رمضان المبارک اور روزے

’’ شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اﷲ تعالٰی کا مہینہ ہے۔‘‘ (ارشاد نبوی)


’’ شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اﷲ تعالٰی کا مہینہ ہے۔‘‘ (ارشاد نبوی)

اُمت مسلمہ کا اجماع ہے کہ رمضان المبارک تمام مہینوں سے افضل ہے، حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: '' شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اﷲ تعالٰی کا مہینہ ہے۔''

لفظ ''رمضان'' رمضاء سے بنا ہے اور رمضاء خریف کی اس بارش کو کہتے ہیں جو زمین سے گرد و غبار کو دھو ڈالتی ہے۔ اسی طرح رمضان بھی روزہ دار مسلمانوں کے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے اور ان کے دلوں کو گناہوں سے پا ک کر دیتا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ لفظ ''رمضان '' رمض سے مشتق ہے اور رمض سورج کی تیز دھوپ کو کہتے ہیں ۔ تو جس طرح تیز دھوپ سے بدن جلتا ہے، اسی طرح رمضان میں روزہ داروں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: '' رمضان اﷲ کے بندوں کے گناہوں کو جلا دیتا ہے۔''

روزہ فارسی زبان کا لفظ ہے، یہی لفظ اردو زبان میں بھی مستعمل ہے۔ عربی زبان میں روزے کو صوم کہتے ہیں۔ صیام جمع ہے، لغت میں صوم کے معنی ہیں : '' یعنی اس چیز سے باز رہنا جس طرف نفس کشش محسوس کرتا ہو۔''

شرعی اصطلاح میں روزے کی نیت کے ساتھ طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلق سے باز رہنے کے عمل کو صوم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ روزے کی غرض و غایت صرف ان تین فقہی پابندیوں کا لحاظ کرنا نہیں بلکہ روزہ، روزے داروں کو تمام برُے اخلاق اور اعمال سے مکمل طور پر دست کش ہو جانے کی تربیت دیتا ہے۔ جب روزے دار نے یہ تین حلال چیزیں اپنے رب کے حکم سے ترک کر دیں تو وہ دیگر چیزوں یعنی ظلم، سود خوری، رشوت ، بدعنوانی، وعدہ خلافی اور والدین کی نافرمانی وغیرہ جن کو رب نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا ہے، ان کا ارتکاب کرنے کی جرأت کیسے کر سکتا ہے؟ قرآن میں روزے کا مقصد بڑے واضح طور پربیان کیا گیاہے۔ باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : '' اے ایمان والوں! تم پر روزے رکھنا فرض کر دیے گئے ہیں جس طرح پچھلی امتوں پر فرض تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔'' (البقرہ ،183)

اس آیت کریمہ میں روزے رکھنے کا مقصد بذریعہ روزہ متقی بننا بیان ہوا ہے۔ لفظ متقی ''تقوٰی'' سے ماخوذ ہے۔ تقوٰی دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد دل کو گناہوں سے گھبراہٹ ہونے لگتی ہے اور نیک کا م کرنے کی تڑپ پیدا ہوتی ہے، جس کے باعث متقی اپنے نفس پر قابو پالیتا ہے۔ یہ دنیا مثل ایک جھاڑی کے ہے جس کے چاروں طرف کذب بیانی، دھوکہ دہی، نفرت، بغض ، حسد، تکبر اور استحصال کے کا نٹے پھیلے ہوئے ہیں، جو کوئی ان میں الجھے بغیر زندگی گزارتا ہے وہ ہی متقی ہے۔

1۔ روزہ رکھنے سے کھانے، پینے اور شہوانی لذّات میں کمی ہوتی ہے، حیوانی قوت کم ہو جاتی ہے اور روحانی قوت زیادہ ہوتی ہے۔
2۔ بھوک اور پیاس پر صبر کر نے سے انسان کو مشکلات اور مصائب پر صبر کرنے کی عادت پڑتی ہے اور مشقت برداشت کرنے کی مشق ہوتی ہے۔
3۔ خود بھوکا اور پیاسا رہنے سے انسان کو دوسروں کی بھوک اور پیا س کا احساس ہو تا ہے اور اس کا دل غرباء کی مدد کی طرف مائل ہوتا ہے۔

4ْ۔ بھوک پیاس کی وجہ سے انسان گناہوں کے ارتکاب سے محفوظ رہتا ہے۔
5۔ بھوکا پیاسا رہنے سے انسان کا تکبر ٹوٹتا ہے اور اُسے احساس ہوتا ہے کہ وہ کھانے پینے کی چیزوں کا کس قدر محتاج ہے۔
6۔ بھوکا رہنے سے ذہن تیز ہو تا ہے، بصیرت کا م کرتی ہے اور فکر تیز ہوتی ہے۔ (احیاء العلوم)

7۔ پیٹ بھر کا کھانا بیماری کی جڑ ہے اور پرہیز علاج کی بنیاد ہے۔ (احیاء العلوم)
8۔ لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی۔ اے بیٹے جب معدہ بھر جاتا ہے تو فکر سو جاتی ہے اور حکمت گونگی ہو جاتی ہے اور عباد ت کرنے کے لیے اعضاء سُست پڑ جا تے ہیں۔
9۔ شیطان انسان کی رگوں میں دوڑتا ہے اور بھوک پیاس سے شیطان کے راستے تنگ ہو جاتے ہیں، اس طرح روزے سے شیطان پر ضرب پڑتی ہے

10۔ روزہ امیر اور غریب شریف اور خسیس سب پر فرض ہے اس سے اسلام کی مساوات مؤکد ہو جاتی ہے ۔
11۔ روزانہ ایک وقت سحری اور افطار کرنے سے انسان کو نظام الاوقات کی پابندی کرنے کی مشق ہوتی ہے۔
12۔ تبخیر اور بسیار خوری کے ایسے امراض میں روزہ رکھنا صحت کے لیے بہت مفید ہے۔

13۔ روزہ اور نمازِ تراویح سے کلسٹرائل زائل ہو تا ہے ۔
14۔ جو کھانا کھایا جاتا ہے وہ سب عبادت میں لکھا جاتا ہے۔
15۔ کل فرشتے زمین و آسمان کے روزہ دار کے لیے بخشش مانگتے ہیں۔

16۔ روزہ داروں کی دعا قبول ہوتی ہے اور تمام بدن گناہوں سے پاک ہو جا تا ہے۔
17۔ رمضان کے مہینے کے فرض دوسرے مہینوں کے ستر فرضوں کے برابر ہیں اور نفل دوسرے مہینوں کے فرضوں کے برابر ثواب میں ہے۔
رمضان کا روزہ اسلام کا ایک اہم اور بنیادی رکن ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

'' پھر تم میں سے جو شخص اس مہینے میں موجود ہو وہ ضرور اس ماہ کے روز ے رکھے۔ '' (البقرہ، 185)
اس آیت مبارکہ کی روشنی میں رمضان المبارک کے پور ے روز ے رکھنا ہر مکلّف مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہیں۔ ان کی فرضیت سے انکار کرنے والا کا فر اور بغیر کسی شرعی عذر کے نہ رکھنے والا سخت گناہ گار ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں