ضمنی الیکشن حکومت کی اتحادی ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کامیاب
بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی26 کے ضمنی انتخاب میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے اُمیدوار قادر نائل کامیاب ہوگئے
بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی26 کوئٹہ تھری کے ضمنی انتخاب میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے اُمیدوار قادر نائل کامیاب ہوگئے۔ یہ نشست ایچ ڈی پی کے احمد کوہزاد کی جعلی قومی شناختی کارڈ کے باعث نااہلی کی وجہ سے خالی قرار دے دی گئی تھی جس پر ضمنی الیکشن میں کانٹے دار مقابلہ ہوا۔ بلوچستان اسمبلی کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے اس نشست پر یکجا ہو کر الیکشن لڑا۔ متحدہ اپوزیشن کے اُمیدوار ایم ایم اے کے مولانا ولی ترابی تھے جو کہ25 جولائی کے عام انتخابات میں بھی اس نشست پر ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے مدمقابل تھے اور دوسرے نمبر پر آئے تھے۔
اس ضمنی انتخاب میں سیاسی جماعتوں خصوصاً اپوزیش جماعتوں نے زیادہ فوکس کیا ہوا تھا، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی جماعت ہے اور مخلوط حکومت کا حصہ ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن نے اس ضمنی انتخاب کو اس لئے بھی متحد ہو کر بڑی سنجیدگی سے لڑا کہ اسے توقع تھی کہ یہ نشست ضمنی الیکشن میں اپوزیشن بنچوں کو مل جائے گی۔
جس کیلئے تمام اپوزیشن جماعتوں نے ملکر زور بھی لگایا اور زبردست کمپیئن بھی کی۔ سیاسی حلقوں کے مطابق یہ ضمنی الیکشن اپوزیشن جماعتوں کیلئے اس لئے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ اپوزیشن جماعتیں صوبے میں جلد ہی تبدیلی لانے کیلئے ہوم ورک کر رہی ہیں اور اُن کی کوشش تھی کہ وہ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں میں عددی اضافہ کر کے اپنی سیاسی پوزیشن کو مزید مستحکم بنائیں تاکہ مخلوط حکومت پر دباؤ بڑھ سکے۔
بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک و شبے والی بات نہیں کہ یہ ضمنی الیکشن گو کہ صرف ایک نشست پر تھا لیکن یہ ایک نشست مستقبل میں موجودہ صوبائی حکومت پر سیاسی برتری حاصل کرنے میں بارش کا پہلا قطرہ بھی ثابت ہوسکتی تھی؟ اسی لئے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے اس نشست پر اپنی اتحادی ایچ ڈی پی کے اُمیدوار کی بھرپور حمایت کی اور نہ صرف اپنا اُمیدوار دستبردار کروایا بلکہ کوشش کی کہ دوسری اتحادی جماعتوں کی بھی حمایت حاصل کی جائے۔ حکمران جماعت کی دوسری اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے پہلے ہی اس ضمنی الیکشن پر ایچ ڈی پی کی حمایت کا اعلان کیا تھا بلکہ اس نے 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں بھی ایچ ڈی پی کی حمایت کی تھی۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق حکومتی اتحاد نے اپوزیشن اتحاد کو اس ضمنی انتخاب میں شکست دے کر سیاسی برتری حاصل کر لی ہے جس کے یقیناً اسی ماہ پشتونخوامیپ کے سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل کے انتقال سے خالی ہونے والی سینیٹ کی نشست کے انتخاب پر بھی اثرات مرتب ہونگے۔
سینیٹ کی اس نشست پر حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے پارٹی کے سیکرٹری جنرل منظور احمد کاکڑ کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی جس کا بلوچستان اسمبلی میں صرف ایک رکن ہے کی کوشش ہے کہ وہ سینیٹ کی اپنی یہ نشست برقرار رکھے جس کیلئے اُس نے اپوزیشن جماعتوں بی این پی اور ایم ایم اے سے بھی مدد طلب کی ہے جن کی بلوچستان اسمبلی میں تعداد بالترتیب10 اور11 ہے۔ ایم ایم اے نے پارٹی ٹکٹ عبدالواحد آغا کو جاری کیا ہے جبکہ بی این پی نے غلام نبی مری کو ٹکٹ دیا ہے۔ اسی طرح حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے مضبوط اُمیدوار ڈاکٹر عنایت اﷲ کو میدان میں اُتارا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق سینیٹ کی اس نشست پر جو صورتحال دکھائی دے رہی ہے اس کے مطابق اپوزیشن جماعتیں ایم ایم اے اور بی این پی سینیٹ کا انتخاب بھی متحد ہو کر لڑیں اور اپنا مشترکہ اُمیدوار میدان میں لائیں، اسی طرح حکمران جماعت بی اے پی کے اُمیدوار منظور کاکڑ کی پوزیشن مستحکم دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ان کی اتحادی جماعت تحریک انصاف نے اُن کی حمایت کا پہلے ہی اعلان کردیا تھا۔ بلوچستان عوامی پارٹی عددی لحاظ سے بلوچستان اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت ہے جس کے ارکان کی تعداد 24 ہے۔
تحریک انصاف کے7 ارکان ہیں اسی طرح بی این پی عوامی کے تین ارکان بھی بی اے پی کو سپورٹ کرتے ہیں تو منظور کاکڑ باآسانی کامیاب ہوجائیں گے۔ تاہم بی اے پی کی دیگر دو اتحادی جماعتیں اے این پی اور ایچ ڈی پی کیا فیصلہ کرتی ہیں یہ آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا؟ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بی اے پی کی یہ دونوں اتحادی جماعتیں اے این پی اور ایچ ڈی پی جو بھی فیصلہ کریں گی وہ مشترکہ طور پر کریں گی کیونکہ اے این پی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کا اتحاد عام انتخابات سے قبل تشکیل پایا تھا جس میں تیسری جماعت بی این پی تھی۔ عام انتخابات میں بی این پی سہ جماعتی اتحاد سے الگ ہو گئی تھی جبکہ عام انتخابات اور اب ضمنی انتخاب میں اے این پی نے ایچ ڈی پی کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر اے این پی اور ایچ ڈی پی نے اتحادی جماعت بی اے پی کے اُمیدوار کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا تو پھر منظور کاکڑ کی کامیابی یقینی ہو گی۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بعض وزراء کے محکموں میں ردوبدل کا فیصلہ کر لیا ہے اور پہلے مرحلے میں دو وزراء میر ضیاء اﷲ لانگو اور میر سلیم کھوسہ کے محکموں میں ردوبدل کرتے ہوئے میر ضیاء اﷲ لانگو کو وزیر داخلہ و پی ڈی ایم اے کا قلمدان سونپ دیا اس سے قبل اُن کے پاس محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کا قلمدان تھا جبکہ سلیم کھوسہ جن کے پاس وزارت داخلہ و پی ڈی ایم اے کا قلمدان تھا انہیں ریونیو کی وزارت کا قلمدان دیا گیا ہے اسی طرح بی این پی عوامی کے صوبائی وزیر میر اسد بلوچ سے محکمہ خوراک کا قلمدان واپس لے لیا گیا ہے جبکہ ان کے پاس ابھی کوالٹی ایجوکیشن اور سوشل ویلفیئر کے محکموں کے قلمدان ہیں جبکہ مزید وزراء کے بھی محکموں میں ردوبدل کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق میر ضیاء اﷲ لانگو جو کہ اس سے قبل میر عبدالقدوس بزنجو کی سابق حکومت میں معاون خصوصی برائے خوراک تھے اور 25 جولائی کے انتخابات میں قلات خالق آباد سے کامیاب ہو کر آئے ہیں اور جام کمال کی کابینہ میں وزیر جنگلات و جنگلی حیات کے منصب پر فائز تھے کو اہم وزارت داخلہ کا قلمدان سونپا گیا ہے میر ضیاء اﷲ لانگو سلجھے ہوئے نوجوان ہونے کے ساتھ ساتھ باصلاحیت سیاستدان بھی ہیں یاد رہے کہ انہیں سیاست ورثے میں ملی ہے اُن کے والد میر عبدالخالق لانگو شہید کا صوبے کی سیاست میں ایک بڑا مقام رہا ہے جبکہ ان کے بڑے بھائی میر خالد لانگو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور پھر نواب ثناء اﷲ زہری کے دور اقتدار میں وزارت خزانہ جیسے اہم محکمے کے مشیر رہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو کس حد تک سنبھالتے ہیں یقیناً یہ قلمدان ان کے مستقبل کی سیاست کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ثابت ہوگا ۔
اس ضمنی انتخاب میں سیاسی جماعتوں خصوصاً اپوزیش جماعتوں نے زیادہ فوکس کیا ہوا تھا، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی جماعت ہے اور مخلوط حکومت کا حصہ ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن نے اس ضمنی انتخاب کو اس لئے بھی متحد ہو کر بڑی سنجیدگی سے لڑا کہ اسے توقع تھی کہ یہ نشست ضمنی الیکشن میں اپوزیشن بنچوں کو مل جائے گی۔
جس کیلئے تمام اپوزیشن جماعتوں نے ملکر زور بھی لگایا اور زبردست کمپیئن بھی کی۔ سیاسی حلقوں کے مطابق یہ ضمنی الیکشن اپوزیشن جماعتوں کیلئے اس لئے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ اپوزیشن جماعتیں صوبے میں جلد ہی تبدیلی لانے کیلئے ہوم ورک کر رہی ہیں اور اُن کی کوشش تھی کہ وہ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں میں عددی اضافہ کر کے اپنی سیاسی پوزیشن کو مزید مستحکم بنائیں تاکہ مخلوط حکومت پر دباؤ بڑھ سکے۔
بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک و شبے والی بات نہیں کہ یہ ضمنی الیکشن گو کہ صرف ایک نشست پر تھا لیکن یہ ایک نشست مستقبل میں موجودہ صوبائی حکومت پر سیاسی برتری حاصل کرنے میں بارش کا پہلا قطرہ بھی ثابت ہوسکتی تھی؟ اسی لئے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے اس نشست پر اپنی اتحادی ایچ ڈی پی کے اُمیدوار کی بھرپور حمایت کی اور نہ صرف اپنا اُمیدوار دستبردار کروایا بلکہ کوشش کی کہ دوسری اتحادی جماعتوں کی بھی حمایت حاصل کی جائے۔ حکمران جماعت کی دوسری اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے پہلے ہی اس ضمنی الیکشن پر ایچ ڈی پی کی حمایت کا اعلان کیا تھا بلکہ اس نے 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں بھی ایچ ڈی پی کی حمایت کی تھی۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق حکومتی اتحاد نے اپوزیشن اتحاد کو اس ضمنی انتخاب میں شکست دے کر سیاسی برتری حاصل کر لی ہے جس کے یقیناً اسی ماہ پشتونخوامیپ کے سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل کے انتقال سے خالی ہونے والی سینیٹ کی نشست کے انتخاب پر بھی اثرات مرتب ہونگے۔
سینیٹ کی اس نشست پر حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی نے پارٹی کے سیکرٹری جنرل منظور احمد کاکڑ کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی جس کا بلوچستان اسمبلی میں صرف ایک رکن ہے کی کوشش ہے کہ وہ سینیٹ کی اپنی یہ نشست برقرار رکھے جس کیلئے اُس نے اپوزیشن جماعتوں بی این پی اور ایم ایم اے سے بھی مدد طلب کی ہے جن کی بلوچستان اسمبلی میں تعداد بالترتیب10 اور11 ہے۔ ایم ایم اے نے پارٹی ٹکٹ عبدالواحد آغا کو جاری کیا ہے جبکہ بی این پی نے غلام نبی مری کو ٹکٹ دیا ہے۔ اسی طرح حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے مضبوط اُمیدوار ڈاکٹر عنایت اﷲ کو میدان میں اُتارا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق سینیٹ کی اس نشست پر جو صورتحال دکھائی دے رہی ہے اس کے مطابق اپوزیشن جماعتیں ایم ایم اے اور بی این پی سینیٹ کا انتخاب بھی متحد ہو کر لڑیں اور اپنا مشترکہ اُمیدوار میدان میں لائیں، اسی طرح حکمران جماعت بی اے پی کے اُمیدوار منظور کاکڑ کی پوزیشن مستحکم دکھائی دے رہی ہے کیونکہ ان کی اتحادی جماعت تحریک انصاف نے اُن کی حمایت کا پہلے ہی اعلان کردیا تھا۔ بلوچستان عوامی پارٹی عددی لحاظ سے بلوچستان اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت ہے جس کے ارکان کی تعداد 24 ہے۔
تحریک انصاف کے7 ارکان ہیں اسی طرح بی این پی عوامی کے تین ارکان بھی بی اے پی کو سپورٹ کرتے ہیں تو منظور کاکڑ باآسانی کامیاب ہوجائیں گے۔ تاہم بی اے پی کی دیگر دو اتحادی جماعتیں اے این پی اور ایچ ڈی پی کیا فیصلہ کرتی ہیں یہ آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا؟ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بی اے پی کی یہ دونوں اتحادی جماعتیں اے این پی اور ایچ ڈی پی جو بھی فیصلہ کریں گی وہ مشترکہ طور پر کریں گی کیونکہ اے این پی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کا اتحاد عام انتخابات سے قبل تشکیل پایا تھا جس میں تیسری جماعت بی این پی تھی۔ عام انتخابات میں بی این پی سہ جماعتی اتحاد سے الگ ہو گئی تھی جبکہ عام انتخابات اور اب ضمنی انتخاب میں اے این پی نے ایچ ڈی پی کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ ان سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر اے این پی اور ایچ ڈی پی نے اتحادی جماعت بی اے پی کے اُمیدوار کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا تو پھر منظور کاکڑ کی کامیابی یقینی ہو گی۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بعض وزراء کے محکموں میں ردوبدل کا فیصلہ کر لیا ہے اور پہلے مرحلے میں دو وزراء میر ضیاء اﷲ لانگو اور میر سلیم کھوسہ کے محکموں میں ردوبدل کرتے ہوئے میر ضیاء اﷲ لانگو کو وزیر داخلہ و پی ڈی ایم اے کا قلمدان سونپ دیا اس سے قبل اُن کے پاس محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کا قلمدان تھا جبکہ سلیم کھوسہ جن کے پاس وزارت داخلہ و پی ڈی ایم اے کا قلمدان تھا انہیں ریونیو کی وزارت کا قلمدان دیا گیا ہے اسی طرح بی این پی عوامی کے صوبائی وزیر میر اسد بلوچ سے محکمہ خوراک کا قلمدان واپس لے لیا گیا ہے جبکہ ان کے پاس ابھی کوالٹی ایجوکیشن اور سوشل ویلفیئر کے محکموں کے قلمدان ہیں جبکہ مزید وزراء کے بھی محکموں میں ردوبدل کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق میر ضیاء اﷲ لانگو جو کہ اس سے قبل میر عبدالقدوس بزنجو کی سابق حکومت میں معاون خصوصی برائے خوراک تھے اور 25 جولائی کے انتخابات میں قلات خالق آباد سے کامیاب ہو کر آئے ہیں اور جام کمال کی کابینہ میں وزیر جنگلات و جنگلی حیات کے منصب پر فائز تھے کو اہم وزارت داخلہ کا قلمدان سونپا گیا ہے میر ضیاء اﷲ لانگو سلجھے ہوئے نوجوان ہونے کے ساتھ ساتھ باصلاحیت سیاستدان بھی ہیں یاد رہے کہ انہیں سیاست ورثے میں ملی ہے اُن کے والد میر عبدالخالق لانگو شہید کا صوبے کی سیاست میں ایک بڑا مقام رہا ہے جبکہ ان کے بڑے بھائی میر خالد لانگو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور پھر نواب ثناء اﷲ زہری کے دور اقتدار میں وزارت خزانہ جیسے اہم محکمے کے مشیر رہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو کس حد تک سنبھالتے ہیں یقیناً یہ قلمدان ان کے مستقبل کی سیاست کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ثابت ہوگا ۔