جمہوریت اورمسلم معاشرے
گزشتہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب شدید عوامی احتجاج کے بعد مصری فوج نے صدر محمد مرسی کوبرطرف کرکے۔۔۔
گزشتہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب شدید عوامی احتجاج کے بعد مصری فوج نے صدر محمد مرسی کوبرطرف کرکے چیف جسٹس کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم کردی ہے۔آئین معطل کردیاگیا اورنئی حکومت سے کہا گیا کہ وہ نیا عبوری آئین تشکیل دے۔محمد مرسی کی برطرفی کے بعد ان کے حامیوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں اور اب تک بڑی تعداد میں لوگ جاں بحق ہوئے ہیں اور روزانہ ہورہے ہیں۔اس نئی صورتحال نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔
اول، یہ ہے کہ گزشتہ برس51فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہونے والے محمد مرسی اتنی جلدی اتنے غیر مقبول کیسے ہوگئے کہ لوگ ان کی برطرفی کے لیے پہلے سے زیادہ تعداد میں لوگ تحریر چوک پر جمع ہوئے؟ دوئم، کیا تبدیلی کا واحد راستہ فوجی مداخلت رہ گیا تھا؟سوئم، محمد مرسی کی برطرفی پر جمہوری معاشروں سے ردعمل کیوں نہیں آیا؟چہارم، مسلم معاشروں کو جمہوریت کیوں راس نہیں آرہی اور پشتینی بادشاہتیں یافوجی اور شخصی آمریتیں ان کامقدرکیوں بنی ہوئی ہیں؟
یہ چاروں سوال چونکہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،اس لیے ان پر ایک ساتھ ہی گفتگو ممکن ہے۔اس کے علاوہ معاملہ صرف مصر تک محدود نہیں ہے، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کی سیاسی صورتحال انیس وبیس کے فرق سے تقریباً ایسی ہی ہے ۔جہاں تک مصرکا تعلق ہے،تو یہ مشرق وسطیٰ کا ایک اہم،لیکن خاصا پیچیدہ ملک ہے۔مصر میں اس خطے کی سب سے بڑی مڈل کلاس موجود ہے، جس میں جمہوریت کے لیے تڑپ تو ضرور پائی جاتی ہے،مگرمزاج جمہوری نہیں بن سکا ہے۔اس کے علاوہ سماجی اور سیاسی ماحول بھی جمہوری اداروں کی تشکیل اور فروغ کے لیے سازگار نہیں ہے، جس کے کئی اسباب ہیں۔اول،1952ء میںبادشاہت کے خاتمے کے بعد 61برس تک سخت گیر آمریت کے چنگل میں پھنسا رہا اور یکے بعد دیگرے تین آمر طویل عرصے تک مسلط رہے۔
جنہوں نے جمہوری اداروں کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ دوئم،کاروباری حلقوں سمیت بعض شراکت دار اپنے مخصوص مفادات کی خاطرپس پردہ فوج اور اسٹبلشمنٹ کی حمایت کرتے ہیں،جس کی وجہ سے جمہوری اداروں کی تشکیل میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔سوئم، خطے کے دیگر ممالک میںقائم پشتینی بادشاہتیں اور شخصی آمریتیں بھی اس خطے میں جمہوریت کے فروغ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔نتیجتاً مصر سمیت پورے خلیجی علاقے میں جمہوریت نواز قوتیں خاصی کمزور ہیں۔
مصرکی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو فوج نے1952ء میں شاہ فاروق کا تختہ الٹ کر ایک صدی سے قائم شاہی خاندان کا خاتمہ کردیا اور مصر کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کیا۔ مگر 1954ء میں صدر جنرل محمد نجیب اور وزیر اعظم کرنل جمال عبدالناصر میں شدید اختلافات کے بعد جنرل نجیب کو ان کے گھر میں نظربند کردیاگیااور جمال عبدالناصر مصر کے سیاہ و سپید کے مالک بن گئے۔