قربانی کالے بکرے کی
’’چغہ‘‘ پشتو کی اصطلاح ہے جو گاؤں پر ڈاکوؤں یا دشمنوں یا کسی اور خطرے کے خلاف نکلتا ہے
ہمیں تو پکا پکا یقین ہو چلا تھا کہ ہماری اس ممدوحہ مقصودہ اور معشوقہ نادیدہ کا ''رام نام ست'' ہو گیا ہو گا جسے ہم نے ایک بار بھی نہیں دیکھا لیکن دیکھنے کی ہوس بے پناہ تھی۔ وہی نازنین مہ جبین اور گل رنگین جس کا نام نامی واسم گرامی ''کرپشن'' اور عرفیت بدعنوانی تھا۔ ایک جہاں جس کا دیوانہ تھا، جو بجا طور پر ''عروس ہزار داماد'' کہلانے کی مستحق تھی کیونکہ ایک عرصے سے اس کے خلاف جو ''چغہ'' نکلا تھا، اس سے بچ کے نکلنا ہرگز ممکن نہ تھا ۔
''چغہ'' پشتو کی اصطلاح ہے جو گاؤں پر ڈاکوؤں یا دشمنوں یا کسی اور خطرے کے خلاف نکلتا ہے ۔ویسے تو چغہ کے لغوی معنی ''چیخ و پکار'' کے ہوتے ہیں لیکن یہ اصطلاحی''چغہ'' یوں نکلتا تھا کہ مسجدوں میں یا کسی اور اونچی جگہ سے کوئی آدمی نہایت اونچی آواز میں پکارتا تھا کہ گاؤں والو، فلاں خطرے کے لیے نکلو۔یہ آواز چاروں طرف گونج اٹھتی اور ہر کوئی اپنا کام چھوڑکر کوئی بھی دستیاب آلہ ضرر اٹھا کر دوڑ پڑتا ۔ ہماری معلومات کے مطابق اس نازنینہ،گل ورینہ اور مہ جبینہ کے خلاف بھی کچھ عرصے سے ''چغہ'' نکلا ہوا تھا حالانکہ اس کے عزیزوں اور شناساؤں بلکہ عشاق کو اس سے اتفاق نہیں تھا ''چغہ'' کی مجبوری تھی، ہجوم کے خلاف جانا تو دریا میں الٹی جانب تیرنے کے مترادف بلکہ خطرناک ہوتا ہے ۔
چنانچہ سارے کے سارے لوگ بلکہ متعلقہ لوگ حسب معمول حسب رواج اور حسب توفیق ہتھیارلیکر اس ''چغہ'' میں شامل ہو گیا تھا۔ یہ ''چغہ '' اتنا ہمہ گیر تھا کہ 5 ایم ایم کے کارتوس جیسی قدوقامت والے لوگ بھی 30 ملی میٹر کی توپیں کمر سے لٹکائے دوڑ رہے تھے بلکہ ان میں وہ بھی تھے جو اس ''مفرورہ'' کو آرام سے اپنے گھر میں پناہ دیے ہوئے تھے ۔یہاں پر ایک حقیقہ نے دُم ہلانا شروع کی ہے، سواسے بھی ساتھ لیے چلتے ہیں۔ ہماری مسجد میں ایک شخص کی قیمتی گھڑی وضو کرتے ہوئے گم ہو گئی۔ مسجد میں جو لاؤڈ اسپیکر انچارج تھا، اس نے اعلان کیا کہ فلاں کی گھڑی گم ہو گئی ہے، کسی کو ملی ہو تو لوٹا کر ثواب دارین حاصل کرے۔ کئی سال بعد لوگوں کہ پتہ چلا بلکہ خود اس کے منہ سے یہ حقیقت نکلی کہ جب وہ اعلان کر رہا تھا تو وہ گھڑی خود اس کی شلوارکے ''نیفے'' میں تھی ۔
اب یہ نازنینہ ،مہ جبینہ ،کترینہ و کرینہ کس کس کے نیفے میں تھی، اس کا تو ہمیں پتا نہیں ہے لیکن ''چغہ'' بہرحال زبردست نکلا تھا بلکہ ابھی تک نکلا ہوا ہے۔ ہر طرف سے دوڑو بھاگو پکڑو جکڑو کا شور اٹھ رہا ہے ۔ ایسے میں ہمیں تو پکا پکا یقین ہو گیا ہے کہ بچاری کو یا تو ٹکڑے ٹکڑے کرکے چیل کوؤں کو کھلا دیا ہو گا ،کہیں گاڑ کر کیڑوں کی خوراک بنایا گیا ہو گا یا وہ خود کسی عاشق جانثار کی مدد سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی' ہو گی اور یہ کچھ ایسا مشکل بھی نہ تھا جس ''چھلنی'' میں ہرسائز اور ٹائپ کے سوراخ ہوں، جہاں نیب وریب کو مطلوب لوگ راتوں رات انگلینڈ 'دبئی پہنچ جاتے ہیں جہاں اسلام آباد سے کوئی عام آدمی نہیں بلکہ پولیس کا ایک بڑاافسر اغوا ہو کرکسی سلیمانی ٹوپی کے نیچے افغانستان پہنچ جاتا ہو۔
وہ بھی مرا ہوا ۔وہاں ایسی دلربا خوش ادا رخ زیبا کو ہزاروں لوگ مدد کرنے کو مل گئے ہوں گے اور وہ نہ جانے کس جہاں میں کھو گئی ہو گی اور اس میں ہمارے لیے دکھ کا پہلو یہ تھا کہ وہ نازنین جس کے جلوے سن سن کر ہم کسی پرانے شہزادے کی طرح اس ''رخ نادیدہ'' کے عاشق ہو گئے اور تمنا تھی کہ ایک بار اسے دیکھ کر دل کو سرور آنکھوں کو نور اور ذہن کو فتور بخش دیں، یعنی''انا کی تمنا ہے کہ ہیرا مجھے مل جائے''یا جیون میں ایک بار آنا سنگاپور۔ لیکن افسوس کہ یہ نہ تھی ہماری قسمت۔۔۔ایک پشتو ٹپہ ہے کہ جن کی قسمت میں ملنا نہیں لکھا ہوتا، وہ ایک ہی گلی میں آگے پیچھے ہو جاتے ہیں بیچارے ۔دراصل یہ دل کم بخت جسے آج کل پڑوسی ملک میں طرح طرح کے نام د یے جا رہے ہیں، بد تمیز کم بخت لوفر بدمعاش غنڈہ وغیرہ۔۔اس میں عشق کا جو پودا اگتا ہے اس کا ''بیج'' دراصل نارسائی میں ہوتا ہے، ہمارا عشق یا اس نازنینہ سے ملنے کی خواہش بھی ''نارسائی'' ہی سے اُگی ہوئی تھی کہ زندگی میں کبھی اس حسن جہاں سوز'دل افروز اور روح پرور حسینہ سے ملاقات نہیں ہوتی جب کہ اس کے قصے اور حسن و جمال کے چرچے روز سنتے تھے ۔
انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ جس چیز تک رسائی نا ممکن یا مشکل ہو اس کا شیدائی ہو جاتا ہے ، جیسے روزے میں بعض لوگ ایسی چیزیں بھی کھایا کرتے ہیں جنھیں عام حالات میں چھونے کی خواہش بھی نہیں ہوتی ۔ ایک آدمی کسی پر عاشق ہوتا ہے تو خودکشی تک کے لیے تیار ہو جاتا ہے لیکن جب وہ مل جاتی ہے تو پھر یہاں وہاں نین مٹکانے شروع کر دیتا ہے۔ جناب مشتاق احمد یوسفی نے کسی جگہ لکھا ہے کہ ایک جگہ ''عرب شیوخ'' کی کوئی مجلس تھی۔ سارے شیخ اپنے اپنے گاؤتکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے لیکن دوسروں کے ''گاؤ تکیوں'' کو آنکھ مار رہے تھے کیونکہ یہ ''گاؤتکیے''کسی اور چیز کے بنے ہوئے نہ تھے بلکہ زندہ حسینائیں یا کنیزیں تھیں۔گویا حاصل اور دستیاب ''گاؤتکیہ'' رسائی میں ہونے کی وجہ سے اپنی کشش کھو بیٹھا ہے، چاہے وہ کتنا ہی خوبصورت اور نرم وگرم کیوں نہ ہو۔
ایسی ہی نارسائی نے ہمیں بھی اس حسینہ نازنینہ کا نادیدہ عاشق بنایا ہوا تھا اور اس سے ملاقات کے لیے ہر ممکن کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ بچاری کے خلاف یہ کم بخت ''چغہ'' نکلا اور ہماری ساری امیدوں اور تمناؤں کو خون خون کر دیا ۔اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ اس نا امیدی اور حسرت زدگی میں جب اچانک وہ ہمارے سامنے آئی تو ہماری کیا حالت ہو گئی ہو گی۔شادی مرگ تو اس کے لیے بہت ہلکا نقطہ ہے ۔وہ ہمارے سامنے تھی، اپنی تمام حشرسامانیوں ، جلوہ آرائیوں اور غارت گریوں سمیت۔
پوچھا یہ کیا؟ وہاں تمہارے خلاف نہایت ہی خطرناک ''چغہ'' نکلا ہوا ہے اور یہاں تم کھلے عام پھر رہی ہو۔ بولی اس لیے کہ اب مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے، ہاں پہلے میں اکثر خوفزدہ رہا کرتی تھی کہ لوگ میرے خلاف برے برے بول بولا کرتے تھے لیکن اب کوئی خطرہ نہیں۔
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر یہ ماجراکیا ہے۔ پوچھا تو جلترنگ سی بجاتی ہوئی بولی۔قربانی اللہ کو پیاری ہے۔ قربانی تمام آفات و بلیات کو دور رکھتی ہے، میں نے بھی قربانی دے دی ہے ۔
کب کہاں کیسے ؟ بولی تمہیں پتہ ہے، ہمارے لیڈروں پر کوئی آفت کیوں نہیں ؟
اس لیے کہ وہ ہر وقت قربانیاں دیتے رہتے ہیں۔ ہر رنگ کی، ہر قسم کی خون کے آخری قطرے کی؟
ہم نے کہا مگر وہ تو دوسروں کی قربانی دیتے اور آخری قطرہ خون کہاں دیتے ہیں۔
بولی، قربانی ہمیشہ دوسروں کی 'کالے بکرے سفید دنبے یا گائے کی دی جاتی ۔قربانی دینے والا اگر خود کو قربان کرے تو پھر فائدہ کیا؟
تم نے کس کو قربان کیا ۔ایک ادا سے بولی، تھا ایک بکرا ۔ ہم سمجھ گئے مگر وہ تو کالا نہ تھا ۔بولی ،کالا رنگ اتنا مہنگا تو نہیں کہ کسی بکرے کو بھی کالا نہ کیاجا سکے ۔
''چغہ'' پشتو کی اصطلاح ہے جو گاؤں پر ڈاکوؤں یا دشمنوں یا کسی اور خطرے کے خلاف نکلتا ہے ۔ویسے تو چغہ کے لغوی معنی ''چیخ و پکار'' کے ہوتے ہیں لیکن یہ اصطلاحی''چغہ'' یوں نکلتا تھا کہ مسجدوں میں یا کسی اور اونچی جگہ سے کوئی آدمی نہایت اونچی آواز میں پکارتا تھا کہ گاؤں والو، فلاں خطرے کے لیے نکلو۔یہ آواز چاروں طرف گونج اٹھتی اور ہر کوئی اپنا کام چھوڑکر کوئی بھی دستیاب آلہ ضرر اٹھا کر دوڑ پڑتا ۔ ہماری معلومات کے مطابق اس نازنینہ،گل ورینہ اور مہ جبینہ کے خلاف بھی کچھ عرصے سے ''چغہ'' نکلا ہوا تھا حالانکہ اس کے عزیزوں اور شناساؤں بلکہ عشاق کو اس سے اتفاق نہیں تھا ''چغہ'' کی مجبوری تھی، ہجوم کے خلاف جانا تو دریا میں الٹی جانب تیرنے کے مترادف بلکہ خطرناک ہوتا ہے ۔
چنانچہ سارے کے سارے لوگ بلکہ متعلقہ لوگ حسب معمول حسب رواج اور حسب توفیق ہتھیارلیکر اس ''چغہ'' میں شامل ہو گیا تھا۔ یہ ''چغہ '' اتنا ہمہ گیر تھا کہ 5 ایم ایم کے کارتوس جیسی قدوقامت والے لوگ بھی 30 ملی میٹر کی توپیں کمر سے لٹکائے دوڑ رہے تھے بلکہ ان میں وہ بھی تھے جو اس ''مفرورہ'' کو آرام سے اپنے گھر میں پناہ دیے ہوئے تھے ۔یہاں پر ایک حقیقہ نے دُم ہلانا شروع کی ہے، سواسے بھی ساتھ لیے چلتے ہیں۔ ہماری مسجد میں ایک شخص کی قیمتی گھڑی وضو کرتے ہوئے گم ہو گئی۔ مسجد میں جو لاؤڈ اسپیکر انچارج تھا، اس نے اعلان کیا کہ فلاں کی گھڑی گم ہو گئی ہے، کسی کو ملی ہو تو لوٹا کر ثواب دارین حاصل کرے۔ کئی سال بعد لوگوں کہ پتہ چلا بلکہ خود اس کے منہ سے یہ حقیقت نکلی کہ جب وہ اعلان کر رہا تھا تو وہ گھڑی خود اس کی شلوارکے ''نیفے'' میں تھی ۔
اب یہ نازنینہ ،مہ جبینہ ،کترینہ و کرینہ کس کس کے نیفے میں تھی، اس کا تو ہمیں پتا نہیں ہے لیکن ''چغہ'' بہرحال زبردست نکلا تھا بلکہ ابھی تک نکلا ہوا ہے۔ ہر طرف سے دوڑو بھاگو پکڑو جکڑو کا شور اٹھ رہا ہے ۔ ایسے میں ہمیں تو پکا پکا یقین ہو گیا ہے کہ بچاری کو یا تو ٹکڑے ٹکڑے کرکے چیل کوؤں کو کھلا دیا ہو گا ،کہیں گاڑ کر کیڑوں کی خوراک بنایا گیا ہو گا یا وہ خود کسی عاشق جانثار کی مدد سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی' ہو گی اور یہ کچھ ایسا مشکل بھی نہ تھا جس ''چھلنی'' میں ہرسائز اور ٹائپ کے سوراخ ہوں، جہاں نیب وریب کو مطلوب لوگ راتوں رات انگلینڈ 'دبئی پہنچ جاتے ہیں جہاں اسلام آباد سے کوئی عام آدمی نہیں بلکہ پولیس کا ایک بڑاافسر اغوا ہو کرکسی سلیمانی ٹوپی کے نیچے افغانستان پہنچ جاتا ہو۔
وہ بھی مرا ہوا ۔وہاں ایسی دلربا خوش ادا رخ زیبا کو ہزاروں لوگ مدد کرنے کو مل گئے ہوں گے اور وہ نہ جانے کس جہاں میں کھو گئی ہو گی اور اس میں ہمارے لیے دکھ کا پہلو یہ تھا کہ وہ نازنین جس کے جلوے سن سن کر ہم کسی پرانے شہزادے کی طرح اس ''رخ نادیدہ'' کے عاشق ہو گئے اور تمنا تھی کہ ایک بار اسے دیکھ کر دل کو سرور آنکھوں کو نور اور ذہن کو فتور بخش دیں، یعنی''انا کی تمنا ہے کہ ہیرا مجھے مل جائے''یا جیون میں ایک بار آنا سنگاپور۔ لیکن افسوس کہ یہ نہ تھی ہماری قسمت۔۔۔ایک پشتو ٹپہ ہے کہ جن کی قسمت میں ملنا نہیں لکھا ہوتا، وہ ایک ہی گلی میں آگے پیچھے ہو جاتے ہیں بیچارے ۔دراصل یہ دل کم بخت جسے آج کل پڑوسی ملک میں طرح طرح کے نام د یے جا رہے ہیں، بد تمیز کم بخت لوفر بدمعاش غنڈہ وغیرہ۔۔اس میں عشق کا جو پودا اگتا ہے اس کا ''بیج'' دراصل نارسائی میں ہوتا ہے، ہمارا عشق یا اس نازنینہ سے ملنے کی خواہش بھی ''نارسائی'' ہی سے اُگی ہوئی تھی کہ زندگی میں کبھی اس حسن جہاں سوز'دل افروز اور روح پرور حسینہ سے ملاقات نہیں ہوتی جب کہ اس کے قصے اور حسن و جمال کے چرچے روز سنتے تھے ۔
انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ جس چیز تک رسائی نا ممکن یا مشکل ہو اس کا شیدائی ہو جاتا ہے ، جیسے روزے میں بعض لوگ ایسی چیزیں بھی کھایا کرتے ہیں جنھیں عام حالات میں چھونے کی خواہش بھی نہیں ہوتی ۔ ایک آدمی کسی پر عاشق ہوتا ہے تو خودکشی تک کے لیے تیار ہو جاتا ہے لیکن جب وہ مل جاتی ہے تو پھر یہاں وہاں نین مٹکانے شروع کر دیتا ہے۔ جناب مشتاق احمد یوسفی نے کسی جگہ لکھا ہے کہ ایک جگہ ''عرب شیوخ'' کی کوئی مجلس تھی۔ سارے شیخ اپنے اپنے گاؤتکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے لیکن دوسروں کے ''گاؤ تکیوں'' کو آنکھ مار رہے تھے کیونکہ یہ ''گاؤتکیے''کسی اور چیز کے بنے ہوئے نہ تھے بلکہ زندہ حسینائیں یا کنیزیں تھیں۔گویا حاصل اور دستیاب ''گاؤتکیہ'' رسائی میں ہونے کی وجہ سے اپنی کشش کھو بیٹھا ہے، چاہے وہ کتنا ہی خوبصورت اور نرم وگرم کیوں نہ ہو۔
ایسی ہی نارسائی نے ہمیں بھی اس حسینہ نازنینہ کا نادیدہ عاشق بنایا ہوا تھا اور اس سے ملاقات کے لیے ہر ممکن کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ بچاری کے خلاف یہ کم بخت ''چغہ'' نکلا اور ہماری ساری امیدوں اور تمناؤں کو خون خون کر دیا ۔اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ اس نا امیدی اور حسرت زدگی میں جب اچانک وہ ہمارے سامنے آئی تو ہماری کیا حالت ہو گئی ہو گی۔شادی مرگ تو اس کے لیے بہت ہلکا نقطہ ہے ۔وہ ہمارے سامنے تھی، اپنی تمام حشرسامانیوں ، جلوہ آرائیوں اور غارت گریوں سمیت۔
پوچھا یہ کیا؟ وہاں تمہارے خلاف نہایت ہی خطرناک ''چغہ'' نکلا ہوا ہے اور یہاں تم کھلے عام پھر رہی ہو۔ بولی اس لیے کہ اب مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے، ہاں پہلے میں اکثر خوفزدہ رہا کرتی تھی کہ لوگ میرے خلاف برے برے بول بولا کرتے تھے لیکن اب کوئی خطرہ نہیں۔
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر یہ ماجراکیا ہے۔ پوچھا تو جلترنگ سی بجاتی ہوئی بولی۔قربانی اللہ کو پیاری ہے۔ قربانی تمام آفات و بلیات کو دور رکھتی ہے، میں نے بھی قربانی دے دی ہے ۔
کب کہاں کیسے ؟ بولی تمہیں پتہ ہے، ہمارے لیڈروں پر کوئی آفت کیوں نہیں ؟
اس لیے کہ وہ ہر وقت قربانیاں دیتے رہتے ہیں۔ ہر رنگ کی، ہر قسم کی خون کے آخری قطرے کی؟
ہم نے کہا مگر وہ تو دوسروں کی قربانی دیتے اور آخری قطرہ خون کہاں دیتے ہیں۔
بولی، قربانی ہمیشہ دوسروں کی 'کالے بکرے سفید دنبے یا گائے کی دی جاتی ۔قربانی دینے والا اگر خود کو قربان کرے تو پھر فائدہ کیا؟
تم نے کس کو قربان کیا ۔ایک ادا سے بولی، تھا ایک بکرا ۔ ہم سمجھ گئے مگر وہ تو کالا نہ تھا ۔بولی ،کالا رنگ اتنا مہنگا تو نہیں کہ کسی بکرے کو بھی کالا نہ کیاجا سکے ۔