کیا ہم اتنے ہی بے عزت ہیں
’’پاکستانی کیا ہیں، ایک ویزے پربک جاتے ہیں۔ اس افسرسے کہاگیاکہ تم گھٹیالوگ ہواورتمہاراملک پاکستان ایک ناکام ریاست ہے‘‘
نہ تن اس قابل نہ بدن میں اتنی جان کہ کسی کا طعنہ سن کر اس تن بدن میں آگ لگ جائے لیکن اپنی بے عزتی کم کرنے یا اسے بانٹنے کے لیے اس کا ذکر کرتے ہیں اور اس جلن میں اپنے دوسرے ہموطنوں کو بھی شامل کرتے ہیں، وہی مرگ انبوہ والی بات کہ شاعر نے جل کر کہا تھا کہ مرگ انبوہ جشن دارد۔ یہاں ضمناً عرض کر دوں کہ ہمارے ہاں تو یہ جشن اب دن رات ہر مقام پر جاری ہے اور پورا ملک مرگ انبوہ کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ بہر کیف بات میں اس طعن و تشنیع اور مضحکہ خیزی کی کر رہا تھا جو میرے وطن عزیز کے بارے میں بلا تکلف کی جاتی ہے۔
ہمارا ایک افسر جسے امریکیوں سے واسطہ پڑتا ہے اس نے بڑی بے بسی سے کہا ہے کہ امریکی اب کہتے ہیں کہ ''پاکستانی کیا ہیں، ایک ویزے پر بک جاتے ہیں۔ اس افسر سے کہا گیا کہ تم گھٹیا لوگ ہو اور تمہارا ملک پاکستان ایک ناکام ریاست ہے''۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ بہت پہلے جب امریکی کاروباری نفع خوری کے لیے پاکستان آیا کرتے تھے تو ایک بار ایک امریکی نے بتایا کہ پاکستانی افسر صرف ایک دو قمیضوں کے تحفے پر کسی بھی کاغذ پر دستخط کر دیتے ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب واپڈا عروج پر تھا اور اس نے بچے نہیں دیے تھے، اب تو بجلی سے متعلق نہ جانے کتنے محکمے بن گئے ہیں تاکہ بے کار افسروں کو کھپایا جا سکے، تب واپڈا کے چیئرمین کا ایک دفتر ہوتا تھا اور تمام کام اسی ایک دفتر میں ہوا کرتے تھے۔ قمیضوں کے تحفے یہیں دیے جاتے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب اگر کوئی رشوت لیتا تو آنکھ بچا کر اور پھر اسے چھپاتا پھرتا تھا۔ یہ کرپشن کا ابتدائی زمانہ تھا، اب تو جب میں پڑھتا ہوں کہ فلاں صاحب نے اتنے ارب روپوں کی رشوت لی ہے تو یک گونہ خوش بھی ہوتا ہوں کہ میرے ملک میں ماشاء اللہ اتنی مالی سکت موجود ہے کہ اس میں اتنی بھاری اور ناقابل تصور حد تک رشوت لی جا سکتی ہے۔ میں بات تو عزت بے عزتی کی کرنا چاہتا تھا کہ راستے میں کرپشن آ گئی۔ کاش کہ کبھی اس سے کاغذی اور قلمی نہیں سچ مچ کا آمنا سامنا بھی ہو جائے اور میں اسے جپھا ڈال لوں پھر کوئی فکر نہیں کہ ایسے کئی ارب پتی پھرتے ہیں جن پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔
ہمارے ریلوے کے وزیر چیخ چلا رہے ہیں کہ ریلوے کا خزانہ بالکل خالی ہے، میں کسی ملازم کو کیا دوں اور ریلوے کیسے چلاؤں۔ ویسے اس کے لیے تو انھیں بھارت جانا چاہیے جہاں ان کے ہمعصر نے ریلوے کو زندہ کر کے معجزہ دکھا دیا ہے مگر وہ رویا پیٹا نہیں صرف کام کیا اور وہ بھی عقل کے ساتھ اور تجربے کی مدد سے جو اسے اپنی حکومت نے دیا تھا تو عرض ہے کہ اسی پاکستانی ریلوے کو پٹریوں انجنوں سمیت کھانے والا زندہ سلامت موجود ہے مگر کوئی اس پر ہاتھ نہیں ڈالتا کہ یہ بھی اشرافیہ سے تعلق رکھتا ہے اور اپنی برادری کی ہر کوئی حفاظت کرتا ہے۔ کل خود بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ہمارے یہی حالات ہیں یہی اخلاقیات ہیں اور یہی امانت دیانت ہے جس نے ہمیں دنیا بھر میں بے عزت کر دیا ہے اور لوگ ہمارے منہ پر ہماری بے عزتی کرتے ہیں مگر ہم جواب میں چپ کہ کیا کہیں کوئی جھوٹ بولے تو جواب بھی دیں۔ میں اس سے قبل بھی اپنی بے عزتی کی ایک جاں سوز مثال دے چکا ہوں۔ دلی کی ایک محفل میں بھارت کے چند سرکردہ صحافی بھی موجود تھے۔ پاکستان کا ذکر آیا تو ایک بہت سینئر صحافی نے بڑی حقارت کے ساتھ ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا کہ اس کا ذکر نہ کرو، اب یہ ملک قابلٍ ذکر نہیں رہا، چھوڑو اسے اور کوئی اور بات کرو۔ ہم کئی پاکستانی اس محفل میں موجود تھے۔
اب کیا کہوں کہ ہم بھارت کے سینے پر مونگ دل کے وجود میں آئے تھے۔ ہمارا بڑا طنطنہ تھا، ہم تب کچھ بھی نہ تھے، نہ کوئی دفتر تھا نہ قلم دوات۔ صابن کی خالی پیٹیاں ہمارا دفتری فرنیچر تھیں اور اسکولوں کے بچوں کی قلم دوات ہماری اسٹیشنری اور کیکر کے کانٹے ہمارے کامن پن۔ لیکن بڑا اعتماد تھا، اپنی کامیابی کا بے پایاں نشہ تھا۔ تب بھارت کو ہم حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن ہمارے ہاں اقتدار پر ایک انتہائی لالچی نالائق اور مفاد پرست طبقہ مسلط ہو گیا جس کا کوئی نظریہ اور دین و ایمان نہیں تھا۔ نظریہ پاکستان کا آج مذاق اڑایا جاتا ہے تب یہ نظریہ صرف حد ادب میں آتا تھا اور خاموشی برتی جاتی تھی۔ اس ظالم طبقے نے جو قائد کی جیب کے کھوٹے سکے تھے، ہماری یہ حالت کر دی کہ ہم بھارت کے ہاتھوں ملک تڑوا بیٹھے اور کہا گیا کہ ہم نے مسلمانوں سے ہزار سال کا بدلہ لے لیا ہے۔
یہ ہماری ذلت کی انتہا تھی جس سے بڑی اور کوئی ذلت نہیں ہو سکتی تھی لیکن داد دیجئیے اپنے اس بے حیا حکمران طبقے کو کہ ملک کے دو ٹکڑے ہونے کو بھی ہم نے سیاست کا ہتھیار بنا لیا اور باقی ماندہ کے وزیر اعظم اور نہ جانے کیا کیا بن بیٹھے۔ ہمارے بازو ئے شمشیر زن بھارت کی قید میں تھے اور بے غیرت فوجی حکمران جس کے دور میں یہ سب کچھ ہوا پھر سے حکمرانی کے خواب دیکھتا ہوا کہہ رہا تھا کہ ''کیا ہوا میں نے کوئی گدھی کو ہاتھ لگا دیا ہے'' ایسے حکمرانوں کے ملک کو اگر کوئی کہتا ہے کہ اس کے شہری تو ایک ویزے پر بک جاتے ہیں تو غلط نہیں کہتا۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نئے انکشاف کے مطابق بھارت اور ہمارا کلچر اور ثقافت ایک ہی ہے۔ اب کوئی پوچھے کہ جناب والا اگر سب کچھ ایک ہی تھا تو پھر پاکستان کا پنگا کیوں لیا تھا۔
اپنے ہموطنوں کو رمضان مبارک۔ خدا و رسول کے نام پر بننے والے اس ملک کی سلامتی کی دعا نہیں فریاد کیجیے۔ اس مہینے میں فریادیں سنی جاتی ہیں۔
ہمارا ایک افسر جسے امریکیوں سے واسطہ پڑتا ہے اس نے بڑی بے بسی سے کہا ہے کہ امریکی اب کہتے ہیں کہ ''پاکستانی کیا ہیں، ایک ویزے پر بک جاتے ہیں۔ اس افسر سے کہا گیا کہ تم گھٹیا لوگ ہو اور تمہارا ملک پاکستان ایک ناکام ریاست ہے''۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ بہت پہلے جب امریکی کاروباری نفع خوری کے لیے پاکستان آیا کرتے تھے تو ایک بار ایک امریکی نے بتایا کہ پاکستانی افسر صرف ایک دو قمیضوں کے تحفے پر کسی بھی کاغذ پر دستخط کر دیتے ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب واپڈا عروج پر تھا اور اس نے بچے نہیں دیے تھے، اب تو بجلی سے متعلق نہ جانے کتنے محکمے بن گئے ہیں تاکہ بے کار افسروں کو کھپایا جا سکے، تب واپڈا کے چیئرمین کا ایک دفتر ہوتا تھا اور تمام کام اسی ایک دفتر میں ہوا کرتے تھے۔ قمیضوں کے تحفے یہیں دیے جاتے تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب اگر کوئی رشوت لیتا تو آنکھ بچا کر اور پھر اسے چھپاتا پھرتا تھا۔ یہ کرپشن کا ابتدائی زمانہ تھا، اب تو جب میں پڑھتا ہوں کہ فلاں صاحب نے اتنے ارب روپوں کی رشوت لی ہے تو یک گونہ خوش بھی ہوتا ہوں کہ میرے ملک میں ماشاء اللہ اتنی مالی سکت موجود ہے کہ اس میں اتنی بھاری اور ناقابل تصور حد تک رشوت لی جا سکتی ہے۔ میں بات تو عزت بے عزتی کی کرنا چاہتا تھا کہ راستے میں کرپشن آ گئی۔ کاش کہ کبھی اس سے کاغذی اور قلمی نہیں سچ مچ کا آمنا سامنا بھی ہو جائے اور میں اسے جپھا ڈال لوں پھر کوئی فکر نہیں کہ ایسے کئی ارب پتی پھرتے ہیں جن پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔
ہمارے ریلوے کے وزیر چیخ چلا رہے ہیں کہ ریلوے کا خزانہ بالکل خالی ہے، میں کسی ملازم کو کیا دوں اور ریلوے کیسے چلاؤں۔ ویسے اس کے لیے تو انھیں بھارت جانا چاہیے جہاں ان کے ہمعصر نے ریلوے کو زندہ کر کے معجزہ دکھا دیا ہے مگر وہ رویا پیٹا نہیں صرف کام کیا اور وہ بھی عقل کے ساتھ اور تجربے کی مدد سے جو اسے اپنی حکومت نے دیا تھا تو عرض ہے کہ اسی پاکستانی ریلوے کو پٹریوں انجنوں سمیت کھانے والا زندہ سلامت موجود ہے مگر کوئی اس پر ہاتھ نہیں ڈالتا کہ یہ بھی اشرافیہ سے تعلق رکھتا ہے اور اپنی برادری کی ہر کوئی حفاظت کرتا ہے۔ کل خود بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ہمارے یہی حالات ہیں یہی اخلاقیات ہیں اور یہی امانت دیانت ہے جس نے ہمیں دنیا بھر میں بے عزت کر دیا ہے اور لوگ ہمارے منہ پر ہماری بے عزتی کرتے ہیں مگر ہم جواب میں چپ کہ کیا کہیں کوئی جھوٹ بولے تو جواب بھی دیں۔ میں اس سے قبل بھی اپنی بے عزتی کی ایک جاں سوز مثال دے چکا ہوں۔ دلی کی ایک محفل میں بھارت کے چند سرکردہ صحافی بھی موجود تھے۔ پاکستان کا ذکر آیا تو ایک بہت سینئر صحافی نے بڑی حقارت کے ساتھ ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا کہ اس کا ذکر نہ کرو، اب یہ ملک قابلٍ ذکر نہیں رہا، چھوڑو اسے اور کوئی اور بات کرو۔ ہم کئی پاکستانی اس محفل میں موجود تھے۔
اب کیا کہوں کہ ہم بھارت کے سینے پر مونگ دل کے وجود میں آئے تھے۔ ہمارا بڑا طنطنہ تھا، ہم تب کچھ بھی نہ تھے، نہ کوئی دفتر تھا نہ قلم دوات۔ صابن کی خالی پیٹیاں ہمارا دفتری فرنیچر تھیں اور اسکولوں کے بچوں کی قلم دوات ہماری اسٹیشنری اور کیکر کے کانٹے ہمارے کامن پن۔ لیکن بڑا اعتماد تھا، اپنی کامیابی کا بے پایاں نشہ تھا۔ تب بھارت کو ہم حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن ہمارے ہاں اقتدار پر ایک انتہائی لالچی نالائق اور مفاد پرست طبقہ مسلط ہو گیا جس کا کوئی نظریہ اور دین و ایمان نہیں تھا۔ نظریہ پاکستان کا آج مذاق اڑایا جاتا ہے تب یہ نظریہ صرف حد ادب میں آتا تھا اور خاموشی برتی جاتی تھی۔ اس ظالم طبقے نے جو قائد کی جیب کے کھوٹے سکے تھے، ہماری یہ حالت کر دی کہ ہم بھارت کے ہاتھوں ملک تڑوا بیٹھے اور کہا گیا کہ ہم نے مسلمانوں سے ہزار سال کا بدلہ لے لیا ہے۔
یہ ہماری ذلت کی انتہا تھی جس سے بڑی اور کوئی ذلت نہیں ہو سکتی تھی لیکن داد دیجئیے اپنے اس بے حیا حکمران طبقے کو کہ ملک کے دو ٹکڑے ہونے کو بھی ہم نے سیاست کا ہتھیار بنا لیا اور باقی ماندہ کے وزیر اعظم اور نہ جانے کیا کیا بن بیٹھے۔ ہمارے بازو ئے شمشیر زن بھارت کی قید میں تھے اور بے غیرت فوجی حکمران جس کے دور میں یہ سب کچھ ہوا پھر سے حکمرانی کے خواب دیکھتا ہوا کہہ رہا تھا کہ ''کیا ہوا میں نے کوئی گدھی کو ہاتھ لگا دیا ہے'' ایسے حکمرانوں کے ملک کو اگر کوئی کہتا ہے کہ اس کے شہری تو ایک ویزے پر بک جاتے ہیں تو غلط نہیں کہتا۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نئے انکشاف کے مطابق بھارت اور ہمارا کلچر اور ثقافت ایک ہی ہے۔ اب کوئی پوچھے کہ جناب والا اگر سب کچھ ایک ہی تھا تو پھر پاکستان کا پنگا کیوں لیا تھا۔
اپنے ہموطنوں کو رمضان مبارک۔ خدا و رسول کے نام پر بننے والے اس ملک کی سلامتی کی دعا نہیں فریاد کیجیے۔ اس مہینے میں فریادیں سنی جاتی ہیں۔