اکتوبر1970ء میں ان کے انتقال کے بعد نائب صدر انوار السادات صدر بن گئے،جو 6اکتوبر 1981کومذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں قتل کیے جانے تک ملک کے بلاشرکت غیرے ملک کے حکمران رہے۔ اکتوبر1981سے 11فروری2011تک تقریباً 30برس تک حسنی مبارک قابض رہے،جو2010ء میں شروع ہونے والے متشدد مظاہروں کے نتیجے میں مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے۔ان تمام حکمرانوں نے 61 برس تک یہ کوشش کی کہ کسی طورمصر میں سیاسی عمل اور اظہار کی آزادی مکمل طورپر بحال نہ ہوسکے۔
مسلم ممالک میں جمہوریت پرگفتگو کرتے ہوئے ہمیںکئی پہلوؤں کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔اول،ان تمام ممالک میں پیداواری نظام کی تبدیلی کسی اندرونی کاوش یا ارتقائی عمل کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ تبدیل ہوتی دنیا کے اثرات اور جبر کا نتیجہ ہے۔اس لیے فکری، سیاسی اور سماجی تبدیلی کی کوئی واضح سمت کاتعین نہیں ہوسکا۔جس کی وجہ سے یہ ممالک اپنے لیے کوئی واضح طرز حکمرانی متعین کرنے میں ناکام رہے۔ کم وبیش ڈیڑھ سو برس نوآبادیاتی نظام کے تابع رہنے کی وجہ سے اسی طرز حکمرانی کوقبول کرنے پر مجبور ہوئے، جو نوآبادیاتی آقاؤں نے ان پر مسلط کیا۔ دوئم،بیشتر ممالک میںنوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی یاتو پشتینی بادشاہتیں بحال ہوگئیں یا پھر فوجی یا شخصی آمریتیں قائم ہوگئیں۔
جس کی وجہ سے ایک فعال اور مستعد مڈل کلاس پیدا نہیں ہوسکی۔جو مڈل کلاس ان ممالک میں موجود تھی یا جو سماجی عمل کے دوران پیدا ہوئی، اس میں وہ ہمہ گیری نہیں تھی، جوآج تک دنیا کی ضرورت ہے۔صنعتکاری نہ ہونے اور ریاست کے جابرانہ کنٹرول کی وجہ سے ٹریڈیونین کاان ممالک میں کوئی وجود نہیں تھا۔صحافیوں اور وکلاسمیت دیگر پیشوں سے وابستہ افراد کی تنظیمیںبھی نہ ہونے کے برابر رہی ہیں۔طلبہ تنظیمیں چند ممالک میں موجود ضرور ہیں ،مگر وہ سیاسی عمل کو مہمیز لگانے کی اہلیت سے محروم ہیں۔
اس طرح ان ممالک میں عموماً دو طرح کی مڈل کلاس پائی جاتی ہے۔ ایک تنخواہ داراور دوسری کاروباری۔ان دونوں قسم کی مڈل کلاس کے اپنے مخصوص مفادات ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان میںاتنی سکت نہیں ہے کہ وہ مروجہ نظام حکمرانی کو چیلنج کرسکیں۔ مگر اس کے باوجودبعض عرب ممالک میں اساتذہ، وکلا اور صحافیوں نے جرأ ت مندانہ انداز میں اپنے ملک پر مسلط آمروں کو چیلنج کرنے کی کوشش کی۔لیکن ان کی آواز اتنی کمزور اور نحیف رہی کہ وہ کوئی بڑی تبدیلی لانے سے قاصررہے۔
اس کے علاوہ ہمیں بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی ایشیاء اور افریقا کی نوآبادیات میں شروع ہونے والی مختلف نوعیت کی سیاسی تحاریک کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ان میں دو طرح کی تحاریک کا اثر ونفوذ خاصا گہراتھا۔اول، قوم پرستی پر مبنی تحاریک ،دوئم،مذہب کی بنیاد پر قائم تنظیمیں۔اول الذکر تحاریک نے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے لیے بڑی موثر تحریکیں چلائیں اور دوسری عالمی جنگ کے بعد تیزی کے ساتھ کامیابیاں حاصل کیں اور اپنے اپنے ممالک میں جمہوریت اورجمہوری اداروں کومستحکم کرنے کی کوشش کی۔اس کے برعکس مسلم دنیا میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کی تجدیدکے لیے کئی مقبول تحاریک منظم ہوئیں۔چونکہ ان تحاریک اورتنظیموںمیں جمہوریت کو مغرب کا نظام اور اسلام سے متصادم تصورکیاجاتا ہے،اس لیے اس نظام کی مخالفت کی جاتی ہے۔کچھ شدت پسند تنظیمیں بزور طاقت اقتدار پر قبضہ کے ذریعے اسلامی نظام کے نفاذکو جائزہ قراردیتی تھیں۔جب کہ چند ایک اپنے مشن کی تکمیل کے لیے انتخابی عمل کو استعمال کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
جیساکہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ مذہب کی بنیادپرقائم تنظیموں کے جمہوریت کے بارے میں خیالات کبھی اچھے نہیں رہے۔عام طورپران جماعتوںمیں جمہوریت کورد کیا جاتاہے۔آج بھی بیشتر مذہبی تنظیمیں جمہوریت کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتیں،لیکن حالات کے جبرکی وجہ سے وہ انتخابی عمل کا حصہ بنتی ہیں،مگر وہ اس عمل کو اپنے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیتی ہیں۔عرب دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اخوان المسلمین (Muslim Brotherhood)کی بنیاد 1928ء میں مصری مذہبی اسکالر حسن البناء نے اسکندریہ میں رکھی۔
اس جماعت کے قیام کا مقصد مصر میں اسلامی نظام کا نفاذ تھا۔ یہ تنظیم اساتذہ سمیت مصرکے متوسط اورنچلے متوسط طبقے میں خاصی مقبول ہوئی اور جمال عبدالناصر کے دور میں، جب اس پر پابندی لگی تو اس کی رکنیت20لاکھ تک جاپہنچی تھی۔برٹش انڈیامیں جید عالم دین مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے اخوان المسلمین کے فکر وفلسفہ سے متاثر ہوکر 1941ء میں جماعت اسلامی قائم کی اور اسی طرز پر چلانے کی کوشش کی۔اخوان المسلمین کے ابتدائی دور کی دستاویز ات اور لٹریچر میں جمہوریت کو غیر اسلامی قرار دیا گیا ہے۔ان کے اندر بھی دو رجحان غالب تھے ۔
ایک وہ جوانتخابی عمل کے ذریعے تبدیلی کی توقع رکھتے تھے ۔جب کہ دوسرے متشدد انقلاب کے بغیر تبدیلی کو ممکن نہیں سمجھتے تھے۔یہی سبب ہے کہ جمال عبدالناصر کے دور میں جب اخوان پر پابندی عائد کی گئی تو اس کے اندر موجود دونوں رجحانات کی کشمکش میں اضافہ ہوا اور متشدد راہ اختیار کرنے والے اراکین اخوان سے الگ ہوگئے۔اسی قسم کی ٹوٹ پھوٹ اسی زمانے میں جماعت اسلامی میں بھی نظر آتی ہے ،جب امین احسن اصلاحی اور ڈاکٹر اسراراحمد سمیت کئی جید رہنماء جماعت اسلامی سے الگ ہوئے۔
مصر میں جاری کشمکش کو اسلام پرستوں اور جدیدیت پسندوں کے درمیان معرکہ یا مغربی کی مشرق دشمنی کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے عرب دنیا کے اندرونی تضادات کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسے معاشروں میں جہاں مضبوط اسٹبلشمنٹ رہی ہو اورسماجی ڈھانچہ مختلف فکری رجحانات میں منقسم ہو،کسی ایک فکری رویے کے حامل گروہ کو شدت پسندانہ رویہ اختیار کرنے سے گریز کرتے ہوئے جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
لہٰذا مثالیت پسندی کی راہ اپنانے کے بجائے تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے اور آہستگی کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کی قوت کو کم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر کئی دہائیوں کے بعد جمہوریت کو راستہ ملتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان قوتوں اور اداروں کو فوری طورپر چیلنج کردیا جائے جو ملک کے نظام حکمرانی پرحاوی رہے ہیں۔ مصر میں مرسی صاحب سے یہی بنیادی غلطی ہوئی کہ وہ دیگر رجحانات کی حامل قوتوں کو ساتھ لے کر نہ چل سکے اور دوسرے انھوں نے فوج سمیت طاقتور اسٹبلشمنٹ کی سیاسی قوت کو بہت عجلت میں چیلنج کردیا۔ جس کا خمیازہ ان کا ملک بھگت رہاہے۔
اول، یہ ہے کہ گزشتہ برس51فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہونے والے محمد مرسی اتنی جلدی اتنے غیر مقبول کیسے ہوگئے کہ لوگ ان کی برطرفی کے لیے پہلے سے زیادہ تعداد میں لوگ تحریر چوک پر جمع ہوئے؟ دوئم، کیا تبدیلی کا واحد راستہ فوجی مداخلت رہ گیا تھا؟سوئم، محمد مرسی کی برطرفی پر جمہوری معاشروں سے ردعمل کیوں نہیں آیا؟چہارم، مسلم معاشروں کو جمہوریت کیوں راس نہیں آرہی اور پشتینی بادشاہتیں یافوجی اور شخصی آمریتیں ان کامقدرکیوں بنی ہوئی ہیں؟
یہ چاروں سوال چونکہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،اس لیے ان پر ایک ساتھ ہی گفتگو ممکن ہے۔اس کے علاوہ معاملہ صرف مصر تک محدود نہیں ہے، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کی سیاسی صورتحال انیس وبیس کے فرق سے تقریباً ایسی ہی ہے ۔جہاں تک مصرکا تعلق ہے،تو یہ مشرق وسطیٰ کا ایک اہم،لیکن خاصا پیچیدہ ملک ہے۔مصر میں اس خطے کی سب سے بڑی مڈل کلاس موجود ہے، جس میں جمہوریت کے لیے تڑپ تو ضرور پائی جاتی ہے،مگرمزاج جمہوری نہیں بن سکا ہے۔اس کے علاوہ سماجی اور سیاسی ماحول بھی جمہوری اداروں کی تشکیل اور فروغ کے لیے سازگار نہیں ہے، جس کے کئی اسباب ہیں۔اول،1952ء میںبادشاہت کے خاتمے کے بعد 61برس تک سخت گیر آمریت کے چنگل میں پھنسا رہا اور یکے بعد دیگرے تین آمر طویل عرصے تک مسلط رہے۔
جنہوں نے جمہوری اداروں کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ دوئم،کاروباری حلقوں سمیت بعض شراکت دار اپنے مخصوص مفادات کی خاطرپس پردہ فوج اور اسٹبلشمنٹ کی حمایت کرتے ہیں،جس کی وجہ سے جمہوری اداروں کی تشکیل میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔سوئم، خطے کے دیگر ممالک میںقائم پشتینی بادشاہتیں اور شخصی آمریتیں بھی اس خطے میں جمہوریت کے فروغ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔نتیجتاً مصر سمیت پورے خلیجی علاقے میں جمہوریت نواز قوتیں خاصی کمزور ہیں۔
مصرکی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو فوج نے1952ء میں شاہ فاروق کا تختہ الٹ کر ایک صدی سے قائم شاہی خاندان کا خاتمہ کردیا اور مصر کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کیا۔ مگر 1954ء میں صدر جنرل محمد نجیب اور وزیر اعظم کرنل جمال عبدالناصر میں شدید اختلافات کے بعد جنرل نجیب کو ان کے گھر میں نظربند کردیاگیااور جمال عبدالناصر مصر کے سیاہ و سپید کے مالک بن گئے۔اکتوبر1970ء میں ان کے انتقال کے بعد نائب صدر انوار السادات صدر بن گئے،جو 6اکتوبر 1981کومذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں قتل کیے جانے تک ملک کے بلاشرکت غیرے ملک کے حکمران رہے۔ اکتوبر1981سے 11فروری2011تک تقریباً 30برس تک حسنی مبارک قابض رہے،جو2010ء میں شروع ہونے والے متشدد مظاہروں کے نتیجے میں مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے۔ان تمام حکمرانوں نے 61 برس تک یہ کوشش کی کہ کسی طورمصر میں سیاسی عمل اور اظہار کی آزادی مکمل طورپر بحال نہ ہوسکے۔
مسلم ممالک میں جمہوریت پرگفتگو کرتے ہوئے ہمیںکئی پہلوؤں کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔اول،ان تمام ممالک میں پیداواری نظام کی تبدیلی کسی اندرونی کاوش یا ارتقائی عمل کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ تبدیل ہوتی دنیا کے اثرات اور جبر کا نتیجہ ہے۔اس لیے فکری، سیاسی اور سماجی تبدیلی کی کوئی واضح سمت کاتعین نہیں ہوسکا۔جس کی وجہ سے یہ ممالک اپنے لیے کوئی واضح طرز حکمرانی متعین کرنے میں ناکام رہے۔ کم وبیش ڈیڑھ سو برس نوآبادیاتی نظام کے تابع رہنے کی وجہ سے اسی طرز حکمرانی کوقبول کرنے پر مجبور ہوئے، جو نوآبادیاتی آقاؤں نے ان پر مسلط کیا۔ دوئم،بیشتر ممالک میںنوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی یاتو پشتینی بادشاہتیں بحال ہوگئیں یا پھر فوجی یا شخصی آمریتیں قائم ہوگئیں۔
جس کی وجہ سے ایک فعال اور مستعد مڈل کلاس پیدا نہیں ہوسکی۔جو مڈل کلاس ان ممالک میں موجود تھی یا جو سماجی عمل کے دوران پیدا ہوئی، اس میں وہ ہمہ گیری نہیں تھی، جوآج تک دنیا کی ضرورت ہے۔صنعتکاری نہ ہونے اور ریاست کے جابرانہ کنٹرول کی وجہ سے ٹریڈیونین کاان ممالک میں کوئی وجود نہیں تھا۔صحافیوں اور وکلاسمیت دیگر پیشوں سے وابستہ افراد کی تنظیمیںبھی نہ ہونے کے برابر رہی ہیں۔طلبہ تنظیمیں چند ممالک میں موجود ضرور ہیں ،مگر وہ سیاسی عمل کو مہمیز لگانے کی اہلیت سے محروم ہیں۔
اس طرح ان ممالک میں عموماً دو طرح کی مڈل کلاس پائی جاتی ہے۔ ایک تنخواہ داراور دوسری کاروباری۔ان دونوں قسم کی مڈل کلاس کے اپنے مخصوص مفادات ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان میںاتنی سکت نہیں ہے کہ وہ مروجہ نظام حکمرانی کو چیلنج کرسکیں۔ مگر اس کے باوجودبعض عرب ممالک میں اساتذہ، وکلا اور صحافیوں نے جرأ ت مندانہ انداز میں اپنے ملک پر مسلط آمروں کو چیلنج کرنے کی کوشش کی۔لیکن ان کی آواز اتنی کمزور اور نحیف رہی کہ وہ کوئی بڑی تبدیلی لانے سے قاصررہے۔
اس کے علاوہ ہمیں بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی ایشیاء اور افریقا کی نوآبادیات میں شروع ہونے والی مختلف نوعیت کی سیاسی تحاریک کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ان میں دو طرح کی تحاریک کا اثر ونفوذ خاصا گہراتھا۔اول، قوم پرستی پر مبنی تحاریک ،دوئم،مذہب کی بنیاد پر قائم تنظیمیں۔اول الذکر تحاریک نے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے لیے بڑی موثر تحریکیں چلائیں اور دوسری عالمی جنگ کے بعد تیزی کے ساتھ کامیابیاں حاصل کیں اور اپنے اپنے ممالک میں جمہوریت اورجمہوری اداروں کومستحکم کرنے کی کوشش کی۔اس کے برعکس مسلم دنیا میں اسلامی نشاۃ ثانیہ کی تجدیدکے لیے کئی مقبول تحاریک منظم ہوئیں۔چونکہ ان تحاریک اورتنظیموںمیں جمہوریت کو مغرب کا نظام اور اسلام سے متصادم تصورکیاجاتا ہے،اس لیے اس نظام کی مخالفت کی جاتی ہے۔کچھ شدت پسند تنظیمیں بزور طاقت اقتدار پر قبضہ کے ذریعے اسلامی نظام کے نفاذکو جائزہ قراردیتی تھیں۔جب کہ چند ایک اپنے مشن کی تکمیل کے لیے انتخابی عمل کو استعمال کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
جیساکہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ مذہب کی بنیادپرقائم تنظیموں کے جمہوریت کے بارے میں خیالات کبھی اچھے نہیں رہے۔عام طورپران جماعتوںمیں جمہوریت کورد کیا جاتاہے۔آج بھی بیشتر مذہبی تنظیمیں جمہوریت کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتیں،لیکن حالات کے جبرکی وجہ سے وہ انتخابی عمل کا حصہ بنتی ہیں،مگر وہ اس عمل کو اپنے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیتی ہیں۔عرب دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اخوان المسلمین (Muslim Brotherhood)کی بنیاد 1928ء میں مصری مذہبی اسکالر حسن البناء نے اسکندریہ میں رکھی۔
اس جماعت کے قیام کا مقصد مصر میں اسلامی نظام کا نفاذ تھا۔ یہ تنظیم اساتذہ سمیت مصرکے متوسط اورنچلے متوسط طبقے میں خاصی مقبول ہوئی اور جمال عبدالناصر کے دور میں، جب اس پر پابندی لگی تو اس کی رکنیت20لاکھ تک جاپہنچی تھی۔برٹش انڈیامیں جید عالم دین مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی نے اخوان المسلمین کے فکر وفلسفہ سے متاثر ہوکر 1941ء میں جماعت اسلامی قائم کی اور اسی طرز پر چلانے کی کوشش کی۔اخوان المسلمین کے ابتدائی دور کی دستاویز ات اور لٹریچر میں جمہوریت کو غیر اسلامی قرار دیا گیا ہے۔ان کے اندر بھی دو رجحان غالب تھے ۔
ایک وہ جوانتخابی عمل کے ذریعے تبدیلی کی توقع رکھتے تھے ۔جب کہ دوسرے متشدد انقلاب کے بغیر تبدیلی کو ممکن نہیں سمجھتے تھے۔یہی سبب ہے کہ جمال عبدالناصر کے دور میں جب اخوان پر پابندی عائد کی گئی تو اس کے اندر موجود دونوں رجحانات کی کشمکش میں اضافہ ہوا اور متشدد راہ اختیار کرنے والے اراکین اخوان سے الگ ہوگئے۔اسی قسم کی ٹوٹ پھوٹ اسی زمانے میں جماعت اسلامی میں بھی نظر آتی ہے ،جب امین احسن اصلاحی اور ڈاکٹر اسراراحمد سمیت کئی جید رہنماء جماعت اسلامی سے الگ ہوئے۔
مصر میں جاری کشمکش کو اسلام پرستوں اور جدیدیت پسندوں کے درمیان معرکہ یا مغربی کی مشرق دشمنی کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے عرب دنیا کے اندرونی تضادات کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسے معاشروں میں جہاں مضبوط اسٹبلشمنٹ رہی ہو اورسماجی ڈھانچہ مختلف فکری رجحانات میں منقسم ہو،کسی ایک فکری رویے کے حامل گروہ کو شدت پسندانہ رویہ اختیار کرنے سے گریز کرتے ہوئے جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
لہٰذا مثالیت پسندی کی راہ اپنانے کے بجائے تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے اور آہستگی کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کی قوت کو کم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر کئی دہائیوں کے بعد جمہوریت کو راستہ ملتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان قوتوں اور اداروں کو فوری طورپر چیلنج کردیا جائے جو ملک کے نظام حکمرانی پرحاوی رہے ہیں۔ مصر میں مرسی صاحب سے یہی بنیادی غلطی ہوئی کہ وہ دیگر رجحانات کی حامل قوتوں کو ساتھ لے کر نہ چل سکے اور دوسرے انھوں نے فوج سمیت طاقتور اسٹبلشمنٹ کی سیاسی قوت کو بہت عجلت میں چیلنج کردیا۔ جس کا خمیازہ ان کا ملک بھگت رہاہے۔