احسان اللہ احسان نے ترجمان کی حیثیت سے اپنی برطرفی کا فیصلہ طالبان عدالت میں چیلنج کردیا
طالبان شوریٰ کے ارکان عدالت میں پیش ہوکر میرے خلاف لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے سے کترا رہے ہیں، احسان اللہ احسان
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے طالبان شوریٰ کی جانب سے اپنی برطرفی کے فیصلے کو طالبان کی عدالت میں چیلنج کر دیا ہے
احسان اللہ احسان نے طالبان کی عدالت میں اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے افغان طالبان کو کوئی دھمکی نہیں دی، سابق ترجمان کا کہنا تھا کہ طالبان شوریٰ کے ارکان عدالت میں پیش ہو کر ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے سے کترا رہے ہیں جب کہ جج کی جانب سے انہیں دو بار عدالت میں پیش ہو کر اپنے الزامات کے حق میں دلائل دینے کے لئے بھی کہا گیا لیکن اس کے باوجود اب تک کوئی پیش نہیں ہوا۔
احسان اللہ احسان نے کہا کہ طالبان شوریٰ کے ارکان کے پیش نہ ہونے کے باوجود عدالت اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے جسے ماننا ان سمیت طالبان شوریٰ کے امیر اور تمام ارکان پر لازم ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کے ترجمان کا عہدہ چھوڑ چکے ہیں اور اس حیثیت سے تمام ذمہ داریوں سے بھی سبکدوش ہو چکے ہیں لیکن وہ ابھی بھی تحریک طالبان کا حصہ ہیں۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے شمالی وزیرستان میں طالبان شوریٰ کی جانب سے پمفلٹس تقسیم کئے گئے تھے جن میں لکھا تھا کہ طالبان شوریٰ نے حکیم اللہ محسود کے مشورے سے احسان اللہ احسان کو افغان طالبان کے حوالے سے دیئے گئے بیان پر ترجمان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔
احسان اللہ احسان نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مہمند ایجنسی میں تحریک طالبان کے مخالف گروپ لشکر طیبہ، انصار الاسلام اور لشکر افغان طالبان کا نام استعمال کر رہے ہیں اور ان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ تحریک طالبان افغان طالبان سے جڑی ہے لیکن ساتھ ہی مطالبہ کیا تھا کہ مہمند ایجنسی میں ہمارے خلاف کی جانے والی کارروائیوں پر افغان طالبان اپنا مؤقف واضح کریں۔
احسان اللہ احسان نے طالبان کی عدالت میں اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے افغان طالبان کو کوئی دھمکی نہیں دی، سابق ترجمان کا کہنا تھا کہ طالبان شوریٰ کے ارکان عدالت میں پیش ہو کر ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے سے کترا رہے ہیں جب کہ جج کی جانب سے انہیں دو بار عدالت میں پیش ہو کر اپنے الزامات کے حق میں دلائل دینے کے لئے بھی کہا گیا لیکن اس کے باوجود اب تک کوئی پیش نہیں ہوا۔
احسان اللہ احسان نے کہا کہ طالبان شوریٰ کے ارکان کے پیش نہ ہونے کے باوجود عدالت اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے جسے ماننا ان سمیت طالبان شوریٰ کے امیر اور تمام ارکان پر لازم ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کے ترجمان کا عہدہ چھوڑ چکے ہیں اور اس حیثیت سے تمام ذمہ داریوں سے بھی سبکدوش ہو چکے ہیں لیکن وہ ابھی بھی تحریک طالبان کا حصہ ہیں۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے شمالی وزیرستان میں طالبان شوریٰ کی جانب سے پمفلٹس تقسیم کئے گئے تھے جن میں لکھا تھا کہ طالبان شوریٰ نے حکیم اللہ محسود کے مشورے سے احسان اللہ احسان کو افغان طالبان کے حوالے سے دیئے گئے بیان پر ترجمان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔
احسان اللہ احسان نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مہمند ایجنسی میں تحریک طالبان کے مخالف گروپ لشکر طیبہ، انصار الاسلام اور لشکر افغان طالبان کا نام استعمال کر رہے ہیں اور ان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ تحریک طالبان افغان طالبان سے جڑی ہے لیکن ساتھ ہی مطالبہ کیا تھا کہ مہمند ایجنسی میں ہمارے خلاف کی جانے والی کارروائیوں پر افغان طالبان اپنا مؤقف واضح کریں۔