صنعتی پھیلاؤ، آبادی میں اضافہ سے بڑھتی آلودگی، سمندروں اور دریاؤں کو آلودہ کر نے کا عمل اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی سمیت دیگر قدرتی وسائل کے غیر دانشمندانہ ا ستعمال سے ما حولیاتی بگاڑ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ 1750 میں آنے والے صنعتی انقلاب نے جہاں انسانوں کو آرام وآسائش
سے بھرپور حیات عطا کی، وہیں ماحولیاتی آلودگی سے بھی دوچار کروایا۔ صنعتوں اور کارخانوں سے نکلنے والا دھواں جو کلورو فلورو کاربن، کاربن ٹیٹرا کلورائیڈ، ہیلون اور میتھائل برومائیڈ وغیرہ۔
جیسے کیمیائی عناصر کا مرکب ہوتا ہے، آبی بخارات سے مل کر سینکڑوں میل دور تک تیزابی بارشوں اور اوزون کی تہہ میں شگاف کا سبب بن رہا ہے جس کے نتیجے میں جہاں مویشی مر رہے ہیں، پرندوں کی نسلیں معدوم ہورہی ہیں، انسان طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ وہیں زمینی درجہ حرارت میں اٖضافے سے زیر زمین پانی کے ذخائر کم ہورہے ہیں. قطبین کی برف پگھل رہی ہے، سمندروں کی بلند ہوتی سطح نشیبی علاقوں کی زرخیز زمینوں کو نگل رہی ہے۔ مالدیپ اور ٹونگا جیسے جزیرے نیو یارک اور ٹوکیو جیسے شہر سمندر میں غرقابی کے خطرے سے دوچار ہیں۔
ورلڈ میٹرولوجیکل وآرگنائیزیشن کے مطابق 2018 میں عالمی درجہ حرارت میں 0.98 سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے جس کی بنا پر ممکن ہے کہ 2018 چوتھا سب سے گرم ترین سال قرار دیا جائے۔
فصلوں سے بچ جانے والا کچرا یعنی ٹہنیوں، جڑوں، پتوں اور دوسری ا شیاء کے گلنے سڑنے، صنعتی شعبوں، ٹرانسپورٹ کے شعبوں، بجلی گھروں اور گھروں میں کھانا پکانے کے لیے استعمال کیے جانے والے کوئلے تیل اور گیس کی وجہ سے فضا میں کاربن ڈائی آکسا ئیڈ، کاربن مونو آکسا ئیڈ اور میتھین جیسے زہریلے مواد شامل ہوتے ہیں، جو دھواں بن کر موسمی تغیر کے باعث آب و ہوا میں تحلیل ہونے کے بجائے اسموگ بن کر شہریوں کی سانسوں میں
گھلنے کے ساتھ انسا ن کے مختلف اعضاء پر اثرانداز ہوکر دل اور پھپڑوں کے امراض، خصوصا برونکاہٹس، دمے، تپ دق اور جلدی امراض کا سبب بھی بن رہا ہے۔
1952 میں برطانیہ میں لندن دھند نامی حادثہ پیش آیا۔ حادثہ کی یہ و جہ سامنے آئی کہ ہوا میں موجود سلفر ڈائی آکسائیڈ نے ہوا میں موجود نمی کے ساتھ مل کر گندھک کا تیذاب بنا لیا جس سے 4 ہزار افراد ہلاک ہوگئے۔
اسی طرح دسمبر 1966 میں جب زہریلی ہواؤں نے امریکہ کے شہر لاس اینجلس کا رخ کیا تو ا س سے نہ صرف انسان پھپڑوں اور سانس کی تکلیف میں مبتلا ہوئے، بلکے نباتات کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
اس کے علاوہ اور بہت سے واقعات اور حادثات رونما ہوئے مگر ماہرین کی نظروں میں یہ واقعات شاید اتنے سنگین نہ ہوں، کیونکہ موسمی خرابی کے کچھ تانے بانے سیاست کے کھیل تماشوں سے جڑتے ہیں۔ اس لیے کہ دنیا میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ صنعتی ترقی یافتہ اور تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں امریکہ، چین، روس، جاپان اور بھارت کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات جن میں اسٹاک ہوم کانفر نس 1972ُُٰ، پیرس کانفرنس 1989، ریوارتھ کانفر نس 1992، زہریلی گیسوں کا معاہدہ 1997 وغیرہ نمایاں ہیں۔ منافع، مفادات اور ریاستی خود مختاری کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔
آلودگی بالخصوص فضائی آلودگی سرحدوں سے بالاتر ہوتی ہے۔ مقامی طور پر خارج ہونے والے زہریلے دھویں سے سرحد پار باشندے بھی محفوظ نہیں رہ پاتے۔ اس کی حالیہ مثال سرحد پار بھارت میں جلائے جانے والے کچرے کے سبب اسموگ کی وہ گہری تہہ ہے جو پاکستان کے سرحدی علاقوں خصوصاً لاہور کو اپنی لپیٹ میں لے ر ہی ہے۔
ایک بھارتی اخبار کا کہنا ہے کہ روزانہ اوسطاً چار ہزار کے قریب دھان کے کھیتوں سے بچ جانے والی شاخیں اور ٹہنیاں جلائی جاتی ہیں، اور اس کا دھواں پاکستان کے سرحدی علاقوں خصوصاً لاہور کو آلودہ کرنے کا سبب بن ر ہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گز شتہ دنوں لاہور کی فضا میں اسموگ کی مقدار اس قدر بڑھ گئی تھی کہ لاہور فضائی آلودگی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر آگیا۔
اپنی نسلوں کی بقاء اور زمین پر موجود حیات کو محفوظ رکھنے کے لیے قائم قدرتی نظام کو خود اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے کیمیائی عناصر سے تباہ کرنے کے بجائے زندگی کے ہر شعبے کو انقلابی اصلاحات مثلاً قابل تجدید توانائی اور سفر کے ایسے ذرائع پر انحصار جو ماحول کی آلودگی کا باعث کم سے کم بنیں، وغیرہ سے متعارف کروانے کے لیے صنعتکاروں، حکومتوں اور لوگوں کو اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہونگی۔ اس کے علاوہ زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی کو ششیں بھی تیز کرنی ہونگی۔ کیونکہ درخت ضیائی تالیف کے ذریعے آکسیجن کو خارج کرکے گرمی کو کنٹرول کرکے آلودگی کے خلاف ایک ڈھال کی حیثیت رکھتے ہیں اور زمین کی فطری صلاحیت کے اندر رہ کر زندگی بسر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ نہ صرف سماجی و معاشی ترقی ہوسکے، بلکہ انسانوں کے ساتھ ساتھ چرند پرند اور مختلف انواع کے حشرات بھی محفوظ رہ سکیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ
[email protected] پر ای میل کردیجیے۔