سالِ گزشتہ اور سالِ نو
کاش ہم اس حقیقت پر ایمان لے آئیں کہ ہم سب کے سب حالت جنگ میں ہیں اور جنگ میں زخم کھائے جاتے ہیں دوائیاں نہیں
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ سال گزرنے کے بعد ماحول میں اداسی چھائی رہتی ہے۔ یہ اداسی حساس دلوں میں موجود ہوتی ہے۔ سال کی کہانی کسی کی ڈائری اورکسی کے سینے میں محفوظ رہتی ہے اور اس سے کون انکارکرسکتا ہے کہ لمحے ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں۔ ہر لمحہ اپنے دامن میں ماضی کے تجربے اور مستقبل کے امکانات محفوظ رکھتا ہے۔ یہی زندگی ہے، جس کے ثبوت کے لیے تجسس، فکر، عمل اور نیرنگیاں ضروری ہے۔
2018 کا سال بھی بھوک ، بیماری ، پریشانی ، فکر، جرم وتشدد ،کرپشن، لوٹ مار، دہشت گردی، جہالت اور افلاس کی اسیری سے رہائی کا پیغام نہ دے سکا ۔ اچھے دنوں کی نوید سننے اور ان کے خواب دیکھتے ہوئے اور مثبت خیالات چشم تصور میں لاتے لاتے سال کل تمام ہوجائے گا لیکن اطمینان، خوشحالی، فکر فردا سے نجات اور تنگ دستی سے چھٹکارہ، اہل پاکستان کو اس برس بھی حاصل نہ ہوسکا۔ یوں لگتا ہے کہ خوابوں کے جگنو شاید مٹھی میں بند ہوگئے ہیں اور یہ مٹھی کون سا ہم سب کے بس میں نہیں رہا۔ ہر گزرتے سال کے اختتام پر امید یہی ہوتی ہے کہ سال نو کا سورج خوشیوں کا پیغام لے کر طلوع ہوگا لیکن سال کے اختتام پر جب یہ غریب ہوتا ہے تو اس وقت تک کروڑوں لوگوں کا مستقبل بھی غروب ہوچکا ہوتا ہے۔
یوں ہر سال کی طرح امسال بھی وہ بے بسی، بے کسی یا لاچارگی کی زندگی گزارتے، جلتے کڑھتے رہیں گے۔ لیکن کوئی کچھ نہیں کرسکے گا۔ اپنے ہی جینے کا حق بار بار مانگنا پڑے گا، بہانوں سے یا گڑگڑا کر بتانا پڑے گا کہ کچھ سانسوں پر ہمارا بھی حق ہے۔ مگر لگتا ہے گزرے برسوں کی طرح اس نئے برس بھی کوئی شنوائی نہیں ہوگی۔ بہرکیف کل 2018 کا سال ماضی کا حصہ ہمیشہ کے لیے بن جائے گا کہ حال کے مقدر میں ماضی ہی لکھا ہوتا ہے، لیکن 2018 جاتے جاتے ہمیں صاف لفظوں میں یہ بتاتا جا رہا ہے کہ ہمیں یا ہماری قوم کو اپنا راستہ خود تراشنا ہوگا۔ یہ راستہ وہاں تک تعمیرکرنا ہوگا جہاں تک تاریخ کی وہ مظلوم منزل ہے جو صدیوں سے انتظارکی صورت بن کر اپنے مسافروں کی منتظر ہے۔اس دن کے سورج کا ہمیں انتظار ہے جب وہ طلوع ہوگا تو انسانی عظمت کے جذبات کی فصلیں پک چکی ہوں گی، وہ سورج اخلاقی، مادی اور روحانی سربلندی کے پھلوں میں حد درجہ شیرینی بھردے گا، جب عدل وانصاف کے دریا بڑی سبک رفتاری سے بہہ رہے ہوں گے، جب محبت اور اخوت کے گیتوں سے ماحول نغمہ بار ہوگا۔
وطن عزیز تو اگر 2018 کے تناظر میں جانچا جائے یا اس کا سرسری سا جائزہ لیا جائے تو یہ بات فوراً سامنے آجائے گی کہ ملک میں تبدیلی جس قسم کی اور جس طرح کی لائی گئی اس سے تو اچھا تھا یہ تبدیلی لائی ہی نہ جاتی ۔کیونکہ عوام الناس اور پاکستان کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوسکی ۔ ملک کے مسائل جوں کے توں نہ رہے بلکہ ان میں حد درجہ اضافہ ہوا معاشی بحران منہ پھاڑے نگلنے پرکمربستہ نظر آرہے ہیں۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ سے کشیدہ چلے آرہے ہیں، دہشت گردی اور انتہاپسندی کا مسئلہ بھی جوں کا توں رہا، اس کا تدارک یا سدباب دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں ۔
سول ملٹری تعلقات جیسے تھے ویسے رہے، انصاف، انصاف کے حصول میں رلتا رہا، پاکستان کا عالمی امیج جیسا تھا ویسا ہی رہا اور یہ سب کچھ سال نو یعنی 2019 میں بھی رہے گا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان اہم ترین حوالوں سے کوئی تبدیلی نہیں آئی جس طرح نون لیگ اور پیپلز پارٹی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے قبضے میں تھیں، اسی طرح آج تحریک انصاف بھی انھی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے قبضے میں آگئی ہے۔ جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، خسرو بختیار وغیرہ کل دوسری پارٹیوں کے جھنڈے تلے حکمران تھے اور اب پی ٹی آئی کے زیر سایہ ''مزید'' پھلیں پھولیں گے۔ جتنا اختیار سابقہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے پاس تھا اتنا ہی اختیار موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے پاس بھی رہے گا، جتنی سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کی چلتی تھی اتنی خان صاحب بھی چلائیں گے، خارجہ پالیسی میں جو اختیار میاں نواز شریف کے وزیر خارجہ کو حاصل تھا اتنا ہی اختیار عمران خان کے وزیر خارجہ کو بھی حاصل رہے گا۔
ملک میں معیشت اور توانائی کا بحران کس قدر سنگین ہے اس کا اندازہ ہر بشرکو ہے۔ اسی بحران کی وجہ سے ہر سال 5 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے، چھوٹے بڑے کارخانے بند ہوتے جا رہے ہیں اور سرمایہ دار صنعتوں کو ملک سے باہر لے جا رہے ہیں۔ سوئی گیس کا بحران حدوں کو چھونے لگا ہے اورگیس کی کمیابی کے سبب بجلی کا بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔
ڈیم بنانے کے لیے عوام سے پیسے لینے تک ہی موقوف نہیں ،ان پر اس مد میں نئے ٹیکس لگا کر رقم جمع کرنے کا اعلان ہوچکا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے وطن عزیز سے کمایا، مال بنایا دوسرے ممالک میں اس مال کو پہنچایا۔ سب کا سب عوام اور ارباب اختیار کے علم میں ہے لیکن ڈیم کے پیسے ان سے گریبان پکڑ کر نہیں لیے جا رہے اور نہ ہی ان کا شفاف اور بے لاگ احتساب ہوتا دور دور تک دکھائی دے رہا ہے، ہر قسم کی وردی والوں پر جرم ثبت ہونے پر بھی انھیں استثنیٰ حاصل ہے۔ سال گزشتہ کی طرح یہ دوہائی بھی ہم سال نو میں بھی دیتے رہیں گے، لیکن آوازیں بیٹھ جائیں گی لیکن عوام کے حق حقوق انھیں کوئی نہ دے پائے گا۔ تجاوزات مہم میں جن کی روزی چھینی گئی انھیں شاید ہی کوئی روزی دوبارہ دے پائے۔
کون نہیں جانتا کہ اللہ کے فضل سے یہ ملک باصلاحیت افراد کی قوت اور بیش بہا قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، لیکن پائیدار اور مسلسل معاشی ترقی کے لیے محض وقتی اقدامات کافی نہیں ہوتے، اس کے لیے ملک میں سیاسی استحکام، منتخب حکومتوں کوکسی خلفشار اور افراتفری کے بغیرکام کرنے کے مواقعے اور ماحول کی فراہمی قومی وسائل کو لوٹ کھسوٹ سے بچانے اور ہر شہری کو فوری اور مفت انصاف مہیا کرنے کی خاطر تمام اداروں اور شعبہ ہائے زندگی کے وابستگان کے یکساں، شفاف، غیر جانبدار اور بے لاگ احتساب کے مستقل اور خودکار نظام کا فعال رہنا اور افرادی قوت کی قومی ضروریات کے مطابق تعلیم و تربیت کے لیے پوری قوم کے لیے یکساں نظام تعلیم کا روبہ عمل لایا جانا اور ہر شعبے اور ہر سطح پر میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنانا بھی ناگزیر ہے۔
کاش ہم اس حقیقت پر ایمان لے آئیں کہ ہم سب کے سب حالت جنگ میں ہیں اور حالت جنگ میں زخم کھائے جاتے ہیں دوائیاں نہیں۔ ہمارے ارباب اختیارکو اس بات سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے کہ جو رویے دوسروں کے لیے بے چینی اور بے سکونی کا باعث بن جائیں ان پر نظرثانی ضروری ہوتی ہے۔ ہماری دانست میں انھیں اس نقطے پر غورکرکے خود کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