سنہری ریت کا دیس

صحرائے تھر خوبصورت ہے۔خاموش اور پروقار اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے ۔ اس کے رنگ دھیرے دھیرے نمایاں ہوتے۔۔۔


Shabnam Gul July 10, 2013
[email protected]

صحرائے تھر خوبصورت ہے۔خاموش اور پروقار اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے ۔ اس کے رنگ دھیرے دھیرے نمایاں ہوتے ہیں جیسے سورج نکلتا ہے۔ سنہری کرنیں تاریکی کو چھپادیتی ہیں اور منظر نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ ایک نئی دنیا آپ کا استقبال کرتی ہے۔ تھر کی سادگی اورخالص پن روح میں اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مصنوعیت، جدید دور کا تقاضا ہے لیکن بناوٹ فطری خوشی چھین لیتی ہے۔

لیکن تھر میں کہیں بھی بناوٹ نہیں ملتی۔ نہ چہروں میں نہ لہجوں میں اور نہ ہی مناظر میں کہیں تصنع نظر آتا ہے۔ ہمارا قافلہ تھرپارکر کے شہر مٹھی کی طرف رواں دواں ہے۔ بیلھاڑو شہر میں ہمیشہ کی طرح تھادل پینے رکے۔ یہ پرلطف مشروب پینے کے بعد حسیں زیادہ تیزی سے کام کرتی ہیں اور منتشر ذہن پرسکون ہوجاتا ہے۔ گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہاں ملنے والی تھادل لوگوں میں کس قدر مقبول ہے۔

تھرپارکر 19638 کلومیٹر مربع میل پر پھیلا ہے۔ یہاں کی مردم شماری1 ملین سے زیادہ ہے۔ تھرپارکر ضلع میں دو سب ڈویژنز مٹھی اور چھاچھرو ہیں، جن میں چار تعلقے ہیں جو مٹھی، ڈیپلو، چھاچھرو اور ننگر پارکر پر مشتمل ہیں۔ مٹھی کی طرف جانے والا راستہ خوبصورت ہے۔ بارش کے بعد اس کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔ ٹیلے سبزے سے ڈھک جاتے ہیں۔ جنگلی پودوں وپھولوں کی ایک مخصوص مہک احساس میں جذب ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اور تمام تر تھکن ہواؤں میں تحلیل ہوجاتی ہے۔ لہراتا بل کھاتا ہوا راستہ گاڑی کو کبھی اونچائی پر لے جاتا ہے تو کبھی ایک دم سے ٹائر ڈھلوان سے پھسلنے لگتے ہیں۔

راستے کے یہ نشیب و فراز احساس میں موسم کی پہلی بارش کا سا سرور بھر دیتے ہیں۔ منظر بدلتے رہتے ہیں، جیسے تھر کی بہت ساری عورتیں پانی سے بھرے مٹکے لیے قطار در قطار روڈ کے کنارے سے جارہی ہیں۔ ان کے کپڑوں کے دلکش رنگ نمایاں ہیں۔ قوس قزح سے یہ رنگ چولی، چنری، گج اور گھاگھرے کے ہیں۔ چولی پر لگے گج پر ستارے جھلملاتے ہیں۔ انھوں نے دوپٹے سے چہرے چھپارکھے ہیں۔ ان کی کلائیوں میں سفید چوڑیاں ہیں جنھیں ''بانہیں'' کہا جاتا ہے۔ اس کے دو حصے ہیں۔ انھیں کلائی سے کہنی تک ''موہر'' کہا جاتا ہے اور کہنی سے کندھے تک پہنی جانے والی چوڑیاں ''بند'' کہلاتی ہیں۔

یہ بندھن کی علامت ہیں۔ بیوہ عورتیں انھیں اتار کر دیوار پر سجا دیتی ہیں۔ لڑکیاں جو چوڑیاں پہنتی ہیں انھیں ''گورلا'' کا نام دیا گیا ہے۔ یہ عام طور پر پلاسٹک، عاج اور ناریل کے درخت سے بنائی جاتی ہیں۔ راستے کے دونوں طرف سبزہ بکھرا ہوا تھا۔ جابجا چونرے بنے ہوئے تھے۔ چونرہ تھر کی ایک منفرد ایجاد ہے۔ یہ جھونپڑی نما کشادہ کمرہ ہے۔ پانچ فٹ تک اس میں اینٹیں استعمال کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد لکڑی کا کام شروع ہوجاتا ہے۔ مقامی گھانس پھونس سے محرابی چھت تشکیل پاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی جالیوں سے آسمان نظر آتا ہے۔ جن سے آتی ہوا اندر تازگی کا احساس بکھیر دیتی ہے۔

بارش ہونے کی صورت میں اندر پانی نہیں ٹپکتا۔ سورج کی جھلملاتی کرنیں ہوں یا چاندنی کی ٹھنڈی میٹھی روشنی اوپر چھت کی طرف دیکھیں گے تو جالیوں سے جھلمل کرتی دکھائی دیں گی۔ نیلے آسمان کا عکس بھی صاف دکھائی دیتا ہے۔ رات جیسے بھیگتی جاتی ہے تو شدید گرمی میں بھی چونرہ مزید ٹھنڈا ہوتا چلا جاتا ہے۔ دیواروں کو چھوٹے چھوٹے شیشوں سے سجایا جاتا ہے۔ یہ گھر بہت پرسکون لگتے ہیں۔

سڑک کے کنارے ایک چھوٹا سا جھونپڑہ نما ہوٹل نظر آیا۔ گاڑی سے اترکر ہم سب ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور چائے سے محظوظ ہونے لگے جس میں دہوش کا ذائقہ بھی شامل تھا۔ ڈھلتی شام کے سائے میں شفق کے رنگ جابجا بکھرے تھے۔ ہوا کے ٹھنڈے جھونکوں میں تھر کے مخصوص ماحول کی مہک کا خمار سمٹ آیا تھا۔ بہت ساری بھنبھوریاں (Dragon Flies) فضاؤں میں اڑ رہی تھیں۔ ان کے پروں کا آہنگ کانوں میں رس گھولنے لگا۔

''ارے وہ دیکھو اونٹ'' ایک بچہ چلایا۔ قطار در قطار اونٹوں کا قافلہ جارہا تھا۔ ان کے گلے میں بندھی گھنٹیاں سر بکھیر رہی تھیں۔ اس مدھر موسیقی میں کوئی پرکیف سا احساس ہو جیسے۔ ایک دم سے سر بھاری محسوس ہونے لگتا ہے۔ دلفریب لمحے جب ذہن پر دستک دیتے ہیں تو احساس بھی پرندوں کے پروں کی طرح سبک رفتار آکاش کو چھونے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ مٹھی شہر میں گڈی بھٹ (ریت کا ٹیلا) پر واقع ریسٹ ہاؤس میں پہنچ کر نیچے دیکھا تو مٹھی شہرکا مکمل نظارہ سامنے تھا۔ رات ہوتے ہی جب گھروں کے بلب جلنے لگتے ہیں اور راستے روشنیوں سے آراستہ ہوجاتے ہیں تو گڈی بھٹ سے یہ منظر سحر انگیز لگتا ہے۔ اسلام آباد کا دامن کوہ یاد آنے لگتا ہے۔ لیکن اس منظر میں فطری پن ہے۔ ایک ایسی خاموشی جو کسی صوفی کی تپسیا میں ہوتی ہے۔ لمحے بھی ٹھہر سے جاتے ہیں۔ منکشف ہونے لگتے ہیں۔

مٹھی شہر میں اچھے تعلیمی ادارے، اسپتال اور ریڈیو اسٹیشن کی موجودگی اس شہر کی ترقی کی منزلوں کی طرف سفر کی نوید دیتے ہیں۔ شہر میں گھومتے ہوئے آپ کو ترتیب و کشادگی کا احساس ملے گا۔ کسی بھی نئے شہر میں داخل ہوتے ہی احساس ہوجاتا ہے کہ وہاں کے باسیوں کا مزاج کیسا ہے۔ گلیاں و محلے مکینوں کی سوچ کا عکس کہلاتے ہیں۔ اور یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ وہاں کے باسی اپنے شہر سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ مکینوں کا کتنا رابطہ ہے۔ لہٰذا مجھے مٹھی شہر اور اس شہر میں رہنے والے لوگوں کے درمیان ایک مضبوط تعلق دکھائی دیا۔

وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ لیکن مجھے تھر کے باسی، زبان، لباس، رہن سہن و مزاج کے حوالے سے آج بھی فطری پن کے قریب محسوس ہوتے ہیں۔ تھر کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں انسانی قدروں و گھر کے ادارے کی یکساں اہمیت پائی جاتی ہے۔ تھر کا گھر آج بھی ایک مضبوط اکائی ہے جہاں رشتوں کے مابین محبت و رابطہ بدرجہ اتم موجود ہیں۔ تھر میں آج بھی مشترکہ کنبے کا نظام رائج ہے۔ چھوٹے گاؤں ہوں یا شہر ہر طرف لوگ بہت محبت کرنے والے اور حد درجہ مہمان نواز ملیں گے۔

لنچ میں تھر کے خاص کھانے شامل تھے۔ مشروم کا سالن بہت لذیز تھا۔ یہ سبزی تھر میں کثرت سے پائی جاتی ہے۔ قدیم تہذیبیں جس میں یونان، مصر، انڈیا اور چائنا وغیرہ میں مشرومز بہت استعمال ہوتے ہیں کیونکہ اس کے طبی فوائد بے شمار ہیں۔

مٹھی تھر کے روایتی کپڑے، دستکاریوں، شالوں اور گجوں کی دستیابی کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ اس دن بھی دکانوں کے سامنے بڑی سی گاڑی میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی نمائش کے لیے سامان رکھا جارہا تھا۔

سبز ٹیلوں اور درختوں کے بیچ تھر کی خوبصورتی کو چار چاند لگانے والے مور ٹہل رہے تھے۔ موروں میں ایک پراسرار بیماری کے باعث اب یہ مقدار کم ہوتی جارہی ہے۔ جوکہ ایک تشویشناک امر ہے۔ کوئی زمانہ تھا تھر کے راستوں پر سفر کرتے ہوئے جابجا مور نظر آیا کرتے تھے۔ اگر موروں کی اس بیماری کا حل نہ تلاش کیا گیا تو شاید ہی تھر کی فضاؤں میں کبھی مور کے حسین رنگ نظر آئیں گے۔ یہ سوچ کر وحشت سی ہونے لگتی ہے۔

تھر معدنیات سے مالا مال ہے۔ تھر میں کوئلہ، گریفائٹ پتھر اور چسنی مٹی پائی جاتی ہے۔ تھر کے شہر اسلام کوٹ سے آگے تھاریہ ہالیپوٹہ گاؤں میں کوئلے کی کانوں میں کام جاری ہے۔ یہ کوئلہ 1540 سے 1500 فٹ گہرا اور 45 کلومیٹر پر محیط ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ذخیرے 175 ارب ٹن مقدار پر مشتمل ہیں۔

صحرائے تھر کی رنگارنگ تہذیب کی خوبصورتی کے پس منظر میں نہ ختم ہونے والے مسائل ہیں۔ جن میں غربت، پانی کی کمی اور صحت کے مسائل سرفہرست ہیں۔ تھر کے شہروں ڈیپلو، مٹھی نے تعلیم کے شعبے کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اتنے مسائل کے باوجود بھی تھر کے لوگوں کا حوصلہ قابل تعریف ہے۔ مسکراہٹوں کے دیپ چہرے پر جلائے رکھتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں