کارکردگی میں تسلسل دکھایا ہوتا تو اچھے نتائج سامنے آسکتے تھے سرفراز احمد
نیوزی لینڈ کےخلاف سیریز کے بعد سنچورین میں ناکامی کے ساتھ سال کا اختتام کرنا تکلیف دہ تھا، کوچ مکی آرتھر
قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے کہا ہے کہ کارکردگی میں تسلسل دکھایا ہوتا تو اچھے نتائج سامنے آسکتے تھے، بیٹسمین اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے آئندہ عمدہ پرفارم کریں گے، سینئرز کو ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔
سال کے اختتام پر اپنے پیغام میں کپتان سرفراز احمد نے کہا کہ ٹیم نے کبھی غیرمعمولی تو کبھی معمولی کارکردگی پیش کی، مجموعی طور پر بہتر کھیل دکھایا لیکن یہ تسلیم کرتا ہوں کہ اگر پرفارمنس میں تسلسل ہوتا تو بہتر نتائج سامنے آسکتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان نے کئی سال بعد پہلی بار یونس خان اور مصباح الحق کے بغیر ٹیسٹ میچز میں حصہ لیا، دونوں کی غیر موجودگی میں ڈریسنگ روم میں عجیب سا محسوس ہوا،مجھ سمیت تمام کھلاڑیوں کو ان کے تجربے اور کھیل کے بارے میں علم کی کمی کھٹکتی رہی، اس طرح کے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل کرکٹرز کے متبادل تلاش کرنا آسان نہیں ہوتا اور یہ کام راتوں رات نہیں ہوسکتا، ابھی ہم اس عمل سے گزر رہے ہیں۔
کپتان نے کہا کہ مڈل آرڈر نے مشکل کنڈیشنز میں مشکل حریفوں کے سامنے اچھا پرفارم کیا،بیٹسمینوں کو سیکھنے کے مواقع ملے، امید ہے کہ وہ غلطیاں نہ دہراتے ہوئے آنے والے میچز میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔
سرفراز احمد نے کہا کہ گزشتہ سال غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل کھلاڑی سامنے آئے، دنیائے کرکٹ نے ان کے ٹیلنٹ کو سراہا، محمد عباس نے یو اے ای کی پیسرز کیلیے نا سازگار کنڈیشنز میں حیران کن کارکردگی دکھائی، ان کو مستقبل کا نمبر ون بولر قرار دیا جا رہا ہے، پیسر ہر طرح کی کنڈیشنز میں پاکستان کے لیے پرفارم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اسی طرح دنیا کے بہترین لیگ اسپنر یاسر شاہ کی کارکردگی پہلے سے بھی بہتر ہوگئی۔
انھوں نے خود کو میچ ونر ثابت کیا، بابر اعظم نے ایک مستند اور اسٹائلش بیٹسمین کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، سرفراز نے مزید کہا کہ فخرزمان، امام الحق، شاداب خان، شاہین شاہ آفریدی، حارث سہیل، حسن علی، جنید خان، عماد وسیم، فہیم اشرف اور شان مسعود نے اپنی صلاحیتوں کی جھلک دکھا دی، اظہر علی، اسد شفیق، محمد عامر، شعیب ملک اور مجھ سمیت سینئرز کی ذمہ داری ہے کہ ٹیم کا بوجھ اٹھائیں تاکہ نوجوان کرکٹرز کو صلاحیتیں نکھارنے کے مواقع مل سکیں۔
انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کرکٹ کا مستقبل روشن اور محفوظ ہاتھوں میں ہے، باصلاحیت کھلاڑیوں کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مستقبل کے چیلنجز پر پورا اتر سکیں۔ کپتان نے کہا کہ فی الحال جنوبی افریقا کے خلاف سیریز جاری اور ہماری پوری توجہ اسی پر مرکوز ہے، پھرآسٹریلیا سے ہوم ون ڈے میچز اور دورئہ انگلینڈ میں میزبان ٹیم کے ساتھ مقابلے شیڈول ہیں، اس کے بعد ورلڈکپ کا چیلنج درپیش ہوگا، ہم اس سال زیادہ میچز جیتنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، ہمارے پاس ٹیلنٹ اور ٹیم میں جیتنے کی صلاحیت ہے، مثبت نتائج سے ہمیں اپنے اہداف کی طرف بڑھنے میں مدد ملے گی۔
انھوں نے کہا کہ ٹیم کو اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھتے ہوئے آگے بڑھنا، حوصلہ جوان اور سخت ٹریننگ کا سلسلہ جاری رکھنا ہے، ہمیں اپنے مقاصد پانے کے لیے سامنے آنے والے ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کیلیے جان لڑانا ہوگی۔
پاکستان ٹیم تعمیرنو کے مراحل سے گزر رہی ہے، مکی آرتھر
ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے گزرے سال پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ لارڈز ٹیسٹ میں انگلینڈ پر فتح، کینگروز کے ساتھ سیریز میں 1-0سے برتری پانا اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ورلڈ ریکارڈ فتوحات یادگار رہیں،ہم نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز اور سنچورین ٹیسٹ بھی جیت سکے تھے، سال کے اختتام پر موقع ہونے کے باوجود فتح نہ پانا تکلیف دہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان ٹیم تعمیرنو کے مراحل سے گزر رہی ہے، گزشتہ سال کافی بہتری نظر آئی، میرا یقین ہے کہ باصلاحیت نوجوان کرکٹرز کی بہترین کارکردگی ابھی سامنے آنا باقی ہے، بطور ہیڈکوچ میرے لیے قابل اطمینان بات یہ ہے کہ کھلاڑیوں نے سخت محنت کی، سال بھر مصروفیات رہیں، اس کے باوجود وہ جب بھی میدان میں اترے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کرنے کیلیے کوشاں رہے، خاص طور پر فیلڈنگ میں نمایاں بہتری میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہے۔ اس فرق کو ماہرین کرکٹ نے بھی محسوس کیا،کئی شاندار کیچز اور رن آؤٹس اس کا ثبوت ہیں، گراؤنڈ فیلڈنگ میں بھی رنز بچائے، یہ سب کھلاڑیوں کے عزم اور سخت محنت کی بدولت ممکن ہوا۔
آرتھر نے کہا کہ کئی میچز میں ایسی غلطیاں ہوئیں جن کی بھاری قیمت چکانا پڑی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کھلاڑیوں نے کوشش اور محنت میں کوئی کسر چھوڑی، انھوں نے دنیا کو اپنا ٹیلنٹ اور عزم دکھایا، اب وقت آ گیاکہ ان صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے مثبت نتائج حاصل کیے جائیں، انھوں نے کہا کہ سال بھر میں کئی اچھے اور بُرے دن آئے لیکن ٹیم یکجا ہوکر محنت کرتی رہی، میں پُراعتماد ہوں کہ تسلسل کے ساتھ اچھے نتائج دینے کا وقت آنے والا ہے۔
سال کے اختتام پر اپنے پیغام میں کپتان سرفراز احمد نے کہا کہ ٹیم نے کبھی غیرمعمولی تو کبھی معمولی کارکردگی پیش کی، مجموعی طور پر بہتر کھیل دکھایا لیکن یہ تسلیم کرتا ہوں کہ اگر پرفارمنس میں تسلسل ہوتا تو بہتر نتائج سامنے آسکتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان نے کئی سال بعد پہلی بار یونس خان اور مصباح الحق کے بغیر ٹیسٹ میچز میں حصہ لیا، دونوں کی غیر موجودگی میں ڈریسنگ روم میں عجیب سا محسوس ہوا،مجھ سمیت تمام کھلاڑیوں کو ان کے تجربے اور کھیل کے بارے میں علم کی کمی کھٹکتی رہی، اس طرح کے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل کرکٹرز کے متبادل تلاش کرنا آسان نہیں ہوتا اور یہ کام راتوں رات نہیں ہوسکتا، ابھی ہم اس عمل سے گزر رہے ہیں۔
کپتان نے کہا کہ مڈل آرڈر نے مشکل کنڈیشنز میں مشکل حریفوں کے سامنے اچھا پرفارم کیا،بیٹسمینوں کو سیکھنے کے مواقع ملے، امید ہے کہ وہ غلطیاں نہ دہراتے ہوئے آنے والے میچز میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔
سرفراز احمد نے کہا کہ گزشتہ سال غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل کھلاڑی سامنے آئے، دنیائے کرکٹ نے ان کے ٹیلنٹ کو سراہا، محمد عباس نے یو اے ای کی پیسرز کیلیے نا سازگار کنڈیشنز میں حیران کن کارکردگی دکھائی، ان کو مستقبل کا نمبر ون بولر قرار دیا جا رہا ہے، پیسر ہر طرح کی کنڈیشنز میں پاکستان کے لیے پرفارم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اسی طرح دنیا کے بہترین لیگ اسپنر یاسر شاہ کی کارکردگی پہلے سے بھی بہتر ہوگئی۔
انھوں نے خود کو میچ ونر ثابت کیا، بابر اعظم نے ایک مستند اور اسٹائلش بیٹسمین کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، سرفراز نے مزید کہا کہ فخرزمان، امام الحق، شاداب خان، شاہین شاہ آفریدی، حارث سہیل، حسن علی، جنید خان، عماد وسیم، فہیم اشرف اور شان مسعود نے اپنی صلاحیتوں کی جھلک دکھا دی، اظہر علی، اسد شفیق، محمد عامر، شعیب ملک اور مجھ سمیت سینئرز کی ذمہ داری ہے کہ ٹیم کا بوجھ اٹھائیں تاکہ نوجوان کرکٹرز کو صلاحیتیں نکھارنے کے مواقع مل سکیں۔
انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کرکٹ کا مستقبل روشن اور محفوظ ہاتھوں میں ہے، باصلاحیت کھلاڑیوں کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مستقبل کے چیلنجز پر پورا اتر سکیں۔ کپتان نے کہا کہ فی الحال جنوبی افریقا کے خلاف سیریز جاری اور ہماری پوری توجہ اسی پر مرکوز ہے، پھرآسٹریلیا سے ہوم ون ڈے میچز اور دورئہ انگلینڈ میں میزبان ٹیم کے ساتھ مقابلے شیڈول ہیں، اس کے بعد ورلڈکپ کا چیلنج درپیش ہوگا، ہم اس سال زیادہ میچز جیتنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، ہمارے پاس ٹیلنٹ اور ٹیم میں جیتنے کی صلاحیت ہے، مثبت نتائج سے ہمیں اپنے اہداف کی طرف بڑھنے میں مدد ملے گی۔
انھوں نے کہا کہ ٹیم کو اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھتے ہوئے آگے بڑھنا، حوصلہ جوان اور سخت ٹریننگ کا سلسلہ جاری رکھنا ہے، ہمیں اپنے مقاصد پانے کے لیے سامنے آنے والے ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کیلیے جان لڑانا ہوگی۔
پاکستان ٹیم تعمیرنو کے مراحل سے گزر رہی ہے، مکی آرتھر
ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے گزرے سال پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ لارڈز ٹیسٹ میں انگلینڈ پر فتح، کینگروز کے ساتھ سیریز میں 1-0سے برتری پانا اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ورلڈ ریکارڈ فتوحات یادگار رہیں،ہم نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز اور سنچورین ٹیسٹ بھی جیت سکے تھے، سال کے اختتام پر موقع ہونے کے باوجود فتح نہ پانا تکلیف دہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان ٹیم تعمیرنو کے مراحل سے گزر رہی ہے، گزشتہ سال کافی بہتری نظر آئی، میرا یقین ہے کہ باصلاحیت نوجوان کرکٹرز کی بہترین کارکردگی ابھی سامنے آنا باقی ہے، بطور ہیڈکوچ میرے لیے قابل اطمینان بات یہ ہے کہ کھلاڑیوں نے سخت محنت کی، سال بھر مصروفیات رہیں، اس کے باوجود وہ جب بھی میدان میں اترے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کرنے کیلیے کوشاں رہے، خاص طور پر فیلڈنگ میں نمایاں بہتری میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہے۔ اس فرق کو ماہرین کرکٹ نے بھی محسوس کیا،کئی شاندار کیچز اور رن آؤٹس اس کا ثبوت ہیں، گراؤنڈ فیلڈنگ میں بھی رنز بچائے، یہ سب کھلاڑیوں کے عزم اور سخت محنت کی بدولت ممکن ہوا۔
آرتھر نے کہا کہ کئی میچز میں ایسی غلطیاں ہوئیں جن کی بھاری قیمت چکانا پڑی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کھلاڑیوں نے کوشش اور محنت میں کوئی کسر چھوڑی، انھوں نے دنیا کو اپنا ٹیلنٹ اور عزم دکھایا، اب وقت آ گیاکہ ان صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے مثبت نتائج حاصل کیے جائیں، انھوں نے کہا کہ سال بھر میں کئی اچھے اور بُرے دن آئے لیکن ٹیم یکجا ہوکر محنت کرتی رہی، میں پُراعتماد ہوں کہ تسلسل کے ساتھ اچھے نتائج دینے کا وقت آنے والا ہے۔