بہت کام رفو کا نکلا
ایک صاحب جو لاہور میں رہتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ان کے دونوں بیٹے ملک سے باہر ہیں۔ یہ دونوں میاں بیوی ریٹائرڈ۔۔۔
SARGODHA:
پچھلے کالم میں آپ سے وعدہ کیا تھا کہ تنہا معمر والدین کے حوالے سے کچھ چشم دید واقعات کا ذکر کروں گی۔۔۔۔ لیکن یقین کیجیے کہ گیارہ بجے صبح سے لے کر شام تک کئی فون اور میسج آئے۔۔۔۔ پتہ چلا کہ یہ تو گھر گھر کی کہانی ہے۔ تفصیلات سن کر مجھے مصحفی کا یہ شعر یاد آ گیا۔
مصحفی' ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
بہت افسوس ہوا کہ معاشرہ کس طرف جا رہا ہے؟ ہم کیوں اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو پہلی تربیت یہی دیتے ہیں کہ وہ کس طرح شادی کے بعد جلد از جلد اپنا گھر علیحدہ کرے گی، کیونکر اپنے شوہر کو ماں باپ سے بدظن کرے گی۔۔۔ ہماری خواتین بیٹیوں کے ''سکھ چین'' کے لیے باباؤں سے تعویذ بھی لاتی ہیں اور انھیں بجائے محبت سے اپنا گھر بسانے کے نفرتوں کی آبیاری کی تعلیم دیتی ہیں۔۔۔۔ فون پر ایک خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ ان کے ماشاء اللہ پانچ بچے ہیں، چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
صرف ایک بیٹا غیر شادی شدہ ہے اور اپنے بھائیوں اور بھابیوں کے تکلیف دہ رویے دیکھ کر شادی سے اس حد تک متنفر ہو گیا ہے کہ اس موضوع پر بات تک نہیں کرتا۔ تینوں بیٹے اسی شہر کراچی میں رہتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس ماں باپ کے لیے کوئی وقت نہیں۔ بس سال کے سال صرف عید، بقر عید پہ مہمانوں کی طرح آتے ہیں۔
چھوٹے بیٹے کے مالی حالات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ خاتون گھر پہ سلائی بھی کرتی ہیں اور ان کے میاں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔ تینوں بڑے بیٹے مالی طور پر خوش حال ہیں۔۔۔۔ لیکن انھیں والدین کی کوئی پرواہ نہیں۔۔۔۔ کبھی بھولے سے دواؤں تک کے لیے بھی نہیں پوچھتے۔۔۔۔ خاتون نے روتے ہوئے کہا کہ ''خدا کرے میرے تینوں بیٹے اور ان کی بیویاں اسی عذاب سے دوچار ہوں جن سے وہ اور ان کے شوہر گزر رہے ہیں۔۔۔۔ یہ ایک دکھی ماں کی بد دعا تھی۔۔۔۔ اور نہ جانے کتنی ماؤں کے دل کی آواز۔۔۔۔؟
ایک صاحب جو لاہور میں رہتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ان کے دونوں بیٹے ملک سے باہر ہیں۔ یہ دونوں میاں بیوی ریٹائرڈ لائف گزار رہے ہیں۔ بیگم اسکول کی ہیڈ مسٹریس تھیں، اور میاں ایک سرکاری ادارے میں اکاؤنٹینٹ۔ بڑی مشکلوں سے انتظام کر کے بیٹوں کو باہر بھیجا۔ وہاں انھیں اچھی نوکریاں مل گئیں۔ گرین کارڈ کے حصول کے لیے دونوں بیٹوں نے وہاں ایسی لڑکیوں سے شادیاں کر لیں جو وہاں کی نیشنل تھیں۔ ان کا آبائی وطن جالندھر تھا، ہجرت کے بعد فیصل آباد آ کر بس گئے۔ اور پھر زمینیں بیچ کر 1979ء میں امریکا چلے گئے۔
