کیا حکومت پنجاب پولیس کلچر تبدیل کرنے میں سنجیدہ ہے

برطانوی طرزکے پولیس نظام کا بنیادی مقصد لوگوں کو طاقت اور خوف کے زور پر قابو میں رکھنا تھا

برطانوی طرزکے پولیس نظام کا بنیادی مقصد لوگوں کو طاقت اور خوف کے زور پر قابو میں رکھنا تھا

برصغیر پر قبضے کے بعد برطانوی حکومت نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور مقامی آبادی کو جارحانہ انداز میں کنٹرول کرنے کیلئے پولیس نظام یہاں متعارف کروایا تھا۔ برطانوی طرزکے پولیس نظام کا بنیادی مقصد لوگوں کو طاقت اور خوف کے زور پر قابو میں رکھنا تھا چنانچہ یہ نظام کبھی بھی عوام دوست نہیں ہو سکا۔

انگریز تو چلا گیا لیکن آج بھی پاکستان میں رائج پولیس نظام کا اکثریتی حصہ برطانوی پولیس نظام پر ہی چل رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پبلک ڈیپارٹمنٹ ہونے کے باوجود محکمہ پولیس کو عوام کی جانب سے تعاون اور حمایت حاصل نہیں ہے جس کی سب سے بڑی وجہ پولیس کا عوام کے ساتھ برتاو ہے۔

قیام پاکستان سے اب تک اقتدار میں آنے والی تمام حکومتیں پاکستان کے حالات اور عوام سے مطابقت رکھنے والا پولیس نظام متعارف کروانے میں ناکام رہی ہیں۔ اس حوالے سے ایک بڑی کوشش 2002 ء میں پولیس آرڈر کے ذریعے کی گئی تھی لیکن سیاسی مداخلت اور نیک نیتی کے ساتھ عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے یہ پولیس آرڈر اپنی افادیت کھو چکا، میاں شہباز شریف نے 2010 میں پنجاب پولیس آرڈر متعارف کروایا لیکن اس کا انجام بھی ناکامی کی صورت میں سامنے آیا۔

فوجی آمر ہوں یا ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے حکمران، سب نے پولیس کو اس شدت کے ساتھ ''سیاست زدہ'' کیا کہ آج پولیس کا محکمہ ڈسپلنڈ اور کرائم فائٹر فورس سے زیادہ سیاسی جماعت معلوم ہوتا ہے، ایس ایچ او سے لیکر آئی جی تک ہر افسر کی کسی نہ کسی سیاسی جماعت یا سیاستدان کے ساتھ گہری سیاسی وابستگی اور وفاداری ہے جس کے عوض وہ پرکشش پوسٹنگ لیتا ہے۔ سول بیوروکریسی میں جس طرح سے چیف سیکرٹری سمیت محکمانہ سیکرٹریوں کی انتظامی اتھارٹی کو سیاستدانوں نے کمزور بنادیا ہے بالکل ویسے ہی پولیس کے آئی جی کی محکمانہ سربراہی اور اختیار، سیاسی مداخلت تلے روندا جا رہا ہے۔

''نئے پاکستان '' میں پولیس فورس کے اندر میرٹ، پیشہ ورانہ استعداد اور ساکھ کو نظر انداز کر کے ٹرانسفر پوسٹنگ ہو رہی ہیں،گو کہ تحریک انصاف کے حکمران مسلسل یہ دعوے کر رہے ہیں کہ وہ پولیس کے اندر ٹرانسفر پوسٹنگ سے ''لاتعلق'' ہیں اور آئی جی کو'' فری ہینڈ'' حاصل ہے لیکن ملک کی سب سے بڑی پولیس فورس پنجاب میں ہے اور گزشتہ چار ماہ کے دوران اس میں ہونے والی زیادہ تر تقرریاں و تعیناتیاں سیاسی بنیادوں پر ہوئی ہیں، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان اپنی سیاست کے آغاز سے ہی پاکستان بالخصوص پنجاب کے تھانہ اور پٹوار کلچر پر شدید تنقید کرتے آرہے ہیں اور انہوں نے اپنے سیاسی سفر میں پولیس کی زیادتیوں کو بھی سہا ہے۔


2013 ء کے الیکشن کے بعد جب تحریک انصاف کو صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت ملی تو اس وقت بھی عمران خان کا سب سے زیادہ ارتکاز پولیس کلچر کی تبدیلی پر تھا لیکن پانچ برس کی انصافین حکومت کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں تو عمران خان خیبر پختونخوا کی پولیس کو 20 یا25 فیصد سے زیادہ ٹھیک نہیں کر سکے اور یہ تبدیلی بھی صرف پشاور اور نوشہرہ جیسے چند بڑے شہروں میں ہی دیکھنے میں آئی ورنہ کے پی کے میں مجموعی طور پر پولیس کا رویہ آج بھی ویسا ہی ہے جیسا 2013 ء میں تھا۔کے پی کے پولیس کو تبدیل کرنے کے حوالے سے عمران خان اور ان کی جماعت کے دعوے اور ناصر درانی کی شان میں قصیدے اپنی جگہ لیکن اس صوبہ کے عوام کی اکثریت آج بھی پولیس کے حوالے سے پرانے شکوے شکایات کے ساتھ کرتی دکھائی دیتی ہے۔

موجودہ الیکشن کے بعد تحریک انصاف کو کمزور ہی سہی لیکن پنجاب میں بھی حکومت مل چکی ہے اور پنجاب حکومت کے 100 دن کو گزرے بھی 10 دن گزر چکے ہیں جن میں عوام کی پریشانیوں، معاشی مشکلات اور خوف وہراس میں اضافہ کے علاوہ کچھ خاص تبدیلی دکھائی نہیں دی ہے۔ الیکشن سے قبل اور بعد میں عمران خان اور وزیر اعلی سردار عثمان بزدار نے سینکڑوں مرتبہ پنجاب پولیس کا کلچر تبدیل کرنے کا ''دبنگ'' اعلان کیا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس مرتبہ بھی تحریک انصاف کو پولیس کلچر کو تبدیل کرنے میں کوئی قابل ذکر کامیابی ملنے کا امکان نہیں ہے یا پھر شاید،دیگر سیاسی جماعتوں کی مانند تحریک انصاف بھی نمک کی کان میں آ کر نمک ہونے کے بعد پولیس کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی غرض سے سنجیدہ نہیں ہے۔

پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہر جمہوری اور غیر جمہوری حکومت نے اپنے اقتدار کو محفوظ کرنے اور سیاسی مخالفین کو دبانے کیلئے پولیس کا استعمال کیا ہے اور دلچسپ حقیقت تو یہ ہے کہ جو سیاستدان اپوزیشن میں رہتے ہوئے سڑکوں پر پولیس کی لاٹھیاں اور ٹھڈے کھاتے ہیں،گرفتاریاں برداشت کرتے ہیں ، جب وہ خود اقتدار میں آتے ہیں تو وہی سب کچھ اس وقت کی اپوزیشن کے ساتھ کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ پنجاب میں پولیس کلچر تبدیل کرنے کیلئے ناصر درانی کی سربراہی میں قائم کمیٹی تو اس دن ٹوٹ گئی تھی جب حکومت نے محمد طاہر کو آئی جی کے عہدے سے ہٹا کر امجد سلیمی کو آئی جی تعینات کیا تھا،کچھ دن قبل حکومت نے پولیس اصلاحات کیلئے سابق آئی جیز پر مشتمل ایک نئی''کمیٹی ''ڈالی ہے جو نجانے کب نکلے گی۔ امجد سلیمی کا سروس کیریئر عمدہ رہا ہے۔

اسی لئے ان کی تعیناتی سے سنجیدہ حلقوں کو بہت توقعات تھیں لیکن ابتک کی صورتحال بہت مایوس کن ہے، امجد سلیمی پر موجود سیاسی دباو ایک حقیقت ہے لیکن ملک کی سب سے بڑی پولیس فورس کے سربراہ کی حیثیت سے سیاسی دباو کا سامنا کرتے ہوئے پولیس کلچر تبدیل کرنے اور عوام کو سہولت و آسانی فراہم کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنا تو امجد سلیمی کے اختیار میں ہے لیکن یہ کوشش ان کی جانب سے دکھائی نہیں دے رہی ہے بلکہ پولیس کے سینئر افسروں میں آئی جی پنجاب کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور حکومت کے اہم حلقوں میں بھی منفی تاثر پھیل رہا ہے۔ نئے پاکستان کی پرانی پولیس کے ہاتھوں آج بھی تھانوں میں قانون نیلام ہو رہا ہے۔

تھانہ کی ماں یعنی محرر بادشاہ کے کندھوں پر تھانے کے ''خرچے'' پورے کرنے کا دباو آج بھی موجود ہے جسے تھانے آنے والے غریب لوگوں سے پیسے نکلوا کر پورا کیا جاتا ہے۔ جھوٹے مقدمات درج کروانے ہوں یا سچے مقدمات خارج کروانا ہوں، ہر کام کے نرخ مقرر ہیں، سڑکوں پر پولیس کے شیر جوان ناکے لگا کر ''ریونیو'' وصولی جاری رکھے ہوئے ہیں اور ابھی تو ماضی قریب میں پنجاب حکومت کے اہم وزیر میاں محمود الرشید کے بیٹے کو بھی پولیس گردی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

کم تعداد میں ہی سہی لیکن پنجاب پولیس میں اس وقت بھی پیشہ ورانہ قابلیت اور ذہانت رکھنے والے افسر موجود ہیں جن کو اگر حقیقی معنوں میں سیاسی مداخلت سے آزاد کردیا جائے تو پولیس فورس اپنا اصل کام ''پولیسنگ'' بخوبی انجام دے سکتی ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلی کو بھی سیاسی مداخلت کے الزامات کا سامنا سپریم کورٹ میں کرنا پڑ چکا ہے لہذا ابھی وقت ہے کہ ''تبدیلی'' لانے میں مکمل نہ سہی کچھ تو سنجیدگی دکھائی جائے اور پولیس کو بتلایا اور سکھایا جائے کہ انگریز دور کب کا ختم ہو چکا اب جمہوریت کا زمانہ ہے لہذا قانون کوعملداری اور عوام کو عزت دی جائے۔
Load Next Story