’’میں نے ضیا الحق کو ’ایم کیو ایم‘ کے مثبت ہونے کا یقین دلایا‘‘ رئیسہ موہانی

ہم لوگ رہ ہندوستان میں رہے تھے لیکن یہ ذہن میں تھا کہ پاکستان ہی ہمارا ملک ہے

ہم لوگ رہ ہندوستان میں رہے تھے لیکن یہ ذہن میں تھا کہ پاکستان ہی ہمارا ملک ہے

ممتاز شاعر مولانا حسرت موہانی اردو ادب کے ساتھ غیر منقسم ہندوستان کی مزاحمتی سیاست کا بھی ایک نمایاں نام ہیں۔ پہلے وہ 'کانگریس' میں رہے، پھر 'آل انڈیا مسلم لیگ' کا حصہ بن گئے۔۔۔ 1947ء میں 'پاکستان' بن گیا، تو دیگر مسلم لیگی راہ نماؤں کی طرح انہوں نے بھی اس نئی مملکت کی طرف ہجرت کی، لیکن تاریخ میں اُن کا نام سجاد ظہیر، ساحر لدھیانوی، قرۃ العین حیدر وغیرہ کی فہرست میں درج ہے، جو یہاں آکر واپس چلے گئے، ماجرا یہ تھا کہ انہیں ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی فکر نے اتنا ستایا کہ وہ یہاں ٹھیر نہ سکے اور پھر ہندوستان لوٹ گئے۔

مولانا حسرت موہانی کی بھتیجی رئیسہ موہانی نے کچھ ادبی و سماجی سرگرمیوں کے ساتھ سیاست سے وابستگی کی رِیت کو اپنایا۔۔۔ اُن کی تعلیم وتربیت کے مراحل حسرت موہانی کے گھر میں ہی طے ہوئے، وہ کہتی ہیں کہ تب حسرت موہانی کے بچے نہیں تھے، اس لیے وہ کم سنی میں انہیں اپنے ہاں لے گئے، رئیسہ نے اُن کے ساتھ سفر حج سمیت بہتیرے بحری سفر بھی کیے۔

یہ سطریں لکھتے ہوئے بطور تاریخ کے طالب علم، ہمیں یہ یاد آتا ہے کہ مولانا حسرت موہانی تو واپس ہندوستان چلے گئے، لیکن سرحدوں کی اس تقسیم میں اُن کا خاندان بٹے بغیر نہ رہ سکا۔۔۔ آج حسرت موہانی کے گھر کے یہ 'بچے' شہر قائد کی اُس بستی میں رہتے ہیں، جسے برصغیر کے ایک اور حریت پسند مولانا محمد علی جوہر سے منسوب کیا گیا ہے۔۔۔ ریاست رام پور کے وہی محمد علی جوہر، جو قیام پاکستان سے 16برس قبل لندن میں انتقال کر گئے تھے۔۔۔

پیرانہ سالی کے باوجود رئیسہ موہانی نے ہمارے اصرار پر ہمیں وقت دیا اور اُن کی صحت اور یادداشت نے جتنا ساتھ دیا انہوں نے ہماری تشفی کی، ان کے شوہر اور صاحب زادی بھی شریک گفتگو رہے، ہم نے اس کا جَستہ جَستہ احوال بھی سپرد قلم کیا ہے۔

رئیسہ موہانی نے 1938ء یا 1940ء میں فتح پور (یو پی) میں آنکھ کھولی اور بٹوارے کے بعد بھی وہیں رہیں۔۔۔ اُن کے والد سید روح الحسن موہانی تھے، رئیسہ موہانی بتاتی ہیں کہ اُن سے بڑے دو بھائی اور ایک بہن چھوٹی ہے۔ ہم نے پاکستان بننے سے پہلے وہاں ہندی کی تدریس کا پوچھا تو وہ بولیں کہ 'ہم تو اردو کے پرستاروں میں سے ہیں، ہندی حسرت موہانی کو پسند تھی اور نہ ہمیں۔ وہ ہمیں ہندی پڑھتے ہوئے دیکھتے تو ہمارے ہاتھ سے کتاب لے لیتے، لیکن ہمیں معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ہم شروع ہی سے وہاں 'ہندی' پڑھ رہے تھے۔' رئیسہ موہانی کے شوہر انعام الحسن موہانی 1951ء میں پاکستان آگئے، وہ اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ لگ بھگ 1950ء میں ہندوستان میں باقاعدہ ہندی رائج ہو گئی تھی۔

