقریر بھی کی۔
نصیرالدین ہی کیا اس وقت کسی بھی مسلمان رہنما کے بھارتی دہشت گردی کے خلاف زبان کھولنے پر وہاں کے بی جے پی کے رہنماؤں کی جانب سے تابڑ توڑ متعصبانہ بیانات آنا شروع ہوجاتے ہیں اور انھیں بے عزت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ نصیرالدین شاہ کے واقعے سے متاثر ہوکر وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ قائد اعظم نے جو کہا تھا وہ آج بھارت میں بالکل سچ ثابت ہو رہا ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ دوسرے نمبر کے شہریوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ قائد اعظم کانگریس سے اس لیے علیحدہ ہوگئے تھے کیونکہ ان کو احساس ہوگیا تھا کہ کانگریس جو ہندوستان مانگ رہی ہے اس میں مسلمانوں کو برابری کے حقوق نہیں ملیں گے۔ نصیرالدین شاہ نے عمران خان کے بیان پر کہا ہے کہ خان صاحب اپنے ملک کی فکر کریں۔ بھارت میں جمہوریت ہے ہم اپنے مسائل خود حل کرلیں گے۔
نصیرالدین شاہ کا عمران خان کو دیا گیا جواب اگرچہ سخت ہے مگر ایک بھارتی مسلمان ہونے کی وجہ سے یہ ان کی مجبوری ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں تمام ہی اقلیتیں ہندو غنڈوں کے رحم و کرم پر ہیں جنھوں نے ان کا جینا حرام کر دیا ہے مگر اس کے باوجود اقوام متحدہ اور سپر پاور امریکا اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کے خلاف بھارت پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتے البتہ پاکستان کو ضرور نشانہ بنایا جاتا ہے۔