پالتوجانوروں سے منتقل ہونے والی بیماریاں

خسرہ، لاکڑہ کاکڑہ، انفلوئنزا، ایڈز، خناق اور ٹی بی سمیت متعدد بیماریاں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئیں

خسرہ، لاکڑہ کاکڑہ، انفلوئنزا، ایڈز، خناق اور ٹی بی سمیت متعدد بیماریاں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئیں

انسانوں اور جانوروں کا تعلق ازل سے ہے جنگلات اور پہاڑوں میں رہنے والے انسان سے لے کر آج تک کا انسان کسی نہ کسی طرح اپنی مختلف ضروریات جانوروں سے پوری کرتا ہے پالتو جانور اور اس کے پالنے والے بہت ہی قریب رہتے ہیں یوں بہت سی بیماریاں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو سکتی ہیں۔

جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی بیماریاں معمولی نوعیت کی عام بیماریاں بھی ہوسکتی ہیں اور انتہائی مہلک بیماریاں بھی۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق 411 ملین لوگ کسی نہ کسی طرح سے جانوروں کی افزائش سے منسلک ہیں اور عموماً یہ افراد باقی افراد کی نسبت جانوروں کے جراثیموں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے ایک سروے کے مطابق61 فیصد جراثیم کسی نہ کسی طرح جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں اور تقریباً 75 فیصد نئی بیماریوں کا تعلق بھی حیوانات کے ساتھ ہوتا ہے۔

پاکستان میں زیادہ تر آبادی دیہاتوں میں آباد ہے، ظاہر ہے کہ ان کی اکثریت کا تعلق حیوانات کی افزائش سے ہوتا ہے۔ اس طرح جانوروں سے پھیلنے والی بیماریوں کا تناسب پاکستان میں عموماً زیادہ ہوتا ہے۔ ایڈز، سوائن فلو، برڈ فلو، ابولا وائرس، کانگو بخار، ریبیز وغیرہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی چند بیماریاں ہیں۔ ایڈز بیسویں صدی کے اوائل میں انسانوں میں منتقل ہوئی۔ موجودہ ایڈز وائرس مختلف جینیاتی تبدیلیوں سے گزر کر مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہے جو کہ صرف انسانوں تک محدود ہوچکا ہے اور جانوروں کے ایڈز وائرس سے منفرد ہوچکا ہے۔ اسی طرح ٹی بی کے جراثیم بھی مختلف شکل میں جانوروں میں پائے جاتے ہیں جبکہ انسانوں میں مختلف شکل میں پائے جاتے ہیں۔ متاثرہ جانور کا گوشت اور دودھ استعمال کرنے سے یہ جراثیم انسانی جسم داخل ہو سکتا ہے اور انسان کو بیمار کرسکتا ہے۔


جینیاتی مشاہدے اور ریسرچ سے یہ اندازہ ہوا ہے کہ بہت سی بیماریاں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئی ہیں اور اب انسانوں کی بیماریاں سمجھی جاتی ہیں۔ خسرہ، لاکڑہ کاکڑہ، انفلوئنزا، ایڈز، خناق اور ٹی بی وغیرہ سب کسی نہ کسی دور میں جانوروں سے منتقل ہوئیں اور جینیاتی تبدیلیوں سے گزر کر اب انسانوں تک محدود ہو چکی ہیں۔

یہ بیماریاں مختلف طریقوں سے منتقل ہوتی ہیں۔ دو اہم ترین طریقے براہ راست منتقلی اور بذریعہ ویکٹر منتقلی ہیں۔ براہ راست منتقلی کا سبب انسان کا جانور سے براہ راست تعلق ہوتا ہے، زیادہ تر بیماریاں اسی طرح سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ریبیز (باؤلا پن) بنیادی طور پر جانوروں خصوصاً کتوں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے اور اس کا جراثیم متاثرہ جانور کے تھوک سے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔ اسی طرح اینتھراکس نامی بیماری متاثرہ جانوروں سے براہ راست انسانی جسم میں داخل ہو سکتی ہے۔ ویکٹر کے ذریعے منتقلی کی صورت میں جراثیم جانوروں سے کسی اور جاندار میں داخل ہوتے ہیں اور پھر انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ ویکٹر بیمار نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف جراثیم منتقل کر نے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔

ایسی بیماریوں کے تدارک کے لئے ضروری ہے کہ خوراک کے لیے استعمال ہونے والی جانوروں سے حاصل کردہ اجزا مثلاً گوشت، دودھ اور انڈے وغیرہ حاصل کرتے ہوئے حفظانِ صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھاجائے، بیمار جانوروں کو کھانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے، حفاظتی ٹیکے اور ویکسینیشن کا خصوصی خیال رکھا جائے، بیمار جانوروں کا علاج مستند ڈاکٹر سے کرائیں اور پالتو جانوروں کا وقتآ فوقتاً معائنہ کراتے رہیں۔ گھر کے کسی بھی فرد کے بیمار ہونے کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں اور تجویز شدہ علاج پر سختی سے عمل کریں۔
Load Next Story