بٹوارے کے حوالے سے یادداشتیں تازہ کرتے ہوئے رئیسہ موہانی بولیں کہ تب میں کافی چھوٹی تھی، لیکن سیاست سے دل چسپی کی بنا پر پاکستان کا بننا اور اس کے جھگڑے خوب ذہن میں ہیں، تب ہر آدمی کے منہ پر پاکستان کا نام ہوتا، وہ اسے اپنا خود کو پاکستانی کہتے تھے۔ ہم لوگ رہ ہندوستان میں رہے تھے، لیکن ذہن میں یہ تھا کہ پاکستان ہمارا ملک ہے!' رئیسہ موہانی بتاتی ہیں کہ ابتدائی تعلیم کان پور میں حاصل کی، پھر علی گڑھ سے میٹرک، انٹر اور بی اے کیا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست اور ہم نصابی سرگرمیوں میں مصروف رہیں۔ شوہر انعام الحسن موہانی، اِن کے چچا زاد بہن کے بیٹے (حسرت موہانی کے نواسے) ہیں، وہ 1963ء میں شادی کے بعد ہی پاکستان آئیں۔ ہندوستان میں رئیسہ موہانی کانگریس سے منسلک رہیں۔ یہاں آنے کے بعد 'حسرت موہانی میموریل ٹرسٹ' کے حوالے سے سرگرم رہیں، پھر 1980ء کی دہائی میں وہ 'ایم کیو ایم' سے وابستہ ہو گئیں۔ اُن کی بیٹی رمیسہ بتاتی ہیں کہ 'امی ایم کیو ایم کی 'رابطہ کمیٹی' کی مرکزی رکن رہیں، 2008ء کے بعد خرابی صحت کی بنا پر فعال نہ رہ سکیں۔

''ایم کیو ایم میں شمولیت کس طرح ہوئی؟'' اس سوال پر رئیسہ موہانی کہتی ہیں کہ سن یاد نہیں، اوائل کی بات ہے! اُن کی صاحب زادی رمیسہ موہانی یاد دلاتی ہیں کہ 1987ء تھا، تب وہ بہ سلسلہ تعلیم لندن میں تھیں۔

رمیسہ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ''امی دراصل 'حسرت موہانی ٹرسٹ' کے ایک وفد کے ساتھ جنرل ضیا سے ملی تھیں، اور پھر ایم کیو ایم کے حوالے سے بات کی، اُن دنوں ضیا الحق تمام سیاسی جماعتوں سے مل رہے تھے، لیکن انہوں نے 'ایم کیو ایم' کو نظرانداز کیا، اس لیے امی اس خیال کے سخت خلاف ہیں کہ 'ایم کیو ایم' ضیا نے بنائی۔''

ہم نے اس کی تصدیق چاہی تو رئیسہ موہانی نے اثبات میں جواب دیا، ہم نے کہا کہ اگر صاحب زادی کہیں غلطی کریں، تو ٹھیک کر دیجیے گا۔ رمیسہ نے گفتگو کا سلسلہ جوڑتے ہوئے بتایا کہ امی، اشتیاق اظہر اور دیگر نے پھر ضیا الحق سے مل کر انہیں ایم کیو ایم کے 'مثبت' ہونے کا یقین دلایا، ضیا الحق نے کہا کہ مجھے تو ان کے بارے میں منفی خبریں ملتی ہیں۔ جس پر امی نے کہا کہ ہم پاکستان بنانے والے انہیں دیکھ رہے ہیں، یہ پاکستان کے مخالف نہیں!' جس پر انہوں نے کہا کہ اگر آپ کہتی ہیں تو میں مان لیتا ہوں۔ ہم نے پوچھا کہ جب ضیا الحق ایم کیو ایم کے منفی نہ ہونے کے قائل ہو گئے، تو انہوں ایم کیو ایم کی کیا مدد کی؟ رمیسہ نے بتایا کہ اس کے بعد ایم کیو ایم کا باقاعدہ وفد ان سے ملا، جس طرح وہ دیگر جماعتوں کے وفود سے مل رہے تھے۔