وہاں انھوں نے معمولی نوکریوں سے ابتدا کی اور بعد میں ایک بھٹیار خانہ کھول لیا جہاں وہ انڈین اور پاکستانی کھانے پکاتے تھے۔ جلد ہی وہ بھٹیار خانہ ایک درمیانے درجے کے ہوٹل میں بدل گیا۔ دونوں بیٹیاں اور تینوں بیٹے والدین کی مدد کرتے تھے۔ دونوں بھائی اسی ہوٹل میں پہلی بار ملازم ہوئے پھر شادی کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن شادی کے بعد لڑکیوں کے والدین نے دونوں دامادوں کے پاسپورٹ اپنے پاس رکھ لیے۔ اور انھیں ہر ماہ ایک مخصوص رقم ذاتی خرچ کے لیے دے دی جاتی ہے۔
باقی سب لڑکیوں کی ماں کے پاس ہوتی ہے۔۔۔۔ لڑکوں نے شروع میں ماں باپ کو کچھ رقم بھیجی پھر بچے ہونے کے بعد یہ سلسلہ بند ہو گیا کہ بیویاں نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے شوہر ایک پائی بھی اپنے ماں باپ کو بھیجیں۔ بس اپنے بچوں کی تصویریں ایک بار بھیجیں۔ دس سال سے ماں باپ کی آنکھیں اپنے بچوں کو دیکھنے کو ترس رہی ہیں۔ وہ اس وقت کو کوستے ہیں جب کمیٹیاں ڈال ڈال کر بیٹوں کے لیے ٹکٹ خریدنے کا انتظام کیا تھا۔
اور سنیے! ایک فون آیا ایک صاحبزادے کا۔۔۔۔ جو خیر سے ایک بچے کے باپ ہیں۔ اور دو سال سے ماں باپ سے الگ رہ رہے ہیں۔ ان کا شکوہ تھا کہ عام طور پر جب بیٹے والدین کو بھول جاتے ہیں اور اکیلا چھوڑ کر پردیس چلے جاتے ہیں تو سارا الزام بیٹوں پر آتا ہے۔ جب کہ سارا قصور اس عورت کا ہوتا ہے جو بہو بن کر آتی ہے اور کسی کا بیٹا چھین لیتی ہے۔ ان صاحبزادے نے بتایا کہ ان کی شادی ان کی پسند سے والدین نے کر دی۔ شادی کے ایک ماہ بعد ہی بیوی صاحبہ روٹھ کر میکے چلی گئیں، کیونکہ وہ دیر تک سونے کی عادی تھیں۔
ایک ڈیڑھ بجے سو کر اٹھتیں، ناشتہ انھیں ساس تیار کر کے دیتیں۔ پھر وہ فون پہ میکے باتیں کرنے لگتیں، شام کو جب شوہر دفتر سے تھکا ہارا گھر آتا تو وہ میکے یا کسی بہن کے جانے کو تیار ملتیں۔ گھر کے کاموں سے انھیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اور نہ ہی انھیں کھانا پکانا آتا تھا۔۔۔۔ ساس نے ایک دن انھیں سمجھایا کہ صبح جلدی اٹھا کرو۔ پھر چاہے دن کو سو جایا کرو۔ صبح دیر سے اٹھنا نحوست کی نشانی ہوتی ہے۔۔۔۔ بس غضب ہو گیا۔ بیگم صاحبہ نے طوفان سر پہ اٹھا لیا۔ اور بولیں کہ وہ تو ہمیشہ دیر سے سو کر اٹھنے کی عادی ہیں۔
اور ان کی والدہ نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا۔۔۔۔ وہ میکے جا کر بیٹھ گئیں اور واپسی کی شرط یہ رکھی کہ وہ الگ رہیں گی۔ صاحبزادے کا یہ بھی شکوہ تھا کہ ایسی صورت حال میں اس نے فیصلہ کیا کہ علیحدہ ہو جائے۔ کیونکہ مستقبل میں اسے یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آ رہی تھی کہ خاتون بد زبان اور لڑاکا بہت تھیں۔ لیکن والدہ نے انھیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا اگر علیحدہ رہنے سے گھر بن سکتا ہے تو وہ فوراً علیحدہ ہو جائے۔ کیونکہ شریفوں میں طلاق بہت معیوب بات ہے۔ لہٰذا بیوی کا مطالبہ مان لیا گیا اور سسرال والوں نے اپنی ہی بلڈنگ میں انھیں ایک فلیٹ دلوا دیا۔ لیکن اس پر بھی بس نہیں۔ بیگم صاحبہ کو میاں کا والدین سے ملنا گوارا نہیں۔ لہٰذا وہ بے چارہ چھپ کر ملنے آتا ہے۔ لیکن خالی ہاتھ۔
کیونکہ پوری تنخواہ بیگم صاحبہ پانچ تاریخ کو اپنے قبضے میں کر لیتی ہیں۔۔۔۔ ان صاحبزادے کا کہنا تھا کہ شریف اور خاندانی مرد اپنی تربیت سے مجبور ہوتا ہے۔ اس لیے ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔ جب کہ گنوار، اجڈ اور قبائلی مرد جو عورت کو ایک کنیز سمجھتا ہے وہ ایسے حالات سے دوچار نہیں ہوتا۔ نہ ہی اس کی بیوی کی مجال ہوتی ہے کہ وہ ساس سسر کے بارے میں کوئی غلط کلمہ منہ سے نکالے۔ کیونکہ ایسی صورت میں چار چوٹ کی مار اس کی منتظر رہتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ صاحبزادے کا کہنا تھا کہ برا بھلا ان عورتوں کو کہنا چاہیے اور سزا بھی انھی کو ملنی چاہیے۔ جو بیوی ہیں۔ کیونکہ بیویاں ہی بیٹوں کو ماں باپ سے دور کرتی ہیں۔ مرد بے چارہ وہ بھی شریف مرد ، بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔ دراصل عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے۔
صورت حال بہت گمبھیر ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد بہت بڑھتی جا رہی ہے جو بچوں کے بیرون ملک یا اندرون ملک دوری کے باعث اکیلے ہیں۔ تقسیم نے جہاں خاندانوں کو تقسیم کیا وہیں دل بھی تقسیم ہو گئے۔ پہلے وفادار ملازم مل جاتے تھے جو ساری زندگی ایک ہی چھت کے نیچے گزار دیتے تھے۔ لیکن اب بڑھتی ہوئی چوری چکاری اور ڈکیتیوں کی واردات کی بنا پر ایسے والدین جو اکیلے ہیں اور جن کے بچے باہر ہیں وہ ملازموں کو رکھتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ آئے دن ایسی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں کہ گھر کی ملازمہ نے ڈکیتی کروا دی۔۔۔۔ اب کیا کیا جائے جو ان تنہا معمر والدین کو کوئی سہارا ملے۔۔۔۔ میرے ذہن میں ایک تجویز ہے کہ ایدھی ہوم میں بے شمار مرد اور خواتین ایسے ہیں جو لاوارث ہیں یا جن کے بچے انھیں بوجھ سمجھ کر وہاں چھوڑ گئے ہیں۔
ان عورتوں میں سے بہت سی عورتیں ایسی ضرور ہوں گی جو کوئی ایسا کام کرنا چاہتی ہوں گی جس میں کچھ یافت بھی ہو جائے۔ کیا مولانا ایدھی اور ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی اس جانب توجہ دیں گی کہ کسی گھرانے کو اگر کسی ایسی خاتون کی ضرورت ہے۔ جو چوبیس گھنٹے انھی کے گھر رہے تو کیا قباحت ہے۔
