پر امن معاشرے کی تشکیل کیلئے سب کو مساوی حقوق دینا ہونگے
’’بین المذاہب ہم آہنگی اور انسانی حقوق کی صورتحال‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ
آئین پاکستان تمام شہریوں کو بلا تفریق مذہب، رنگ ونسل بنیادی انسانی حقوق فراہم کرتا ہے اور ان کے جان و مال کا تحفظ یقینی بناتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے پیروکار مکمل مذہبی آزادی رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتے ہیں۔
حال ہی میں مسیحیوں کا مذہبی تہوار ''کرسمس'' گزرا جسے سرکاری سطح پر بھی منایا گیا۔ اس سے پاکستان میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایکسپریس میڈیا گروپ شروع دن سے ہی عوامی دلچسپی کے موضوعات پر خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کرتا ہے۔ اس روایت کو قائم رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں ''ایکسپریس فورم'' میں ''بین المذاہب ہم آہنگی اور انسانی حقوق کی صورتحال'' کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و مذہبی شخصیات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
اعجاز عالم آگیسٹن
(صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)
موجودہ حکومت تمام پاکستانیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے تندہی سے کام کر رہی ہے۔ ابتدائی 100 دنوں میں ہم نے انسانی حقوق پالیسی 2018ء متعارف کروا ئی ہے جس کے تحت انسانی حقوق کا دائرہ کار بڑھایا جا رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر علاقے کے لوگوں کو ان کی دہلیز پر حقوق اور انصاف ملے۔ اب ہر ضلع کی سطح پر ڈسٹرکٹ آفیسر برائے انسانی حقوق تعینات کیا جائے گا جو متعلقہ لوگوں کے مسائل حل کرے گا۔ دنیا میں جانوروں کے حقوق کی تحریکیں چل رہی ہیں مگر ہمارے ہاں بعض جگہ انسانی حقوق کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔
اس کے پیش نظر ہم انسانی حقوق کی مربوط پالیسی لائے ہیں جس کے تحت انسانی حقوق کے مضامین کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جارہا ہے جبکہ پولیس سمیت تمام اداروں کو پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے افسران کو انسانی حقوق کی تعلیم دیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہم نے آگاہی مہم کا الگ سے بجٹ بھی رکھا ہے جس سے اضلاع کی سطح پر اور تعلیمی اداروں میں آگاہی پروگرامز منعقد کروائے جائیں گے تاکہ لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی مل سکے۔ تشدد کے زیادہ تر واقعات جیلوں اور تھانوں میں سامنے آتے ہیں لہٰذا پولیس ریفارمز کی ضرورت ہے جس سے صورتحال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ گھریلو ملازمین پر تشدد کے بے شمار واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اس میں بہتری لانے کیلئے گزشتہ دنوں ڈومیسٹک ورکرز کا بل اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے جس کے تحت تمام ڈومیسٹک ورکرز کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا ئے گا اور ان کی کم از کم تنخواہ بھی مقرر کی جائے گی۔ اس بل کے تحت ڈیٹا اکٹھا کرنے سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔ گھریلو ملازمین پر تشدد کے بعض واقعات میں یہ سامنے آیا ہے کہ والدین اپنی بچیوں کو کام کرنے کیلئے گھروں میں بھیج دیتے ہیں اور کئی برس تک ان سے ملاقات کیلئے بھی نہیں آتے جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں لہٰذا والدین کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔ وزیراعظم جب ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں تو اس ریاست میں اقلیتوں کے لیے سب سے اہم میثاق مدینہ ہے جو دنیا میں بین المذاہب ہم آہنگی کی سب سے بہترین مثال ہے۔
نبی کریمﷺ نے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو مسجد میں جگہ دی اور وہاں معاہدہ ہوا کہ ہم نے دیگر مذاہب کے لوگوں کو تحفظ دینا ہے۔ میرے نزدیک ریاست مدینہ میں میثاق مدینہ کے لحاظ سے قائم معاشرہ اقلیتوں کے لیے بہترین ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ اقلیتوں کو وی آئی پیز کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر کرسمس منایا گیا،اس حوالے سے تمام ڈیپارٹمنٹس اور سکولوں میں بھی تقریبات منعقد کی گئیں جو خوش آئند ہے۔
کرسمس امن و سلامتی اور محبت کا تہوار ہے۔ 2 ہزار برس قبل یسوع مسیحؑ امن اور سلامتی کا پیغام لے کر آئے اور انسانی حقوق کی بات کی۔ آپؑ نے ہمیشہ انسانوں کی خدمت اور مساوات کی بات کی۔ یہ تمام چیزیں ہر ملک کی بنیاد ہیں لہٰذا ہمیں امن، سلامتی، بھائی چارہ، رواداری اور برداشت کوفروغ دینا چاہیے تاکہ بہترین معاشرہ قائم ہوسکے۔ موجودہ حکومت مذہبی آزادی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے اچھے کام کر رہی ہے۔ کرتار پور کوریڈور کا کھلنا اس صدی کا سب سے بڑا اقدام ہے۔ ماضی کی کوئی حکومت یہ کام نہیں کر سکی مگر وزیراعظم عمران خان نے فوری ایکشن لیتے ہوئے یہ کام کیا اور اس کا کریڈٹ آرمی چیف کو بھی جاتا ہے۔ کرتار پور کوریڈور کھلنے سے 12 کروڑ سکھوں کا بنیادی مطالبہ پورا ہو گیا۔ اسی طرح پاکستان میں سکھ میرج ایکٹ پاس ہوا جو بھارت میں نہیں ہو سکا۔ کینیڈا میں سکھوں کی بہت بڑی تعداد رہتی ہے جن کا وہاں کی معیشت میں بھی اہم کردار ہے مگر اس کے باوجود وہاں انہیں یہ حق نہیں مل سکا۔ پاکستان میں سکھوں کی تعداد کم ہے مگر یہاں ان کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی مشاورت سے مینارٹی ایمپاورمنٹ پیکیج لا رہے ہیں جس سے ہر شعبے میں اقلیتوں کو ان کا حق ملے گا۔اس پیکیج کے تحت کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی، لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی،تمام ہاؤسنگ سکیموں اور وزیراعظم کے 50 لاکھ گھروں کے منصوبے میں اقلیتوں کا کوٹہ ہوگا۔ تعلیم کے میدان میں اقلیتوں کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے کے لیے میڈیکل و انجینئرنگ کالجوں میں اقلیتوں کے لیے کوٹہ مختص کیا جائے گا۔
ایک بات قابل ذکر ہے کہ جیلوں میں مسلمان قیدیوں کو عیدوں پر سزا میں 2 ماہ کی رعایت مل جاتی ہے لہٰذا اس پیکیج کے بعداقلیتوں کو بھی سزا میں رعایت دی جائے گی۔ جیل میں اگر کوئی مسلم قیدی دینی تعلیم حاصل کرتا ہے تو اسے رعایت دی جاتی ہے لیکن دوسرے مذاہب کے قیدیوں کو یہ رعایت نہیں ہے، اب انہیں بھی رعایت دی جائے گی۔ اس کے علاوہ کتابوں سے نفرت انگیز مواد کا خاتمہ کیا جارہا ہے تاکہ معاشرے میں ہم آہنگی پیدا کی جاسکے۔ مندرجہ بالا اقدامات کے ساتھ ساتھ ہم تمام اہم نکات کو اس پیکیج میں شامل کر رہے ہیں تاکہ بہتری لائی جاسکے۔
پاکستان تحریک انصاف کا کوئی مینارٹی ونگ نہیں ہے۔ دنیا میں بے شمار ایسے ممالک ہیں جہاں اقلیت کہنے پر سزا دی جاتی ہے۔ وزیراعظم پاکستان بھی لفظ ''اقلیت'' کے خلاف ہیں، وہ سب کو برابر سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس امتیاز کا خاتمہ ہو۔ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بعض عناصر نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے غیر سرکاری ادارے بناتے ہیں اور اقلیتوں کا لفظ استعمال کرکے فوائد حاصل کرتے ہیں جو افسوسناک ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کو اکثریتوں سے زیادہ حقوق حاصل ہیں۔
ہم جنرل الیکشن میں ووٹ ڈالتے ہیں اور پھر اپنے نمائندے بھی منتخب کرتے ہیں۔ ہمیں یہاں عبادت کی آزادی بھی ہے اور ہم پاکستان میں ہر جگہ بلا خوف و خطر جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ میجر جنرل سے لے کر کمشنر جیسے بڑے عہدوں پر بھی اقلتیں فائز ہیں جس سے ہمارے حقوق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے تاہم عدم برداشت کے ماحول میں جو چند ایک واقعات ہوجاتے ہیں وہ بڑا مسئلہ نہیں ہیں۔بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔ وہاں گائے کا گوشت کھانے والوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے۔ وہاں ہمارے چرچز اور ننز کو جلا دیا گیا جو افسوسناک ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی بھی سب کے سامنے ہے۔ خود امریکا میں بھی اقلیتوں کو مسائل ہیں جو امریکا کو نظر نہیں آتے مگر ٹرمپ پاکستان کے معاملے میں بیان بازی کرتے ہیں۔
مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد
(خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور)
ہم مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان سب کا ملک ہے اور اس میں بسنے والے تمام لوگ بلا امتیاز مذہب، رنگ و نسل پاکستان کے شہری ہیں۔ پاکستان کو بنانے میں سب نے قائداعظمؒ کے سا تھ مل کر کام کیا لہٰذا اب ضرورت یہ ہے کہ اس ملک کو بچانے میں بھی ہم وہی کردار ادا کریں جو ہمارے بزرگوں نے اس ملک کو بنانے کیلئے ادا کیا تھا۔ دین اسلام اور حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات یہ بتاتی ہیں کہ ملک میں بسنے والی اقلیتوں کا تحفظ اسلام اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ہم انہی تعلیمات کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں دہشت گردی سمیت بے شمار مسائل سامنے آئے۔ہماری مساجد، امام بارگاہوں، چرچ و دیگر مقدس مقامات پر حملے ہوئے مگر ہم نے مل کر دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنایا۔ ہمارے اس کردار نے دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان محبتوں کا گلدستہ ہے جس میں سب اکٹھے ہیں۔ مولانا عبدالقادر آزاد مرحوم نے ملک میں بین المذاہب ہم آہنگی کی بنیاد رکھی اور اس حوالے سے ان کی گراں قدر خدمات ہیں، ہم ان کے مشن کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔
جب جوزف کالونی کا مسئلہ ہوا تو ہم نے بادشاہی مسجد میں کانفرنس منعقد کروا کر حضرت محمدﷺ کی سنت کو آگے بڑھایا کہ آپﷺ نے مسجد نبویؐ میں مسیحی وفد کے لیے دروازے کھولے جس سے دنیا کو یہ پیغام گیا کہ نفرت سے نہیں بلکہ محبت سے کام بنے گا۔ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگوں کا بلا تفریق مذہب، رنگ و نسل تحفظ ہماری اور ریاست کی ذمہ داری ہے اور یہ کام بخوبی انجام دیا جا رہا ہے۔ ہم نے بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے بہت زیادہ کام کیا جس کی وجہ سے دشمن طاقتوں کو شکست ہوئی اور اب ملک میں ہم آہنگی کی فضا قائم ہوچکی ہے ۔ حکومت، فوج، پولیس و تمام سکیورٹی ادارے جس عزم کے ساتھ آپریشن رد الفساد کو آگے لے کر چل رہے ہیں وہ بہترین ہے۔
اس مشن کی کامیابی کیلئے تمام مذاہب اور مسالک کے لوگوں نے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں خصوصی دعائیں کیں کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک سے فساد ، دہشت گردی، انتہا پسندی اور نفرت کا مکمل خاتمہ ہو اور پاکستان ایک پرامن ملک بن جائے۔ ریاست مدینہ کاپیغام برابری ہے کہ ہر شہری کو مساوی حقوق دیے جائیں۔اگر کسی کے پاس دو گھر ہیں، زمین ، پیسہ یا کھانا زیادہ ہے تو وہ اپنے دوسرے بھائی کو دے دے۔ نبی ؐ نے فرمایا کہ عربی کو عجمی پر ، عجمی کو عربی پر، غریب کو امیر پر، امیر کو غریب پر، گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔میرے نزدیک اگر یہ ماڈل پاکستان میں بن گیا تو صحیح معنوں میں مدینہ جیسی ریاست قائم ہوجائے گی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے آدمؑ کی اولاد کو عزت عطا کی ہے۔
آد مؑ کی اولاد تو سب ہیں لہٰذا ہمیںاسی چیز کو آگے لے کر چلنا چاہیے تاکہ متشدد سوچ کا خاتمہ ہوسکے۔ اسی لیے ہم نے بادشاہی مسجد سے بین المذاہب ہم آہنگی کی تحریک چلائی جسے تمام مساجد سے وسیع کیا جائے گا۔ پیغام پاکستان ہمارا بیانیہ ہے جس پر 1800 سے زائد علماء نے دستخط کیے کہ دہشت گردی و خود کش حملے حرام ہیں۔ پیغام پاکستان امن و رواداری کا پیغام ہے جسے ہم عام کرنا چاہتے ہیں۔
اب فضا بہت اچھی ہے جس کیلئے ہم نے دن رات کام کیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی امن کے کاموں میں خرچ ہو کیونکہ اسی میں خیر ہے۔ سب سے بڑی عبادت اللہ کی مخلوق سے پیار ہے لہٰذا اگر ہم اللہ کی مخلوق سے پیار کرنے والے بن جائیں گے تو اللہ بھی ہم سے پیار کرے گا۔ انجیل کی ایک آیت ہے کہ مبارک ہیں وہ لوگ جو صلح کرواتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم میں بھی یہی پیغام ہے اور آپﷺ کی تعلیمات بھی یہی ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔ ہمیں اپنی اسلامی تعلیمات کی روشنی میںآگے بڑھنا ہوگا۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب معاشرے میں رواداری اور ہم آہنگی پیدا کرنا چاہتے ہیں لہٰذا ہم اس مقدس مشن میں انہیں بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔
سباسٹین شاہ
(آرچ بشپ آف لاہور)
حال ہی میں ہمارا مذہبی تہوار کرسمس گزرا ہے جو مساوات اور برابری کا درس دیتا ہے۔ یسوع مسیحؑ سب کے لیے محبت کا پیغام لے کر آئے۔ آپؑ کی پیدائش پر فرشتوں نے یہ نغمہ گایا کہ عالم بالا پر خدا کو جلال اور زمین پر نیک انسانوں کیلئے سلامتی۔اس وقت دنیا کو امن و سلامتی اور بھائی چارے کی ضرورت ہے لہٰذا ہمیں اسے فروغ دینا ہوگا۔ ہم نے گزشتہ کئی برسوں سے برداشت پر زور دیا لہٰذا اب ہمیں قبولیت کی جانب بڑھنا ہوگا اور ایک دوسرے کو قبول کرنا ہوگا۔نئی حکومت مساوات کے حوالے سے اچھے اقدامات اٹھا رہی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ اقلیت کا لفظ استعمال نہ کیا جائے کیونکہ سب برابر ہیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ ہم مساوات کی جانب بڑھ رہے ہیں لہٰذا معاشرے پر اس کے اچھے نتائج مرتب ہوں گے۔ ہم نے مذہبی ہم آہنگی پر کام کیا جس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں جن کے پیش نظر ہم نے 2019ء کو ''سال برائے مکالمہ'' قرار دیا ہے تاکہ مکالمے کے ذریعے مسائل حل کیے جائیں اور اختلافات کو ختم کرکے سب کو ایک میز پر لایا جائے۔ دعا ہے کہ 2019 ء کا سورج پاکستان کے ہر فرد کیلئے امید اور خوشحالی لے کر آئے۔
یسوع مسیحؑ زندگی کا پیغام لائے اور زندگی پانی سے ممکن ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے جب ڈیم فنڈ کا آغاز کیا تو مسیحیوں نے اسے خوش آئند قرار دیا اور ہم اس اقدام کومکمل سپورٹ کررہے ہیں۔ اس کرسمس کے موقع پر بھی میں نے مسیحیوں سے خصوصی اپیل کی کہ وہ اپنی عیدی سے ڈیم فنڈ میں رقم ضرور جمع کروائیں۔ گزشتہ دنوں انڈونیشیا میں سونامی سے سینکڑوں لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں، ہم ان سب کے لیے دعاگو ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم افواج پاکستان کیلئے بھی دعا گو ہیں جو ہر وقت ہماری حفاظت کرتے ہیں۔
شاہد معراج
(پادری)
خدا کا سورج سب پر چمکتا ہے اور اس کی بارش سب پر برستی ہے لہٰذا خدا تعالیٰ بار بار ہماری توجہ اس طرف دلواتے ہیںکہ خدا پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔چند روز قبل ہمارا مذہبی تہوار کرسمس گزراجو امن اور سلامتی کا دن ہے ۔ کرسمس عدل و انصاف، مساوات اور محبت کا درس دیتا ہے۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ عدل و انصاف کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا لہٰذا ہمیں اس پر کام کرنا ہوگا۔
یسوع مسیحؑ سے جب پوچھا گیا کہ شریعت میں سب سے بڑا حکم کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ''اپنے سارے دل، اپنی ساری جان، اپنی ساری عقل، اپنی ساری طاقت سے خدا سے محبت رکھو اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھو''۔ اس میں یہ ضروری نہیں ہے کہ پڑوسی ہمارا ہم مذہب ہو۔ ہمیں ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ ہمیں محبت کا پیغام عام کرنا چاہیے اور اب برداشت نہیں بلکہ قبولیت کا پیغام عام کیا جائے۔ چند روز قبل بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی پیدائش کا دن گزرا جو ان کی تعلیمات کو زندہ کرنے کا دن ہے۔ قائد اعظمؒ نے پاکستان کو بلا امتیاز رنگ، نسل، مذہب تمام شہریوں کا وطن قرار دیا۔ان کی تقریر بھی موجود ہے کہ مذہب اپنی جگہ مگر ملک سب کا ہے لہٰذا ان کے ویژن کے مطابق معاشرہ قائم کیا جائے۔
پاکستان بننے میں خصوصاََ پنجاب کی تقسیم کے معاملے میں مسیحیوں نے فیصلہ کن ووٹ ڈالا۔ اس وقت پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر ایک نعرہ بلند ہوا تھا کہ جو مانگے گا پاکستان ، اس کوملے گا قبرستان۔ اسی موقع پر مسیحی رہنما ایس پی سنگھانے پلٹ کر جواب دیا کہ سینے پر گولی کھائیں گے، پاکستان بنائیں گے۔ پاکستان ہمارا گھر ہے لہٰذا اسے بہتر بنانے میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور استحصالی رویوں کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان آیا۔
میرے نزدیک امریکا کو پاکستان کے فیصلے کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر ہمارے ملک میں کہیں مسائل ہیں تو ہمیں خود انہیں دور کرنا ہے۔ قناعت پسندی بھی عبادت ہے لہٰذا لالچ اور طمع کے بجائے قناعت پسندی کو اپنانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اردگرد محروم لوگوں کو دیکھنا ہوگا اور ان کی مدد کرنا ہوگی۔
ہمیں مظلوم لوگوں کی آواز بننا چاہیے تاکہ سچ کا بول بالا ہو۔سچائی خدا کی ذات کا بنیادی وصف ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کی وجہ سے ہمارا کافی نقصان ہوا۔ موجودہ حکومت نے احتساب کا جو سلسلہ شروع کیا ہے یہ خوش آئند ہے تاہم ہمیں خود احتسابی کو فروغ دینا ہوگا۔پاکستانیوں نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے۔ ہمارے چرچ، مساجد، امام بارگاہوں اور سکولوں پر حملے ہوئے مگر ہمارے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ ہمارے بچوں، بڑوں، پولیس، افواج پاکستان غرض یہ کہ پوری قوم نے قربانیاں دیں مگر اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے اور بالآخر ہمیں کامیابی ہوئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو قوم قربانی دینا جانتی ہے اسے شکست نہیں دی جاسکتی۔ ہماری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ وطن عزیز کو ہمیشہ سلامت رکھے، پاکستان امن و انصاف کا گہوارہ بن جائے اور اس میں بسنے والے تمام لوگ خوشحال ہوجائیں۔
خدا کرے مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
حال ہی میں مسیحیوں کا مذہبی تہوار ''کرسمس'' گزرا جسے سرکاری سطح پر بھی منایا گیا۔ اس سے پاکستان میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایکسپریس میڈیا گروپ شروع دن سے ہی عوامی دلچسپی کے موضوعات پر خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کرتا ہے۔ اس روایت کو قائم رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں ''ایکسپریس فورم'' میں ''بین المذاہب ہم آہنگی اور انسانی حقوق کی صورتحال'' کے حوالے سے ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و مذہبی شخصیات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔
اعجاز عالم آگیسٹن
(صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)
موجودہ حکومت تمام پاکستانیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے تندہی سے کام کر رہی ہے۔ ابتدائی 100 دنوں میں ہم نے انسانی حقوق پالیسی 2018ء متعارف کروا ئی ہے جس کے تحت انسانی حقوق کا دائرہ کار بڑھایا جا رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر علاقے کے لوگوں کو ان کی دہلیز پر حقوق اور انصاف ملے۔ اب ہر ضلع کی سطح پر ڈسٹرکٹ آفیسر برائے انسانی حقوق تعینات کیا جائے گا جو متعلقہ لوگوں کے مسائل حل کرے گا۔ دنیا میں جانوروں کے حقوق کی تحریکیں چل رہی ہیں مگر ہمارے ہاں بعض جگہ انسانی حقوق کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔
اس کے پیش نظر ہم انسانی حقوق کی مربوط پالیسی لائے ہیں جس کے تحت انسانی حقوق کے مضامین کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جارہا ہے جبکہ پولیس سمیت تمام اداروں کو پابند کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے افسران کو انسانی حقوق کی تعلیم دیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہم نے آگاہی مہم کا الگ سے بجٹ بھی رکھا ہے جس سے اضلاع کی سطح پر اور تعلیمی اداروں میں آگاہی پروگرامز منعقد کروائے جائیں گے تاکہ لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی مل سکے۔ تشدد کے زیادہ تر واقعات جیلوں اور تھانوں میں سامنے آتے ہیں لہٰذا پولیس ریفارمز کی ضرورت ہے جس سے صورتحال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ گھریلو ملازمین پر تشدد کے بے شمار واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اس میں بہتری لانے کیلئے گزشتہ دنوں ڈومیسٹک ورکرز کا بل اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے جس کے تحت تمام ڈومیسٹک ورکرز کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا ئے گا اور ان کی کم از کم تنخواہ بھی مقرر کی جائے گی۔ اس بل کے تحت ڈیٹا اکٹھا کرنے سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔ گھریلو ملازمین پر تشدد کے بعض واقعات میں یہ سامنے آیا ہے کہ والدین اپنی بچیوں کو کام کرنے کیلئے گھروں میں بھیج دیتے ہیں اور کئی برس تک ان سے ملاقات کیلئے بھی نہیں آتے جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں لہٰذا والدین کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔ وزیراعظم جب ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں تو اس ریاست میں اقلیتوں کے لیے سب سے اہم میثاق مدینہ ہے جو دنیا میں بین المذاہب ہم آہنگی کی سب سے بہترین مثال ہے۔
نبی کریمﷺ نے دوسرے مذاہب کے لوگوں کو مسجد میں جگہ دی اور وہاں معاہدہ ہوا کہ ہم نے دیگر مذاہب کے لوگوں کو تحفظ دینا ہے۔ میرے نزدیک ریاست مدینہ میں میثاق مدینہ کے لحاظ سے قائم معاشرہ اقلیتوں کے لیے بہترین ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ اقلیتوں کو وی آئی پیز کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر کرسمس منایا گیا،اس حوالے سے تمام ڈیپارٹمنٹس اور سکولوں میں بھی تقریبات منعقد کی گئیں جو خوش آئند ہے۔
