مسئلہ افغانستان کا سیاسی حل اور مضمرات
خدانخواستہ اگرکسی بھی ایٹمی قوت سے ذرا سی بھی بھول چوک ہوگئی تو قیامت صغریٰ برپا ہوسکتی ہے
تاریخ گواہ ہے کہ جنگ کا نتیجہ تباہی کے سوائے اورکچھ بھی نہیں۔ جنگ انسانیت کی ازل دشمن ہے۔ ماضی بعید کی روایتی جنگیں دو لشکروں کے درمیان روایتی ہتھیاروں سے لڑی جاتی تھیں اس لیے ان کی تباہی و بربادی کا دائرہ بھی محدود ہوا کرتا تھا مگر سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے جنگ کی نوعیت ہی بدل ڈالی ہے۔ اس کا اندازہ پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں کی قیامت خیز تباہ کاریوں سے بخوبی اور بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے خصوصاً دوسری عالمگیر جنگ میں ، جب امریکیوں نے جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا دیا تھا۔ ہم ہیروشیما کی تباہی کی محض ایک ہلکی سی جھلک اس کے عجائب گھر میں سنبھال کر رکھے گئے باقیات کی صورت دیکھ کر فرط جذبات سے بے قابو ہوگئے تھے۔ تب سے اب تک پلوں کے نیچے سے بے تحاشا پانی بہہ چکا ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کی اندھی دوڑ کے نتیجے میں انسانیت کی تباہی اور بربادی کے سامان میں اس خوفناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے کہ بقول شاعر حالت یہ ہے کہ:
ایٹم بموں کے زور پہ اینٹھی ہے یہ دنیا
بارود کے اک ڈھیر پہ بیٹھی ہے یہ دنیا
خدانخواستہ اگرکسی بھی ایٹمی قوت سے ذرا سی بھی بھول چوک ہوگئی تو قیامت صغریٰ برپا ہوسکتی ہے اور انسانیت کا وجود ہی نہیں بلکہ نام و نشان تک مٹ سکتا ہے۔ جنگ کے تباہ کن معاشی اور معاشرتی مضمرات اس کے علاوہ ہیں، افغانستان میں گزشتہ سترہ سال سے مسلسل جاری جنگ کے ہولناک اثرات و نتائج آج پوری دنیا کے سامنے ہیں ۔ امریکا کی جانب سے نائن الیون کے بعد افغانستان پر مسلط کی گئی یہ جنگ صرف افغانستان تک ہی محدود نہ رہ سکی بلکہ اس کے اثرات پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک تک بھی پھیل گئے۔ گزشتہ 17 سال کے دوران امریکا اور اس کے تقریباً 50 اتحادی ممالک نے افغان جنگ میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جدید ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کرکے لاکھوں افغانوں کو لقمہ اجل بنادیا۔
دوسری جانب ان ہتھیاروں نے خطے کی فضا میں ہلاکت خیز زہر گھول دیا جس کے اثرات لاعلاج بیماریوں کی صورت میں جگہ جگہ نمایاں ہو رہے ہیں۔ فضائی آلودگی نے اوزون (Ozone) کی تہہ کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے جس کے باعث خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ پاکستان بھی اس صورتحال سے متاثر ہو رہا ہے۔ ماضی میں بھی افغانستان پر روسی جارحیت کے موقعے پر پاکستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ اس کے بعد جب امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے افغانستان پر چڑھائی کی اور جنگ نے طول کھینچا تو اس جنگ کے شعلوں کی آنچ سے پاکستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس سترہ سالہ طویل جنگ نے بے چارے افغان عوام کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے جنھیں کشت وخون، بے گھری، بے روزگاری اور بے اندازہ تباہی و بربادی کے سوائے اورکچھ نہیں ملا اور جن کی آنے والی نسلوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
جنگ دنیا میں کہیں بھی لڑی جائے اور خواہ جنگ لڑنے والے فریقین کے درمیان طاقت اور صلاحیت کا تناسب کچھ بھی ہو، آخر کار اس کا انجام ایک ہی ہوتا ہے اور وہ ہے مذاکرات کی میز پر اکٹھا ہوکر مسئلے کے حل کی تلاش کے لیے مذاکرات کرنا۔ نائن الیون کے بعد طاقت کے نشے میں چور امریکا کو جب افغان عوام کی مزاحمتی قوت کا کچھ اندازہ ہوا تو اس نے افغانستان کی دلدل سے باہر نکلنے کے لیے سفارتی ذرایع سے اپنی کوششوں کا آغاز کردیا اور ہاتھ پاؤں مارنے شروع کردیے۔ اوباما کے دور میں ہی امریکا کو افغانستان میں اپنی غلطی اور ناکامی کا اندازہ ہوگیا تھا۔ اسے پتا چل گیا تھا کہ افغانستان میں اپنی ٹانگ پھنساکر اس نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور اس غلطی کا بھاری خمیازہ اسے ضرور بھگتنا پڑے گا اور اسے اس کی سزا نہ صرف معیشت کی تباہی بلکہ جگ ہنسائی کی صورت میں بھگتنا پڑے گی۔تاہم امریکا نے جان بوجھ کر پاکستان کو ان کوششوں سے دور رکھا اور دوسری جانب افغانستان کے زمینی حقائق کو بھی یکسر نظرانداز کردیا۔
امریکا نے اس حقیقت کو بھی نظرانداز کردیا کہ پاکستان اس جنگ کا اہم فریق ہے اور اسے نظرانداز کرکے افغان مسئلے کو مذاکرات کی میز تک لانا ممکن نہیں۔ انجام کار وہی ہوا جو ہونا تھا۔ چنانچہ پاکستان کو سائیڈ لائن کرنے کے نتیجے میں امن مذاکرات کے سلسلے میں امریکا کی تمام کوششیں رائیگاں ثابت ہوئیں۔ لہٰذا اب جب کہ امریکا کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تو اس نے مرتا کیا نہ کرتا والی کہاوت کے مصداق افغان مسئلے کے مذاکرات کے حل کے لیے پاکستان سے دست تعاون دراز کرنے کی درخواست کی ہے اور امریکی نمایندہ زلمے خلیل زاد کا حالیہ دورہ اسلام آباد اس سلسلے کی ایک کڑی تھا جس کے بعد متحدہ عرب امارات میں امریکا اور طالبان کے براہ راست مذاکرات ہوئے جس میں پاکستان کی شرکت نہایت اہم تھی۔ طالبان کو امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے روبرو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے آمادہ کرنا پاکستان کی اہمیت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
17 سال سے مسلسل جاری افغان جنگ کا حاصل یہی ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حتمی حل نہیں ہوتی بلکہ اس کی وجہ سے نئے نئے مسائل جنم لیتے ہیں جن کا انجام مزید تباہی اور بربادی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ افغانستان کی طویل اور خوں ریز جنگ نے نہ صرف افغان عوام کی زندگیاں اجیرن کردی ہیں بلکہ اس کے فال آؤٹ نے پاکستان کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور امن عالم کو بھی خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ افغان امن بذریعہ مذاکرات کے عمل میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا ہے پوری عالمی برادری نے اس کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ دنیا بھر کے امن پسند حلقوں میں اس کی تعریف اور پذیرائی کی جا رہی ہے۔ صرف بھارت وہ واحد ملک ہے جسے افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی اور اس ملک میں قیام امن کی کوششوں کی کامیابی کے امکانات سے تشویش اور پریشانی لاحق ہو رہی ہے۔
افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد میں نصف کی حد تک تخفیف کرنے کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ منصوبے نے بھارتی حلقوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں اور افغان سیاست کے بگاڑ میں ملوث بھارتی حکمرانوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ بھارتی دانشوروں اور تھنک ٹینکوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے نتیجے میں اس ملک پر طالبان کا غلبہ بڑھ جانے کی صورت میں بھارت پر اس کے شدید اثرات مرتب ہوں گے۔ بھارتی انٹیلی جنس کے ایک سابق اہل کار اویناش موہٹانی کے الفاظ میں ''بھارت کے لیے یہ ایک بری خبر ہے'' ان کا کہنا ہے کہ امریکا کا یہ اقدام اشرف غنی کی حکومت کے لیے موت کی گھنٹی کے مترادف ہوگا اور اس کے افغانستان میں بھارت کے تعلقات پر بھی منفی اثرات پڑیں گے۔ خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان سے اپنے تقریباً نصف فوجی واپس بلانے کا اعلان کیا تھا جن کی موجودہ تعداد 14 ہزار کے لگ بھگ ہے۔
بھارتی دانشوروں کو خدشہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں اس تبدیلی کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کی سیکیورٹی کا منظر نامہ تبدیل ہوجائے گا جس کے بعد بھارت کو اپنی پالیسی میں تبدیلی کرنا ناگزیر ہوجائے گا۔ بھارتی تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے والے ایک معروف تجزیہ کار ہرش پنت کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد اس ملک میں خانہ جنگی کے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ اس صورتحال سے پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پولیس کے ایک سابق ڈائریکٹر کے۔راجندر کمار کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی پالیسی میں آنیوالی تبدیلی کے مضمرات سے مقبوضہ کشمیر بھی بچ نہیں سکتا۔ ایک اور بھارتی دانشور نتن پائے نے بھی اسی قسم کے خدشات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ افغانستان میں آنیوالی تبدیلیوں سے مقبوضہ کشمیر بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
پاکستان اور افغانستان پڑوسی برادر اسلامی ملک ہونے کے ناتے ایک دوسرے کے ساتھ تاریخی، ثقافتی، لسانی اور معاشرتی رشتوں میں وابستہ ہیں۔ دونوں ممالک کے یہ رشتے دائمی اور اٹوٹ ہیں۔ یہ بات نہایت خوش آیند ہے کہ افغانستان کے مسئلے کے حوالے سے پاکستان، چین اور ایران ایک ہی پیج پر ہیں اور وہ دن اب بہت زیادہ دور نہیں ہیں جب امریکا کو بھی اسی پیج پر آنا پڑے گا۔
ایٹم بموں کے زور پہ اینٹھی ہے یہ دنیا
بارود کے اک ڈھیر پہ بیٹھی ہے یہ دنیا
خدانخواستہ اگرکسی بھی ایٹمی قوت سے ذرا سی بھی بھول چوک ہوگئی تو قیامت صغریٰ برپا ہوسکتی ہے اور انسانیت کا وجود ہی نہیں بلکہ نام و نشان تک مٹ سکتا ہے۔ جنگ کے تباہ کن معاشی اور معاشرتی مضمرات اس کے علاوہ ہیں، افغانستان میں گزشتہ سترہ سال سے مسلسل جاری جنگ کے ہولناک اثرات و نتائج آج پوری دنیا کے سامنے ہیں ۔ امریکا کی جانب سے نائن الیون کے بعد افغانستان پر مسلط کی گئی یہ جنگ صرف افغانستان تک ہی محدود نہ رہ سکی بلکہ اس کے اثرات پاکستان کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک تک بھی پھیل گئے۔ گزشتہ 17 سال کے دوران امریکا اور اس کے تقریباً 50 اتحادی ممالک نے افغان جنگ میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جدید ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کرکے لاکھوں افغانوں کو لقمہ اجل بنادیا۔
دوسری جانب ان ہتھیاروں نے خطے کی فضا میں ہلاکت خیز زہر گھول دیا جس کے اثرات لاعلاج بیماریوں کی صورت میں جگہ جگہ نمایاں ہو رہے ہیں۔ فضائی آلودگی نے اوزون (Ozone) کی تہہ کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے جس کے باعث خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ پاکستان بھی اس صورتحال سے متاثر ہو رہا ہے۔ ماضی میں بھی افغانستان پر روسی جارحیت کے موقعے پر پاکستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ اس کے بعد جب امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے افغانستان پر چڑھائی کی اور جنگ نے طول کھینچا تو اس جنگ کے شعلوں کی آنچ سے پاکستان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس سترہ سالہ طویل جنگ نے بے چارے افغان عوام کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے جنھیں کشت وخون، بے گھری، بے روزگاری اور بے اندازہ تباہی و بربادی کے سوائے اورکچھ نہیں ملا اور جن کی آنے والی نسلوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
جنگ دنیا میں کہیں بھی لڑی جائے اور خواہ جنگ لڑنے والے فریقین کے درمیان طاقت اور صلاحیت کا تناسب کچھ بھی ہو، آخر کار اس کا انجام ایک ہی ہوتا ہے اور وہ ہے مذاکرات کی میز پر اکٹھا ہوکر مسئلے کے حل کی تلاش کے لیے مذاکرات کرنا۔ نائن الیون کے بعد طاقت کے نشے میں چور امریکا کو جب افغان عوام کی مزاحمتی قوت کا کچھ اندازہ ہوا تو اس نے افغانستان کی دلدل سے باہر نکلنے کے لیے سفارتی ذرایع سے اپنی کوششوں کا آغاز کردیا اور ہاتھ پاؤں مارنے شروع کردیے۔ اوباما کے دور میں ہی امریکا کو افغانستان میں اپنی غلطی اور ناکامی کا اندازہ ہوگیا تھا۔ اسے پتا چل گیا تھا کہ افغانستان میں اپنی ٹانگ پھنساکر اس نے بہت بڑی غلطی کی ہے اور اس غلطی کا بھاری خمیازہ اسے ضرور بھگتنا پڑے گا اور اسے اس کی سزا نہ صرف معیشت کی تباہی بلکہ جگ ہنسائی کی صورت میں بھگتنا پڑے گی۔تاہم امریکا نے جان بوجھ کر پاکستان کو ان کوششوں سے دور رکھا اور دوسری جانب افغانستان کے زمینی حقائق کو بھی یکسر نظرانداز کردیا۔
امریکا نے اس حقیقت کو بھی نظرانداز کردیا کہ پاکستان اس جنگ کا اہم فریق ہے اور اسے نظرانداز کرکے افغان مسئلے کو مذاکرات کی میز تک لانا ممکن نہیں۔ انجام کار وہی ہوا جو ہونا تھا۔ چنانچہ پاکستان کو سائیڈ لائن کرنے کے نتیجے میں امن مذاکرات کے سلسلے میں امریکا کی تمام کوششیں رائیگاں ثابت ہوئیں۔ لہٰذا اب جب کہ امریکا کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تو اس نے مرتا کیا نہ کرتا والی کہاوت کے مصداق افغان مسئلے کے مذاکرات کے حل کے لیے پاکستان سے دست تعاون دراز کرنے کی درخواست کی ہے اور امریکی نمایندہ زلمے خلیل زاد کا حالیہ دورہ اسلام آباد اس سلسلے کی ایک کڑی تھا جس کے بعد متحدہ عرب امارات میں امریکا اور طالبان کے براہ راست مذاکرات ہوئے جس میں پاکستان کی شرکت نہایت اہم تھی۔ طالبان کو امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے روبرو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے آمادہ کرنا پاکستان کی اہمیت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
17 سال سے مسلسل جاری افغان جنگ کا حاصل یہی ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حتمی حل نہیں ہوتی بلکہ اس کی وجہ سے نئے نئے مسائل جنم لیتے ہیں جن کا انجام مزید تباہی اور بربادی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ افغانستان کی طویل اور خوں ریز جنگ نے نہ صرف افغان عوام کی زندگیاں اجیرن کردی ہیں بلکہ اس کے فال آؤٹ نے پاکستان کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور امن عالم کو بھی خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ افغان امن بذریعہ مذاکرات کے عمل میں پاکستان نے جو کردار ادا کیا ہے پوری عالمی برادری نے اس کا نہ صرف اعتراف کیا ہے بلکہ دنیا بھر کے امن پسند حلقوں میں اس کی تعریف اور پذیرائی کی جا رہی ہے۔ صرف بھارت وہ واحد ملک ہے جسے افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی اور اس ملک میں قیام امن کی کوششوں کی کامیابی کے امکانات سے تشویش اور پریشانی لاحق ہو رہی ہے۔
افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد میں نصف کی حد تک تخفیف کرنے کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ منصوبے نے بھارتی حلقوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں اور افغان سیاست کے بگاڑ میں ملوث بھارتی حکمرانوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ بھارتی دانشوروں اور تھنک ٹینکوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے نتیجے میں اس ملک پر طالبان کا غلبہ بڑھ جانے کی صورت میں بھارت پر اس کے شدید اثرات مرتب ہوں گے۔ بھارتی انٹیلی جنس کے ایک سابق اہل کار اویناش موہٹانی کے الفاظ میں ''بھارت کے لیے یہ ایک بری خبر ہے'' ان کا کہنا ہے کہ امریکا کا یہ اقدام اشرف غنی کی حکومت کے لیے موت کی گھنٹی کے مترادف ہوگا اور اس کے افغانستان میں بھارت کے تعلقات پر بھی منفی اثرات پڑیں گے۔ خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان سے اپنے تقریباً نصف فوجی واپس بلانے کا اعلان کیا تھا جن کی موجودہ تعداد 14 ہزار کے لگ بھگ ہے۔
بھارتی دانشوروں کو خدشہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں اس تبدیلی کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کی سیکیورٹی کا منظر نامہ تبدیل ہوجائے گا جس کے بعد بھارت کو اپنی پالیسی میں تبدیلی کرنا ناگزیر ہوجائے گا۔ بھارتی تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے والے ایک معروف تجزیہ کار ہرش پنت کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد اس ملک میں خانہ جنگی کے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ انھوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ اس صورتحال سے پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پولیس کے ایک سابق ڈائریکٹر کے۔راجندر کمار کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی پالیسی میں آنیوالی تبدیلی کے مضمرات سے مقبوضہ کشمیر بھی بچ نہیں سکتا۔ ایک اور بھارتی دانشور نتن پائے نے بھی اسی قسم کے خدشات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ افغانستان میں آنیوالی تبدیلیوں سے مقبوضہ کشمیر بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
پاکستان اور افغانستان پڑوسی برادر اسلامی ملک ہونے کے ناتے ایک دوسرے کے ساتھ تاریخی، ثقافتی، لسانی اور معاشرتی رشتوں میں وابستہ ہیں۔ دونوں ممالک کے یہ رشتے دائمی اور اٹوٹ ہیں۔ یہ بات نہایت خوش آیند ہے کہ افغانستان کے مسئلے کے حوالے سے پاکستان، چین اور ایران ایک ہی پیج پر ہیں اور وہ دن اب بہت زیادہ دور نہیں ہیں جب امریکا کو بھی اسی پیج پر آنا پڑے گا۔