کراچی کے سیاسی منظر نامے میں وقتاً فوقتاً 'مہاجر رابطہ کونسل' (ایم آر سی) کی بازگشت بھی رہی ہے، جو عموماً 'ایم کیو ایم' کے اعلانیہ یا غیر اعلانیہ موقف کو آگے بڑھاتی اور پھر گُم ہو جاتی۔ چوں کہ رئیسہ موہانی 'مہاجر رابطہ کونسل' کی رکن بھی رہی ہیں، اس لیے ہم نے اس 'کونسل' اور ایم کیو ایم کے تعلق کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس میں سارے ایم کیو ایم کے لوگ ہی تھے، رمیسہ کہتی ہیں کہ الطاف حسین نے بزرگوں کی یہ 'کونسل' مشاورت کے لیے بنائی۔

''پھر انہوں نے بزرگوں کے کتنے مشورے سنے اور مانے؟'' ہم نے بے ساختہ پوچھا۔

رئیسہ موہانی کہتی ہیں کہ الطاف حسین مجھے 'بڑی باجی' کہتے تھے اور خاص طور پر میرے مشوروں کو سنتے اور عمل کرتے تھے۔ ہمارا اگلا سوال ایم کیو ایم کے تشدد میں ملوث ہونے سے متعلق تھا؟ جس کا انہوں نے یک سر انکار کرتے ہوئے کہا کہ ''میں نے تشدد دیکھا ہی نہیں!''

ہم نے کہا ''کچھ لڑکے تو تشدد میں ملوث ہوئے؟'' جس پر وہ بولیں کہ وہ کوئی اور لڑکے تھے، جو شامل ہو گئے، لیکن ہمارے لڑکے تشدد کرنے والے نہ تھے۔ ہم نے دوبارہ کارکنان پر تشدد کے الزام کا ذکر کیا تو وہ بولیں کہ ''الزام ایک علاحدہ چیز ہے، یہ لڑکے کبھی تشدد کرنے والے نہ تھے، یہ تو پاکستان سے محبت کرنے والے تھے!''

ہم نے کہا ''محبت کرنے والے تو تھے، لیکن ردعمل میں کبھی جذباتی ہو کر تو پُرتشدد ہوئے؟'' تو انہوں نے کہا ہم نے ہمیشہ موافقت میں کام کیا اور نوجوانوں تعلیمی مسائل اور روزگار فراہم کرنے کی جدوجہد کی۔

''اسلحہ وغیرہ بھی تو تھا لڑکوں کے پاس؟'' ہم نے براہ راست استدلال کیا تو وہ بولیں ''ہمارے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا۔ عزیز آباد میں کہیں اور سے اسلحہ لا کر جمع کیا اور کچھ متعصب عناصر نے مہاجروں کے خلاف ماحول بنایا۔''

ایم کیو ایم کے اب تک حاصل اہداف کا پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ''مہاجر قوم زندہ ہے۔۔۔ یہ ہدف ہے!''


''اتنے لڑکے بھی تو مارے گئے۔۔۔؟'' ہم نے پوچھا تو وہ بولیں کہ ''کچھ بھی ہوا، مگر زندہ ہیں اور آج بھی کام کر رہے ہیں۔''

'ایم کیو ایم کی الطاف حسین سے لاتعلقی کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا کہ 'وہ تو سیاست چلتی رہتی ہے۔' ہم نے پوچھا آپ کے خیال میں ان میں سے کون ٹھیک ہے، تو بولیں ''اس کا مجھے نہیں پتا، بس اپنا بتا سکتی ہوں، میں ٹھیک ہوں!''

ہم نے پوچھا کہ 'ایم کیو ایم' کو سیاست میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے 30 برس ہوگئے ہیں، آپ کے خیال میں انہوں نے کیا غلطیاں کیں؟ اس کا جواب بھی انہوں نے نفی میں دیا، تو وہ ہمیں ایک ایسی ماں کے روپ میں دکھائی دیں کہ جسے اپنی اولاد میں صرف خوبیاں ہی دکھائی دیتی ہیں۔ ہم نے انہیں یاد دلایا کہ یہ بات تو الطاف حسین نے بھی مانی کہ اُن کے کچھ لڑکے 'چائنا کٹنگ' (قبضے) اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوئے؟ جس پر وہ نیم اثبات کا اظہار کرتے ہوئے گویا ہوئیں کہ ''ہمارے زمانے میں کچھ لڑکے ایسے شامل ہوئے، تو ہم نے انہیں ایسی کسی بھی سرگرمی سے باز رکھا۔''

الطاف حسین کے لندن جانے کے بعد رئیسہ موہانی ایک مرتبہ اُن سے ملیں۔ اُن کی صاحب زادی رمیسہ نے بتایا کہ 1993ء کے عام انتخابات کے موقع پر الطاف حسین کا فون آیا اور انہوں نے امی سے کہا کہ میں آپ کو عزیز آباد سے قومی اسمبلی کا امیدوار بنانا چاہتا ہوں، امی نے ناسازی طبیعت کا عذر کیا، لیکن وہ نہ مانے اور کہا آپ کو کچھ نہیں کرنا ہوگا، سب کام ہمارے لڑکے کر لیں گے۔ رئیسہ موہانی کے شوہر انعام الحسن موہانی بھی اس موقع پر شریک گفتگو ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ 'اُس روز اچانک الطاف صاحب کا فون آنے پر انہوں نے دفتر سے جلدی آکر نائن زیرو سے انتخابی فیس لی اور کاغذات جمع کرائے، مگر ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کے اِس انتخاب کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔'

رئیسہ موہانی کہتی ہیں کہ ایم کیو ایم کے باغی گروہ 'حقیقی' میں بھی انہیں یک ساں عزت واحترام حاصل تھا اور ہم بہ آسانی ان کے زیر اثر علاقوں سے گزر جاتے۔ میری موجودگی میں دونوں گروہوں میں کوئی نزاعی صورت پیدا نہیں ہوتی، کیوں کہ دونوں میری بات مانتے تھا۔ 'حقیقی' بننے کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے رئیسہ موہانی کہتے ہیں کہ ''ایک مرتبہ ایک مسلح 'ذمہ دار' اونچی آواز میں بولنے لگا، تو میں نے کھڑے ہو کر اُسے ٹوکا کہ 'یہ تم کیسی بات کر رہے ہو، چلے جاؤ یہاں سے!' اور پھر وہ چلا گیا تھا۔ پتا نہیں مجھ میں اس وقت اتنی ہمت کہاں سے آگئی تھی۔''

رئیسہ موہانی نے ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم احمد طارق کی ایم کیوایم کی 'لندن قیادت' سے اختلافات کی تردید کی، تو ہم نے کہا کہ ''جن دنوں چیئرمین عظیم احمد طارق نے 'ایم کیو ایم' کی قیادت سنبھالی ہوئی تھی، تب اشتیاق اظہر نے لندن میں الطاف حسین سے ملاقات کی تھی اور یہاں آکر بیان دیا تھا کہ الطاف حسین کو عظیم طارق پر اعتماد نہیں رہا؟'' جس پر رئیسہ موہانی کہنے لگیں کہ مجھے بھی لگتا ہے کہ کچھ اختلافات ضرور تھے، لیکن اس کی نوعیت زیادہ نہ تھی، تنظیم الگ کرنے یا توڑنے کی کوئی بات نہیں تھا۔

''آپ تو کسی ماں کی طرح کہہ رہی ہیں اور آپ کو کوئی خرابی ہی دکھائی نہیں دے رہی؟'' ہم نے کافی دیر سے محسوس ہونے والے خیال کا اظہار بھی کر دیا تو وہ بولیں کہ ''میں تو ایمان داری کی بات بتا رہی ہوں، کوئی مانے یا نہ مانے۔۔۔!''

ہم نے یہ سوال اٹھایا کہ 'ایم کیو ایم' نے امتحانات میں نقل کو پروان چڑھایا اور طلبہ کا معیار گرا دیا؟ وہ اسے پروپیگنڈے سے تعبیر کرتی ہیں، البتہ صاحب زادی رمیسہ گفتگو میں حصہ ڈالتے ہوئے کہتی ہیں کہ تنظیم پھیلی تو اس میں خرابیاں سامنے آرہی تھیں، لیکن ایسی باتوں پر فوراً کارروائی اور جواب طلبی ہوتی تھی۔

رئیسہ موہانی کے خاندان کو 1995ء میں ایک تکلیف دہ سانحے سے گزرنا پڑا جب اُن کے شوہر انعام الحسن موہانی کے بھتیجے اظہر موہانی کو نارتھ ناظم آباد سے مبینہ طور پر کرکٹ کھیلتے ہوئے اغوا کر لیا گیا اور اگلے دن اُن کی لاش ملی۔ اظہر موہانی، اس وقت کالج کے طالب علم اور 'ایم کیو ایم' کے کارکن تھے، وہ رشتے میں مولانا حسرت موہانی کے نواسے کے بیٹے تھے، رمیسہ موہانی کہتی ہیں کہ ان کے ناخن کھینچ لیے گئے تھے اور جسم پر ڈرل سے تشدد کے نشان تھے۔

چار سال سے 'حسرت موہانی ٹرسٹ' کی گرانٹ بند ہے!
مولانا حسرت موہانی کی وفات کے بعد اشتیاق اظہر، مولانا عبد السمیع نصرت موہانی نے 'حسرت موہانی میموریل ٹرسٹ' کی داغ بیل ڈالی، جس کے زیڈ ایچ لاری اس کے صدر قرار پائے۔ 1991ء میں بلدیہ کراچی کے تعاون سے نارتھ ناظم آباد میں حسرت موہانی ہال اور لائبریری کا افتتاح بھی ہوا۔ اِن دنوں ٹرسٹ کی ذمہ داریاں رئیسہ موہانی کے شوہر انعام الحسن موہانی کے سپرد ہیں، جو مولانا حسرت موہانی کے نواسے بھی ہیں، انہوں نے بتایا کہ ٹرسٹ کو گزشتہ چار سال سے حکومت کی جانب سے کوئی گرانٹ نہیں دی گئی، جس کے سبب وہاں لائبریری وغیرہ کے اخراجات بھی پورے نہیں ہو رہے اور نہ ہی طباعت واشاعت کا کام ہو پا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم صرف حسرت موہانی کا نام اور پیغام زندہ رکھنا چاہتے تھے۔ 'ایم کیو ایم' سے ہمارا تعلق بھی 'ٹرسٹ' کا ساتھ دینے پر بنا۔ ہمیں پیسے کی ضرورت نہیں، بس ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس کام کو کسی بھی طرح آگے بڑھایا جائے۔' انعام الحسن موہانی 1952ء میں ہندوستان سے پاکستان آئے، کہتے ہیں کہ 1947ء سے پہلے بھی ہندو مسلم الگ الگ تھے، کان پور میں کہیں ہندو اکثریت اور کہیں مسلم اکثریت تھی۔ اس لیے عام طور سے کوئی ہنگامے نہیں ہوتے تھے ، یہ شورش بٹوارے کے بعد شروع ہوئی۔

جب رئیسہ موہانی کی بیٹی نے 'نائن زیرو' کا تہ خانہ کھلوایا۔۔۔
رئیسہ موہانی کی صاحب زادی رمیسہ موہانی کہتی ہیں کہ 'امی جب 'ایم کیو ایم' میں فعال تھیں تو فیصل سبز واری، رضا ہارون اور آج کے بہت سے نمایاں راہ نما بالکل پس منظر میں تھے۔ آج انہیں دیکھتی ہوں، تو حیرانی ہوتی ہے کہ اصل جدوجہد کے وقت یہ لوگ نہیں تھے، اب کہاں سے آگئے۔ امی کے علاوہ مرکز پر ایک اور خاتون وہاں کی انچارج ممتاز باجی ہوتی تھیں۔ ایم کیو ایم کے ہر اجلاس اور میٹنگ میں، میں امی کے ساتھ ساتھ بیٹھی ہوتی تھی۔ اس لیے مجھے بہت سی ایسی باتیں معلوم ہیں، جو بہت سوں کو نہیں ہوں گی۔ مجھے الطاف حسین، عظیم احمد طارق اور ڈاکٹر عمران فاروق وغیرہ نام سے جانتے تھے، لیکن میں کبھی سیاست میں شامل نہیں ہوئی۔

''کیا دور رہنے کی وجہ 'ایم کیو ایم' کا خراب تاثر تھا؟'' ہم نے سوال داغا تو وہ بولیں کہ 'میرا نقطہ نظر مختلف ہے، مجھے یہ 'جمہوریت' اور سیاسی جماعتیں سمجھ میں نہیں آئیں کہ ایک راہ نما کے نیچے رہ کر اس طرح کام کیا جائے، میرا مزاج اس سے الگ ہے۔ لندن میں ہماری آنٹیاں جماعت اسلامی سے وابستہ تھیں، ان کے ہاں ہفت روزہ 'تکبیر' اور اس طرح کے دیگر جرائد آتے، جن میں ان کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ہوتا تھا، میں کراچی آئی، تو امی سے کہا کہ یہ کون سی جماعت ہے، جس کے ہیڈ کواٹر کے بارے میں تو پتا چلا ہے کہ بڑا خراب ماحول ہے، لڑکیاں تو وہاں جا ہی نہیں سکتیں! امی نے کہا تم ابھی چلو۔ یہ 1988ء کی بات ہے۔

وہاں گئی تو ڈاکٹر فاروق ستار وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے، میں نے وہاں پورا دفتر دیکھنے کی خواہش کی تو مجھ سے کہا گیا کہ اجازت نہیں، لیکن امی کی سفارش کے بعد پورا دفتر دکھایا گیا۔۔۔ جب 'تہ خانہ' دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیوں بند ہے؟ مجھے یہ بھی دکھائیں۔ انچارج ممتاز باجی نے منع کیا۔ میں نے کہا میں پہلی بار یہاں آئی ہوں، آپ دکھائیں۔ پھر کسی سے اجازت لے کر تالا کھولا گیا، نیچے کتابیں، رسائل اور اخبار وغیرہ تھے، میں نے اچھی طرح سے چیزیں ہٹا ہٹا کر تسلی کی کہ جو میں نے پڑھا تھا ویسا تو کچھ بھی نہیں، میں حیران ہوئی اور مجھے یقین نہ آیا کہ 'تکبیر' جیسا اللہ اکبر کہنے والا رسالہ کیا کچھ لکھتا رہا ہے کہ وہاں 'ٹارچر سیل' ہے اور شراب کی بوتلیں ہیں۔ اس کے بعد میری رائے تبدیل ہونا شروع ہوئی۔

عظیم احمد طارق کی نماز جنازہ پر کیا ہوا۔۔۔؟
رئیسہ موہانی کی بیٹی رمیسہ کہتی ہیں کہ 1993ء میں 'ایم کیو ایم' کے چیئرمین عظیم احمد طارق کے قتل کے بعد میں امی کے ساتھ 'نائن زیرو' گئی۔ میرے سامنے ہی وہاں امریکا سے عظیم طارق کے والد کا فون آیا، انہوں نے فاروق ستار سے کہا کہ ہم پاکستان نہیں آسکتے، اس لیے آپ لوگ ان کی تدفین کا بندوبست کیجیے۔ تھوڑی دیر کے بعد سارے کارکنان جنازے کے لیے 'جناح گرائونڈ' میں جمع ہونے لگے۔ اسی دوران خبر آئی کہ اسپتال سے عظیم طارق کی میت 'حقیقی' والے لے گئے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد اطلاع ملی کہ نماز جنازہ جناح گرائونڈ میں ہی ہو رہی ہے، اور میت کے گرد بندوق بردار گہرا ڈالے ہوئے ہیں، پھر سارے لوگ نماز جنازہ پڑھنے چلے گئے، تو 'نائن زیرو' پر صرف میں، امی اور اشتیاق اظہر رہ گئے۔ تھوڑی دیر بعد باہر زبردست فائرنگ کی آوازیں آئیں، پتا چلا کہ یہاں سے ابھی جو تیس، چالیس لڑکے نماز جنازہ کے لیے نکلے تھے، سب مار دیے گئے ہیں! میں دم بخود ہو کر رہ گئی، کیوں کہ وہ ابھی میرے سامنے تو گئے تھے۔

اسی اثنا میں شور مچا کہ 'حقیقی' آگئی ہے اور یہاں قبضہ ہونے والا ہے، جلدی سے 'نائن زیرو' خالی کر دیں، لیکن اشتیاق اظہر وہیں بیٹھے رہے، وہ امی (رئیسہ موہانی) کو چھوٹی بہن کہتے تھے، انہوں نے امی کو بھی وہیں ٹھیرنے کی ہدایت کی۔ میں نے امی سے کہا کہ نکلیں، یہاں پتا نہیں کیا ہونے والا ہے، لیکن اشتیاق اظہر نے امی سے وعدہ لیا کہ ''تم حسرت موہانی کے قبیل سے ہو، کچھ بھی ہو جائے، یہاں سے نہیں جانا۔ آج یہ پاکستان کے خلاف بات ہوئی ہے، ہم پاکستان بچائیں گے۔۔۔!'' رمیسہ کہتی ہیں کہ مجھے نہیں پتا کہ ان کے ذہن میں کیا بات تھی، جو انہوں نے اس صورت حال کو پاکستان کے خلاف کہا۔

میں نے پھر امی سے ضد کی کہ ایسے تو ہم سب مارے جائیں گے، امی نے کہا کہ ہماری جان حاضر ہے، لیکن ہم یہاں سے نہیں ہٹیں گے۔ تھوڑی دیر کے بعد کوئی اعلیٰ فوجی افسر اندر آئے اور انہوں نے اچھی طرح سے سارا معائنہ کیا، امی کا تعارف ہوا تو وہ امی کے پاس بیٹھ گئے، اپنے سر پر ہاتھ رکھوایا اور کہا آپ ہماری بزرگ ہیں، ہمارے لیے دعا کیجیے۔ اگلے دن کے اخبارات میں دیکھا تو سب الٹ لکھا ہوا تھا، وہاں کوئی 'نامہ نگار' موجود نہ تھا، لیکن پھر بھی سب نے ایم کیو ایم کے بہ جائے 'حقیقی' کے لڑکے مار دیے گئے، کی خبریں دیں! رمیسہ کا خیال ہے کہ 'عظیم احمد طارق کا قتل دراصل 'نائن زیرو' پر 'حقیقی' کے قبضے سے جڑا ہوا ہی کوئی منصوبہ تھا، اور اس قتل میں بھی ممکن ہے وہی عناصر ملوث ہوں۔'
Load Next Story