سندھ میں سیاسی شو ڈاؤن
سندھ میں پیپلزپارٹی کے اراکین کی تعداد99 ہے، تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد30 ہے
سندھ میں شکر ہے سیاست برمودا ٹرائنگل سے بچ نکلی ہے، جب کہ قریب تھا کہ سندھ حکومت کی تبدیلی کے لیے ہوائیں سندھ سیاست کا رخ ہی بدل دیں تاہم سپریم کورٹ کے صائب حکم ، بروقت ریمارکس اور برہمی کے اظہار کے باعث ''کلیش '' کا خطرہ ٹل گیا ، تند و تیز بیانات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے تاہم سپریم کورٹ نے قراردیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ آسمانی صحیفہ ہے نہ اس بنیاد پر حکومت گرانے دیں گے، عدالت عظمیٰ نے واضح کیا کہ ملک صرف آئین پر چلے گا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
بظاہر اب کوئی وجہ نہیں کہ سیاسی کشیدگی اور تناؤ کے ہولناک دوراہے پر جذباتی فیصلوں کا مزید سہارا لیا جائے ۔ سیاست دان سنجیدگی سے مسلمہ جمہوری وآئینی آپشنز استعمال کریں۔ یہی مناسب طریقہ ہے۔ قبل ازیں صورتحال یہ تھی کہ پی ٹی آئی سندھ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے جب کہ پیپلز پارٹی سید مراد علی شاہ کی حکومت کے تسلسل کو برقرار رکھنے اور پارٹی کے اندر فارورڈ بلاک بننے کے دعوے کو رد کرچکی تھی، ادھر وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے دورہ سندھ منسوخ کردیا۔
میڈیا کے مطابق تحریک انصاف نے وزیراعلیٰ سندھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے فوری حکمت عملی بھی مرتب کرلی تھی ، پی ٹی آئی کے رہنما فردوس شمیم نقوی نے پیپلزپارٹی کے ناراض ارکان، ایم کیوا یم، جی ڈی اے سمیت دیگر رہنماؤں سے رابطے شروع کردیے، اسی اثنا میں سیاسی مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ سندھ میں سیاسی ٹکراؤ سے بلوچستان جیسی صورتحال کا اندیشہ ہے جب 2018 کے الیکشن کے تناظر میں بلوچستان کی صوبائی حکومت کے خاتمہ اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے زبردست ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگے، صدر مملکت کے انتخاب میں اعصابی کنچاؤ رہا، ادھر گورنر سندھ عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ سندھ میں گورنر راج لگنے اور ہارس ٹریڈنگ کا کوئی امکان نہیں جب کہ پی ٹی آئی کے سندھ اسملی میں قائد حلیم عادل شیخ کے مطابق عدم اعتماد لانے کا آئینی اقدام ناگزیر ہوگیا ہے۔
بلاشبہ ملک کی سیاسی تاریخ کی اس سیاسی حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ جمہوریت کو نقصان ہمیشہ داخلی سیاسی کشمکش سے ہوا ہے، مفاد پرست عناصر اس سے فائدہ اٹھا کر انتشار کو ہوا دیتے ہیں، لہذا رسہ کشی اور عدم رواداری سے صورتحال قابو سے باہر نہیں ہونی چاہیے، ملک احتساب کی آزمائش اور فیصلہ کن دورانیے میں ہے، اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف بڑے کیسز چل رہے ہیں، ابھی حالات پینڈورا باکس کھولنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ، پی ٹی آئی عدم اعتماد کی تحریک لانا چاہتی ہے تو سیاسی رابطے اور عددی اکثریت کے جمہوری طریقوں پر عمل کرنے کا اسے حق حاصل ہے تاہم صورتحال کی سنگینی کو بھی مد نظر رکھنا لازم ہے، جب سیاست شدید پولیرائزیشن اور سیاسی درجہ حرارت غیر معمولی کشیدگی کی غمازی کررہا ہو تو حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو سیاسی شو ڈاؤن کے ہولناک نتائج کا دوراندیشی سے ادراک کرلینا چاہیے، ہر سیاسی موو آئینی ، مکمل جمہوری اسپرٹ اور اسپورٹسمین شپ کے تحت آگے بڑھنی چاہیے۔
واضح رہے سندھ میں پیپلزپارٹی کے اراکین کی تعداد99 ہے، تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد30 ہے، ایم کیوایم کے اراکین اسمبلی کی تعداد21 ، جے ڈی اے کے پاس14اراکین اسمبلی ہیں جب کہ تحریک لبیک کے پاس3اور ایم ایم اے کے پاس ایک ممبر اسمبلی ہے اس طرح اپوزیشن جماعتوں کے اراکین اسمبلی کی تعداد69 بنتی ہے۔ تحریک انصاف کے ایک رکن اسمبلی نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمیں پیپلزپارٹی کے20اراکین کی حمایت حاصل ہے، اس طرح مجموعی طور پر 89 ارکان بنتے ہیں جس کے بعد پیپلزپارٹی کے اراکین کی تعداد70رہ جاتی ہے۔ لیکن اب صورتحال بدل گئی۔
سوچ بھی بدلنی چاہیے، سیاسی یلغار سے معاملات بگڑ سکتے ہیں، ادھر پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے بلاول بھٹو زرداری کی گرفتاری خطرناک کھیل ہوگا، جس سے ملک افراتفری کا شکار ہوجائے گا، مئیر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ سندھ میں گورنر راج یا ان ہاؤس تبدیلی سب سیاسی باتیں ہیں مجھے ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا لیکن حکومت خود محاذ آرائی میں لگی ہوئی ہے ، احتساب ''اکراس دی بورڈ'' کریں ورنہ یہ احتساب نہیں انتقام کہلائے گا۔ سندھ صورتحال کی تپش بلوچستان تک پہنچی ہے جہاں بلوچستان جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکریٹری و سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے متنبہ کیا ہے کہ حلقہ پی بی 26کے ضمنی انتخابات میں دھاندلی کی کوشش کی گئی تو اس کی بھر پور مخالفت کی جائے گی اور حکومت کے غلط رویہ کے باعث اپوزیشن با آسانی ان ہاؤس تبدیلی لا سکتی ہے۔
بہر کیف امید کی جانی چاہیے کہ سندھ حکومت اور پی ٹی آئی وفاقی وصوبائی قیادت وزیراعلیٰ سندھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے آئینی آپشنز کو پیش نظر رکھیں گی ، فیئر پلے ناگزیر ہے تاکہ صوبہ سندھ میں سیاسی افراتفری اور ہارس ٹریڈنگ کے الزمات اور افسوسناک جوڑتوڑ کے منفی نتائج سے کسی قسم کا بحران سر نہ اٹھا سکے۔ گیند اب سیاست دانوں کے کورٹ میں ہے۔
بظاہر اب کوئی وجہ نہیں کہ سیاسی کشیدگی اور تناؤ کے ہولناک دوراہے پر جذباتی فیصلوں کا مزید سہارا لیا جائے ۔ سیاست دان سنجیدگی سے مسلمہ جمہوری وآئینی آپشنز استعمال کریں۔ یہی مناسب طریقہ ہے۔ قبل ازیں صورتحال یہ تھی کہ پی ٹی آئی سندھ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے جب کہ پیپلز پارٹی سید مراد علی شاہ کی حکومت کے تسلسل کو برقرار رکھنے اور پارٹی کے اندر فارورڈ بلاک بننے کے دعوے کو رد کرچکی تھی، ادھر وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے دورہ سندھ منسوخ کردیا۔
میڈیا کے مطابق تحریک انصاف نے وزیراعلیٰ سندھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے فوری حکمت عملی بھی مرتب کرلی تھی ، پی ٹی آئی کے رہنما فردوس شمیم نقوی نے پیپلزپارٹی کے ناراض ارکان، ایم کیوا یم، جی ڈی اے سمیت دیگر رہنماؤں سے رابطے شروع کردیے، اسی اثنا میں سیاسی مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ سندھ میں سیاسی ٹکراؤ سے بلوچستان جیسی صورتحال کا اندیشہ ہے جب 2018 کے الیکشن کے تناظر میں بلوچستان کی صوبائی حکومت کے خاتمہ اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے زبردست ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگے، صدر مملکت کے انتخاب میں اعصابی کنچاؤ رہا، ادھر گورنر سندھ عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ سندھ میں گورنر راج لگنے اور ہارس ٹریڈنگ کا کوئی امکان نہیں جب کہ پی ٹی آئی کے سندھ اسملی میں قائد حلیم عادل شیخ کے مطابق عدم اعتماد لانے کا آئینی اقدام ناگزیر ہوگیا ہے۔
بلاشبہ ملک کی سیاسی تاریخ کی اس سیاسی حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ جمہوریت کو نقصان ہمیشہ داخلی سیاسی کشمکش سے ہوا ہے، مفاد پرست عناصر اس سے فائدہ اٹھا کر انتشار کو ہوا دیتے ہیں، لہذا رسہ کشی اور عدم رواداری سے صورتحال قابو سے باہر نہیں ہونی چاہیے، ملک احتساب کی آزمائش اور فیصلہ کن دورانیے میں ہے، اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف بڑے کیسز چل رہے ہیں، ابھی حالات پینڈورا باکس کھولنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ، پی ٹی آئی عدم اعتماد کی تحریک لانا چاہتی ہے تو سیاسی رابطے اور عددی اکثریت کے جمہوری طریقوں پر عمل کرنے کا اسے حق حاصل ہے تاہم صورتحال کی سنگینی کو بھی مد نظر رکھنا لازم ہے، جب سیاست شدید پولیرائزیشن اور سیاسی درجہ حرارت غیر معمولی کشیدگی کی غمازی کررہا ہو تو حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو سیاسی شو ڈاؤن کے ہولناک نتائج کا دوراندیشی سے ادراک کرلینا چاہیے، ہر سیاسی موو آئینی ، مکمل جمہوری اسپرٹ اور اسپورٹسمین شپ کے تحت آگے بڑھنی چاہیے۔
واضح رہے سندھ میں پیپلزپارٹی کے اراکین کی تعداد99 ہے، تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد30 ہے، ایم کیوایم کے اراکین اسمبلی کی تعداد21 ، جے ڈی اے کے پاس14اراکین اسمبلی ہیں جب کہ تحریک لبیک کے پاس3اور ایم ایم اے کے پاس ایک ممبر اسمبلی ہے اس طرح اپوزیشن جماعتوں کے اراکین اسمبلی کی تعداد69 بنتی ہے۔ تحریک انصاف کے ایک رکن اسمبلی نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمیں پیپلزپارٹی کے20اراکین کی حمایت حاصل ہے، اس طرح مجموعی طور پر 89 ارکان بنتے ہیں جس کے بعد پیپلزپارٹی کے اراکین کی تعداد70رہ جاتی ہے۔ لیکن اب صورتحال بدل گئی۔
سوچ بھی بدلنی چاہیے، سیاسی یلغار سے معاملات بگڑ سکتے ہیں، ادھر پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے بلاول بھٹو زرداری کی گرفتاری خطرناک کھیل ہوگا، جس سے ملک افراتفری کا شکار ہوجائے گا، مئیر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ سندھ میں گورنر راج یا ان ہاؤس تبدیلی سب سیاسی باتیں ہیں مجھے ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا لیکن حکومت خود محاذ آرائی میں لگی ہوئی ہے ، احتساب ''اکراس دی بورڈ'' کریں ورنہ یہ احتساب نہیں انتقام کہلائے گا۔ سندھ صورتحال کی تپش بلوچستان تک پہنچی ہے جہاں بلوچستان جمعیت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکریٹری و سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے متنبہ کیا ہے کہ حلقہ پی بی 26کے ضمنی انتخابات میں دھاندلی کی کوشش کی گئی تو اس کی بھر پور مخالفت کی جائے گی اور حکومت کے غلط رویہ کے باعث اپوزیشن با آسانی ان ہاؤس تبدیلی لا سکتی ہے۔
بہر کیف امید کی جانی چاہیے کہ سندھ حکومت اور پی ٹی آئی وفاقی وصوبائی قیادت وزیراعلیٰ سندھ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے آئینی آپشنز کو پیش نظر رکھیں گی ، فیئر پلے ناگزیر ہے تاکہ صوبہ سندھ میں سیاسی افراتفری اور ہارس ٹریڈنگ کے الزمات اور افسوسناک جوڑتوڑ کے منفی نتائج سے کسی قسم کا بحران سر نہ اٹھا سکے۔ گیند اب سیاست دانوں کے کورٹ میں ہے۔