خوراک کے زیاں کو روکنے کی کوششیں

خوراک کی چوری کو جرائم کی فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے


Editorial January 03, 2019
خوراک کی چوری کو جرائم کی فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

دنیا بھر کے ریستورانوں، سپرمارکیٹس اور خوراک تیار کرنے والے اداروں میں کس قدر بھاری مقدار میں خوراک ضایع ہوتی ہے اس کا اندازہ لگایا جائے تو انسان ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جائے بالخصوص اس صورت میں جب کہ دنیا بھر میں بھوک اور کم خوراکی کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہو۔

تاہم ایک اچھی خبر یہ موصول ہوئی ہے کہ برطانیہ نے ریستورانوں اور ہوٹلوں وغیرہ میں ضایع کی جانے والی اشیائے خور و نوش کی مقدار کم کرنے کی خاطر پہلی مرتبہ ''فوڈ ویسٹ چیف'' کا تقرر کر دیا ہے جس کا کام خوراک کے ضیاع پر قابو پانا اور ضایع ہونے کی مقدار کو کم سے کم کرنا ہو گا۔ صرف برطانیہ میں سالانہ 20 ارب پونڈ کی کھانے پینے کی اشیاء ضایع ہو جاتی ہیں۔ اس پروگرام میں دنیا کی بہت بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بھی خوراک کے ضیاع کو روکنے کے عمل میں حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔

دوسری طرف اعلیٰ عدلیہ نے قرار دیا ہے کہ بہت تھوڑی مقدار میں خوراک کی چوری کو جرائم کے ذیل میں نہیں رکھا جائے گا جیسا کہ مغربی ممالک میں بننے والی قدیمی فلموں میں اسلام کی تذلیل کے لیے دکھایا جاتا تھا کہ ایک غریب نے شدید بھوک کے باعث ایک روٹی یا ایک سیب چرا لیا اور پکڑا گیا تو اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا گیا حالانکہ اسلام اتنا سنگدلانہ مذہب ہرگز نہیں۔ برطانیہ کے علاوہ اٹلی اور فرانس نے بھی اشیائے خور و نوش کے ضیاع کو روکنے کے قوانین و قواعد وضع کر لیے ہیں اور تھوڑی سی خوراک کی چوری کو جرائم کی فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے۔

عالمی اعداد و شمار میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 80 کروڑ سے زیادہ انسان خوراک کی قلت کا شکار ہیں جب کہ اقوام متحدہ کے خوراک کے بارے میں ادارے ایف اے او کا کہنا ہے کہ 1.3 ارب ٹن خوراک سالانہ ضایع کر دی جاتی ہے اور دنیا کی اسی فیصد سے زیادہ آبادی فاقہ کشی کا شکار رہتی ہے۔ مجموعی طور پر دنیا بے انصافی کا شکار ہے۔ دنیا کے کئی علاقوں میں مسلسل قحط پڑا ہوا ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں کا طویل محاصرہ کر کے وہاں قحط سالی طاری کر رکھی ہے جس پر ایک معروف فلسطینی شاعر نے کہا ہے کہ میری بھوک سے حذر کرو کیونکہ پھر میرے لیے اپنے غصے پر قابو پانا ممکن نہیں رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں