2018 میں سوشل میڈیا سب پر حاوی

2018 کا سورج عمران خان کی کامیابیوں کی نوید اور مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کے زوال کا پیغام لے کر طلوع ہوا۔


حامد الرحمان January 03, 2019
2018 کا سورج عمران خان کی کامیابیوں کی نوید اور مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کے زوال کا پیغام لے کر طلوع ہوا۔ فوٹو:فائل

لاہور: عمران خان الیون اور نواز شریف کی ن لیگ کے درمیان 2014 میں شروع ہونے والے اعصاب شکن مقابلے کا اختتام 2018 میں ہوا۔ اس سنسنی خیز سیریز کا تیسرا اور آخری میچ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے نام کیا۔ 2018 کا سورج پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کی کامیابیوں کی نوید اور مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کے زوال کا پیغام لے کر طلوع ہوا۔ یہ ایک ہنگامہ خیز سال ثابت ہوا جس نے میدان سیاست میں کئی اتار چڑھاؤ اور بڑے بڑے برج الٹتے دیکھے۔

عمران خان اور پی ٹی آئی

عمران خان نے نہ صرف میدان سیاست میں فتح حاصل کی بلکہ گھریلو زندگی میں بھی کامیابی سمیٹی۔ شادی کرکے اپنا گھر بسایا، 22 سالہ سیاسی جدوجہد کامیاب ہوئی، ملک کے وزیراعظم منتخب ہوگئے اور تحریک انصاف پنجاب سمیت دو صوبوں اور اور وفاق میں برسراقتدار آگئی۔



مسلم لیگ (ن)

مسلم لیگ (ن) اپنی تاریخ کی بدترین آزمائش اور بحران کا شکار رہی، اس کے 5 سالہ دور حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کو نیب ریفرنسز میں جیل کی سزا ہوگئی۔ دونوں بیٹے حسن، حسین اور سمدھی اسحاق ڈار نیب مقدمات میں اشتہاری اور مفرور ہیں۔ دکھ سکھ کی ساتھی اہلیہ کلثوم نواز کا کینسر سے انتقال ہوگیا۔



بھائی شہباز شریف نیب کیس میں قید ہیں، جبکہ سعد رفیق سمیت بہت سے قریبی ساتھی بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ایون فیلڈ مقدمے میں سزا معطل ہونے پر مریم اور کیپٹن صفدر رہا ہیں جب کہ نواز شریف دوسرے نیب ریفرنس العزیزیہ میں سزا ہونے پر کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہر وہ لمحہ ۔۔۔ جو یاد بنا، تاریخ ہوا (جنوری تا مارچ 2018ء)

نااہلی کا موسم

جنوری کا سورج ڈوبنے کے بعد فروری کا چاند چمکا تو چشم فلک نے دیکھا کہ پہلی تاریخ کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے جرم میں ن لیگ کے سینیٹر نہال ہاشمی کو ایک ماہ قید، 50 ہزار روپے جرمانہ اور 5 سال کی نااہلی کی سزا سنائی۔ انہوں نے ایک سیاسی جلسے میں جوش خطابت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مبینہ طور پر ججز کو دھمکیاں دی تھیں اور کہا تھا کہ نواز شریف کا حساب لینے والوں ہم تمہارا یوم حساب بنادیں گے اور تم پر پاکستان کی زمین تنگ کردیں گے۔

اسی ماہ 21 فروری کو نواز شریف پر ایک اور بجلی گری اور سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو پارٹی صدارت سے بھی نااہل کردیا۔ پھر سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے جرم میں ہی 28 جون کو ن لیگ کے وزیر دانیال چوہدری کو اور اس کے بعد 2 اگست کو وزیر مملکت طلال چوہدری کو پانچ پانچ سال کے لیے نااہل کردیا۔

دانیال عزیز کے بارے میں کہا گیا کہ انہوں نے ایک نجی تقریب میں اعلیٰ عدلیہ اور اس کے ججز کی تضحیک کی جب کہ طلال چوہدری نے فیصل آباد میں ایک عوامی جلسے میں کہا تھا کہ اعلی عدلیہ میں فوجی آمر کے عبوری آئینی حکم نامے (پی سی او) پر حلف لینے والے 'بت' بیٹھے ہوئے ہیں، ان کو باہر نکالا جائے ورنہ یہ اسی طرح ناانصافیاں کرتے رہیں گے۔ اسی طرح 21 جولائی کو راولپنڈی کی انسداد منشیات عدالت نے ایفی ڈرین کوٹا کیس میں منشیات درآمد کرنے کے جرم میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا سنائی۔

17 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری کے جرم میں مسلم لیگ (ن) کے 2 سینیٹرز ہارون اختر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ہمشیرہ سعدیہ عباسی کو نااہل قرار دے دیا۔ اگلے روز 18 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے ہی مسلم لیگ (ن) کے رکن خیبرپختونخوا اسمبلی ضیاء الرحمان کو جعلی ڈگری کے جرم میں نااہل قرار دیا۔

پیپلز پارٹی

مسلم لیگ (ن) کے احتساب کے بعد پیپلز پارٹی کی باری آگئی۔ جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیس میں نہ صرف آصف زرداری کے گرد گھیرا تنگ ہوگیا بلکہ جے آئی ٹی رپورٹ میں بلاول بھٹو زرداری، فریال تالپور، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمیت 172 افراد کے نام سامنے آگئے جنہوں نے مبینہ طور پر اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ اب جعلی اکاؤنٹس کا معاملہ عدالتوں میں زیر التوا ہے اور ان سب ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے گئے ہیں۔



حسین لوائی اور انور مجید جیسی بڑی بڑی مچھلیاں اور بینکوں کے سربراہان گرفتار ہوئے جس کا شاید تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پھر عجیب و غریب انکشاف ہوئے اور چند ہزار کمانے والے غریبوں کے نام پر جعلی اکاؤنٹس سامنے آئے۔ بے چارے رکشے والے، ٹھیلے اور چاٹ والوں کو پتہ بھی نہیں تھا کہ ان نام پر بینک اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشنز ہورہی ہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بلاول ہاؤس کے باہر شناختی کارڈ پھینکنے کے لطائف بھی مشہور ہوئے۔

تحریک لبیک

2017 میں ن لیگ کے گلے کی ہڈی بننے والی تحریک لبیک نے 2018 میں تحریک انصاف کی حکومت کو بھی مشکل وقت دیا۔ عام انتخابات میں اس نے روایتی مذہبی جماعتوں سے بھی زیادہ ووٹ لے کر سب کو حیران کردیا ۔ ایم ایم اے میں تمام مذہبی جماعتیں اکٹھی ہوکر بھی 26 لاکھ ووٹ حاصل کرسکیں جبکہ تحریک لبیک نے تن تنہا 22 لاکھ ووٹ حاصل کیے، حالانکہ یہ اس جماعت کا پہلا الیکشن تھا۔ ووٹ کے اعتبار سے تحریک لبیک سے سب سے زیادہ نقصان پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا اور کراچی میں ایم کیو ایم کو ہوا کیونکہ ان دونوں جماعتوں کا ووٹر تحریک لبیک کے پاس چلے گیا۔



بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ٹی ایل پی نے اپنے مکتبہ فکر کو سیاسی طور پر متحرک کیا ہے۔ کافی عرصے سے اس کا مکتبہ فکر عموما سیاسی حالات اور ملکی منظرنامے میں یا تو خاموش رہتا تھا یا پھر اپنا وزن دیگر سیاسی جماعتوں کے پلڑے میں ڈال دیتا تھا اور اس کی کوئی انفرادی پہچان نظر نہیں آرہی تھی۔

2002 کے الیکشن میں شاہ احمد نورانی کی وجہ سے اس مکتبہ فکر نے ضرور اپنا کردار ادا کیا اور ایم ایم اے کی بھرپور حمایت کی جس کے نتائج بھی سامنے آئے۔ تاہم اس کے بعد سے اس کی سیاسی انفرادیت اب تحریک لبیک کی صورت میں نظر آئی ہے۔ لیکن ٹی ایل پی نے اپنی بات منوانے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا جو ریاست کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا اس لیے حکومت نے اس کے خلاف کارروائی کی۔ لہذا اب دہشت گردی کے مقدمات میں تحریک لبیک کے سربراہ خادم رضوی سمیت اعلیٰ قیادت جیلوں میں بند ہے۔

متحدہ مجلس عمل

2002 میں قومی اسمبلی کی 63 نشستیں جیتنے والا مذہبی جماعتوں کا اتحاد 2018 میں سکڑ کر صرف 12 نشستوں تک محدود رہ گیا۔ ایم ایم اے 2018 میں موثر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی، یہاں تک کہ مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق سمیت ایم ایم اے کے تقریبا تمام مرکزی رہنما الیکشن ہارنے کے بعد قومی اسمبلی سے بھی باہر ہوگئے۔ موجودہ سیاسی منظر نامے میں ایم ایم اے غیر موثر کردار کی حامل نظر آتی ہے۔



ایم کیو ایم پاکستان

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) شدید خلفشار کا شکار رہی، 22 اگست 2016 کے بعد سے اس میں تقسیم کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ 2018 میں بھی جاری رہا۔ پہلے پارٹی دو دھڑوں ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان میں تقسیم ہوئی۔ پھر مزید دو دھڑوں فاروق ستار اور عامر خان گروپ میں ٹوٹ گئی۔



سینیٹ کی نشست کے لیے کامران ٹیسوری کو ٹکٹ دینے کے مسئلے پر پارٹی سربراہ فاروق ستار کے پوری رابطہ کمیٹی سے شدید اختلافات ہوگئے۔ آگے چل کر یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں گیا جس کا نتیجہ نہ صرف فاروق ستار کی سربراہی سے برطرفی بلکہ پارٹی سے اخراج کی صورت میں برآمد ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: ہر وہ لمحہ ۔۔۔ جو یاد بنا، تاریخ ہوا (اپریل تا جون 2018ء )

اس کا خمیازہ سینیٹ الیکشن میں بھی بھگتنا پڑا کہ جو جماعت باآسانی 5 نشستیں لے سکتی تھی وہ صرف ایک سیٹ ہی جیت سکی۔ اس کے بعد عام انتخابات میں 23 نشستیں لینے والی جماعت محض 6 نشستوں تک محدود ہوکر رہ گئی۔ کراچی اس کے ہاتھ سے نکل کر تحریک انصاف کے ہاتھ میں چلا گیا۔

درحقیقت ایم کیو ایم کا نیوکلیس اور باہم جوڑنے والی قوت ان کا قائد تھا، مگر جب مرکز ہی ٹوٹ گیا تو پھر جماعت کا شیرازہ بکھر گیا۔ وہ جماعت جسے کسی زمانے میں وفاق میں بادشاہ گر کی حیثیت حاصل تھی آج قومی سیاست میں ایک چھوٹی سی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم)

2014 میں قبائلی علاقوں سے شروع ہونے والی پشتون نوجوانوں کی یہ تحریک 2018 میں نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد زور پکڑ گئی اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بن کر سامنے آئی جبکہ اسے سول سوسائٹی کے حلقوں کی بھی حمایت حاصل ہوگئی۔ اس نے قبائلی علاقوں میں چوکیوں پر سخت چیکنگ ختم کرنے سمیت کئی مطالبات کیے۔



پھر عام انتخابات میں اس کے دو رہنما محسن داوڑ اور علی وزیر منتخب ہوکر قومی اسمبلی میں بھی پہنچ گئے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بتایا کہ پی ٹی ایم کے تقریبا تمام مطالبات تسلیم کرلیے گئے ہیں لیکن اب وہ اپنی حدود سے تجاوز کررہی ہے اور اگر اس نے ایسا کیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

انتخابات

ملک میں سینیٹ کے الیکشن ہوئے جن میں تاریخ میں پہلی بار بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاست دان ملک کے ایوان بالا کے چیرمین بن گئے۔ پھر 25 جولائی کو عام انتخابات میں 'اسٹیٹس کو' اور ملکی سیاست کا جمود ٹوٹا جس کے نتیجے میں ایسی جماعت حکومت میں آئی جو پہلے کبھی اقتدار میں نہیں رہی اور وہ شخص وزیراعظم منتخب ہوا جو کبھی کسی حکومتی عہدے پر فائز نہیں رہا۔ عمران خان پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے الزامات بھی لگے لیکن وہ ان کی مقبولیت اور عوام کا اعتماد کم نہ کرسکے۔



عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران ن لیگ کی حکومت کو ٹف ٹائم دیا، ملک کے طوفانی دورے کیے اور جلسوں پر جلسوں کیے۔ الیکشن سے قبل دھڑا دھڑ ن لیگ کی وکٹیں گرنے لگیں۔ آئے روز کوئی نہ کوئی لیگی رہنما تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کرتا۔ پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی میں بھی نقب لگائی اور بہت سے جیالوں نے اپنی وفاداری تبدیل کرلی۔

بیچ میں ایسی خبریں بھی آئیں کہ ن لیگ کو شکست دینے کے لیے آصف زرداری اور عمران خان ہاتھ ملا سکتے ہیں 15 جنوری کو پیپلز پارٹی کا بیان دیا کہ زرداری عمران ایک کنٹینر پر ہوں گے تاہم ایسا نہ ہوا اور عمران خان زرداری سے دور ہی رہے۔

25 جولائی کا تاریخی دن آپہنچا جب پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے درمیان سخت مقابلہ ہوا۔ تحریک انصاف معمولی فرق سے ن لیگ اور دیگر جماعتوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی اور 20 سالہ جدوجہد کامیاب ہوگئی۔ لیکن فارم 45 کے تنازع نے الیکشن کی شفافیت پر داغ لگادیا۔

عموما الیکشن میں رات 12 بجے تک تمام نتائج آجاتے ہیں اور صورتحال واضح ہوجاتی ہے کہ کون سی جماعت اکثریت میں ہے۔ لیکن 25 جولائی کی رات 12 بجے تک ملک کے بیشتر پولنگ اسٹیشنز پر سیاسی جماعتوں کے پولنگ ایجنٹوں کو نتائج نہیں دیے گئے اور اگلے روز 26 جولائی سے نتائج آنا شروع ہوئے۔

اب اگر الیکشن شفاف ہی ہوئے ہوں لیکن فارم ب کے تنازع نے انتخابی عمل پر شکوک و شبہات پیدا کیے جس کے نتیجے میں ہارنے والے جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات لگائے۔

عدلیہ

2018 نے جہاں سیاست کے اتار چڑھاؤ دیکھے، وہیں عدالتی فعالیت (جوڈیشل ایکٹوازم) نے بھی ملک کی قسمت کے بہت سے اہم فیصلے کیے۔ چیف جسٹس نے بہت سے ازخود نوٹس لیے اور کئی اہم فیصلے صادر کیے۔ ڈبے کا دودھ بنانے والی کمپنیوں کو ''یہ دودھ نہیں ہے'' کی عبارت لکھنے کا حکم دیا۔ بوتل کا پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کی سرزنش کی اور ان پر ایک روپیہ سرچارج عائد کیا۔ اسی طرح چیف جسٹس نے اعظم سواتی اور راؤ انوار سمیت متعدد اہم شخصیات کے خلاف بھی از خود نوٹس لے کر کارروائی کی۔



چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسپتالوں کے دورے کیے اور طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کا حکم دیا، ملک بھر میں سیکیورٹی کے نام پر بند سڑکیں کھلوائیں اور اہم شخصیات کے گھر کے باہر سے رکاوٹیں ہٹوائیں۔ ان کا سب سے اہم اقدام ملک میں ڈیم بنانے کی مہم شروع کرنا ہے جس کے لیے وہ فنڈز جمع کررہے ہیں۔

دوسری جانب ناقدین نے عدالتی فعالیت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ہر ادارے کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرنا چاہیے اور ججز کا کام اسپتالوں کے دورے کرنا نہیں بلکہ مقدمات نمٹانا ہے، پھر ملک میں لاکھوں کیسز التوا کا شکار بھی ہیں۔ اس پر عدلیہ کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ جہاں غلطیاں ہوگی تو عوام کے بنیادی حقوق کی نگراں ہونے کی حیثیت سے عدلیہ اس غلطی کو ٹھیک کرے گی۔

امن و امان

ملک بھر میں امن و امان کی مجموعی صورت حال بہتر رہی تاہم بلوچستان کے علاقہ مستونگ میں ہونے والے خود کش حملے میں 129 افراد کی شہادت، جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق، ایم کیو ایم کے سابق رہنما علی رضا عابدی اور ایس ایس پی طاہر داوڑ کے قتل، کراچی میں چینی سفارتخانے پر حملے سمیت بعض واقعات نے تشویش کی لہر دوڑا دی۔

2018 سوشل میڈیا کے نام

2018 سوشل میڈیا کا سال رہا، فیس بک اور ٹوئٹر سمیت سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اپنی آواز بلند کرنے کا ایک طاقتور پلیٹ فارم بن کر سامنے آئیں اور عوامی ردعمل سامنے لانے میں اہم کردار کیا۔ زینب کا قتل، نقیب اللہ کا کیس، اعظم سواتی فیملی کا کچی بستی کے مکینوں سے تنازع اور اس جیسے بہت سے واقعات اس کی مثال ہیں۔ سوشل میڈیا پر بننے والے عوامی دباؤ نے ارباب اختیار کو بہت سے فیصلوں پر مجبور کیا۔



اسی طرح سوشل میڈیا نے پرنٹ اور الیکٹرانک سمیت مرکزی میڈیا کی اجارہ داری ختم کردی۔ جہاں جہاں سرکاری سطح پر سنسر شپ کی کوششیں کی گئیں وہاں سوشل میڈیا ایک مضبوط پلیٹ فارم بن کر سامنے آیا۔

خاص طور پر ٹوئٹر کے ہیش ٹیگز کو کسی واقعے یا خبر کو اجاگر کرنے میں نمایاں حیثیت حاصل رہی۔ تاہم تحریک انصاف کی حکومت جو خود سوشل میڈیا پر بہت انحصار کرتی ہے اور اس کی کامیابی میں سوشل میڈیا کو بھی فیصلہ کن اہمیت حاصل ہے، اس نے اسی میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے نام پر قابو کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

بلوچستان میں تحریک عدم اعتماد

2018 کا سورج طلوع ہوا تو بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت ڈگمگا رہی تھی۔ بلوچستان اسمبلی محلاتی سازشوں کا شکار تھی۔ 2 جنوری کو عدم اعتماد کی قرارداد پیش ہوئی آخر کار ایک ہفتے بعد 9 جنوری کو وزیراعلی ثناءاللہ زہری کو مستعفی ہوکر گھر جانا پڑا۔

 



اسی روز جب اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے والا تھا بلوچستان اسمبلی کے قریب ایک خود کش حملہ ہوا جس میں 5 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 7 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ 14 جنوری کو عبدالقدوس بزنجو صوبے کے نئے وزیراعلیٰ بن گئے۔

زینب امین

پنجاب کے شہر قصور میں 6 سالہ زینب سے زیادتی و قتل کا المناک واقعہ سامنے آیا جس نے پورے ملک کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا۔ لیکن ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ اس واقعے کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس نے فائرنگ کردی جس سے بہت سے لوگ جاں بحق اور زخمی بھی ہوگئے۔ اس سفاک درندگی پر پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا اور دنیا بھر میں سخت مذمت کی گئی۔



آخر کار سر توڑ کوشش اور سخت جدوجہد کے بعد 23 جنوری کو زینب کے قاتل عمران علی کو گرفتار کرلیا گیا اور پھر 17 اکتوبر کو اسے پھانسی دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلادیا گیا۔

نقیب اللہ قتل کیس

13 جنوری 2018 کو سندھ کے بدنام زمانہ پولیس افسر ایس ایس پی راؤ انوار نے کراچی میں 4 بے گناہ نوجوانوں کو جعلی مقابلے میں فائرنگ کرکے قتل کردیا جن میں ایک نوجوان نقیب اللہ محسود بھی شامل تھا۔



سوشل میڈیا پر تصاویر اور حقیقت سامنے آنے کے بعد عوام نے شدید غم و غصے کا مظاہرہ کیا جس پر چیف جسٹس نے نوٹس لیا اور تحقیقات ہوئیں تو پولیس مقابلہ جعلی اور تمام نوجوان بے گناہ ثابت ہوگئے۔ اس سے راؤ انوار کی جانب سے اب تک ہونے والے درجنوں پولیس مقابلوں پر بھی سوالات اٹھ گئے کہ آیا وہ بھی جعلی پولیس مقابلے تھے؟۔

راؤ انوار ایک عرصے تک روپوش رہے تاہم شدید دباؤ کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ میں گرفتاری دے دی۔ اب ان پر قتل کا مقدمہ چل رہا ہے اور وہ پیشیاں بھگت رہے ہیں تاہم اب تک کیس کا فیصلہ نہیں ہوا۔ نقیب اللہ محسود کے لواحقین کا کہنا ہے کہ راؤ انوار کے پیچھے بعض بڑی شخصیات کا ہاتھ ہے اور ان کے بچ نکلنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

امریکی امداد بند

2 جنوری کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی امداد بند کرنے کا اعلان کیا اور پھر تین روز بعد 5 جنوری کو سیکیورٹی تعاون بھی معطل کردیا۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات تاریخ میں کشیدگی کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے اور ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشیوں کا سلسلہ پورا سال جاری رہا۔ لیکن ایسے نازک موقع پر تمام سیاسی جماعتوں نے عظیم اتحاد کا مظاہرہ کیا اور امریکی دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے متحد ہوکر دشمن کا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا۔



پھر سال کے آخر میں ڈونلڈ ٹرمپ کی عقل ٹھکانے آئی اور خطے میں پاکستان کی اہمیت کا ادراک ہوا۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے رابطہ کیا اور افغانستان کے مسئلے کے حل میں مدد اور تعاون کی درخواست کی۔ پاکستان نے اس درخواست کو قبول کیا اور فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششیں تیز کردیں جس کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے جس میں مسئلے کے حل پر بات چیت کی گئی۔

مذاکرات کے بعد خبریں سامنے آئیں کہ امریکا نے شام کے بعد افغانستان سے بھی فوج واپس بلانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ تاہم تاحال اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ہر وہ لمحہ ۔۔۔ جو یاد بنا، تاریخ ہوا (جولائی تا ستمبر 2018ء )

آسیہ مسیح رہائی اور تحریک لبیک

توہین رسالت ﷺ کے جرم میں گرفتار آسیہ مسیح کے کیس نے ملک کی سیاست میں تلاطم پیدا کیا۔ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی آسیہ نورین پنجاب کے ضلع ننکانہ کے گاؤں اٹاں والی کی رہائشی تھی۔ 2009 میں اسے توہین رسالت ﷺ کے الزام میں گرفتار کیا گیا، پولیس نے مقدمہ درج کیا پھر 2010 میں سیشن عدالت نے اسے مجرم قرار دے کر سزائے موت سنائی جس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تو عدالت عالیہ نے بھی 2014 میں اس سزا کی توثیق کردی۔ یہ کیس 2015 میں سپریم کورٹ گیا تو 3 سال بعد 31 اکتوبر 2018 کو سپریم کورٹ نے آسیہ کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے بری کردیا۔



رہائی کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے اور کافی ہنگامہ آرائی ہوئی۔ حکومت نے کریک ڈاؤن گرتے ہوئے ہنگامہ آرائی میں ملوث ہزاروں افراد کو گرفتار کرلیا اور خارم رضوی سمیت تحریک لبیک کے رہنماؤں پر دہشتگردی کے مقدمے قائم کردیے گئے۔ یہ رہنما اور بہت سے کارکنان جیلوں میں قید ہیں اور ٹرائل کا سامنا کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہر وہ لمحہ ۔۔۔ جو یاد بنا، تاریخ ہوا (اکتوبر تا دسمبر 2018ء )

یوٹرن

عمران خان کے حریف ان پر یوٹرن کا الزام لگاتے نہیں تھکتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ اپنے فیصلے بدلتے رہتے ہیں، اور غیر مستقل مزاج شخص ہیں۔ تاہم حیران کن طور پر وزیراعظم عمران خان نے خود ہی نہ صرف اپنے یوٹرن شخصیت ہونے کی تصدیق کی بلکہ یہ بھی کہا کہ حالات کے مطابق یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ جو یوٹرن لینا نہیں جانتا، اس سے بڑا بے وقوف لیڈر کوئی نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنی رائے کی حمایت میں فرانسیسی شہنشاہ نپولین بونا پارٹ اور جرمنی کے حکمران ایڈولف ہٹلر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ نپولین اور ہٹلر نے یوٹرن نہ لیکر بہت بڑا نقصان کیا۔ عمران خان کی جانب سے یوٹرن کی حمایت میں دلائل کا سوشل میڈیا پر بہت چرچا ہوا۔




ملکی تاریخ میں پہلی بار ٹی وی اینکر کو سزا

زینب معاملے سے جڑا ضمنی واقعہ ٹی وی اینکر شاہد مسعود کا بھی ہے جنہوں نے اپنے پروگرام میں دعویٰ کیا کہ زینب کے قاتل کا تعلق بچوں کی فحش ویڈیوز بنانے والے عالمی گروہ سے ہے جو پاکستان میں بھی سرگرم عمل ہے۔ چیف جسٹس نے انہیں طلب کیا اور تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیا تاہم وہ اس میں ناکام رہے جس پر سپریم کورٹ نے غلط بیانی اور جھوٹ بولنے پر 20 مارچ کو ان کے پروگرام پر تین ماہ کے لیے پابندی عائد کردی۔ اس جھوٹے دعوے سے شاہد مسعود کی ساکھ کو شدید دھچکا پہنچا۔

شاہد مسعود کے لیے یہ سال کافی تلخ ثابت ہوا کیونکہ 23 نومبر کو انہیں پی ٹی وی میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے جعلی کمپنی کے ساتھ کرکٹ میچز کے نشریاتی حقوق کا معاہدہ کیا جس سے قومی خزانے کو 3 کروڑ 70 لاکھ کا نقصان پہنچا۔ وہ اب اس کیس میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

ہیلی کاپٹر کیس


2 فروری کو نیب نے عمران خان کے خلاف ہیلی کاپٹر کیس میں تحقیقات شروع کیں۔ چیرمین پی ٹی آئی پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے نجی دوروں کے لیے سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کیے جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔ بعد ازاں 7 اگست کو اس مقدمے میں وہ نیب کے سامنے پیش بھی ہوئے۔ اب کچھ نہیں پتہ کہ اس کا مقدمے کا کیا ہوا۔ آیا یہ بند کردیا گیا ہے یا انکوائری جاری ہے۔


پس لفظ

سال گزشتہ اپنی تمام تر ہنگامہ خیزیوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا اور 2019 کا سورج طلوع ہوگیا۔ اب اپنے اس طائرانہ جائزے کا اختتام اسی دعا سے کرتے ہیں کہ

خدا کرے میری ارض پاک پر اترے وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں