ایف بی آر میں ملی بھگت سے ٹیکس چوری معمول بن گئی

اے ڈی لاہور خالد سلطان اورینٹ اور بسم اللہ ٹریڈنگ سے20 کروڑ رشوت لینے میں ملوث

عام طور پر50 ہزار یا ایک لاکھ دیے جاتے ہیں،اتنی بڑی رقم دینے کا علم نہیں،ڈائریکٹر اورینٹ۔ فوٹو: فائل

فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں افسروں اور ٹیکس گزاروں کی ملی بھگت سے ٹیکس چوری معمول بن چکی ہے۔

ایف بی آر کا اسسٹنٹ ڈائریکٹر انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن لاہور خالد سلطان اورینٹ الیکٹرانکس اور بسم اللہ ٹریڈنگ کارپوریشن سے20کروڑ روپے رشوت لینے میں ملوث پایا گیا ہے۔ جس پر اسے عہدے سے ہٹاکر مزید تحقیقات کیلئے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے ۔ ڈائریکٹر جنرل انٹلیجنس اینڈ انویسٹی گیشن سید اعجاز حسین نے خالد سلطان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اورینٹ الیکٹرانکس اور بسم اللہ ٹریڈنگ کے بے نام اکائونٹس ملے جس پر انٹلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ونگ کی جانب سے مزید تحقیقات کی گئی، تاہم دوران تفتیش اسسٹنٹ ڈائریکٹر خالد سلطان نے رشوت لے لی، اس بارے میں شکایات ملنے پر ایف بی آر نے تحقیقات کرائی جس میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے خلاف شواہد بھی ملے ہیں ، ڈی جی انٹلیجنس اینڈ انویسٹی گیشن نے خالد سلطان سے فوری چارج لینے اور ڈپٹی ڈائریکٹر سعد وقاص کو متعلقہ کیس کا ریکارڈ قبضے میں لینے کی ہدایت بھی کی ہے ۔




یہ افسر پہلے بھی2011میں رشوت لینے کے اقدامات میں ملوث رہا، اس کے علاوہ اس کے خلاف ٹیکس گزاروں سے رشوت لینے اور ہراساں کرنے کی بھی شکایات ملی ہیں ۔ ڈی جی آئی اینڈ آئی نے فوری طور پر کرپشن میں ملوث افسر اور کمپنیوں کیخلاف تحقیقات کرکے کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس بارے میں جب اورینٹ الیکٹرانکس کے ڈائریکٹر احمد فاضل سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ ابھی مصروف ہیں اور فی الحال کچھ نہیں بتاسکتے ہیں۔ بعدازاں دوبارہ رابطہ کرنے پر انہوں نے کہا کہ وہ ایف بی آر کے افسر خالد سلطان کو نہیں جانتے، میرا تعلق سیلز اور مارکیٹنگ سے ہے، میرے بڑے بھائی طلعت صاحب فنانس ، ٹیکس اورکسٹم کے معاملات ڈیل کرتے ہیں، وہ اس بارے میں ان سے پوچھیں گے کہ کیا انھوں نے اتنی بڑی رقم رشوت میں دی ہے ۔ ویسے تو معمول کے مطابق مختلف محکموں کے لوگ50ہزار یا ایک لاکھ روپے تک لے جاتے ہیں۔ اگر اتنی بڑی رقم دی جاتی تو یہ بات میرے علم میں ضرور ہوتی۔
Load Next Story