شہر شہر کابینہ کے اجلاس

آپ نے تو اسے لکی ایرانی سرکس ہی بنا دیا ہے۔ جس کی شہر شہر میں نمائش شروع کر دی گئی ہے

msuherwardy@gmail.com

پاکستان کی سیاست روز بدلتی ہے۔ آج جو بات بہت اہم ہے کل غیر اہم ہو جاتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کی سیاست اور سیاسی ترجیحات ہر گھنٹے بدل جاتی ہیں۔ بدلتا منظر نامہ اور بدلتی ترجیحات کسی کو کچھ سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیتی۔کبھی جنوبی پنجاب ملک کا سب سے اہم مسئلہ بن جاتا ہے اور کبھی ای سی ایل کی سیاست ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ ایک مسئلہ حل نہیں ہوتا اور ہم د وسرے کی طرف بھاگ جاتے ہیں۔ اس طرح پاکستان کا سیاسی منظر نامہ کسی فلم سے کم نہیں جہاں ہر وقت منظر بدلتا رہتا ہے۔ فلم کا ڈائریکٹر یہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ عوام کی نہ تو دلچسپی کم ہو اور نہ ہی فلم کی سنسنی میں کمی آئے۔

اس ہیجان انگیزی اور بدلتے منظر نامے میں سب برا بھی نہیں ہو رہا ہے اور نہ ہی سب اچھا ہو رہا ہے، برے کی تلاش میں ہم اچھے کام نظر اندازکر دیتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی جانب سے بہاولپور میں صوبائی کابینہ کا اجلاس بھی خوش آیند اقدام ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ سردار عثمان بزدار کی پہچان جنوبی پنجاب ہے۔ ا ن کی بقا کی ضمانت بھی جنوبی پنجاب ہی ہے،جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے انتظار میں نہیں بیٹھنا چاہیے بلکہ متحدہ پنجاب کی طاقت کا مرکز جنوبی پنجاب منتقل کر دینا چاہیے۔

انھیں لاہور میں بیٹھنے کے بجائے جنوبی پنجاب میں بیٹھنا چاہیے۔ اگر جنوبی پنجاب والے اپنے کام کرانے کے لیے لاہور آسکتے ہیں تو لاہور والے بھی اپنے کام کرانے اور وزیراعلیٰ پنجاب سے ملنے جنوبی پنجاب جا سکتے ہیں۔ اس تناظر میں بہاولپور میں صوبائی کابینہ کا اجلاس ایک خوش اقدام ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ چیف سیکریٹری آئی جی سیمت تمام سیکریٹریوں کا بہاولپور پہنچنا اور وہاں بیٹھ کر کام کرنا اچھی بات ہے۔ کم از کم انھیں پتہ تو چلا بہاولپور کیسا ہے۔ وہاں کے مسائل کیا ہیں۔

اس تناظر مین عثمان بزدار کا یہ فیصلہ بھی درست ہے کہ وہ صوبائی کابینہ کا اگلا اجلاس ملتان اور پھر ڈیر غازی خان میں کریں گے بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ انھیں راجن پور، رحیم یار خان اور مظفر گڑھ میں بھی اسی طرح صوبائی کابینہ کے اجلاس کرنے چاہیے۔ اس سے ان علاقوں کے مسائل سمجھنے اور ان کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ صوبائی کابینہ کا اجلاس صرف اور صرف لاہور میں ہی ہوسکتا ہے۔ میرے کچھ دوست بہت ناراض ہیں، ان کے خیال میں صوبائی کابینہ کے اجلاس اس طرح شہر شہرکرنے سے صوبائی کابینہ کے اجلاس کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔

آپ نے تو اسے لکی ایرانی سرکس ہی بنا دیا ہے۔ جس کی شہر شہر میں نمائش شروع کر دی گئی ہے۔ لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا ۔ میرے خیال میں چھوٹے اور محروم علاقوں کی پسماندگی اور احساس محرومی کو دور کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ ہم وہاں جائیں۔ وہاں کے مسائل کو سمجھیں اور ان کو وہاں بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کریں۔ جیسے اسلام آباد بیٹھ کر پاکستان کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ مرکزی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اپنے اجلاس مختلف صوبوں میں کرے،کیونکہ یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ لاہور میںبیٹھ کر پنجاب کے مسائل حل کرنا ممکن نہیں۔ کراچی بیٹھ کر سندھ کے مسائل حل کرنا ممکن نہیں۔ پشاور میں بیٹھ کر کے پی کے مسائل حل کرنا ممکن نہیں اور کوئٹہ میں بیٹھ کو بلوچستان کے مسائل حل کرنا ممکن نہیں۔ سب کو اپنے اپنے مرکز سے نکل کر شہر شہر جانا ہو گا۔ سردار عثمان بزدار نے جو روایت شروع کی ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے تاکہ باقی بھی اس کی پیروی کر سکیں۔


