Defining Moment
نیویارک میں موجودیہ گھر،الیکشن کمیشن میں بھجوائے گئے ڈکلیریشن میں درج نہیں ہے
سویڈن کے نائب وزیرخارجہ نے گہرے نیلے رنگ کابہترین سوٹ پہن رکھاتھا۔اسٹاک ہوم میں وزارت خارجہ کے اندریہ ایک رسمی ملاقات تھی۔کسی مقصدکے بغیر ایسی میٹنگ جس کے بغیربھی گزارہ ہو سکتا تھا۔ ہم دس کے قریب سرکاری لوگ تھے اورسویڈن کے سرکاری دورہ پرتھے۔چالیس منٹ تک گفتگوکرنے کے بعد نوجوان نظرآنے والے نائب وزیرخارجہ نے بریفنگ ختم کردی۔ سوال وجواب کاایک ہلکا سا دور ہوا۔ ویسے سفارتی ملاقاتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ایک دوسرے کوہزایکسیلنسی کہتے کہتے وقت ختم ہو جاتا ہے۔
اس میٹنگ میں بھی ایسے ہی ہوا۔اختتام سے تھوڑا سا پہلے نائب وزیرخارجہ نے ایک انتہائی ذاتی مگر منفرد بات کردی۔کم ازکم میں اس طرح کاجملہ سننے کے لیے ذہنی طور پرتیارنہیں تھا۔کہنے لگاکہ خوش لباسی پاکستان کے ایک لیڈرسے سیکھی ہے۔خودہی بتانے لگاکہ نوجوانی میں ذوالفقارعلی بھٹوسے حددرجہ متاثرتھا۔بھٹو،پاکستان کے ناقابل فراموش وزیرخارجہ تھے۔بہترین کپڑے پہننے والاایک سیمابی انسان۔نائب وزیرنے کہاکہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں انٹرنیٹ اورسوشل میڈیاموجودنہیں تھا۔ بھٹوکی اخبارات میں چھپی ہوئی تصویریں دیکھتا تھا۔ خوش لباس نوجوان بھٹو میراآئیڈیل بن چکاتھا۔ اخبارات میں بھٹوکی تصویریں کاٹ کرالبم بناتا اور پھر بھٹوجیسے کپڑے سلواتاتھا۔اسی رنگ،اسی کپڑے اور اسی اندازکے ملبوسات۔نائب وزیرخارجہ نے دھیمے لہجے میں بتایاکہ اس کی خوش لباسی صرف اورصرف ذوالفقار علی بھٹوکی مرہون منت ہے۔ وہ بیس منٹ تک بتاتارہاکہ پاکستان کے لیڈرنے یورپ میں گوری نسل کوکس درجہ متاثرکیا۔
گزشتہ تین دن سے پانچ برس پرانی میٹنگ کی یاد باربار ذہن میں بجلی کی طرح کوندرہی ہے۔عرض کرتا چلوں۔ بھٹوکے متعلق ایک بات توطے ہے۔وہ اگر کروڑوں لوگوں کالیڈرتھاتوشائداسی تناسب سے لوگ اسے ناپسندبھی کرتے تھے۔خصوصاًمذہبی اورکاروباری طبقے میں بھٹوکے متعلق منفی خیالات موجودتھے۔مگریہ نکتہ بھی سچ ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو،میری عمرکے مردا ور خواتین کے لیے ایک دیومالائی شخصیت تھا۔کم ازکم میں، آج تک اس شخص کے سحرسے باہرنہیں نکل سکا۔محترمہ بینظیر بھٹونے اپنے والدکے سیاسی ورثہ کوکافی حدتک برقرار رکھا بلکہ آگے بڑھایا۔ مگرانکی شہادت کے بعد، کیا ہوا۔ یہ جوہری طورپرایک یونانی دکھ بھری کہانی کے برابر یابڑھ کرہے۔کس طرح بھٹوکے سیاسی ورثہ کوزرداری خاندان میں منتقل کیاگیا۔اس کے متعلق سوالیہ نشان موجود ہیں۔
بھٹوکے دوستوں،چاہنے والوں نے ہرتکلیف اس لیے سہی کہ ان کالیڈردیانت دارسیاسی انسان تھا۔ایک فکر اور لبرل سوچ کا مالک۔ ضیاء الحق جیسا مشکل حکمران، بھٹوکے متعلق کوئی مالیاتی بدعنوانی یابے ضابطگی کا ہلکا سا نقص نہیں نکال سکا۔بھٹو،جیتے جی مارا گیا مگر مرتے دم تک کسی کرپشن کے معمولی سے مسئلے میں بھی ملوث نہ پایاگیا۔یہ ساری تمہیدباندھنے کی ضرورت کس لیے پیش آئی۔واحدوجہ جے آئی ٹی رپورٹ ہے جو چند روز قبل،کسی کرم فرما نے بھجوائی تھی۔اسے پڑھ کربڑی مشکل کیفیت کاشکارہوگیاہوں۔صرف ایک سوال، ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی عظیم سیاسی جدوجہد اور کہاں ان کے وارث کی اخلاقی اورمالیاتی پستی۔ اس سے پہلے کہ مرکزی نکتے سے دور ہو جاؤں۔ اس جے آئی ٹی رپورٹ کے متعلق ذکرکرناحددرجہ اہم ہے۔
جے آئی ٹی رپورٹ کی سفارشات پانچ حصوں پر مشتمل ہیں۔سب سے پہلے توزرداری صاحب کے دست راست،انورمجیدنے اومنی گروپ کے توسط سے سنتیس جعلی بینک اکاؤنٹ بنائے اوراس کے ساتھ ساتھ گیارہ جعلی کمپنیاں ترتیب دیں جو ان بینک اکاؤنٹوں سے پیسے نکلواتی رہی یاڈالتی رہیں۔اس میں عمیرایسوسی ایٹس سے لے کرگیٹ وے آئرن تک شامل ہیں۔کیاآپ سوچ سکتے ہیں کہ ان جعلی کمپنیوں اوراکاؤنٹس کے ذریعے کتنی رقم دائیں بائیں کی گئی۔ صفرگن نہیں سکتا۔مگررپورٹ کے صفحہ نمبر16پریہ رقم بیالیس ہزارتین سوبہترملین روپے درج ہے۔یہ بیالیس ارب سے زیادہ کی رقم ہے۔
اس کے بعد، کراچی کی قیمتی ترین زمین کا مسئلہ ہے،جس کی سرپرستی سندھ حکومت اورزرداری صاحب کررہے تھے۔مندرجہ بالااکاؤنٹس میں اسٹیل مل سے لے کرسرکاری ٹھیکیداروں کی جانب سے تمام رشوت مبینہ طورپروصول کی گئی ہے۔ کراچی کے تمام اہم بلڈرزبھی وقتاًفوقتاً،ان اکاؤنٹوں میں پیسے جمع کرواتے رہے ہیں۔نام نہیں لکھنا چاہتا مگر صفحہ انتیس پرتمام نام درج ہیں۔اس میں منظورکاکابھی شامل ہے۔ منظور کاکا2015سے پاکستان سے باہر ہے۔ ایک انتہائی تکلیف دہ عنصرمزیدتوجہ طلب ہے۔ سمٹ بینک اورسندھ بینک کو بھرپورطریقے سے استعمال کیاگیا۔جے آئی ٹی رپورٹ میں واضح طورپردرج ہے کہ سندھ حکومت کے اکابرین،ان تمام بے ضابطگیوں کاباقاعدہ حصہ ہیں۔یہاں تک کہ موجودہ وزیراعلیٰ تک کانام بھی لکھاہواہے۔سمٹ بینک کوکیسے حاصل کیاگیا۔یہ بذات خودایک کیس اسٹڈی ہے۔
جے آئی ٹی نے تقریباًتیئس صفحات پررقم کیا ہے، کہ کس طرح2009سے لے کراب تک،اومنی گروپ محیرالعقول مالیاتی ترقی کرتاگیا۔کس طرح،وہ ہرمالیاتی بے ضابطگی میں شامل رہااورکس طرح سندھ کی شوگر ملزپر کنٹرول ہوتاگیا۔حتیٰ کہ سندھ حکومت کی دوشوگرملوں کے بھی انتہائی کم پیسوں میں مالکانہ حقوق حاصل کرلیے گئے۔ کس طرح83کمپنیاں بناکرپورے اقتصادی نظام کی گردن مروڑی جاتی رہی۔ٹھٹھہ سیمنٹ کے متعلق بھی تفصیلات درج ہیں کہ کس جابرانہ طریقے سے اومنی گروپ اس فیکٹری کامالک بنا۔یہ بنیادی طورپرایک دیومالائی کہانی ہے۔جس میں ایک شخص پورے سندھ کے مالیاتی نظام پرقابض ہوگیا۔اس کاایک رخ مزیدتلخ ہے۔
پوری دنیامیں حکومتی سطح پرمنی لانڈرنگ کی پرورش ناممکن ہے۔مگرحدیہ ہے کہ صوبائی حکومت اس بھیانک منی لانڈرنگ میں مبینہ طورپر نہ صرف ملوث رہی بلکہ اس کی بھرپورسرپرستی کرتی رہی۔یہ گٹھ جوڑ،کم ازکم گزشتہ پچاس سال میں ریاستی سطح پرکہیں سامنے نہیں آیا۔اسی رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ جعلی اکاؤنٹوں سے زرداری صاحب اوران کی ہمشیرہ فریال صاحبہ مستفید ہوتی رہی۔گھروں کے اخراجات سے لے کرقیمتی گاڑیوں کے ٹیکس تک،انھی کے ذریعے اداہوتے رہے۔سفرکے اخراجات سے لے کرگھروں کی تعمیرتک اسی پیسے سے ہوتی رہی۔حتیٰ کہ وکلاء کوادائیگی بھی یہیں سے کی گئی۔محترمہ فریال تالپورصاحبہ کے متعلق درج ہے کہ وہ کسی صورت پراپنے اثاثوں کے سورس کے متعلق نہیں بتاسکیں۔یہ بھی درج ہے کہ اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپے کی غیرقانونی رقم کے اصل مالک،محترم زرداری اوران کے اہل خانہ ہیں۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔بین الاقوامی سطح پربھی مختلف تجارتی اداروں کومنی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیاگیا۔اس طرح امریکا میں جائیدادکے متعلق بھی سوالات ہیں کہ وہ کب اورکیسے خریدی گئیں۔ نیویارک میں موجودیہ گھر،الیکشن کمیشن میں بھجوائے گئے ڈکلیریشن میں درج نہیں ہے۔
اس وقت تک کچھ نہیں کہاجاسکتاکہ مکمل رقم اور ترسیلات کتنی ہیں۔مگریہ معاملہ حددرجہ سنگین نوعیت کا ہے۔ صرف یہ کہہ دیناکہ تمام رپورٹ مکمل طورپرغلط ہے، اس سے معاملہ بہترنہیں ہوگا۔بلکہ مزیدخراب ہو سکتا ہے۔ محترم زرداری صاحب اورپیپلزپارٹی کے اکابرین سیاسی جلسے کرکے ان تمام الزامات کی نفی کررہے ہیں۔ان کی دانست میں یہ ردِعمل درست ہے۔چاہیے تویہ تھاکہ پیپلز پارٹی کے قانونی ماہرین دلیل کے ساتھ،اس رپورٹ کی جزئیات کی نفی کرتے۔مگرایسابالکل نہیں کیاگیا۔سیاسی جلسوں کے ذریعے اس رپورٹ کی نفی کرنے کی ادھوری کوشش کی گئی جو کافی حدتک غیرضروری ہے۔ اردو میں الفاظ ذہن میں نہیں آرہے۔مگرپیپلزپارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت کے لیے یہDefining Momentہے۔
اس قدر مہیب الزامات کے ساتھ کوئی سیاسی شخصیت یاپارٹی زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ایک افسو س بھی ہے کہ کئی جگہ بلاول زرداری کانام بھی درج ہے۔جوابھی عملی سیاست میں داخل ہواہے۔اپنے والدکی چھاؤں سے باہرنکل کر ایک سیاسی مقام کیسے حاصل کرے گا۔یہ اسے خود سوچنا چاہیے۔ بلاول زرداری اس مشکل میں کیسے عمل کرے گا۔ یہ اس کی سیاسی ساکھ کابھی سوال ہے۔کسی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔مگروہ عظیم سیاسی جماعت جس کے لیڈر، بھٹونے پوری دنیا کو متاثر کیا۔ جس کی خوش لباسی یورپ کے نوجوانوں کے لیے ایک مثال تھی۔ آج اس کی بنائی ہوئی سیاسی جماعت کس پستی کا شکارہے۔اس سقم کومحسوس کرکے ہی تکلیف ہوتی ہے۔ ہماری نسل کے خواب ہی بربادکردیے گئے۔کیابات کریں۔صاحب،کیابات کریں!