ریاستیں جب برباد ہوتی ہیں
مونٹیسکو کہتا ہے کہ یہ مہم جو ہوتے ہیں جوعظیم کارنامے سر انجام دیتے ہیں
PARIS:
وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاناما اور جعلی اکاؤنٹس کیس سے پتا چل گیا کہ ریاستیں کیوں ناکام ہوتی ہیں،ان کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ ملک کیسے غریب ہوا اور قرض میں ڈوبا؟ وزیراعظم کے نزدیک یہ ریاست کو سمجھنے کی اہم دستاویزہیں، یہ کیس اسٹڈی ہیں ۔ عمران خان نے کہا کہ ہمیں ریاست مدینہ کے ماڈل کی پیروی کرنا ہوگی، تاکہ ہمارا ملک انصاف پر مبنی اور خوشحال ریاست بن سکے۔
موضوع ہمہ جہت ، دلچسپ ، فکر انگیز اور ملکی صورتحال کے بحران زدہ سیاق وسباق میں دلربائی کے تمام سامان لیے ہوئے ہے اورکیوں نہ ہو جب اس باب میں ہم ان فلسفیوں اور تہذیب شناس مفکرین اور دانشوروں کے اقوال زریں لائے ہیں، جن سے اپنے حکمرانوں کو خبردارکیا جا سکتا ہے ، کہ وہ اہل پاکستان کو امریکیوں جیسا تنہا ہجومd) lonely crow (نہ بنائیں بلکہ ان کی مثبت خطوط پر ذہن سازی ہوسکتی ہے اور انھیں اس ملک میں جمہوریت وآمریت کی انہونیوں کے بارے میں بتایا جاسکتا ہے ۔ ظہیرکاشمیری کا معنی خیز شعر ہے۔
یہ انقلابِِ زمانہ تھا یا فریب ِنظر
گزرگیا ہے مگر انتظار باقی ہے
کون سا زمانہ شناس نہیں جانتا کہ تاریخ عظیم الشان سلطنتوں اور شوکت وجلال کی حامل تہذیبوں کے عروج و زوال کی داستانوں کو دیدہ عبرت نگاہ بناکر پیش کرتی ہے ۔ مشہور برطانوی مورخ آرنلڈ ٹائن بی کہتا ہے کہ تہذیبیں خودکشی کرتی ہیں ، قتل نہیں ہوتیں ۔ تاریخ کی 22 معلوم سلطنتوں اور تہذیبوں میں 19اخلاقی سقوط کا شکار ہوکر تباہ ہوئیں، جیسے اب امریکا کی حالت ہے۔ یہ بات انھوں نے22 اکتوبر 1975 کو اپنے انتقال سے پہلے کہی تھی ، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس شہر کے شہری چہل قدمی کو عاجز آجائیں وہ شہر نہیں ایک بچھا ہوا جال ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ ریاستیں اور ان کی تہذیب حرکت کا نام ہے،کیفیت کا نہیں، یہ سفر ہے بندرگاہ نہیں، پھر عروج یافتہ مملکت کے لیے وہ یہ موتی پروتا ہے کہ فراغت وفرصت کے لمحات سے لطف اندوز ہونے کے لیے ذوق کمال تہذیبوں کی آخری پراڈکٹ ہواکرتا ہے، اب دیکھیے آرنلڈ ٹائن بی نے جو بات کہی ہے وہ صدر ٹرمپ کے عہد حکومت پرکتنی فٹ آتی ہے، ٹائن بی کہتا ہے امریکا ایک بڑا سگ ِدوستاں ہے اور چھوٹے سے کمرے میں جب اپنی دم ہلاتا ہے توکوئی ایک کرسی ضرور الٹ جاتی ہے۔
مونٹیسکو کہتا ہے کہ یہ مہم جو ہوتے ہیں جوعظیم کارنامے سر انجام دیتے ہیں، وہ لوگ نہیں جو عظیم ریاستوں کے محکوم ہوتے ہیں۔ کسی فلسفی کا قول ہے ، ''کیا تمہیں معلوم ہے کہ سلطنتیں کیسے زوال پذیر ہوتی ہیں،جی ہاں اس لیے کہ وہ اپنے جھوٹ پر زیادہ یقین رکھتی ہیں۔ کسی نے اپنی کتاب میں لکھا کہ سلطنتیں تباہ ہوجاتی ہیں ،ان کا نام ونشان مٹ جاتا ہے، جن کا تاریخ ہی جائزہ لیتی ہے، اور اس ورثے تک پہنچ جاتی ہے جو وہ چھوڑ جاتی ہیں ۔عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔ دیکھیے اس قول میں کیا راز پنہاں ہے کہ شوکت وجلال بغیر توقیرکے، دولت بغیر دانش وحکمت کے اور طاقت وحاکمیت بغیر اصول کے،اس سارے قصے کا جواب تاریخ نے برباد ہوتی، ان عظیم سلطنتوں کی شکست کے آئینے میں بیان کیا ہے، چاہے وہ عجمی تہذیب ہو یا بابل ونینوا، یونان ہو یا روم ، یہ چاروں تہذیبیں آج کہاں ہیں؟ سر ونسٹن چرچل کے الفاظ ہیں کہ مستقبل کی ریاستیں ذہنی ریاستیں ہونگی۔
تھامس کارلائل کے مطابق دنیا میں ہر جگہ انسانی روح لازوال سلطنتوں کے دہانے پر،کہیں روشنی اورکہیں تاریکی کے بیچ ضرورت اور آزاد ارادے کی صورت کھڑی نظر آتی ہے، عظیم رومن شہنشاہ مارکس آریلیس کہتے ہیں کہ ماضی کے دریچوں سے جھانک کر دیکھو جس میں ریاستیں بدلتی اور عروج و زوال سے گلے ملتی ہوئی دیکھی جاتی ہیں، مستقبل کی پیش بینی زمان و مکاں کے اسی آئینے میں کی جاسکتی ہے۔ مشہور فلم ڈائریکٹر مارٹن اسکورسیز بتاتے ہیں کہ انھیں قدیم تاریخ کی ورق گردانی کرنا بے حد پسند ہے، میں اس میں دیکھتا ہوں کہ کس طرح سلطنتیں بلندی سے پستی میں کیسے گرتی ہیں، وہ در اصل اپنی تباہی کے بیج خود بوتی ہیں۔ لارڈ بائرن کی سوچ ہے کہ کسی جمہوریہ کو دیکھو جو ان ایمپائرز کے درمیان کس شان سے کھڑی ہے جو اسلحے کے بوجھ سے دبی جاتی ہیں،ایک جمہوری ریاست کا پرچم سربلند رہتا ہے جب کہ ایمپائر کا جھنڈا خوف کی علامت ہوتا ہے۔
اب آئیے ، ابن خلدون کی طرف جو قوموں اور سلطنتوں کے حوالوں سے کہتے ہیں کہ ان میں عبقریت کا فقدان ، ژرف نگاہی کی کمی اور بصیرت کا ناپید ہونا لازم ہوتا ہے۔ابن خلدون کے افکارکے بارے میں مولانا محمد حنیف ندوی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابن خلدون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا انداز فکر نظریہ ارتقا کے بانی چارلس ڈارون کے نظریے کے قریب تھا اور اس لحاظ سے وہ ڈارون سے بھی پہلے ڈارون ہے۔ ابن خلدون کے مطابق انسان حیوانات ہی کے ایک ارتقائی کڑی کا نام ہے،اس نے لکھا کہ ارتقا کا یہ عمل جاری رہتا ہے اور ہر ہر نوع کا آخر، عامی نوع کے افق اول میں تحلیل ہونے کی پوری استعداد رکھتا ہے، تا آنکہ یہ سلسلہ حیوانات تک جا پہنچتا ہے، پھر حیوانات کی بے شمار قسمیں اورکڑیاں ہیں جن میں کوئی ایک کڑی تکوین و تدریج کی منزلیں طے کرتی ہوئی انسانیت کے افق تک پہنچ جاتی ہے۔اسی طرح بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کبھی کسی حکومت کے عہد میں ایک انوکھا خیال بھی جدت واختراع کی شمع روشن کردیتا ہے مگر ثقافتی زوال میں کسی کو اس تخیل کی خبر نہیں ہوتی، مثلاً بلوچی زبان کے ایک بہت پرانے گیت میں کلوننگ کا تصور ''ڈولی'' کی کلوننگ سے پانچ عشرے قبل پیش کیا گیا تھا، اس بلوچی شعر میں اپنے محبوب کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ
پنچیں کساں ہم رنگاں رایا رواناں
وت من نزاناں منی دوست کجامیں
ترجمہ: پانچوں محبوبائیں ایک جیسی شکل وصورت کی لگتی ہیں اور مجھے پتا نہیں چلتا کہ ان میں میرا محبوب کون سا ہے۔دیکھیے یہ بریک تھرو ایک ایسے بیمار ریاستی نظام میں ہوتا ہے جہاں کسی شاعر کا کلوننگ سے متعلق انجانا تخیل بھی کسی کو چونکا نہیں سکا۔ فرانز فینن جیسا انقلابی دانشور افتادگان خاک نامی اپنی کتاب میں محکوم ریاستوں میں دبے ہوئے لوگوں کے کالے رنگ اور سفید ماسک پرگہری بات کہہ دیتا ہے، وہ کہتا ہے کہ اپنے عقیدے پر سختی سے قائم رہنے والے افراد کے سامنے جب ان کے عقیدے کے خلاف شواہد پیش کیے جاتے تو وہ انھیں سن کر ناآسودہ اور غیر مطمئن ہوجاتے، فینن اسے کرخت ذہنی رویےcognitive dissonance سے تعبیرکرتے ہیں۔
ایک محکوم ریاست کی نوآبادیاتی جورو ستم سے برسر پیکار دھرتی کے ستائے لوگوں کو فینن بتاتے ہیں کہ ایک زبان بولنا فی الحقیقت ایک دنیا اورکلچر سے اپنا رشتہ جوڑنا ہے۔ وہ آزادی کی تڑپ اور غلامی ومحکومی سے نجات کے لیے بغاوت کی نئی تعریف لاتے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ محکوم اپنی ہی لتھڑی ہوئی ریاست میں خود کو ستم رسیدہ ہی سمجھتے ہیں اور مزاحمت اور بغاوت اس لیے نہیں کرتے کہ کسی خاص ثقافت ان کے پیش نظر رہتی ہیں، بلکہ ان کی جدوجہد اس نکتہ پر ہوتی ہے کہ ''اے میرے جسم ، مجھے انسان بنا ایسا جو سوال کرسکے۔ حقیقت میں وہ سوال ایک غلام ریاست وسلطنت میں اس لیے کرنے کو بے چین رہتا ہے کہ اس کا اپنے ماحول میں اب سانس لینا دشوار ہوگیا ہے۔ کیا کسی کو رئیس امروہی کا یہ شعر یاد ہے کہ
اس آزادی نے مجھ کو کیا دیا ہے
فقط آزاد ہوکر رہ گیا ہوں