آنکھوں میں آنکھیں

کہتے ہیں کہ ’’وقت سب سے بڑا استاد ہے، لیکن وہ اپنے تمام شاگردوں کو مار دیتا ہے‘‘ یہ اس کا ایک ڈرانے والا پہلو ہے۔


Tariq Mahmood Mian July 10, 2013
[email protected]

کہتے ہیں کہ ''وقت سب سے بڑا استاد ہے، لیکن وہ اپنے تمام شاگردوں کو مار دیتا ہے'' یہ اس کا ایک ڈرانے والا پہلو ہے۔ دوسرا پہلو سیکھنے اور سکھانے والا ہے۔ وہ لکھاتا ہے، پڑھاتا ہے اور سکھاتا ہے۔ بگڑوں تگڑوں کو سیدھا کردیتا ہے۔۔۔لیکن ان کا کیا کیجیے اور اس دم کا کیا کیجیے جو برسوں تک نلکی میں رکھی رہی پر سیدھی نہیں ہوئی ۔ جونہی باہر نکلی،پھدک کے ٹیڑھی ہوگئی۔

ارشاد ہوا ''ہاں میں تو کہہ رہا تھا۔'' وزیر خزانہ نے بات وہیں سے شروع کی جہاں تیرہ برس پہلے ختم کی تھی۔ سرمو فرق نہیں۔ خزانہ خالی ہونے کا اعلان انھوں نے کیا تو ڈرم کو الٹا کرکے ڈنڈے سے اچھی طرح کھڑکا اور بجا کے کیا۔ یوں جیسے جادوگرکا تماشا دکھانے سے پہلے ڈبے کو دکھاتا ہے اور پھر اس میں سے کبوتر نکالتا ہے۔ خالی ڈرم کو سیدھا کیا تو وہ کشکول بن گیا۔ قائد حزب اختلاف نے جملہ کسا ''ہمارا کشکول ڈیڑھ فٹ چوڑا تھا، ان کا ڈیڑھ میٹر ہے۔''

دوسری بات بھی وہیں سے شروع کی۔ لیکن یہ معاملات عشق میں سے تھی۔ ان کی پہلی محبت ویلتھ ٹیکس ہے۔ یہ پوری دنیا میں دھیرے دھیرے ترک کیے جانے والا ٹیکس ہے۔ انھوں نے نام بدل کے ٹھونس دیا ہے۔ جب عملی طور پر نافذ ہوگا تو حکومت کا ووٹ بینک ہوا ہوجائے گا۔اس عشق کا مشک چہار سو پھیلے گا اور پھر ووٹوں کے ڈبے خالی دیکھ کر حکمران پوچھیں گے۔۔۔''دھکا کس نے دیا تھا؟'' یہ معاملہ اتنا حساس ہے کہ مجھے اس کا ذکر تیسری بار کرنا پڑ رہا ہے اور حکم ہے کہ دروازے پر تین بار دستک دو، جواب نہ ملے تو خاموشی سے لوٹ کے آجاؤ۔

جہاں تک آئی ایم ایف سے قرض لینے کی بات ہے تو اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا اور گفتگو ہوچکی۔ بیشتر گفتگو اتنی نچلی سطح کی تھی کہ اسے کیا تو اوروں نے ہے لیکن شرم مجھے آرہی ہے۔ میری سمجھ میں تو اتنی بات آتی ہے کہ آئی ایم ایف سے معاملات طے ہونے کے بعد اب اگلے تین برس تک ہم سکون میں رہیں گے۔ پچھلا قرض منہ پھاڑ کے کھڑا تھا۔ اس کی واپسی کے لیے یہ نیا قرض نہ لیا جاتا تو پتہ ہے کیا ہوتا ؟ پہلے تو ہم اپنی اٹھنیاں چونیاں گن رہے ہوتے۔

پھر جن لوگوں کے پاس ہمارے پیسے پھنسے ہوئے ہیں انھیں مزید آسان شرائط پیش کرتے اور جلدی جلدی پیسے لینے کے چکر میں بہت کچھ گنوا دیتے۔ سب ملا کے بھی قرض کی واپسی پوری نہیں ہونا تھی۔ لہٰذا ہماری حالت یہ ہوجاتی کہ ہم اپنے جاننے والوں اور ''عزیزوں، رشتہ داروں'' کے پاس جاتے، انھیں الگ سے ایک کونے میں لے جا کے ان کے کان میں دھیرے سے کہتے۔۔۔۔''بھائی صاحب! فیس جمع نہ کرانے کی وجہ سے بچوں کا نام اسکول سے کٹ گیا ہے۔

گھر میں فاقہ بھی ہے۔ بیماری الگ ہے۔ کچھ مدد کر دیجیے۔ اور نہیں تو دو دن کا راشن اور واپسی کے لیے بس کا کرایہ ہی سہی۔۔۔۔اور ہاں کسی اور ملک سے اس کا ذکر مت کیجیے گا۔ آپ کی مہربانی۔''

اس کے علاوہ ہم نے اپنے اثاثے بھی اونے پونے داموں میں فروخت کرنا شروع کردینا تھے۔ ان معاملات کی کوئی رازداری نہیں ہوتی۔ یہ جو باہر کے ملک ہیں جن کے ہم سے مفادات وابستہ ہیں اور جن سے ہمارے مفادات جڑے ہوئے ہیں وہ بہت تجربہ کار دائیاں ہیں۔ ان سے پیٹ کا راز کون چھپاسکتا ہے۔ جوں جوں ہماری حالت پتلی ہوتی جاتی توں توں ہماری رہی سہی آسانیوں نے اور بچی کھچی سرمایہ کاری نے رفوچکر ہوجانا تھا، یہی وجہ ہے کہ میں وزیر خزانہ کا ناقد ہونے کے باوجود اس بات پر اطمینان کا اظہار کرسکتا ہوں کہ سابقہ قرض کی واپسی کا انتظام ہونے کے بعد ہم اپنے وسائل کو اپنی حالت کے بہتر بنانے میں صرف کرسکتے ہیں۔

تین برس کا عرصہ کم نہیں ہوتا۔ حکومت اپنے وعدے کے مطابق معاشی دھماکہ کرکے دکھائے۔ اتنے عرصے کی سہولت تو اسے مل ہی گئی ہے لیکن مہربانی فرماکر اس وقت تک طائر لاہوتی کو اڑانے کی کوشش نہ کریں۔ اس کے پر کٹے ہوئے ہیں۔

ہماری تو یہ مجبوری تھی لیکن کاروبار میں قرض لینا کوئی بری بات نہیں ہے۔ بڑی سے بڑی کمپنی بھی قرض حاصل کرکے اپنے کاروبار کو پھیلاتی ہے۔ یہ کسی بھیک یا کشکول کا چکر نہیں ہوتا۔ جو رقم واپس کرنا ہوتی ہے وہ بھیک کہاں سے ہوگئی؟ بڑے کاروباری لوگ تو قرض بھی اپنی شرائط پر لیتے ہیں۔

اس کی واپسی کی مدت اور سود کی شرح پر بھی مذاکرات ہوتے ہیں۔ یہ بینکوں کی مجبوری ہے۔ اگر اچھی شہرت والی کمپنیاں ان سے قرض نہ لیں تو ان کا کام کیسے چلے۔ لیکن جناب، آئی ایم ایف سے قرض کے لیے مذاکرات کرتے وقت ہم اچھی شہرت والی بڑی کمپنی کہاں سے بن گئے؟ ٹھیک ہے کہ ایک خراب وکٹ پر کھیل کے بھی وزیر خزانہ نے بیٹنگ اچھی کی ہے لیکن آئی ایم ایف کی ''آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے''مذاکرات کرنے والے بیان پر تو ہنسی ہی آسکتی ہے۔

یہ تو کچھ ایسا ہی ہے جیسا کہ شفیق الرحمن کی ایک تحریر میں محلے کے بچے آپس میں لڑپڑتے ہیں۔ اصل اقتباس میرے سامنے نہیں ہے لیکن اس میں ایک بچہ گھر لوٹ کے لڑائی کی داستان کچھ اس طرح سناتا ہے ''پہلے تو میں نے اس کا سر زور سے اپنے پیٹ میں مارا۔ پھر اپنی کمر اس کی کہنی میں دے ماری۔ پھر اڑنگی مار کے اسے اپنے اوپر گرایا اور زمین پر لیٹ گیا۔ اس کے بعد اسے اپنے سینے بر بٹھایا اور اپنے منہ پر مار مار کے اس کے دوہتڑوں کو لال کردیا۔

پھر اٹھا اور اٹھ کے اپنا کان اس کے منہ میں دے دیا۔۔۔۔'' قیاس ہے کہ ہمارے اعلی حکام نے بھی کچھ اسی طرح آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مذاکرات کیے ہوں گے۔ انھیں چاہیے کہ کبھی پریس کو تفصیل تو بتائیں۔ اور ہاں! اسی سلسلے کا ایک اور مسکراتا ہوا ڈائیلاگ بھی یاد دلاتا ہوں۔۔۔۔''یہ سامنے والے دو دانت؟ ان کا کیا ہے۔۔۔۔انھیں تو میں نے ویسے بھی کچھ دنوں کے بعد نکلوا دینا ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