میں سمجھتا ہوں کہ کابینہ کے پہلے اجلاس کے لیے بہاولپور کا انتخاب بھی بہت بہترین ہے۔ جنوبی پنجاب کے حوالے سے اس وقت ملتان اور بہاولپور کے درمیان ایک سیاسی جنگ جاری ہے۔ بہاولپور کی سیاسی قیادت جنوبی پنجاب صوبے کے ساتھ شامل نہیں ہونا چاہتی۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اول تو انھیں الگ صوبہ دیا جائے اور اگر انھیں الگ صوبہ نہیں دینا تو انھیں لاہور کے ساتھ ہی رہنے دیا جائے۔ ن لیگ بھی یہی چاہتی ہے کہ اگر جنوبی پنجاب نے الگ صوبہ بننا ہے تو ایک نہیں بلکہ دو صوبے بننے چاہیے۔ اسی تناظر میں جب ایک طرف سردار عثمان بزدار اپنی کابینہ اور ساری حکومت کے ساتھ بہاولپور پہنچ گئے تو ن لیگ کے سردار اویس لغاری نے پریس کانفرنس داغ دی کہ ن لیگ اگلے ماہ ہی بہاولپور جنوبی پنجاب کو الگ الگ صوبے بنانے کی آئینی ترمیم پیش کریگی تا ہم سردار عثمان بزدار نے پہلا اجلاس بہاولپور میں کر کے خود کو اس تنازعہ سے الگ کر لیا۔ ورنہ وہ اگر پہلا اجلاس ملتان میں کرتے تو بہاولپور والوں کو شدید اعتراض ہو تا اور نہ صرف کابینہ کا یہ پہلا اجلاس متنازعہ ہوجاتا بلکہ یہ تاثر چلا جاتا کہ کابینہ کا یہ اجلاس جنوبی پنجاب صوبے کا اعلان ہے۔

میرا ایک دوست بہاولپور میں کابینہ کے اس اجلاس سے بہت پریشان نظرآیا، اس نے ایک سیکریٹری صاحب سے ملنا تھا اور سیکریٹری صاحب بہاولپور چلے گئے۔ اس نے کہا، دیکھا اس اجلاس کی و جہ سے پوری حکومت مفلوج ہو گئی، کوئی کام نہیں ہو سکا لیکن میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ ہم لاہور والوں کو شائد اس تکلیف کا اندازہ ہی نہیں جو دوسرے شہروں کے لوگ سہتے ہیں۔ یہاں ایک دن کے لیے سیکریٹری لاہور سے باہر چلے گئے ہیں تو دوست پریشان ہیں اور جو دوسرے شہروں سے ان سیکریٹریوں کو ملنے کے لیے لاہور آتے ہیں، ان کی پریشانی کا اندزاہ لگایا جاسکتا ہے۔ لوگوں کے کام ان کے شہر میں ہونا ہی گڈ گورننس کی بنیاد ہے۔

سردار عثمان بزدر کے بارے میں میڈیا نے یہ تاثر بنا دیا ہے کہ وہ ڈمی وزیر اعلیٰ ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے اندر بھی ان کے مخالفین ہر وقت یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بے اختیار ہیں اور خود ہرو قت سردار عثمان بزدار کے آگے پیچھے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ ایسی ہی ایک سیاسی شخصیت کو جب میں نے سردار عثمان بزدار کے دفتر میں ملاقات کے انتظار میں بیٹھے دیکھا تو میں نے کہ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں تو اس نے کہا، وزیر اعلیٰ سے ملنے آیا ہوں۔ میں نے کہا، آپ ہی تو کہتے ہیں کہہ یہ ڈمی وزیر اعلیٰ ہے، پھر آپ کو ایک ڈمی وزیر اعلیٰ سے کیا کام ہے۔ و ہ مجھے چپ رہنے کا اشارہ کرنے لگے اور کہنے لگے کہ کسی کو کہہ نہ دینا ورنہ مشکل میں پھنس جاؤں گا۔

اب ملک کے سیاسی حالات اس قدر تبدیل ہو گئے ہیں کہ ملک کا منظر نامہ سندھ کے گرد گھوم رہا ہے۔ لوگوں کی آنکھیں سپریم کورٹ پر بھی لگی ہوئی ہیں۔ لوگ مراد علی شاہ کے مستقبل کا بھی سوال کر رہے ہیں، اسی طرح کے سوال چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کے بارے میں ہو رہے ہیں۔

شریفوں کی خاموشی کا بھی بہت شور ہے۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ این آر او نہ دینے کا اعلان کرنے والے این آر او دے چکے ہیں۔ زرداری کا شور، بلاول کی چیخیں کیا رنگ لائیں گی۔ لیکن میرے لیے بہاولپور میں کابینہ کا اجلاس اہم ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ملک منی لانڈرنگ کے شور میں ہے اور میں کیا لکھ رہا ہوں۔ لیکن یہ شور تو ابھی جاری ہے، مجھے ڈر ہے کہ اس شور میں یہ اچھا کام دب جائے گا، نظر انداز ہو جائے گا۔ کہیں سردار عثمان بزدار یہ نہ سوچ لیں کہ اس کا کو ئی فائدہ نہیں۔ اس لیے اس کی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے۔ باقی وزراء اعلیٰ کو بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ بھی کابینہ کے اجلاس باقی شہروں میں کریں۔کہیں نہیں لکھا کہ کابینہ کا اجلاس صرف اور صرف دارالحکومت میں ہو سکتا ہے۔ یہ ہر شہر کا حق ہے اور ہر شہر کو اس کا حق ملنا چاہیے۔
Load Next Story