نواز شریف کا سیاسی مستقبل
عدالتی شکنجے میں جکڑے جاسکتے ہیں جو شریف خاندان کے لیے بڑا سیاسی دھچکا ہوگا
سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنے اقتدار اور طویل ترین سیاسی کیرئیر میں بڑی مشکل اور پیچیدہ صورتحال سمیت سیاسی تنہائی کا شکار نظر آتے ہیں ۔ عمومی طور پر ایک بڑی سیاسی قیادت کو سیاسی سفر میں کئی مشکل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے مگر حالیہ سیاسی تنہائی کافی سنگین نوعیت کی ہے ۔ مسئلہ محض سیاسی ہی نہیں بلکہ اصولی طور پر وہ اور ان کا خاندان قانونی اور عدالتی شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ اگرچہ وہ اپنے خلاف اس ساری جنگ کو ایک بڑے سیاسی انتقام کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ ان کے بقول ان کے خلاف یہ سارا کھیل اسٹیبلشمنٹ کا پیدا کردہ ہے اور وہ دیگر فریقین کی مدد سے ان کو اور ان کے خاندان کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانا چاہتے ہیں ۔وہ اس پورے کھیل کو ایک بڑے سیاسی، قانونی اور اداروں کے باہمی گٹھ جوڑ سے جوڑتے ہیں ۔
لیکن ان کا موقف بہت سادہ بھی نہیں کیونکہ اس حقیقت کو بھی ان کو اوران کے حامیوں کو تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ عدالتی محاذ پر تمام تر اور لمبے عرصے تک تواتر کے ساتھ مواقعے ملنے کے باوجود اپنے حق میں ایسے کوئی مضبوط شواہد پیش نہیں کر سکے جو یہ ثابت کرتے کہ ان کے خلاف جو الزامات ہیں وہ حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ محض جھوٹ کا پلندہ ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ اگرچہ نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سات سال قید اور بھاری جرمانے کی سزا ہوگئی ہے مگر فلیگ شپ ریفرنس میں ان کو شواہد کمزور ہونے کی وجہ سے بری کردیا گیا ہے جو ایک بڑے ریلیف سے کم نہیںلیکن اس سزا کے بعد بھی قانونی محاذ پر ان کے خلاف کھیل ختم نہیں ہوا ہے ۔ابھی عدالتی جنگ بھی جاری ہے اور اس جنگ میںوہ اکیلے نہیں بلکہ ان کے خاندان کے تمام افراد کسی نہ کسی شکل میں عدالتوں کا سامنا کررہے ہیں ۔اگر شریف خاندان اپنے حق میں مزید شواہد پیش نہیں کرتا تو محض نواز شریف ہی نہیں بلکہ دیگر خاندان کے افراد بھی عدالتی شکنجے میں جکڑے جاسکتے ہیں جو شریف خاندان کے لیے بڑا سیاسی دھچکا ہوگا۔
اگرچہ نواز شریف، ان کے خاندان اورحامیوں کی پوری کوشش ہے کہ اس قانونی جنگ کو ایک بڑی سیاسی جنگ میں تبدیل کیا جائے ۔ اسی کو بنیاد بنا کر نواز شریف نے مقتدر قوتوں کے خلاف اور سول بالادستی کے حق میں اپنا ایک مضبوط بیانیہ پیش کیا ہوا ہے ۔ ابتدا میں اس سیاسی بیانیہ کو بڑی شدت کے ساتھ پیش کیا گیا مگر آہستہ آہستہ یہ بیانیہ مسلم لیگ ن کے اندر موجود بہت سے سیاسی افراد بشمول شہباز شریف کی مفاہمت سے جڑی سیاست کی نذر ہوگیا ۔شہباز شریف جو اس وقت پارٹی کے صدر ہیں انھوں نے مزاحمت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اس کو اپنا بیانیہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا ۔ اسی مفاہمت کے نتیجے میں ہمیں نواز شریف، مریم نواز سمیت وہ بہت سے سخت گیر مزاج کے لوگ جو نواز شریف بیانیہ کے ساتھ کھڑے تھے، پس پشت چلے گئے ۔ نواز شریف اور مریم نواز کی مسلسل خاموشی نے یہ ثابت کیا کہ مزاحمت کی سیاست پس پشت اور مفاہمت کی سیاست نے بالادستی حاصل کرلی ہے ۔
اس وقت شریف خاندان جس بڑی مشکل صورتحال سے دوچار ہے اس پر پارٹی عملی طور پر کہیں بھی کوئی بڑی مزاحمتی عمل میں دکھائی نہیں دیتی ۔ نواز شریف کو ملنے والی سزا پر ان کی جماعت کا کوئی بڑا سخت ردعمل ہمیں عوامی سطح پر دیکھنے کو نہیں ملا۔پنجاب جو عملی طور پر شریف خاندان کامضبوط سیاسی گڑھ سمجھا جاتا ہے وہاں ان کے حق میں کوئی بڑا ردعمل سامنے نہ آنا یقینی طور پر نواز شریف کے لیے بڑا دھچکا ہے ۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ نواز شریف اور ان کا خاندان عدالتی محاذ پر اپنے حق میں کچھ نہیں پیش کرسکتے، یہ بات ان کے حامیوں کو بھی پتہ ہے ۔ ان کا عملی طور پر بڑا میدان سیاست کا ہے۔ وہاں اگر وہ واقعی کوئی بڑی مزاحمت پیدا کرتے اور ان کی جماعت محض ووٹ کے لیے نہیں بلکہ ان کے حق میں میدان میں نکلتی تو سیاسی منظر ان کے حق اور حکومت کی مخالفت میں جاتا۔ اہل دانش کی سطح پر نواز شریف کے وہ حامی جو ان کو سول بالادستی کی جنگ کے ہیرو کے طور پر پیش کررہے تھے ان کے پاس بھی اب وہ دلائل نہیں کہ جو واقعی رائے عامہ کو نواز شریف کی حمایت پر مجبور کرسکیں ۔مسئلہ سول بالادستی کی جنگ کا نہیں بلکہ اصل جنگ شریف خاندان کی اپنی سیاسی بقا کی جنگ ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ جمہوریت اور سول بالادستی کی جنگ کو بنیاد بنا کر بڑی جنگ لڑنا چاہتے ہیں مگر داخلی حالات ان کے حق میں نہیں جو ان کو سیاسی پسپائی پر مجبور بھی کررہا ہے۔
اہم پہلو یہ ہے کہ نواز شریف آج جن قوتوں کے خلاف جنگ لڑنے کی بات کررہے ہیں ان کی پوری مجموعی سیاست انھیں قوتوں کی حمایت کے ساتھ کھڑی ہے ۔بھٹو مخالفت کی سیاست کو بنیاد بنا کر وہ اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے بنے اوران ہی کی حمایت سے وہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے حمایتی کے طور پر کام کرتے رہے ہیں ۔ اگرچہ انھوں نے اپنی سیاست میں کئی مواقعوں پر اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر بھی لی لیکن اس ٹکراو کی سیاست میں بھی ترجیحی مسئلہ سول بالادستی نہیں بلکہ طاقت کے مرکز میں اپنی حیثیت یا طاقت کو تسلیم کروانا ہوتا تھا، جو فریقین میں ٹکراؤ کی وجہ بھی بنا ۔ سب سے بڑا تضاد ایک طرف نواز شریف کے مزاحمتی انداز اور دوسری طرف ان ہی کی حمایت سے شہباز شریف کا اسٹیبلشمنٹ کے حمایتی کے طور پر کھیل ہے ۔شہباز شریف کی پرو اسٹیبلشمنٹ سیاست پر نہ تو نواز شریف نے کبھی ان کی باز پرس کی اورنہ ہی ان کو روکا گیا جو سول بالادستی کی جنگ کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے ۔
اس وقت نواز شریف عملی طور پر کنفیوژن کا شکار ہیں ۔ وہ مزاحمت اورمفاہمت کے درمیان گھرے ہوئے ہیں۔ انکو اندازہ ہے کہ مزاحمت کی سیاست میں ان کی سیاسی جماعت عملی طور پر میدان میں کھڑی نہیں ہوگی ۔اس کی وجہ بھی خود نواز شریف ہیں جنہوں نے کبھی اپنی جماعت کو مضبوط نہیں بنایا۔ ہمیشہ مشکل وقت میں پارٹی کی تنظیم نو کا خیال آتا ہے مگر اچھے دنوں میں پارٹی کو منظم کرنا یا اسے مضبوط بنانا ان کے ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں ہوتا ۔ان کے وہ حامی سیاستدان یا اہل دانش جو ان کو ٹکراؤ کی سیاست کی طرف دھکیلتے تھے اورکہتے تھے کہ آپ بڑی طاقت ہیں اور لوگوں کا جم غفیر آپکے ساتھ ہے مگر عملاً وہ خود خاموش ہوگئے ہیں ۔سول بالادستی کی جنگ کہنا بہت آسان ہے مگر عملی طور پر اس جنگ کو ایک بڑی قیادت دینا اور جدوجہد کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ المیہ یہ ہے کہ ہم خود مفاداتی سیاست سے جڑے لوگ ہیں اورجب ہمارا اپنا دامن صاف نہیں ہوگا بڑی جنگ ممکن نہیں۔
یہ بات درست ہے کہ قانونی محاذ سے نواز شریف کی سیاست کو ختم کرنا ممکن نہیںمگر سیاست میں بھی ان کے راستے محدود ہوتے جارہے ہیں اوران کی حمایت میں ان کے حامی عوامی نیشنل پارٹی، جے یو آئی سمیت دیگر چھوٹے گروپ بھی پرجوش نہیں ۔نواز شریف اپنے مقابلے میں اپنی بیٹی مریم نواز کو متبادل کے طور پر سامنے لانا چاہتے ہیں مگر اب ان کی آواز میں بھی جو بڑی گرج تھی ٹھنڈی ہوگئی ہے یا اس میں بھی کوئی مفاہمت کا راز چھپا ہوا ہے ۔عملی طور پر نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ آصف سمیت دیگر راہنماؤں کا اب بڑا ٹارگٹ یا تنقید کا مرکز عمران خان ہیں اسٹیبلشمنٹ نہیں ۔ ایسی صورتحال میں نواز شریف اور ان کا خاندان عملی طور پر مقتدر قوتوں ہی کے رحم و کرم پر ہے اورکچھ لوگ ان ہی سے معاملات طے بھی کرنا چاہتے ہیںلیکن اب جو کچھ طے ہوگا وہ پس پردہ نہیں ہوگا اور اگر اس نے منظر عام پر آنا ہے تو نواز شریف کا سیاسی مستقبل اور غیر محفوظ ہوجائے گا۔