ناپسندیدہ افراد
ان کے پاس ذاتی صلاحیتوں کے ساتھ دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈراما کی تعلیم اور تجربہ بھی موجود تھا
بھارت اور پاکستان میں بہت سارے ایسے افراد آباد ہیں، جن کے نظریات اور خیالات سے اختلافات کرنے والے ہم وطن انھیں ہمیشہ ملک چھوڑنے کے مشورے اور دھمکیاں دیتے رہتے ہیں لیکن انھوں نے جس مٹی سے جنم لیا وہ ان کے قدم نہیں چھوڑتی ،آبا واجداد کی قبریں، رشتے ناتے، زبان اور رسم و رواج بھی راہ کی دیوار بنتے ہیں اور وہ اس سوچ سے بھی دامن نہیں چھڑا سکتے جو انھیں ہمیشہ سچ بولنے پر مجبورکرتی ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف الزامات کی زد میں آنے والے ان ناپسندیدہ افراد میں زیادہ تر فنون لطیفہ سے تعلق رکھتے ہیں یا تاریخ کے ایسے قاری ہوتے ہیں جو بدلتی ہوئی صورتحال کا تاریخی جائزہ لیتے ہوئے جنگ وجدل کی مخالفت کرتے ہیں، سکھ چین سے رہنے کی ترغیب دیتے ہیںاور امن وامان کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
نصیر الدین شاہ کا شمار ایسے فنکاروں میںہوتا ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان امن وامان کے دیے جلانے اور اپنے معاشرے میں پھیلی شدت پسندی کی مخالفت کے لیے مشہور ہیں۔ ماضی میں وہ کئی بار اپنے تھیٹرگروپ کے ساتھ یہاں آئے، معروف افسانہ نگار منٹو اور عصمت چغتائی کی تحریروں پر مبنی ڈرامے پیش کیے، یہاں کی معروف فلم ''خدا کے لیے'' میں مرکزی کردار ادا کیا اور محبتیں سمیٹ کر واپس چلے گئے۔ نصیر الدین شاہ نے لگ بھگ چالیس سال قبل فلمی دنیا میں قدم رکھا تو ان کے پاس ذاتی صلاحیتوں کے ساتھ دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈراما کی تعلیم اور تجربہ بھی موجود تھا ۔
1975 میںبھارتی فلم انڈسٹری کے سرکردہ ہدایت کار شیام بینگل نے فلم '' نشانت''کا آغاز کیا تو اُس میںگریش کرناڈ ، شبانہ اعظمیٰ سمیتا پاٹل اور امریش پوری کے ساتھ انھوں نے بھی اپنے فن کے جوہر دکھائے اور دیکھتے ہی دیکھتے متبادل سینما کی ضروت بن گئے ۔ یہ بھارتی فلم انڈسٹری کا وہ سنہرا دور تھاجسے اس انڈسٹری کا درمیانی زمانہ کہا جاتا ہے۔ اُس زمانے میں ہمارے ہاں انڈین فلموں کی نمائش پر پابندی تھی لیکن بڑے بڑے شہروں کی کچی آبادیوں میں منی سینما گھروںکا غیر قانونی دھندہ عروج پر تھا ۔ہم وی سی آرکے دور میں داخل ہوچکے تھے جس کے ذریعے غیر قانونی طور پر انڈین فلموں کی نمائش کا سلسلہ جاری تھا ۔اہل ثروت اور باذوق افراد کے لیے چونکہ وی سی آرکوئی مہنگی مشین نہیں تھی لہذا زیادہ ترگھروں میں انڈین فلمیں کثرت سے دیکھی جانے لگیںجو کرائے پر با آسانی مل جاتی تھیں۔
اُس زمانے میں وی سی آر پرانڈین فلمیں دیکھنے والوں کے کئی دھڑے تھے۔کچھ تو ابتدائی دور میں بننے والی کے ایل سہگل ، راج کپور، دلیپ کمار،اشوک کماراور بلراج ساہنی کی فلموں کو نہیں بھولے تھے اورکچھ راجیش کھنہ، دھرمیندر اور امیتابھ بچن کی نئی فلموں کے انتظار میں رہتے تھے۔ان میں فلم بینوں کا ایک دھڑا ایسا بھی تھا جوہر نئی آنے والی آرٹ فلم کا منتظر رہتا تھا ۔ویسے تو انڈین آرٹ فلموں کی تاریخ بہت پرانی ہے مگرجس زمانے کی بات ہم کرنا چاہتے ہیں اُس کا آغاز ستر کی دہائی کے درمیانی عرصے میں شروع ہوا اورگریش کرناڈ، امریش پوری، اوم پوری، سمیتا پاٹل، راج ببر، نوین نشچل ، شبانہ اعظمیٰ ، فاروق شیخ ، ڈمپل کپاڈیا اور دپتی نول جیسے بے شمار اداکار اس صف میں شامل ہوتے رہے لیکن نصیر الدین شاہ اور اوم پوری متبادل سینما کے دو ایسے نامور اداکار ہیںجن کے بغیر آرٹ فلموں کا ذکر ادھورا رہے گا۔
بھارت میں بننے والی تقریبا تمام آرٹ فلمیں بظاہر وہاں کی بہت بڑی آبادی کی غربت ،کلاس سسٹم، خواتین، اقلیتوں، کسانوں اور سیاسی وسماجی استحصال کا احاطہ کر تی تھیں ، مگر دیکھنے والوں کو ایسا لگتا جیسے یہ فلمیں صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پورے ساؤتھ ایشیاء کے مسائل کو پردہ اسکرین پر لارہی ہوں ۔گوکہ تیس چالیس سال کا عرصہ کوئی طویل مدت نہیں مگر ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس زمانے میں اور موجودہ دور میں صدیوں کا فاصلہ حائل ہو اور سیکیولر بھارت کی دھرتی روز بروز ایسے لوگوں پر تنگ ہوتی جا رہی ہو جو معاشرے کو مذہب کے بجائے سائنسی نقطہ نظر سے پرکھنے کے عادی ہیں ۔ اس کااندازہ ہم ان واقعات سے با آسانی لگا سکتے ہیں جو فلم '' پدما وت'' کی نمائش کے موقعے پر بھارت کے مختلف شہروں میں سامنے آئے تھے ۔
ہر انسان اپنے معاشرے کی اقدار اور اس میںآنے والی تبدیلیوں سے جوکچھ سیکھتا ہے وہ اس کی حقیقی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتاہے ۔ ہم کسی اورکے بارے میں چاہے یہ بات کہیں یا نہ کہیں مگر اوم پوری اور نصیر الدین شاہ جیسے روشن خیال فن کاروں کی بات ہو گی تو انھیں اپنے معاشرے میں آنے والی ایسی بے رحم تبدیلیوں کے خلاف لڑنے والوں میں سب سے آگے پائیں گے جو انسانوں کو مذہب، ذات اور فرقوں کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے کے لیے کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتی ہوں ۔زیادہ عرصے کی بات نہیںجب اوم پوری نے پاکستانی فن کاروں کے حق میں بیان دیا تو وہ اپنے ملک کے نا پسندیدہ افراد کی فہرست میں شامل کر لیے گئے ، ممبئی میں ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کروا دیا گیا اوربھارتی میڈیا ان کا دشمن بن گیا۔ ان کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ وہ دونوں ممالک میں جنگ کے خلاف تھے اور ایسی طاقتوں کی مخالفت کررہے تھے جو بنیاد پرست ہندو دھڑوں کی ہاں میں ہاں ملاتی تھیںجس کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ ایک دن اپنے گھر میں مردہ پائے گئے اور سر پر چوٹ کے واضح نشان کے باوجود اس موت کو ایک حادثہ قرار دے دیا گیا۔
نصیر الدین شاہ اور اوم پوری نہ صرف نظریاتی طور پر ایک دوسرے قریب تھے بلکہ انھوں نے تھیٹرکی تعلیم بھی ایک ساتھ ایک ہی درس گاہ سے حاصل کی تھی ۔کچھ دن قبل نصیر الدین شاہ نے ایک بھارتی پولیس آفیسر کے قتل اور ملک میں گائے کے نام پر ہونے والے تشدد کے خلاف بیان دیا تو ان کا شمار بھی ایسے ناپسندیدہ افراد میں ہونے لگا جنھیں اپنا ملک چھوڑنے کی دھمکی دی جاتی ہے ۔ایک وزیر نے تو انھیں یہاں تک کہہ دیا کہ آپ پاکستان چلے جائیں میں آپ کے ویزے اور ٹکٹ کا انتظام کیے دیتا ہوںمگر نصیر الدین شاہ ان کے سامنے یہ کہتے ہوئے ڈٹ گئے کہ ہمیں اس ملک سے کوئی بھی نہیں نکال سکتا ۔ نصیر الدین شاہ اور اوم پوری جیسے روشن خیال اداکاروں اور ان جیسے خیالات کے حامل بے شمار دوسرے لوگوں کو اپنا ملک چھوڑنے کا مشورہ دینے والے افراد کسی اور ملک میں چاہے موجود ہوں یا نہ ہوں مگر جنوبی ایشیاء کے ان دو حریف ممالک میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ یہ مشورہ دینے والے نا سمجھ شاید اس بات سے ناواقف ہیں کہ انسان کا خمیر جس مٹی سے اٹھتا ہے وہ مرتے دم تک اس کے پاؤں سے لپٹی رہتی ہے۔