2019 میں بلاول بھٹو اور مریم نواز کے لیے پیغام

بلاول بھٹو زرداری کی مانند محترمہ مریم نواز شریف بھی سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی ہیں

tanveer.qaisar@express.com.pk

آج 2018 کا آخری دن ہے۔ تین سو پینسٹھ دن پلک جھپکتے میں زقند بھر کر گزر گئے اور اپنے عقب میں کوئی نشان بھی نہیں چھوڑا۔ان گزرے ایام کے قدموں کے نشان ہم دیکھنا بھی چاہیں تو نہیں دیکھ سکتے لیکن اللہ کے پاس ان کا پورا حساب کتاب موجود ہے۔ ہمارے ایمان کا یہ اساسی جزو ہے۔ہماری آنکھیں تو شائد گزرے ایام کے نقش نہیں پاسکتیں لیکن یہ نقوش ہمارے دل و دماغ میں پوری طرح مرتسم اور روشن ہیں۔ہمارا ضمیر اِنہیں فراموش نہیں کر سکتا۔ زندہ قومیں ہر لمحہ اپنے عمل کا حساب کرتی رہتی ہیں۔

اپنے ترازو میں سُودو زیا ں کو تولتی رہتی ہیں ۔ شاعرِ مشرق نے فرمایا تھا:''صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم /کرتی ہے ہر زماں جو اپنے عمل کا حساب۔''ہمیں تو بزرگوں نے یہ نصیحت کررکھی ہے کہ ہررات نیند سے قبل اپنے تازہ اعمال پر ایک نظر ڈالنی چاہیے۔ یہ اقدام ہمارے نجی احتساب کا باعث بن سکتا ہے۔ ہم نے مگر نجی احتساب سے انکار کیا ہے۔ شائد اِسی کارن ہمارے قومی احتسابی اداروں کو اب مجبوراً کئی مطلوب افراد پر ہاتھ ڈالنا پڑ رہا ہے۔ وزیر اعظم جناب عمران خان نے تو اِسی احتسابی نعرے کی بنیاد پر انتخابی جنگ لڑی، کامیاب بھی ہُوئے۔ اُن کی حریف سیاسی قوتیں اور مخالف مردانِ کار اُن سے ناراض اور نالاں ہیں۔ اگر اپنے عمل کا ہر رات حساب کرنے کی عادت ہوتی تو شائد آج قومی سطح پر اُن 172 مطلوب افراد کی فہرست بھی سامنے نہ آتی جنہیں ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے۔

ہماری سیاست و صحافت کی جملہ بحثیں محض اِسی ایک موضوع پر سمٹ کررہ گئی ہیں۔ کیا یہ 2018کا سب سے بڑا المیہ قرار نہیں دیا جا سکتا؟ سچ یہ ہے کہ اِس فہرست کی باز گشت ساری دُنیا میں سنائی دی گئی ہے۔ اِس فہرست میں مبینہ طور پر بلاول بھٹو زرداری اور محترمہ فریال تالپور کے اسمائے گرامی بھی موجود ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری ہماری نوجوان سیاست کا ابھرتا، دمکتا ستارہ ہیں۔کیا یہ بلاول بھٹو کے لیے ٹریجڈی نہیں ہے کہ مبینہ 172 افراد کی نئی حیرت خیز فہرست نے اُن کے سیاسی مستقبل کو گہنا دیا ہے؟ کل جب نئے سال کا نیا آفتاب طلوع ہوگا تو بلاول بھٹو زرداری اپنے بابا جانی کے کئی مالی اعمال کے سبب شائد نئی پریشانیوں سے دو چار ہوں گے۔ مستقبل کے پردئہ راز میں کیا مخفی ہے، ابھی سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ماضی قریب میں بھی بلاول بھٹو کے بابا جانی کئی مصیبتوں اور آزمائشوں کا ہدف بنے رہے۔ایک عشرہ سے زائد عرصے کے لیے زندانی بھی رکھے گئے۔آخر میں وہ مگر سُرخرو ہُوئے۔ ممکن ہے اِس بار بھی وہ آخر کار محفوظ ہی رہیں لیکن فی الحال بلاول بھٹو کا ستارہ بادلوں کی اوٹ میں چلا گیا ہے۔ نئے سال میں انھیں، اُن کی پارٹی اور اُن کے ساتھیوں کو بحرانوں سے نکلنے کے لیے بڑا زور لگانا پڑے گا۔


بلاول بھٹو زرداری کی مانند محترمہ مریم نواز شریف بھی سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی ہیں۔ مریم نواز کو تو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اُن کے بابا جانی پاکستان کے پہلے سیاستدان ہیں جو تین بار وزیر اعظم منتخب ہُوئے۔ اِس منفرد اعزاز کے ساتھ کچھ المئے بھی ٹیگ ہیں۔کاش ایسا نہ ہوتا۔ ایسا نہ ہوتا تو میاں محمد نواز شریف ہماری سیاست کے سب سے ممتاز اور مکرم سیاستکار ہوتے۔ ایسا مگر نہ ہو سکا۔ اور ایسا شائد اس لیے ہُوا ہے کہ انھوں نے نجی حیثیت میں اپنا احتساب کرنے کی طرف سرے سے توجہ ہی نہ دی۔

