چالاکیاں اور خوامخواہ کی آنیاں جانیاں
عسکری اداروں کو یہ معاملات Out Source کرنے کے بعد سیاستدانوں نے بتدریج ان کے بارے میں سوچنا تک چھوڑ دیا۔
LONDON:
میری بہت عرصے سے یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات پر اس وقت تک قابو نہیں پایا جا سکتا جب تک صرف اور صرف اس مسئلے کے حوالے سے تمام معلومات کسی ایک اور خاص طور پر اس مسئلے کے حل کے لیے بنائے گئے ادارے کے پاس پہلے سے قائم تمام فوجی اور سول جاسوسی اداروں کے ذریعے نہ پہنچائی جائیں۔
ان معلومات کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لے کر ایک حکمت عملی بنائی جائے۔ اس پر بھرپور عمل کے لیے اس ادارے کے پاس انتہائی جدید حوالوں سے تربیت یافتہ فورس ہو۔ یہ فورس بالآخر پاکستانی ریاست کو اس قابل بنائے کہ وہ روزمرہّ ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی محض مذمت کرنے کے بعد خود کو اپنے فرائض سے عہدہ برا تصور نہ کرے۔ صوبائی حکومتوں پر دہشت گردی کنٹرول کرنے کی ذمے داری ڈال دینا بھی کوئی مناسب عمل نہیں۔ ہماری ریاست کو بالآخر اس سطح پر ہر صورت جانا ہو گا جہاں دہشت گردوں کو ان کے ٹھکانوں اور محفوظ پناہ گاہوں تک پہنچ کر مفلوج بنا دیا جائے۔
نائن الیون کے بعد امریکا نے ہوم لینڈ سیکیورٹی نام کا ادارہ بناکر یہی کچھ حاصل کیا تھا۔ اس ادارے کے قیام کے بعد بھی سی آئی اے وغیرہ جیسے اداروں کی اہمیت اپنی جگہ قائم رہی اور NSA والے پاکستان اور ایران جیسے ملکوں میں ٹیلی فون پر کی جانے والی باتوں تک رسائی بھی حاصل کرتے رہے۔ امریکا تو چلیں ایک بڑی طاقت ہے، بھارت جیسا ملک بھی اب ہوم لینڈ سیکیورٹی جیسا ادارہ بنائے ہوئے ہے۔ سری لنکا ایک چھوٹا اور معاشی حوالے سے تقریباً پسماندہ ملک ہے، اس نے بھی بالآخر تامل ٹائیگرز پر قابو پا لیا ہے۔
ہمارے ملک میں بھی یہ سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔ مگر بدقسمتی ہماری یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے ہماری سول انتظامیہ اور وقتاً فوقتاً رونما ہونے والے منتخب وزیر اعظموں نے یہ طے کر لیا کہ غیر ملکوں سے تعلقات اور قومی سلامتی کے امور پر فیصلے کرنا ان کی نہیں عسکری اداروں کی ذمے داری اور اختیار میں ہے۔ عسکری اداروں کو یہ معاملات Out Source کرنے کے بعد سیاستدانوں نے بتدریج ان کے بارے میں سوچنا تک چھوڑ دیا۔ فیصلہ سازی تو بہت دور کی بات ہے۔
2008ء کے انتخابات کے بعد سیاستدانوں کو خارجہ اور قومی سلامتی امور کو اپنے ہاتھ میں لینے کا ایک بہترین موقعہ ملا لیکن ان سب نے مل کر سوات میں ریاستی رٹ کی بحالی کی ساری ذمے داری جنرل کیانی کے سر تھونپ دی۔ اپنے طور پر کوئی تیاری کیے بغیر کیا جانے والا یہ فیصلہ ایک حوالے سے سمجھا جاسکتا تھا۔
اس کے باوجود سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوات میں فوجی آپریشن شروع ہو جانے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم یا صدر آصف علی زرداری نے ایسے کتنے اجلاس بلائے جہاں وہ عسکری اداروں سے اس آپریشن کی تفصیلات جاننے کے لیے سوالات کرتے پائے گئے تھے۔ سوات میں امن قائم ہو جانے کے بعد بھی مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے بڑی تیزی اور جانفشانی سے وہ انتظامی اقدامات نہ اُٹھائے جو فوج کو شورش زدہ علاقوں سے نکال کر شہریوں کی سلامتی کو یقینی بناتے۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی سے ملتا جلتا ادارہ شاید بن ہی جاتا اگر گیلانی صاحب کے وزیر اعظم منتخب ہو جانے کے بعد آئی ایس آئی کو عین اس روز صرف ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے وزارتِ داخلہ کے ماتحت نہ بنا دیا جاتا جب وہ امریکا کے دورے پر روانہ ہوئے تھے۔ واضح طور پر چالاکی اور مکاری سے جاری کردہ یہ نوٹیفیکیشن حکومت کو راتوں رات واپس لینا پڑا۔ اسی لیے جب گیلانی اس وقت کے امریکی صدر جارج بش سے ملنے گئے تو انھوں نے ہمارے وزیر اعظم کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ ان کے ساتھ کھڑے بڑی بے اعتناعی سے اپنے کچھ جاننے والوں کو طنز بھری آنکھیں مارتے رہے۔
آصف علی زرداری صدر بنے تو واقعہ ممبئی ہو گیا۔ پاکستان کی ریاست اس کے بارے میں واضح اور ٹھوس موقف اختیار نہ کر پائی۔ زرداری سونیا گاندھی کو ٹیلی فون کرنے کے بعد سندھی محاوروں کے ذریعے یقین دلاتے رہے کہ وہ ممبئی میں مارے جانے والے لوگوں کا غم سمجھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں لیکن افغان جہاد کے دنوں سے بہت سارے Non State Actors پیدا ہو گئے ہیں۔
انھیں قابو کرنے میں وقت لگے گا۔ وہ یہ سب کچھ کررہے تھے تو پاکستانی میڈیا پر قابض اصلی تے وڈے محب الوطنوں نے چیخ چیخ کر یہ کہانی پھیلا دی کہ ممبئی کا واقعہ ہندو انتہاء پسندوں کی کارروائی ہے۔ وہ ملوث نہ بھی ہوتو بھارتی مسلمانوں کا کوئی گروہ بھی تنگ آمد بجنگ آمد پر مجبور ہو گیا ہو گا۔ اس کے بعد کیری لوگر بل بھی پاس ہوا، اس کے پاس ہو جانے کے بعد جو تماشے ہوئے ان کا ذکر نہ کرنا ہی بہتر ہو گا۔
بہرحال نواز شریف صاحب کو تیسری مرتبہ پاکستان کا وزیر اعظم بننے کے بعد ایک بار پھر موقعہ ملا ہے کہ وہ ایک منتخب حکومت کو خارجہ اور قومی سلامتی امور کی مکمل ذمے داری لینے کے لیے تیار کر سکیں۔ 11 مئی کے روز براہِ راست ووٹوں کی دوسری بڑی تعداد کی حمایت دکھانے کے بعد تحریکِ انصاف ایک سیاسی قوت بن گئی ہے۔ عمران خان اب کھل کر ہوم لینڈ سیکیورٹی طرز کا ادارہ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ پانچ سال حکومت میں گزارنے کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے رہنما سید خورشید شاہ کو بھی ایسے ادارے کی ضرورت کا احساس ہو گیا ہو گا۔
ایسے حالات میں یہ سمجھنا میرے لیے بہت مشکل ہو رہا ہے کہ ایک اور آل پارٹیز کانفرنس کا میلہ لگانے کے بجائے وزیر اعظم پہلے تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ کی ایک کانفرنس کیوں نہیں بلاتے۔ ان کے وزیر داخلہ اور وزیر قانون اس اجلاس میں موجود ہوں۔ وہاں عسکری اور سول جاسوسی اداروں کے سربراہ بھی ہوں اور صوبائی حکومتوں کے آئی جی وغیرہ بھی۔
وہ سب میڈیا کی نظروں سے دور سر جوڑ کر بیٹھیں اور فیصلہ کریں کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کونسے اقدامات کرنا ازحد ضروری ہو گیا ہے۔ اس اجلاس کے بعد نواز شریف ایک اور اجلاس بلا سکتے ہیں جہاں صرف وہ ہوں اور ساتھ خورشید شاہ اور عمران خان۔ وہ تینوں جب کسی لائحہ عمل پر متفق ہو جائیں تو آل پارٹیز کانفرنس بھی بلا لیں۔ ان کی سنیں اور جو آپ کرنا چاہتے ہیں اس پر انھیں اعتماد میں لیں۔ اِدھر اُدھر بھٹکنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دہشت گردی ختم کرنا ہے تو چالاکیاں چھوڑنا ہوں گی اور خوامخواہ کی آنیاں جانیاں بھی۔