بھارتی اپوزیشن کامن موہن سنگھ کی مستعفی ہونےتک پارلیمنٹ کی کاروائی مسترد

من موہن سنگھ کی ساکھ کو’’مسٹر کلین‘‘کےطورپرجانا جاتا ہے،انہیں اپنے حکومت کی دوسری مدت میں اسکینڈلوں نے گھیرا ہوا ہے۔


AFP August 22, 2012
گزشتہ جمعہ شائع کی گئی رپورٹ میں قومی آڈیٹر نے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو جرائم میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی۔

ISLAMABAD:

جب تک وزیر اعظم کوئلے کے اسکینڈل کی بنا پرمستعفی نہیں ہو جاتے تب تک بھارت کی حزب اختلاف نے پارلیمانی کارروائی کو روکنے کے لئے قسم کھائی ہے، قانون سازی کے تعطل اورسیاسی اصلاحات کو روکنے کی امکانات میں اضافہ ہورہا ہے۔


گزشتہ جمعہ کو شائع کی گئی رپورٹ میں وزیر اعظم منموہن سنگھ کو قومی آڈیٹر نے جرائم میں ملوث قرار دیا گیا تھا، جس میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ کوئلے کی کان کنی کے حقوق کو نظر انداز کر کے حکومت کو اربوں ڈالر کی آمدنی کا نقصان ہوا ہے۔


من موہن سنگھ کی ساکھ کو ''مسٹر کلین'' کے طور پرجانا جاتا ہے، انہیں اپنے حکومت کی دوسری مدت میں اسکینڈلوں کے ایک تار نے گھیرا ہو ہے۔ وزیراعظم من موہن سنگھ نے 2004 سے 2009 تک کوئلہ کے ایکٹنگ وزیر کے طور پر خدمات انجام دیں تھیں۔


سینئر حزب اختلاف کے رہنما ارون جیٹلی نے کہا ہے کہ جب تک 79 سالہ سنگھ اپنی ذاتی ذمہ داری قبول نہیں کرتا اور مستعفی نہیں ہوتا تب تک ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پارلیمانی کارروائی روکے گی۔


جیٹلی نے ٹائمز ٹی وی چینل کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو ملتوی کی گئی ہے،انہوں نے مزید کہا کہ'' پارلیمانی خلل اندازی کو عام طور پر گریز کیا جائے۔''


جس طرح بات آگے بڑھی ہے اس کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نے اپنا جرم کو قبول کرنا چاہیے۔ وجہ بلکل واضح ہے، آڈیٹر کی تجزیہ مطابق آٹھ سال میں سے پانچ سال کے لئے وہ خود کوئلہ کے وزیر تھا۔


پارلیمنٹ میں خلل ڈالنے کی دھمکی عام طور پر بھارت کی معیشت کا بری طرح ڈگمگانے کی وجہ سے ہے، حکومت کی وجہ سے ہونے والی نقصان کا اعتماد بحال کرنے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینےکے لئے سرمایہ کار اور کاروباری رہنما ایک فیصلہ کن کارروائی کے لئے تلاش کر رہیں ہیں۔


سال 2010 میں، بی جے پی اور حزب اختلاف کے اتحادیوں نے ایک ساتھ 22 کاروباری دنوں کی قانون سازی کو ملتوی کراتے ہوئے پارلیمنٹ کے ایک پورے سیشن کو بند کرا دیا تھا۔


کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شفافیت اور مقصد بھری ہوئی عمل کے ذریعے کان کنی کے حقوق دیئے جانے کے بعد نجی کمپنیوں میں 2004 سے تقریبا 33.4 ارب ڈالر کی کامیابی حاصل کی تھی۔


سی اے جی نے کہا کہ حکومت کی نجی کمپنیوں سے بھاری منافع حاصل کرنے کو وجہ سے شہرت تھی۔ لیکن قومی خزانے کی آمدنی میں اضافہ کرنے والی ایک کھلی بولی کے عمل کو متعارف کرانے میں ناکام رہی تھی۔


رپورٹ کرپشن کی کوئی الزامات یا مجرمانہ طرز عمل پر مشتمل نہیں تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں