بھانجے نے پڑھائی کے لئے پیٹنے پر ماموں کو قتل کر ڈالا
مقتول غلام قادر، احمد کا مستقبل سنوارنے کے لئے اسے اپنے گھر لایا تھا
ANKARA:
بعض اوقا ت اچھا اقدام بھی انسان کے گلے کا پھندا بن جاتا ہے، ایسا ہی کچھ گجرات کے ایک گاؤں میں ہوا، جہاں ماموں کو بھانجے کے ساتھ نیکی کرنا مہنگی پڑ گیا اور بھانجے نے ماموں کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
نواحی گاؤں عادوال میں 26 اور 27 ستمبر 2018ء کی درمیانی شب 31 سالہ غلام قادر نامی شخص کے قتل کی واردات ہوئی۔ جس کا مقدمہ مقتول کے بہنوئی رزاق حسین کی رپورٹ پر تھانہ رحمانیہ نے ان کے سیاسی مخالفین محمد عمران وغیرہ کیخلاف درج کر لیا۔ ایف آئی آر میں رزاق حسین نے موقف اختیار کیا کہ وقوعہ کے روز وہ اپنی پھوپھی، جو اس کی ساس بھی ہے، کے گھر میں موجود تھا، صبح کے وقت وہ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے اُٹھا ہی تھا کہ گھر میں فائرنگ کی آواز آئی، جس پر وہ بھاگ کر کمرے سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ اس کے سالے غلام قادر کو قتل کرنے کے بعد اسی گاؤں کا رہائشی محمد عمران اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بھاگ رہا تھا۔ وقوعہ کے فورا بعد پولیس نے 6ملزمان کو گرفتار کر کے ڈیڑھ ماہ تک پوچھ گچھ کی مگر ملزمان مسلسل واردات سے انکارکرتے رہے اور معززین علاقہ بھی ان کی بے گناہی کی گواہی دیتے رہے لیکن مدعی مقدمہ انہیں ہی قصوار وار گردانتے رہے، جس پر ڈی پی او گجرات سید علی محسن نے ایک ماہ بعد تفتیشی آفیسر سے تفتیش ہومی سائیڈ انچارج سب انسپکٹر عرفان کے سپرد کر دی۔
ہومی سائیڈ انچارج نے دوبارہ پہلے سے گرفتار ملزمان سے پوچھ گچھ کر کے جائے وقوعہ کا جائزہ لیا اور ایف آئی آر کے گواہان مقتول کی والدہ منظور بی بی اور بھانجے احمد حسن کے بیانات ریکارڈ کیے تو مقتول کے بھانجے ومقدمہ کے گواہ احمد حسن جو مدعی مقدمہ کا سگا بیٹا بھی تھا کے بیانات میں تضاد پایا گیا، جس پر پولیس نے وقوعہ کے روز مقتول ، مدعی اور ملزمان کے موبائل ڈیٹا کی جانچ پڑتال کے ساتھ ساتھ ٹیٹو ماسک سمیت مختلف اشیاء کا جائزہ لیا، جس نے احمد حسن کے کردار کو مزید مشکوک بنایا تو پولیس نے تفتیش کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے واردات کے روز پہنے اس کے کپڑوں کا فرانزک ٹیسٹ کروالیا۔ ٹیسٹ رپورٹ میں احمد کے کپڑوں سے بارودی مواد کے شواہد مل گئے، جس سے پولیس کا شک یقین میں بدل گیا۔
جب پولیس نے تمام ثبوت احمد حسن کے سامنے رکھے تو اس نے اعتراف جرم کرلیا اور بتایا کہ علاقے میں آورہ گرد لڑکوں سے دوستی ختم کروانے اوراس کی پڑھائی پر توجہ مرکوز کروانے کی غرض سے ماموں غلام قادر اسے چند ماہ قبل ہی اپنے گھر لائے تھے، جہاں کھیل کود کے لئے گھر سے نکلنا نہ صرف ماموں نے بند کر رکھا تھا بلکہ وہ امتحانات میں فیل ہونے پر اسے مارتے پیٹتے بھی تھے اور اسے آئندہ امتحان پاس نہ کرنے پر جان سے مار دینے کا بھی اظہار کرتے تھے۔ گھر والوں کو کئی مرتبہ ماموں کی مار پیٹ کا بتایا مگر وہ ہمیشہ یہی کہہ دیتے تھے کہ ماموں جو کرتے ہیں، تمہاری بہتری کیلئے ہی کرتے ہیں۔ گورنمنٹ سویڈش کالج میں سکینڈ شفٹ میں آٹوڈیزل شعبہ میں زیر تعلیم احمد حسن دن کے پہلے اوقات میں سبزی منڈی میں مزدوری کرتا، جہاں سے 350 روپے اجرت ملنے پر وہ ان میں سے کچھ کالج کی فیس کی جمع کروا دیتا اور باقی گھر دیتا تھا۔ ملزم کے بقول پہلے ماموں فیسیں دیتے تھے، مگر امتحان میں فیل ہونے پر انہوں نے جیب خرچ کے ساتھ اپنا خرچا خود اُٹھانے کا کہہ دیا تھا۔
احمد حسن کا کہنا تھا کہ ماموں کو جان سے مار دینے کا افسوس ہے، میں نے غلط کام کیا ہے لیکن اُس وقت میرے ذہن میں خوف تھا کہ روز مارتے مارتے ماموں کہیں ایک دن مجھے جان سے ہی نہ مار دیں تو میں نے ہی انہیں مار دینے کا تہیہ کر لیا۔ ملزم کے مطابق اس نے اپنے گھر میں والد کی الماری میں پڑا ہوا پسٹل لا کر ماموں غلام قادر کو سوتے میں سر میں گولی مار کر قتل کیا اور ان کے قتل کا شور مچا دیا، جس پر والد نے قتل کا مقدمہ سیاسی مخالفین پردرج کروا دیا۔
اس ضمن میں ڈی پی او گجرات سید علی محسن نے بتایا کہ پولیس کی تفتیش کئی ہفتوں تک مقدمہ میں نامزد کیے گئے ملزمان کے گرد گھومتی رہی۔ پولیس کی جیو فراننسنگ ٹیم نے اصل حقائق سامنے لا کر اندھے قتل کو ٹریس کر لیا اور اصل قاتل تک پہنچ جانے میں کامیاب ہو گئی۔ لیکن قابل فکر امر یہ ہے کہ ڈیڑھ ماہ تک پولیس کی حراست میں رہنے والے6 ملزمان کو کس جرم کی سزا بھگتنا پڑتی رہی اور انہیں حوالات تک پہنچانے والوں کو کیا سزا مل سکے گی؟ اس کا فیصلہ کرنا ابھی باقی ہے۔
تفتیشی آفیسر عرفان کے مطابق مقتول غلام قادر اور اس کے بھائی کینیڈا میں ہونے کی وجہ سے مالی طور پر مستحکم تھے، احمد حسن ماموں کی تمام تر سہولیات سے مستفید ہو رہاتھا جبکہ اس کا والد مدعی مقدمہ رزاق حسین گول گپے لگا کر زندگی بسر کر رہا تھا، جس کی وجہ سے ساری پراپرٹی قبضے میں کرنے کا لالچ اور تشدد کا عنصر بھی غلام قاد ر کے قتل کی وجہ بنا۔ مقتول کے قتل سے چھ روز قبل ہی اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تھا، جس کے سر سے باپ کا سایہ بھی چھین گیا اورخوشیوں بھرے گھر میں صف ماتم بچھ گئی یوں بھانجے کا مستقبل سنوارتے سنوارتے غلام قادر اپنی زندگی کا چراغ گل کروا بیٹھا اوراس کے بیوی بچوں کا مستقبل تاریک ہو گیا۔
بعض اوقا ت اچھا اقدام بھی انسان کے گلے کا پھندا بن جاتا ہے، ایسا ہی کچھ گجرات کے ایک گاؤں میں ہوا، جہاں ماموں کو بھانجے کے ساتھ نیکی کرنا مہنگی پڑ گیا اور بھانجے نے ماموں کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
نواحی گاؤں عادوال میں 26 اور 27 ستمبر 2018ء کی درمیانی شب 31 سالہ غلام قادر نامی شخص کے قتل کی واردات ہوئی۔ جس کا مقدمہ مقتول کے بہنوئی رزاق حسین کی رپورٹ پر تھانہ رحمانیہ نے ان کے سیاسی مخالفین محمد عمران وغیرہ کیخلاف درج کر لیا۔ ایف آئی آر میں رزاق حسین نے موقف اختیار کیا کہ وقوعہ کے روز وہ اپنی پھوپھی، جو اس کی ساس بھی ہے، کے گھر میں موجود تھا، صبح کے وقت وہ نماز فجر کی ادائیگی کے لئے اُٹھا ہی تھا کہ گھر میں فائرنگ کی آواز آئی، جس پر وہ بھاگ کر کمرے سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ اس کے سالے غلام قادر کو قتل کرنے کے بعد اسی گاؤں کا رہائشی محمد عمران اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بھاگ رہا تھا۔ وقوعہ کے فورا بعد پولیس نے 6ملزمان کو گرفتار کر کے ڈیڑھ ماہ تک پوچھ گچھ کی مگر ملزمان مسلسل واردات سے انکارکرتے رہے اور معززین علاقہ بھی ان کی بے گناہی کی گواہی دیتے رہے لیکن مدعی مقدمہ انہیں ہی قصوار وار گردانتے رہے، جس پر ڈی پی او گجرات سید علی محسن نے ایک ماہ بعد تفتیشی آفیسر سے تفتیش ہومی سائیڈ انچارج سب انسپکٹر عرفان کے سپرد کر دی۔
ہومی سائیڈ انچارج نے دوبارہ پہلے سے گرفتار ملزمان سے پوچھ گچھ کر کے جائے وقوعہ کا جائزہ لیا اور ایف آئی آر کے گواہان مقتول کی والدہ منظور بی بی اور بھانجے احمد حسن کے بیانات ریکارڈ کیے تو مقتول کے بھانجے ومقدمہ کے گواہ احمد حسن جو مدعی مقدمہ کا سگا بیٹا بھی تھا کے بیانات میں تضاد پایا گیا، جس پر پولیس نے وقوعہ کے روز مقتول ، مدعی اور ملزمان کے موبائل ڈیٹا کی جانچ پڑتال کے ساتھ ساتھ ٹیٹو ماسک سمیت مختلف اشیاء کا جائزہ لیا، جس نے احمد حسن کے کردار کو مزید مشکوک بنایا تو پولیس نے تفتیش کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے واردات کے روز پہنے اس کے کپڑوں کا فرانزک ٹیسٹ کروالیا۔ ٹیسٹ رپورٹ میں احمد کے کپڑوں سے بارودی مواد کے شواہد مل گئے، جس سے پولیس کا شک یقین میں بدل گیا۔
جب پولیس نے تمام ثبوت احمد حسن کے سامنے رکھے تو اس نے اعتراف جرم کرلیا اور بتایا کہ علاقے میں آورہ گرد لڑکوں سے دوستی ختم کروانے اوراس کی پڑھائی پر توجہ مرکوز کروانے کی غرض سے ماموں غلام قادر اسے چند ماہ قبل ہی اپنے گھر لائے تھے، جہاں کھیل کود کے لئے گھر سے نکلنا نہ صرف ماموں نے بند کر رکھا تھا بلکہ وہ امتحانات میں فیل ہونے پر اسے مارتے پیٹتے بھی تھے اور اسے آئندہ امتحان پاس نہ کرنے پر جان سے مار دینے کا بھی اظہار کرتے تھے۔ گھر والوں کو کئی مرتبہ ماموں کی مار پیٹ کا بتایا مگر وہ ہمیشہ یہی کہہ دیتے تھے کہ ماموں جو کرتے ہیں، تمہاری بہتری کیلئے ہی کرتے ہیں۔ گورنمنٹ سویڈش کالج میں سکینڈ شفٹ میں آٹوڈیزل شعبہ میں زیر تعلیم احمد حسن دن کے پہلے اوقات میں سبزی منڈی میں مزدوری کرتا، جہاں سے 350 روپے اجرت ملنے پر وہ ان میں سے کچھ کالج کی فیس کی جمع کروا دیتا اور باقی گھر دیتا تھا۔ ملزم کے بقول پہلے ماموں فیسیں دیتے تھے، مگر امتحان میں فیل ہونے پر انہوں نے جیب خرچ کے ساتھ اپنا خرچا خود اُٹھانے کا کہہ دیا تھا۔
احمد حسن کا کہنا تھا کہ ماموں کو جان سے مار دینے کا افسوس ہے، میں نے غلط کام کیا ہے لیکن اُس وقت میرے ذہن میں خوف تھا کہ روز مارتے مارتے ماموں کہیں ایک دن مجھے جان سے ہی نہ مار دیں تو میں نے ہی انہیں مار دینے کا تہیہ کر لیا۔ ملزم کے مطابق اس نے اپنے گھر میں والد کی الماری میں پڑا ہوا پسٹل لا کر ماموں غلام قادر کو سوتے میں سر میں گولی مار کر قتل کیا اور ان کے قتل کا شور مچا دیا، جس پر والد نے قتل کا مقدمہ سیاسی مخالفین پردرج کروا دیا۔
اس ضمن میں ڈی پی او گجرات سید علی محسن نے بتایا کہ پولیس کی تفتیش کئی ہفتوں تک مقدمہ میں نامزد کیے گئے ملزمان کے گرد گھومتی رہی۔ پولیس کی جیو فراننسنگ ٹیم نے اصل حقائق سامنے لا کر اندھے قتل کو ٹریس کر لیا اور اصل قاتل تک پہنچ جانے میں کامیاب ہو گئی۔ لیکن قابل فکر امر یہ ہے کہ ڈیڑھ ماہ تک پولیس کی حراست میں رہنے والے6 ملزمان کو کس جرم کی سزا بھگتنا پڑتی رہی اور انہیں حوالات تک پہنچانے والوں کو کیا سزا مل سکے گی؟ اس کا فیصلہ کرنا ابھی باقی ہے۔
تفتیشی آفیسر عرفان کے مطابق مقتول غلام قادر اور اس کے بھائی کینیڈا میں ہونے کی وجہ سے مالی طور پر مستحکم تھے، احمد حسن ماموں کی تمام تر سہولیات سے مستفید ہو رہاتھا جبکہ اس کا والد مدعی مقدمہ رزاق حسین گول گپے لگا کر زندگی بسر کر رہا تھا، جس کی وجہ سے ساری پراپرٹی قبضے میں کرنے کا لالچ اور تشدد کا عنصر بھی غلام قاد ر کے قتل کی وجہ بنا۔ مقتول کے قتل سے چھ روز قبل ہی اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تھا، جس کے سر سے باپ کا سایہ بھی چھین گیا اورخوشیوں بھرے گھر میں صف ماتم بچھ گئی یوں بھانجے کا مستقبل سنوارتے سنوارتے غلام قادر اپنی زندگی کا چراغ گل کروا بیٹھا اوراس کے بیوی بچوں کا مستقبل تاریک ہو گیا۔