الیکشن کمیشن انتخابات میں اپنی ذمہ داریاں مکمل طورپرادا کرنے میں ناکام رہا مبصرین یورپی یونین
انتخابی نتائج جمع کرنے کاعمل انتہائی سست تھا جس نے اس کی شفافیت پر کئی سوال اٹھائے،یورپی یونین مبصرین
11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات کے جائزے کے لئے آنے والے یورپی یونین کے مبصرین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں مکمل طور پر ادا نہیں کرسکا۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے کے دوران یورپی یونین کے مبصرین پر مشتمل ٹیم کے سربراہ مائیکل گوہلر نے کہا کہ ان کی سربراہی میں یورپی یونین کے مبصرین 3 مارچ سے 4 جون تک انتخابی عمل کا جائزہ لیتے رہے، اس دوران مبصرین نے 184 حلقوں میں انتخابی سرگرمیوں اور پولنگ کے عمل کا جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ الیکشن کمیشن ملک میں صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری پوری طرح ادا کرنے میں ناکام رہا، ملک بھر میں انتخابی امیدواروں کو یکساں مواقع نہیں مل سکے، ایک امیدوار کے کاغذات نامزدگی ایک حلقے سے منظور جبکہ دوسرے حلقے میں مسترد کردیئے گئے جس نے الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کئے گئے جانچ پڑتال کے عمل پر سوالیہ نشان لگایا۔
مائیکل گوہلر کا کہنا تھا کہ پولنگ کے بعد انتخابی نتائج جمع کرنے کا عمل مربوط نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی سست تھا جس نے اس کی شفافیت پر کئی سوال اٹھائے، پولنگ کے دوران ہی انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگائے گئے جب کہ کئی حلقوں کے انتخابی نتائج پر مخالف امیدواروں نے دھاندلی کے الزامات عائد کئے، ان تمام نقائص سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہا تاہم حالیہ عام انتخابات میں ٹرن آؤٹ ظاہر کرتا ہے کہ عوام تشدد کی بجائے بیلٹ کے ذریعے تبدیلی چاہتے ہیں۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے کے دوران یورپی یونین کے مبصرین پر مشتمل ٹیم کے سربراہ مائیکل گوہلر نے کہا کہ ان کی سربراہی میں یورپی یونین کے مبصرین 3 مارچ سے 4 جون تک انتخابی عمل کا جائزہ لیتے رہے، اس دوران مبصرین نے 184 حلقوں میں انتخابی سرگرمیوں اور پولنگ کے عمل کا جائزہ لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ الیکشن کمیشن ملک میں صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری پوری طرح ادا کرنے میں ناکام رہا، ملک بھر میں انتخابی امیدواروں کو یکساں مواقع نہیں مل سکے، ایک امیدوار کے کاغذات نامزدگی ایک حلقے سے منظور جبکہ دوسرے حلقے میں مسترد کردیئے گئے جس نے الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کئے گئے جانچ پڑتال کے عمل پر سوالیہ نشان لگایا۔
مائیکل گوہلر کا کہنا تھا کہ پولنگ کے بعد انتخابی نتائج جمع کرنے کا عمل مربوط نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی سست تھا جس نے اس کی شفافیت پر کئی سوال اٹھائے، پولنگ کے دوران ہی انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگائے گئے جب کہ کئی حلقوں کے انتخابی نتائج پر مخالف امیدواروں نے دھاندلی کے الزامات عائد کئے، ان تمام نقائص سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہا تاہم حالیہ عام انتخابات میں ٹرن آؤٹ ظاہر کرتا ہے کہ عوام تشدد کی بجائے بیلٹ کے ذریعے تبدیلی چاہتے ہیں۔