لوگوں کو بھی اطمینان ہو گا کہ ایدھی ہوم نے اپنی ذمے داری پر رکھوایا ہے۔ لیکن اس بارے میں ایدھی ہوم والوں کا رویہ کچھ مناسب نہیں ہے۔ اگر وہاں کوئی جا کر کسی خاتون کی خدمات مانگتا ہے اور معقول معاوضہ بھی دینے کو تیار ہے تو وہ لوگ سختی سے منع کر دیتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صبح دس بجے سے شام چھ بجے تک کام کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ ایدھی ہوم کے لوگ جب چاہیں ان گھروں میں جا کر چیک کر سکتے ہیں کہ خواتین کے ساتھ کیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔۔۔۔ لیکن وہاں سے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ملتیں۔ میں نے ذاتی طور پر بلقیس ایدھی صاحبہ سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن مجھے مایوس ہونا پڑا۔
ایک ایسا ادارہ جو خدمت خلق کے حوالے سے نیک نام ہے۔ کم از کم اس ادارے کو زندہ لوگوں کے حوالے سے بھی کچھ سوچنا چاہیے۔ بے شک وہ بڑا کام کرتے ہیں کہ لاوارث لاشیں اٹھاتے ہیں اور انھیں دفناتے ہیں، لیکن ایدھی صاحب کو ان زندہ لاشوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے جو اولاد کے ہوتے ہوئے اکیلے ہیں۔ اگر وہ معقول معاوضے پر انھیں رہائش اور دیگر سہولتیں مہیا نہیں کر سکتے۔ تو کم از کم ان کے گھر اپنے ادارے کے مرد اور خواتین کو تو بھیج ہی سکتے ہیں، معقول ماہانہ تنخواہوں پر۔ اگر ایدھی صاحب نے اس طرف توجہ دی تو بے شمار لاوارث خواتین ایسی مل جائیں گی جو محنت کر کے عزت سے کچھ رقم کمانا پسند کریں گی۔ مجھے معلوم ہے عورتوں کی اکثریت بے چارگی کی زندگی کو محنت کر کے کھانے کو ترجیح دے گی۔ مگر اس کے لیے ایدھی صاحب اور ان کی اہلیہ کی رضامندی ضروری ہے۔
پچھلے کالم میں آپ سے وعدہ کیا تھا کہ تنہا معمر والدین کے حوالے سے کچھ چشم دید واقعات کا ذکر کروں گی۔۔۔۔ لیکن یقین کیجیے کہ گیارہ بجے صبح سے لے کر شام تک کئی فون اور میسج آئے۔۔۔۔ پتہ چلا کہ یہ تو گھر گھر کی کہانی ہے۔ تفصیلات سن کر مجھے مصحفی کا یہ شعر یاد آ گیا۔
مصحفی' ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
بہت افسوس ہوا کہ معاشرہ کس طرف جا رہا ہے؟ ہم کیوں اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو پہلی تربیت یہی دیتے ہیں کہ وہ کس طرح شادی کے بعد جلد از جلد اپنا گھر علیحدہ کرے گی، کیونکر اپنے شوہر کو ماں باپ سے بدظن کرے گی۔۔۔ ہماری خواتین بیٹیوں کے ''سکھ چین'' کے لیے باباؤں سے تعویذ بھی لاتی ہیں اور انھیں بجائے محبت سے اپنا گھر بسانے کے نفرتوں کی آبیاری کی تعلیم دیتی ہیں۔۔۔۔ فون پر ایک خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ ان کے ماشاء اللہ پانچ بچے ہیں، چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
صرف ایک بیٹا غیر شادی شدہ ہے اور اپنے بھائیوں اور بھابیوں کے تکلیف دہ رویے دیکھ کر شادی سے اس حد تک متنفر ہو گیا ہے کہ اس موضوع پر بات تک نہیں کرتا۔ تینوں بیٹے اسی شہر کراچی میں رہتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس ماں باپ کے لیے کوئی وقت نہیں۔ بس سال کے سال صرف عید، بقر عید پہ مہمانوں کی طرح آتے ہیں۔
چھوٹے بیٹے کے مالی حالات زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ خاتون گھر پہ سلائی بھی کرتی ہیں اور ان کے میاں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں۔ تینوں بڑے بیٹے مالی طور پر خوش حال ہیں۔۔۔۔ لیکن انھیں والدین کی کوئی پرواہ نہیں۔۔۔۔ کبھی بھولے سے دواؤں تک کے لیے بھی نہیں پوچھتے۔۔۔۔ خاتون نے روتے ہوئے کہا کہ ''خدا کرے میرے تینوں بیٹے اور ان کی بیویاں اسی عذاب سے دوچار ہوں جن سے وہ اور ان کے شوہر گزر رہے ہیں۔۔۔۔ یہ ایک دکھی ماں کی بد دعا تھی۔۔۔۔ اور نہ جانے کتنی ماؤں کے دل کی آواز۔۔۔۔؟
ایک صاحب جو لاہور میں رہتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ان کے دونوں بیٹے ملک سے باہر ہیں۔ یہ دونوں میاں بیوی ریٹائرڈ لائف گزار رہے ہیں۔ بیگم اسکول کی ہیڈ مسٹریس تھیں، اور میاں ایک سرکاری ادارے میں اکاؤنٹینٹ۔ بڑی مشکلوں سے انتظام کر کے بیٹوں کو باہر بھیجا۔ وہاں انھیں اچھی نوکریاں مل گئیں۔ گرین کارڈ کے حصول کے لیے دونوں بیٹوں نے وہاں ایسی لڑکیوں سے شادیاں کر لیں جو وہاں کی نیشنل تھیں۔ ان کا آبائی وطن جالندھر تھا، ہجرت کے بعد فیصل آباد آ کر بس گئے۔ اور پھر زمینیں بیچ کر 1979ء میں امریکا چلے گئے۔
وہاں انھوں نے معمولی نوکریوں سے ابتدا کی اور بعد میں ایک بھٹیار خانہ کھول لیا جہاں وہ انڈین اور پاکستانی کھانے پکاتے تھے۔ جلد ہی وہ بھٹیار خانہ ایک درمیانے درجے کے ہوٹل میں بدل گیا۔ دونوں بیٹیاں اور تینوں بیٹے والدین کی مدد کرتے تھے۔ دونوں بھائی اسی ہوٹل میں پہلی بار ملازم ہوئے پھر شادی کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن شادی کے بعد لڑکیوں کے والدین نے دونوں دامادوں کے پاسپورٹ اپنے پاس رکھ لیے۔ اور انھیں ہر ماہ ایک مخصوص رقم ذاتی خرچ کے لیے دے دی جاتی ہے۔
باقی سب لڑکیوں کی ماں کے پاس ہوتی ہے۔۔۔۔ لڑکوں نے شروع میں ماں باپ کو کچھ رقم بھیجی پھر بچے ہونے کے بعد یہ سلسلہ بند ہو گیا کہ بیویاں نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے شوہر ایک پائی بھی اپنے ماں باپ کو بھیجیں۔ بس اپنے بچوں کی تصویریں ایک بار بھیجیں۔ دس سال سے ماں باپ کی آنکھیں اپنے بچوں کو دیکھنے کو ترس رہی ہیں۔ وہ اس وقت کو کوستے ہیں جب کمیٹیاں ڈال ڈال کر بیٹوں کے لیے ٹکٹ خریدنے کا انتظام کیا تھا۔
اور سنیے! ایک فون آیا ایک صاحبزادے کا۔۔۔۔ جو خیر سے ایک بچے کے باپ ہیں۔ اور دو سال سے ماں باپ سے الگ رہ رہے ہیں۔ ان کا شکوہ تھا کہ عام طور پر جب بیٹے والدین کو بھول جاتے ہیں اور اکیلا چھوڑ کر پردیس چلے جاتے ہیں تو سارا الزام بیٹوں پر آتا ہے۔ جب کہ سارا قصور اس عورت کا ہوتا ہے جو بہو بن کر آتی ہے اور کسی کا بیٹا چھین لیتی ہے۔ ان صاحبزادے نے بتایا کہ ان کی شادی ان کی پسند سے والدین نے کر دی۔ شادی کے ایک ماہ بعد ہی بیوی صاحبہ روٹھ کر میکے چلی گئیں، کیونکہ وہ دیر تک سونے کی عادی تھیں۔
ایک ڈیڑھ بجے سو کر اٹھتیں، ناشتہ انھیں ساس تیار کر کے دیتیں۔ پھر وہ فون پہ میکے باتیں کرنے لگتیں، شام کو جب شوہر دفتر سے تھکا ہارا گھر آتا تو وہ میکے یا کسی بہن کے جانے کو تیار ملتیں۔ گھر کے کاموں سے انھیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اور نہ ہی انھیں کھانا پکانا آتا تھا۔۔۔۔ ساس نے ایک دن انھیں سمجھایا کہ صبح جلدی اٹھا کرو۔ پھر چاہے دن کو سو جایا کرو۔ صبح دیر سے اٹھنا نحوست کی نشانی ہوتی ہے۔۔۔۔ بس غضب ہو گیا۔ بیگم صاحبہ نے طوفان سر پہ اٹھا لیا۔ اور بولیں کہ وہ تو ہمیشہ دیر سے سو کر اٹھنے کی عادی ہیں۔
اور ان کی والدہ نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا۔۔۔۔ وہ میکے جا کر بیٹھ گئیں اور واپسی کی شرط یہ رکھی کہ وہ الگ رہیں گی۔ صاحبزادے کا یہ بھی شکوہ تھا کہ ایسی صورت حال میں اس نے فیصلہ کیا کہ علیحدہ ہو جائے۔ کیونکہ مستقبل میں اسے یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آ رہی تھی کہ خاتون بد زبان اور لڑاکا بہت تھیں۔ لیکن والدہ نے انھیں ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا اگر علیحدہ رہنے سے گھر بن سکتا ہے تو وہ فوراً علیحدہ ہو جائے۔ کیونکہ شریفوں میں طلاق بہت معیوب بات ہے۔ لہٰذا بیوی کا مطالبہ مان لیا گیا اور سسرال والوں نے اپنی ہی بلڈنگ میں انھیں ایک فلیٹ دلوا دیا۔ لیکن اس پر بھی بس نہیں۔ بیگم صاحبہ کو میاں کا والدین سے ملنا گوارا نہیں۔ لہٰذا وہ بے چارہ چھپ کر ملنے آتا ہے۔ لیکن خالی ہاتھ۔
کیونکہ پوری تنخواہ بیگم صاحبہ پانچ تاریخ کو اپنے قبضے میں کر لیتی ہیں۔۔۔۔ ان صاحبزادے کا کہنا تھا کہ شریف اور خاندانی مرد اپنی تربیت سے مجبور ہوتا ہے۔ اس لیے ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔ جب کہ گنوار، اجڈ اور قبائلی مرد جو عورت کو ایک کنیز سمجھتا ہے وہ ایسے حالات سے دوچار نہیں ہوتا۔ نہ ہی اس کی بیوی کی مجال ہوتی ہے کہ وہ ساس سسر کے بارے میں کوئی غلط کلمہ منہ سے نکالے۔ کیونکہ ایسی صورت میں چار چوٹ کی مار اس کی منتظر رہتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ صاحبزادے کا کہنا تھا کہ برا بھلا ان عورتوں کو کہنا چاہیے اور سزا بھی انھی کو ملنی چاہیے۔ جو بیوی ہیں۔ کیونکہ بیویاں ہی بیٹوں کو ماں باپ سے دور کرتی ہیں۔ مرد بے چارہ وہ بھی شریف مرد ، بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔ دراصل عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے۔
صورت حال بہت گمبھیر ہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد بہت بڑھتی جا رہی ہے جو بچوں کے بیرون ملک یا اندرون ملک دوری کے باعث اکیلے ہیں۔ تقسیم نے جہاں خاندانوں کو تقسیم کیا وہیں دل بھی تقسیم ہو گئے۔ پہلے وفادار ملازم مل جاتے تھے جو ساری زندگی ایک ہی چھت کے نیچے گزار دیتے تھے۔ لیکن اب بڑھتی ہوئی چوری چکاری اور ڈکیتیوں کی واردات کی بنا پر ایسے والدین جو اکیلے ہیں اور جن کے بچے باہر ہیں وہ ملازموں کو رکھتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ آئے دن ایسی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں کہ گھر کی ملازمہ نے ڈکیتی کروا دی۔۔۔۔ اب کیا کیا جائے جو ان تنہا معمر والدین کو کوئی سہارا ملے۔۔۔۔ میرے ذہن میں ایک تجویز ہے کہ ایدھی ہوم میں بے شمار مرد اور خواتین ایسے ہیں جو لاوارث ہیں یا جن کے بچے انھیں بوجھ سمجھ کر وہاں چھوڑ گئے ہیں۔
ان عورتوں میں سے بہت سی عورتیں ایسی ضرور ہوں گی جو کوئی ایسا کام کرنا چاہتی ہوں گی جس میں کچھ یافت بھی ہو جائے۔ کیا مولانا ایدھی اور ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی اس جانب توجہ دیں گی کہ کسی گھرانے کو اگر کسی ایسی خاتون کی ضرورت ہے۔ جو چوبیس گھنٹے انھی کے گھر رہے تو کیا قباحت ہے۔
لوگوں کو بھی اطمینان ہو گا کہ ایدھی ہوم نے اپنی ذمے داری پر رکھوایا ہے۔ لیکن اس بارے میں ایدھی ہوم والوں کا رویہ کچھ مناسب نہیں ہے۔ اگر وہاں کوئی جا کر کسی خاتون کی خدمات مانگتا ہے اور معقول معاوضہ بھی دینے کو تیار ہے تو وہ لوگ سختی سے منع کر دیتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صبح دس بجے سے شام چھ بجے تک کام کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ ایدھی ہوم کے لوگ جب چاہیں ان گھروں میں جا کر چیک کر سکتے ہیں کہ خواتین کے ساتھ کیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔۔۔۔ لیکن وہاں سے اس بارے میں کوئی معلومات نہیں ملتیں۔ میں نے ذاتی طور پر بلقیس ایدھی صاحبہ سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن مجھے مایوس ہونا پڑا۔
ایک ایسا ادارہ جو خدمت خلق کے حوالے سے نیک نام ہے۔ کم از کم اس ادارے کو زندہ لوگوں کے حوالے سے بھی کچھ سوچنا چاہیے۔ بے شک وہ بڑا کام کرتے ہیں کہ لاوارث لاشیں اٹھاتے ہیں اور انھیں دفناتے ہیں، لیکن ایدھی صاحب کو ان زندہ لاشوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے جو اولاد کے ہوتے ہوئے اکیلے ہیں۔ اگر وہ معقول معاوضے پر انھیں رہائش اور دیگر سہولتیں مہیا نہیں کر سکتے۔ تو کم از کم ان کے گھر اپنے ادارے کے مرد اور خواتین کو تو بھیج ہی سکتے ہیں، معقول ماہانہ تنخواہوں پر۔ اگر ایدھی صاحب نے اس طرف توجہ دی تو بے شمار لاوارث خواتین ایسی مل جائیں گی جو محنت کر کے عزت سے کچھ رقم کمانا پسند کریں گی۔ مجھے معلوم ہے عورتوں کی اکثریت بے چارگی کی زندگی کو محنت کر کے کھانے کو ترجیح دے گی۔ مگر اس کے لیے ایدھی صاحب اور ان کی اہلیہ کی رضامندی ضروری ہے۔