سالِ گزشتہ میں وہ جن ذہنی و نفسیاتی اذیتوں اور جسمانی آزمائشوں سے گزرے ہیں، ہم اُن کا آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ محترمہ مریم نواز کے بابا جانی شائد 2018کی سب سے بدقسمت شخصیت تھے تو ایسا کہنا بے جا نہ ہو گا۔ وہ ایک سال میں دوبار احتسابی عدالت سے سزا پانے والے پاکستان کے سب سے پہلے اور طاقتور اور مقبول ترین آدمی تھے۔ اُن پر کئی تہمتیں عائد کی گئیں لیکن اُن کے چاہنے والوں نے پھر بھی عام انتخابات میں انھیں ایک لاکھ اڑتیس ہزار ووٹ دے کر پاکستان کی دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت بنائے رکھا۔ یوں نواز شریف عوام کی محبتوں کا انکار نہیں کر سکتے۔ اِس عوام کے دل مگر شکستہ ہیں، یہ منظر دیکھ کر کہ اُن کے محبوب لیڈر پر عائد کیے گئے الزامات احتسابی عدالت میں ثابت ہو گئے اور اب وہ ایک بار پھر پسِ دیوارِ زنداں ہیں۔

مریم نواز شریف نے اپنے والد گرامی کا سیاسی سرمایہ اور اثاثہ احسن طریقے سے سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ نون لیگ کی اعلیٰ قیادت اور کارکنوں کا اعتماد بھی حاصل کیا ہے اور اُن کی مبینہ کوششوں سے نون لیگ کو سوشل میڈیا میں حیاتِ نَو بھی ملی ہے۔ یہ کریڈٹ مریم نواز شریف سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ وہ سالِ گزشتہ میں کچھ عرصہ سوشل میڈیا میں مہر بہ لب رہیں تو اِس خاموشی کو ہر طرف محسوس کیا گیا۔ مریم نواز ہماری موروثی سیاست کا اہم ترین نام ہیں۔ نواز شریف انھیں کامیاب دیکھنے کے متمنی ہیں لیکن مریم نواز سے چند ایسی غلطیاں بھی سرزد ہُوئی ہیں جو اُن کے لیے وبالِ جان بنی ہیں۔ شائد یہ اووَر کانفیڈنس کا نتیجہ تھا۔ نئے سال میں، بلاول بھٹو کی طرح، مریم نواز شریف کو بھی کئی امتحانوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑے گا۔ اُن کا نجمِ سیاست بھی گردش میں ہے لیکن ضروری نہیں ہے کہ یہ ہمیشہ گردش میں رہے گا۔ کبھی تو اِسے بھی قرار آئے گا۔ لیکن کب اور کتنے عرصے بعد؟ کوئی نہیں جانتا۔

یہ جو سال گزرا ہے، شریفوں اور زرداریوں کے لیے تو آزمائشوں کا سال رہا لیکن جناب عمران خان کے لیے خوشیوں اور کامیابیوں کا سال ثابت ہُوا۔ یہ اُن کی بائیس سالہ پیہم جدوجہد کا نتیجہ تھا۔وزیر اعظم بننا اُن کا خواب اور زندگی کا شائد سب سے بڑا آدرش تھا۔ انھوں نے جو چاہا، حاصل کرلیا۔ پاکستان کے حوالے سے شائد انھیں '' مَین آف دی ایئر'' کے لقب سے یاد کیا جا سکے۔ ہمارے ایک مہربان اور خیبر پختون خوا کے سابق چیف سیکریٹری کا کہنا ہے کہ عمران خان اگر صرف صحت اور تعلیم کے میدانوں میں کام کرتے رہتے تو عظیم انسان ثابت ہوتے۔ سیاست کاری نے اُن کے بے مثل کارناموں کو متاثر کیا ہے۔ شائد یہ تبصرہ وسیع تر معنوں میں درست ہو لیکن اب جب کہ وہ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو منتخب ہو چکے ہیں، پاکستانی قوم نے اُن سے بلند اُمیدیں وابستہ کررکھی ہیں۔

اُن کا نجی دامن تو کرپشن کی آلودگیوں سے محفوظ ہے، لیکن اُن کے بعض قریبی ساتھیوں کی جانب انگشت نمائی ہو رہی ہے۔ خانصاحب کی اقتداری طاقت اُن کے حلیفوں اور سیاسی اتحادیوں کی مُٹھی میں ہے۔ یہ حلیف اور اتحادی دراصل اُن کی بیساکھیاں ہیں۔ یوں اُن کی طاقت اور توجہ منقسم ہے۔ اور یہ اُن کی کمزوری ہے۔ شائد یہ کمزوری اُن کے سیاسی حریفوں کی طاقت بن جائے۔ یہ حریفانہ کشمکش اُن کے لیے نئے سال میں نئی آزمائشیں لے کر آئے گی۔ اقتدار عمران خان کے لیے پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہو رہا۔ وطنِ عزیز کو جن متنوع اور ہمہ گیر مسائل اور مصائب کا سامنا ہے، عمران خان کو بہر حال ان سے نبرد آزما ہو کر خود کو کامیاب ثابت کرنا ہے۔ لاریب یہ اوکھے پینڈے ہیں۔ہماری دعا ہے کہ خان صاحب نئے سال میں کامل کامیابیاں سمیٹیں۔
Load Next Story