سندھ میں سیاسی ڈرائی کلین فیکٹری نے کام شروع کر دیا ہے

سوال یہ ہے کہ کیا پی پی پی کی سندھ حکومت خطرے میں ہے۔ مراد علی شاہ کی چھٹی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے؟

msuherwardy@gmail.com

سندھ میں سیاسی ڈرائی کلین فیکٹری لگ گئی ہے۔ اس نے کام شروع کر دیا ہے لیکن یہ پاکستان میں یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا ہے۔ کبھی احتساب اور کبھی مائنس فلاں فلاں فارمولے کے تحت یہ کھیل کھیلا گیا ہے۔ تحریک انصاف کو اس ضمن میں ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے کہ اس کی ابھی تک باری نہیں آئی بلکہ حالیہ تمام ڈرائی کلین فیکٹریاں تحریک انصاف کے لیے ہی لگائی گئی ہیں۔ پنجاب میں ڈرائی کلین فیکٹری کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوا۔ بلوچستان میں ڈرائی کلین فیکٹری کا فائدہ بھی تحریک انصاف کو ہی ہوا۔ اب سندھ میں جو ڈرائی کلین فیکٹری لگائی جا رہی ہے اس کا فائدہ بھی تحریک انصاف کو ہی ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ کیا پی پی پی کی سندھ حکومت خطرے میں ہے۔ مراد علی شاہ کی چھٹی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے؟ اسی تناظر میں تحریک انصاف کی مرکزی حکومت اور سندھ کی قیادت نے مراد علی شاہ اور پی پی پی کے خلاف محاذ جنگ کھول دیا ہے۔ یہ طبل جنگ بے وجہ نہیں ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اس کے پیچھے ایک اسکرپٹ ہے۔کیا جیسے پنجاب میں ن لیگ کو توڑنے کی کوشش کی گئی ہے ایسے ہی سندھ میں پی پی پی کو توڑنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔

یہ بات اہم نہیں ہے کہ مراد علی شاہ سے استعفیٰ کا مطالبہ جائز ہے کہ نہیں۔ یہ بات بھی اہم نہیں ہے کہ کے پی کے تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ بھی تو نیب میں پیش ہو رہے ہیں۔ یہ بات بھی اہم نہیں ہے کہ کے پی کے تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ کے خلاف نیب نے پریس ریلیز جاری کیا۔ پھر بھی کوئی ان سے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کر رہا۔ انکوائریاں تو کئی حکومتی وزرا کے خلاف بھی چل رہی ہیں لیکن ان سے کوئی استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کر رہا۔ مراد علی شاہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ حکومتی ارکان کے خلاف نیب انکوائریاں کچھوے کی اسپیڈ پر چل رہی ہیں جب کہ حکومتی مخالفین کی نیب انکوائریاں خرگوش کی اسپیڈ سے دوڑ رہی ہیں۔

ویسے مجھے پی پی پی کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے۔ ساری دنیا کو پتہ تھا کہ ن لیگ کے بعد پی پی پی کی باری ہے۔ ایک پی پی پی ہی خوش فہمی کا شکار تھی کہ ان کی باری نہیں آئے گی۔ ساری دنیا کو پتہ تھا کہ شریف فیملی کے بعد زرداری فیملی کی باری ہے۔ سیاست کے طفل مکتب بھی جانتے تھے کہ زرداری کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن زرداری کو امید تھی کہ ان کی ''خدمات'' کے اعتراف میں انھیں رعایت مل جائے گی۔ جب زرداری بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت کو گرا رہے تھے تو سب کو پتہ تھا کہ کل زرداری کی بھی باری آئے گی لیکن شاید زرداری صاحب کو علم نہیں تھا۔ اس لیے نہ تو پی پی پی اور نہ زرداری کسی ہمدردی کے قابل ہیں۔ وہ وہی کاٹ رہے ہیں جو انھوں نے بویا تھا۔ اس لیے رونے کی کوئی ضرورت نہیں۔آج زرداری کو اپنے وہ بیان یاد کرنے چاہیے جب وہ شان و شوکت سے اعلان کر رہے تھے کہ میں تو ن لیگ کا فون بھی نہیں سنوں گا۔ اب رونے کا کیا فائدہ۔آپ نے ملک میں سول بالادستی اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کے سنہرے مواقعے گنوا دیے ہیں۔ اب گیم ہاتھ سے نکل گئی ہے۔


بہر حال سندھ سے اطلاعات یہی آ رہی ہیںکہ لڑائی کے لیے میدان سج گیا ہے۔ وفاداریاں تبدیل کرانے کاکام شروع ہو گیا ہے۔ فارورڈ بلاک بنانے کی تیاری شروع ہو چکی ہے۔ ابتدائی نام بھی سامنے آچکے ہیں۔ ایک اندازہ تو یہی ہے کہ جیسے ن لیگ بلوچستان میں اکثریت ہوتے ہوئے اپنی حکومت نہیں بچا سکی تھی اور ایک نئی پارٹی(باپ) نے جنم لیا تھا۔ جیسے پنجاب میں ن لیگ میں سے جنوبی پنجاب محاذ نے جنم لے لیا تھا اور دونوں (باپ) اور جنوبی پنجاب محاذ ، تحریک انصاف کی گود میں چلے گئے تھے۔ یہ دونوں جماعتیں بنائی ہی تحریک انصاف کے لیے گئی تھیں اور آج بھی تحریک انصاف کے ساتھ ہی ہیں۔ اسی طرح سندھ میں بھی اسی اسکرپٹ پر کام شروع ہو گیا ہے۔

شیرازی برادران کے حوالے سے افواہیں پھیل رہی ہیں۔ ملکانی گروپ کے بھی ارکان کے حوالے سے چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ شیرازی اور ملکانی مل کر پانچ ایم پی اے بن جاتے ہیں۔ یہ صاحبان کیا کرتے ہیں، فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے۔

ذوالفقار مرزا اور فہمیدہ مرزا کی وجہ سے بدین کو سندھ کی سیاست میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ یہاں سے پی پی پی کے تین ارکان سندھ اسمبلی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ناراض ہیں۔ یوں ذوالفقار مرزا بدین سے مبینہ فاروڈ بلاک کا کوئی تحفہ دے سکتے ہیں۔ ضلع دادو سے سے بھی ناراض ارکان کی بات سامنے آ رہی ہے۔ فارورڈ بلاک میں بیس ارکان کی ضرورت ہے۔ کیا یہ ممکن ہو گا۔ کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ لیکن کھیل شروع ہو گیا ہے۔ ابتدائی طور پر اچھی تعداد ساتھ آ جائے گی۔ اس کے بعد ایک ایک کر کے لوگ شامل ہوتے جائیں گے۔ اس طرح لوگ ڈارئی کلین بھی ہوتے جائیںگے۔ ''باطل'' سے ''حق'' کے قافلے میں بھی شامل ہوتے جائیں گے اور تبدیلی بھی ممکن ہو جائے گی۔

مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔ دونوں بڑی جماعتوں کی لڑتے لڑتے ہو گئی ہے گم ایک کی چونچ ایک کی دم۔ آصف زرداری جو بڑے دانشور بن رہے تھے کہ انھوں نے کمال حکمت اور چالاکی سے نہ صرف خو د کو اور سندھ کے اقتدار کو بچا لیا ہے۔ ان کی ساری عقل و دانش اور چالاکی پانی کا بلبلہ بن گئی ہے۔ اب ن لیگ پی پی پی کا تماشا دیکھے گی جیسے پی پی پی نے ن لیگ کا تماشا دیکھا تھا۔۔۔۔۔
Load Next Story