بلوچستان میں بائیں بازو کے سیاسی امکانات
بلوچستان کو یہ اعزاز تو رہا ہے کہ یہاں کی سیاست کا مجموعی انداز ترقی پسند، سیکولر اور بائیں بازو کا حامی رہا ہے۔
بلوچستان کو یہ اعزاز تو رہا ہے کہ یہاں کی سیاست کا مجموعی انداز ترقی پسند، سیکولر اور بائیں بازو کا حامی رہا ہے۔ یہ تشخص گو کہ اب ایک عرصے سے بعض اداروں کی زد پہ ہے۔اسے مسخ کرنے کے لیے مختلف داؤ پیچ استعمال کیے جا رہے ہیں، اور 'بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی' کے مصداق یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ حربے کسی حد تک کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔
اس کے باوجود بلوچ سیاست کے مجموعی ترقی پسندانہ اور سیکولر تشخص کا بھرم کسی حد تک قائم ہے۔اب جب پاکستان میں بائیں بازوکی سیاست ایک نئی کروٹ لے رہی ہے اور اس سے وابستہ احباب بلوچستان میں بھی اس کے احیا کی خواہش رکھتے ہیں تو ایک بار رک کر ذرا تسلی سے یہاں کے معروضی حالات کے پیش نظر بائیں بازوکے سیاسی امکانات کا جائزہ لینا ضروری ہو گا، کہ ماضی کی خوش فہمیاں اپنی جگہ، لیکن گزشتہ ایک دہائی میں بلوچستان عالمی سیاست کے نرغے میں کچھ یوں جکڑا ہے کہ اب یہاں ہر راہ پہ پھونک پھونک کر قدم رکھنا ضروری ہو گیا ہے۔
یہ بات کتنی ہی کیسی ہی خوش کن کیوں نہ ہو کہ ماضی میں بلوچ مزاحمت ہمیشہ بائیں بازو کے سیاسی نظریات کی حامی رہی ہے ، اسے اپنی خواہش کے تناظر میں عین اسی طرح موجودہ تحریک پہ منطبق نہیں کیا جا سکتا۔ پرویز مشرف حکومت کے ابتدائی برسوں میں خیر بخش مری کی گرفتاری سے شروع ہونے والی یہ تحریک ماضی کی تحریکوں سے یکسر مختلف تناظر رکھتی ہے۔ اس وقت تین بڑی تنظیمیں موجودہ مزاحمتی تحریک کی نمایندہ کہی جاتی ہیں؛ بی ایل اے، بی آر اے اور بی ایل ایف۔ جنھیں مبینہ طور پر بالترتیب حیربیار مری، براہمدغ بگٹی اور ڈاکٹر اللہ نذرکمانڈ کر رہے ہیں۔
حیربیار اور براہمدغ مری ، بگٹی مزاحمت کے روایتی چہرے کے نمایندہ ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر دو تنظیموں میں صرف مری اور بگٹی قبائل کے افراد شامل ہیں،لیکن یہ حقیقت ہے کہ غالب اکثریت انھی قبائل کی ہے اور ان کی قیادت کسی اور قبیلے کے پاس جانے کا کوئی امکان نہیں۔ تیسرے، ڈاکٹر اللہ نذر گوکہ نچلے طبقے کے نمایندہ ایک عام بلوچ ہیں ، اور بلوچ طلبا کی اکثریت انھی سے متاثر رہی ہے، لیکن فکری طور پر یہ تمام جغرافیائی تبدیلی کے یک نقاطی ایجنڈے پر متفق ہیں، ان میں سے کوئی بھی نظام کی تبدیلی سے متعلق واضح نہیں ہے۔ گو کہ بارہا یہ کہا جاتا رہا ہے کہ خود مختار بلوچستان میں حقِ حاکمیت ایک بلوچ کے پاس ہو گا، لیکن اس خود مختار ریاست کا معاشی نظام کن بنیادوں پر ہوگا، اس بابت کوئی واضح رائے کبھی نہیں آئی۔
نیز ان تنظیموں کا کردار یوں بھی واضح ہوتا ہے کہ ان کے نمایندے عالمی سامراجی طاقتوں کے لیے اکثر نرم گوشے کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک عرصے کے تجربے سے شاید سخت گیر موقف رکھنے والی بلوچ قیادت کو بھی اب یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ عالمی سامراجی طاقتوں کی حمایت کے بغیر ان کی تحریک کی کامیابی ممکن نہ ہوگی۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس وقت بھی امریکا کو للکارنے اور بلوچستان میں سوشلزم کی بات کرنیوالا ایک اکلوتا سردار ہی ہے۔خیر بخش مری نے جب اپنے مختلف انٹرویوز میں امریکا کے کردار پر کھل کر تنقید کی اور بلوچستان کا مستقبل سوشلزم کو قرار دیا تو سوشل میڈیا میں ان کے خلاف بلوچ نوجوانوں نے ایک محاذ کھول دیا۔ اگرچہ اس میں دیگر اندرونی اختلافات بھی شامل تھے، لیکن بنیادی اختلافی نقطہ سامراجی طاقتوں کی کھلی مخالفت اور سوشلزم کی سرعام حمایت تھا۔
اور تاریخ کا ایک دلچسپ تضاد یہ ہے کہ جس آدمی کے ساتھ مل کر خیر بخش مری نے سوشلزم کی جدوجہد کا آغاز کیا تھا، جنھیں وہ احتراما 'استاد' کہتے ہیں، وہ موجودہ بلوچ تحریک میں معتوب ترین فرد قرار پا چکا ہے۔ غوث بخش بزنجو جس سوشلسٹ سیاست کے داعی تھے، وہ بلوچستان میں اب دیوار سے لگائی جا چکی ہے۔ تضاد کی بات ہوئی تو ایک دلچسپ تضاد یہ بھی ہے کہ موجودہ تحریک سے فکری طور پر متاثر نوجوانوں کے سب سے زیادہ زیر مطالعہ رہنے والی تمام سوشلسٹ سیاسی شخصیات ہی ہیں۔
وہ چے گویرا سے لے کر کاسٹرو تک کو شوق سے پڑھتے تو ہیں، لیکن وہ جس نظام کے لیے لڑے، اُس سے متعلق آشنائی کو اہم نہیں جانتے۔ حیران کن حد تک مکران جسے اس وقت بلوچستان کا 'دانش کدہ' سمجھا جاتا ہے، وہاں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ بلوچ بھی آپ کو بلوچ سماج میں طبقات کا منکر ملے گا۔ایک پڑھے لکھے بلوچ سے یہ سن کر آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے کہ 'بلوچستان میں کوئی طبقات ہی نہیں ، اس لیے یہاں نہ کوئی طبقاتی مسئلہ ہے نہ طبقاتی جدوجہد کی کوئی ضرورت'ساتھ ہی آپ ان سے تربت میں ایک طرف تیزی سے بڑھتے ہوئے محل اور دوسری طرف خاک نشینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا ذکر کریں تو وہ 'بلوچیت' کے لبادے میں سب کچھ لپیٹ کر رکھ دیں گے۔
موجودہ تحریک کا اہم مرکز مکران کا یہی علاقہ رہا ہے۔ کوہلو اور ڈیرہ بگٹی تو یوں بھی اس کا نیوکلیس ہیں۔ اب اس کے اثرات جھالاوان کی طرف منتقل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ان تمام علاقوں میں کسی قسم کی سیاست ممنوع قرار پا چکی ہے۔ یہاں بائیں بازو کی کوئی بھی تنظیم کاری ممکن ہی نہیں۔ دائیں بازو کے ریاستی اداروں کی پشت پناہی میں کام کرنیوالی مذہبی جماعتوں نے بھی اب اپنا بوریا بستر سمیٹنا شروع کر دیا ہے۔ ان علاقوں میں ریاستی رٹ حقیقی معنوں میں چیلنج ہو چکی ہے۔
دس برس تک اگر کوئی زیر زمین گوریلاتحریک اپنا وجود قائم رکھتی ہے، تو مقامی عوامی حمایت کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ اور جس تحریک کو عوام کی حمایت حاصل ہو، اس کی غیر مشروط حمایت بائیں بازو کی نظریاتی ذمے داری بن جاتی ہے۔ بعض معاملات پر اختلافِ رائے تو کیاجا سکتا ہے لیکن اس کے وجود سے انکار یا اس کے مدمقابل کسی قسم کی تنظیم سازی ، عوامی ہمدردی کو اپنے خلاف کرنے کے مترادف ہو گی۔جغرافیائی طور پر منقسم بلوچستان میں ایک طرف پشتونخوا اور دوسری طرف سندھ سے ملحقہ بلوچ اضلاع وہ علاقے ہیں جہاں بائیں بازو کی سیاسی تنظیم کاری کی گنجائش نکالی جا سکتی ہے۔
بلوچستان میں شامل پشتون اضلاع(جنوبی پشتونخوا) میں بنیادی مسئلہ چونکہ مذہبی بنیاد پرستی ہے اور مقامی سیاسی و مذہبی جماعتیں اسے اپنے سیاسی مفادات کے لیے تو استعمال کرتی رہی ہیں، لیکن اسے حل کرنے میں ناکام رہی ہیں، اس لیے یہاں ایک سیاسی خلاموجود ہے۔ لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں بنیاد پرستی کا بیج اس قدر شدت سے بویا گیا ہے کہ یہ اب عوامی رویوں کا عکس بن گئی ہے۔ اس لیے یہاں سخت اور جانفشانی کا ہی کام نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے صبرِ ایوب بھی درکار ہوگا ۔
دوسری طرف سبی سے لے کر نصیر آباد ، جعفرآباد اور جھل مگسی تک کا وسیع اور گنجان آباد زرعی علاقہ جاگیرداری کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ سیاست، سیاسی فکر، تنظیم ، تنظیم کاری سے یکسر نابلد یہاں کے عوام نسل در نسل جاگیرداروں کی غلامی کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ درجنوں فلورملز کی موجودگی میں یہاں صنعتی مزدوروں کی بھی ایک وافر کھیپ موجود ہے۔ کسان کی بکھری ہوئی قوت تو بے انتہا ہے،جسے یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔مختلف قبائل اور مختلف زبانوں کے بولنے والوں کے باعث یہاں کوئی قومی تحریک نہیں پنپ سکی، نہ ہی کسی قوم پرست جماعت نے آج تک یہاں سنجیدگی سے کام کرنے کی کوشش کی ہے۔
قوم پرستی کا نعرہ ان اضلاع کی سرحدوں تک آتے آتے دم توڑ دیتا ہے۔ بلوچستان میں بائیں بازو کی سیاسی تنظیم کاری کے لیے یہ اضلاع ٹیسٹ کیس ثابت ہو سکتے ہیں۔ جنوبی پشونخوا اور مشرقی بلوچستان کے ان اضلاع میں غربت کا تناسب ہی بائیں بازو کے نظریات کی حمایت کے لیے کافی ہے۔ آخری بات یہ کہ بلوچستان میں بائیں بازو کی سیاست کے احیا کے وقت عالمی طاقتوں کے کھیل کو کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ احتیاط از حد ضروری ہے کہ کہیں مقامی تضادات سے کھیلتے کھیلتے ہم عالمی طاقتوں کے تضادات کے ہاتھوں نہ کھیل جائیں۔