کرسمس امن و سلامتی اور محبت کا تہوار ہے۔ 2 ہزار برس قبل یسوع مسیحؑ امن اور سلامتی کا پیغام لے کر آئے اور انسانی حقوق کی بات کی۔ آپؑ نے ہمیشہ انسانوں کی خدمت اور مساوات کی بات کی۔ یہ تمام چیزیں ہر ملک کی بنیاد ہیں لہٰذا ہمیں امن، سلامتی، بھائی چارہ، رواداری اور برداشت کوفروغ دینا چاہیے تاکہ بہترین معاشرہ قائم ہوسکے۔ موجودہ حکومت مذہبی آزادی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے اچھے کام کر رہی ہے۔ کرتار پور کوریڈور کا کھلنا اس صدی کا سب سے بڑا اقدام ہے۔ ماضی کی کوئی حکومت یہ کام نہیں کر سکی مگر وزیراعظم عمران خان نے فوری ایکشن لیتے ہوئے یہ کام کیا اور اس کا کریڈٹ آرمی چیف کو بھی جاتا ہے۔ کرتار پور کوریڈور کھلنے سے 12 کروڑ سکھوں کا بنیادی مطالبہ پورا ہو گیا۔ اسی طرح پاکستان میں سکھ میرج ایکٹ پاس ہوا جو بھارت میں نہیں ہو سکا۔ کینیڈا میں سکھوں کی بہت بڑی تعداد رہتی ہے جن کا وہاں کی معیشت میں بھی اہم کردار ہے مگر اس کے باوجود وہاں انہیں یہ حق نہیں مل سکا۔ پاکستان میں سکھوں کی تعداد کم ہے مگر یہاں ان کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی مشاورت سے مینارٹی ایمپاورمنٹ پیکیج لا رہے ہیں جس سے ہر شعبے میں اقلیتوں کو ان کا حق ملے گا۔اس پیکیج کے تحت کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی، لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی،تمام ہاؤسنگ سکیموں اور وزیراعظم کے 50 لاکھ گھروں کے منصوبے میں اقلیتوں کا کوٹہ ہوگا۔ تعلیم کے میدان میں اقلیتوں کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے کے لیے میڈیکل و انجینئرنگ کالجوں میں اقلیتوں کے لیے کوٹہ مختص کیا جائے گا۔
ایک بات قابل ذکر ہے کہ جیلوں میں مسلمان قیدیوں کو عیدوں پر سزا میں 2 ماہ کی رعایت مل جاتی ہے لہٰذا اس پیکیج کے بعداقلیتوں کو بھی سزا میں رعایت دی جائے گی۔ جیل میں اگر کوئی مسلم قیدی دینی تعلیم حاصل کرتا ہے تو اسے رعایت دی جاتی ہے لیکن دوسرے مذاہب کے قیدیوں کو یہ رعایت نہیں ہے، اب انہیں بھی رعایت دی جائے گی۔ اس کے علاوہ کتابوں سے نفرت انگیز مواد کا خاتمہ کیا جارہا ہے تاکہ معاشرے میں ہم آہنگی پیدا کی جاسکے۔ مندرجہ بالا اقدامات کے ساتھ ساتھ ہم تمام اہم نکات کو اس پیکیج میں شامل کر رہے ہیں تاکہ بہتری لائی جاسکے۔
پاکستان تحریک انصاف کا کوئی مینارٹی ونگ نہیں ہے۔ دنیا میں بے شمار ایسے ممالک ہیں جہاں اقلیت کہنے پر سزا دی جاتی ہے۔ وزیراعظم پاکستان بھی لفظ ''اقلیت'' کے خلاف ہیں، وہ سب کو برابر سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس امتیاز کا خاتمہ ہو۔ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بعض عناصر نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے غیر سرکاری ادارے بناتے ہیں اور اقلیتوں کا لفظ استعمال کرکے فوائد حاصل کرتے ہیں جو افسوسناک ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کو اکثریتوں سے زیادہ حقوق حاصل ہیں۔
ہم جنرل الیکشن میں ووٹ ڈالتے ہیں اور پھر اپنے نمائندے بھی منتخب کرتے ہیں۔ ہمیں یہاں عبادت کی آزادی بھی ہے اور ہم پاکستان میں ہر جگہ بلا خوف و خطر جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ میجر جنرل سے لے کر کمشنر جیسے بڑے عہدوں پر بھی اقلتیں فائز ہیں جس سے ہمارے حقوق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے تاہم عدم برداشت کے ماحول میں جو چند ایک واقعات ہوجاتے ہیں وہ بڑا مسئلہ نہیں ہیں۔بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔ وہاں گائے کا گوشت کھانے والوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے۔ وہاں ہمارے چرچز اور ننز کو جلا دیا گیا جو افسوسناک ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی بھی سب کے سامنے ہے۔ خود امریکا میں بھی اقلیتوں کو مسائل ہیں جو امریکا کو نظر نہیں آتے مگر ٹرمپ پاکستان کے معاملے میں بیان بازی کرتے ہیں۔
مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد
(خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور)
ہم مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان سب کا ملک ہے اور اس میں بسنے والے تمام لوگ بلا امتیاز مذہب، رنگ و نسل پاکستان کے شہری ہیں۔ پاکستان کو بنانے میں سب نے قائداعظمؒ کے سا تھ مل کر کام کیا لہٰذا اب ضرورت یہ ہے کہ اس ملک کو بچانے میں بھی ہم وہی کردار ادا کریں جو ہمارے بزرگوں نے اس ملک کو بنانے کیلئے ادا کیا تھا۔ دین اسلام اور حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات یہ بتاتی ہیں کہ ملک میں بسنے والی اقلیتوں کا تحفظ اسلام اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ہم انہی تعلیمات کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں دہشت گردی سمیت بے شمار مسائل سامنے آئے۔ہماری مساجد، امام بارگاہوں، چرچ و دیگر مقدس مقامات پر حملے ہوئے مگر ہم نے مل کر دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنایا۔ ہمارے اس کردار نے دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان محبتوں کا گلدستہ ہے جس میں سب اکٹھے ہیں۔ مولانا عبدالقادر آزاد مرحوم نے ملک میں بین المذاہب ہم آہنگی کی بنیاد رکھی اور اس حوالے سے ان کی گراں قدر خدمات ہیں، ہم ان کے مشن کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔
جب جوزف کالونی کا مسئلہ ہوا تو ہم نے بادشاہی مسجد میں کانفرنس منعقد کروا کر حضرت محمدﷺ کی سنت کو آگے بڑھایا کہ آپﷺ نے مسجد نبویؐ میں مسیحی وفد کے لیے دروازے کھولے جس سے دنیا کو یہ پیغام گیا کہ نفرت سے نہیں بلکہ محبت سے کام بنے گا۔ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگوں کا بلا تفریق مذہب، رنگ و نسل تحفظ ہماری اور ریاست کی ذمہ داری ہے اور یہ کام بخوبی انجام دیا جا رہا ہے۔ ہم نے بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے بہت زیادہ کام کیا جس کی وجہ سے دشمن طاقتوں کو شکست ہوئی اور اب ملک میں ہم آہنگی کی فضا قائم ہوچکی ہے ۔ حکومت، فوج، پولیس و تمام سکیورٹی ادارے جس عزم کے ساتھ آپریشن رد الفساد کو آگے لے کر چل رہے ہیں وہ بہترین ہے۔
اس مشن کی کامیابی کیلئے تمام مذاہب اور مسالک کے لوگوں نے اپنی اپنی عبادت گاہوں میں خصوصی دعائیں کیں کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک سے فساد ، دہشت گردی، انتہا پسندی اور نفرت کا مکمل خاتمہ ہو اور پاکستان ایک پرامن ملک بن جائے۔ ریاست مدینہ کاپیغام برابری ہے کہ ہر شہری کو مساوی حقوق دیے جائیں۔اگر کسی کے پاس دو گھر ہیں، زمین ، پیسہ یا کھانا زیادہ ہے تو وہ اپنے دوسرے بھائی کو دے دے۔ نبی ؐ نے فرمایا کہ عربی کو عجمی پر ، عجمی کو عربی پر، غریب کو امیر پر، امیر کو غریب پر، گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔میرے نزدیک اگر یہ ماڈل پاکستان میں بن گیا تو صحیح معنوں میں مدینہ جیسی ریاست قائم ہوجائے گی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے آدمؑ کی اولاد کو عزت عطا کی ہے۔
آد مؑ کی اولاد تو سب ہیں لہٰذا ہمیںاسی چیز کو آگے لے کر چلنا چاہیے تاکہ متشدد سوچ کا خاتمہ ہوسکے۔ اسی لیے ہم نے بادشاہی مسجد سے بین المذاہب ہم آہنگی کی تحریک چلائی جسے تمام مساجد سے وسیع کیا جائے گا۔ پیغام پاکستان ہمارا بیانیہ ہے جس پر 1800 سے زائد علماء نے دستخط کیے کہ دہشت گردی و خود کش حملے حرام ہیں۔ پیغام پاکستان امن و رواداری کا پیغام ہے جسے ہم عام کرنا چاہتے ہیں۔
اب فضا بہت اچھی ہے جس کیلئے ہم نے دن رات کام کیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی امن کے کاموں میں خرچ ہو کیونکہ اسی میں خیر ہے۔ سب سے بڑی عبادت اللہ کی مخلوق سے پیار ہے لہٰذا اگر ہم اللہ کی مخلوق سے پیار کرنے والے بن جائیں گے تو اللہ بھی ہم سے پیار کرے گا۔ انجیل کی ایک آیت ہے کہ مبارک ہیں وہ لوگ جو صلح کرواتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم میں بھی یہی پیغام ہے اور آپﷺ کی تعلیمات بھی یہی ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے۔ ہمیں اپنی اسلامی تعلیمات کی روشنی میںآگے بڑھنا ہوگا۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب معاشرے میں رواداری اور ہم آہنگی پیدا کرنا چاہتے ہیں لہٰذا ہم اس مقدس مشن میں انہیں بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔
سباسٹین شاہ
(آرچ بشپ آف لاہور)
حال ہی میں ہمارا مذہبی تہوار کرسمس گزرا ہے جو مساوات اور برابری کا درس دیتا ہے۔ یسوع مسیحؑ سب کے لیے محبت کا پیغام لے کر آئے۔ آپؑ کی پیدائش پر فرشتوں نے یہ نغمہ گایا کہ عالم بالا پر خدا کو جلال اور زمین پر نیک انسانوں کیلئے سلامتی۔اس وقت دنیا کو امن و سلامتی اور بھائی چارے کی ضرورت ہے لہٰذا ہمیں اسے فروغ دینا ہوگا۔ ہم نے گزشتہ کئی برسوں سے برداشت پر زور دیا لہٰذا اب ہمیں قبولیت کی جانب بڑھنا ہوگا اور ایک دوسرے کو قبول کرنا ہوگا۔نئی حکومت مساوات کے حوالے سے اچھے اقدامات اٹھا رہی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان چاہتے ہیں کہ اقلیت کا لفظ استعمال نہ کیا جائے کیونکہ سب برابر ہیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ ہم مساوات کی جانب بڑھ رہے ہیں لہٰذا معاشرے پر اس کے اچھے نتائج مرتب ہوں گے۔ ہم نے مذہبی ہم آہنگی پر کام کیا جس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں جن کے پیش نظر ہم نے 2019ء کو ''سال برائے مکالمہ'' قرار دیا ہے تاکہ مکالمے کے ذریعے مسائل حل کیے جائیں اور اختلافات کو ختم کرکے سب کو ایک میز پر لایا جائے۔ دعا ہے کہ 2019 ء کا سورج پاکستان کے ہر فرد کیلئے امید اور خوشحالی لے کر آئے۔
یسوع مسیحؑ زندگی کا پیغام لائے اور زندگی پانی سے ممکن ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے جب ڈیم فنڈ کا آغاز کیا تو مسیحیوں نے اسے خوش آئند قرار دیا اور ہم اس اقدام کومکمل سپورٹ کررہے ہیں۔ اس کرسمس کے موقع پر بھی میں نے مسیحیوں سے خصوصی اپیل کی کہ وہ اپنی عیدی سے ڈیم فنڈ میں رقم ضرور جمع کروائیں۔ گزشتہ دنوں انڈونیشیا میں سونامی سے سینکڑوں لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں، ہم ان سب کے لیے دعاگو ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم افواج پاکستان کیلئے بھی دعا گو ہیں جو ہر وقت ہماری حفاظت کرتے ہیں۔
شاہد معراج
(پادری)
خدا کا سورج سب پر چمکتا ہے اور اس کی بارش سب پر برستی ہے لہٰذا خدا تعالیٰ بار بار ہماری توجہ اس طرف دلواتے ہیںکہ خدا پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔چند روز قبل ہمارا مذہبی تہوار کرسمس گزراجو امن اور سلامتی کا دن ہے ۔ کرسمس عدل و انصاف، مساوات اور محبت کا درس دیتا ہے۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ عدل و انصاف کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا لہٰذا ہمیں اس پر کام کرنا ہوگا۔
یسوع مسیحؑ سے جب پوچھا گیا کہ شریعت میں سب سے بڑا حکم کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ''اپنے سارے دل، اپنی ساری جان، اپنی ساری عقل، اپنی ساری طاقت سے خدا سے محبت رکھو اور اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھو''۔ اس میں یہ ضروری نہیں ہے کہ پڑوسی ہمارا ہم مذہب ہو۔ ہمیں ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ ہمیں محبت کا پیغام عام کرنا چاہیے اور اب برداشت نہیں بلکہ قبولیت کا پیغام عام کیا جائے۔ چند روز قبل بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی پیدائش کا دن گزرا جو ان کی تعلیمات کو زندہ کرنے کا دن ہے۔ قائد اعظمؒ نے پاکستان کو بلا امتیاز رنگ، نسل، مذہب تمام شہریوں کا وطن قرار دیا۔ان کی تقریر بھی موجود ہے کہ مذہب اپنی جگہ مگر ملک سب کا ہے لہٰذا ان کے ویژن کے مطابق معاشرہ قائم کیا جائے۔
پاکستان بننے میں خصوصاََ پنجاب کی تقسیم کے معاملے میں مسیحیوں نے فیصلہ کن ووٹ ڈالا۔ اس وقت پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر ایک نعرہ بلند ہوا تھا کہ جو مانگے گا پاکستان ، اس کوملے گا قبرستان۔ اسی موقع پر مسیحی رہنما ایس پی سنگھانے پلٹ کر جواب دیا کہ سینے پر گولی کھائیں گے، پاکستان بنائیں گے۔ پاکستان ہمارا گھر ہے لہٰذا اسے بہتر بنانے میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور استحصالی رویوں کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان آیا۔
میرے نزدیک امریکا کو پاکستان کے فیصلے کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر ہمارے ملک میں کہیں مسائل ہیں تو ہمیں خود انہیں دور کرنا ہے۔ قناعت پسندی بھی عبادت ہے لہٰذا لالچ اور طمع کے بجائے قناعت پسندی کو اپنانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اردگرد محروم لوگوں کو دیکھنا ہوگا اور ان کی مدد کرنا ہوگی۔
ہمیں مظلوم لوگوں کی آواز بننا چاہیے تاکہ سچ کا بول بالا ہو۔سچائی خدا کی ذات کا بنیادی وصف ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی کی وجہ سے ہمارا کافی نقصان ہوا۔ موجودہ حکومت نے احتساب کا جو سلسلہ شروع کیا ہے یہ خوش آئند ہے تاہم ہمیں خود احتسابی کو فروغ دینا ہوگا۔پاکستانیوں نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے۔ ہمارے چرچ، مساجد، امام بارگاہوں اور سکولوں پر حملے ہوئے مگر ہمارے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ ہمارے بچوں، بڑوں، پولیس، افواج پاکستان غرض یہ کہ پوری قوم نے قربانیاں دیں مگر اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے اور بالآخر ہمیں کامیابی ہوئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو قوم قربانی دینا جانتی ہے اسے شکست نہیں دی جاسکتی۔ ہماری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ وطن عزیز کو ہمیشہ سلامت رکھے، پاکستان امن و انصاف کا گہوارہ بن جائے اور اس میں بسنے والے تمام لوگ خوشحال ہوجائیں۔
خدا کرے مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو