مینڈیٹ یا ہرن کا شکار
جس نے انھیں صاحبان اختیار بنایا اور حکمرانی کا اختیار جمہوری طور پر دے رکھا ہے۔
مینڈیٹ انگریزی زبان کا لفظ ہے جو جا بجا الیکٹرانک میڈیا پر دن میں کئی بار استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کے معنی فرمان یا حکمنامے کے ہیں۔ مگر پاکستان میں اس لفظ کو جس معنی میں استعمال کیا جاتا ہے اس سے مراد عوام نے جو حکم نامہ یا اختیار حکمرانی جن افراد کے سپرد کیا ہے، وہ فیصلوں کا اختیار رکھتے ہیں۔ گویا ان افراد کی تائید میں عوام کا ایک ہجوم ہے۔
جس نے انھیں صاحبان اختیار بنایا اور حکمرانی کا اختیار جمہوری طور پر دے رکھا ہے۔ دنیا بھر میں جمہوری اور قانونی طور پر اس مینڈیٹ کا احترام کیا جاتا ہے۔ خصوصاً ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں۔ مگر جو اقوام تنزل پذیر ہیں وہاں اس مینڈیٹ کا غلط استعمال ڈنکے کی چوٹ پر کیا جاتا ہے۔ خصوصاً اسلامی ممالک میں مینڈیٹ کو بے دریغ اور غلط انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کیونکہ مینڈیٹ در اصل جمہور اور جمہور پر طرز نگہبانی کا ایک معاہدہ ہوتا ہے جس پر جمہور اور جمہوریت کے نفاذ پر زور دینے والوں کو پابند کیا جاتا ہے۔
اسی لیے جمہوریت کے عمل یا انتخاب کے لیے جب پارٹیاں چناؤ کے لیے میدان میں اترتی ہیں تو ہر پارٹی معاہدے کی دستاویز جاری کرتی ہے جس کو پارٹی منشور کہا جاتا ہے۔ مگر ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک پارٹی مجموعی طور پر51 یا 52 فیصد ووٹ لے اور اس کے مخالفین48 یا49 فیصد ووٹ لیں ایسی صورت میں ایسا ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ 48 یا49 فیصد ووٹ لینے والوں کا اسمبلی میں کوئی اختیار نہ ہو۔ یہ کرکٹ میچ نہیں ہے کہ ایک رن سے جیت ہو گئی اور ہارنے والی پارٹی کے ماتھے پر صفر کا ٹھپہ لگا دیا جاتاہے۔
مگر جمہوریت کی اس جنگ میں 48 فیصد یا 49 فیصد مینڈیٹ حاصل کرنے والوں کی آرا کا احترام کرنا ہوتا ہے، دستور سازی، نوکریاں، ترقی کی منصوبہ بندی میں ہر گام پر مل جل کر چلنا ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ مزید ہمنوا بنائے جاتے ہیں اور اگر حزب اختلاف کی رائے کو یکسر نظر انداز کیا جائے تو پھر ملک میں جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی۔ دوم کوئی جمہوری قوت اگر غیر جمہوری حکومتوں کی تائید اور معاشی سرپرستی میں جنم لے گی اور اپنا جمہوری نظام اور عقائد کی آرا یا معاشی نظریہ ایک بڑی اقلیت پر مسلط کرے گی تو پھر وہ نظام درہم برہم ہو جائے گا۔
اور دوسری قوتیں ایسی حکومت کا تختہ الٹ دیں گی۔ خصوصاً ایسی حالت میں جب ملک معاشی بحران میں مبتلا ہو۔ ایسی نازک صورت حال میں فوری طور پر اپنا نقطہ نظر ٹھونسنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے مگر یہاں اس وقت اس موضوع پر پاکستان اور مصر کے معاملات میں مماثلت ملتی ہے۔ پاکستان بھی کم و بیش ایسی ہی جمہوریت سے گزر رہا ہے بلکہ مصر میں زر مبادلہ کی صورت حال پاکستان سے خاصی بہتر ہے یہاں تو یہ صورت ہے کہ قرض لے کر قرض ادا کرنے کی تیاری ہے جو کشکول آئی ایم ایف (IMF) کو پیش کیا گیا وہ آئی ایم ایف کو پسند نہ آیا لہٰذا ایک بڑا عوام دشمن کشکول منظور ہوا جس میں سرمایہ داروں پر سپر ٹیکس کے بجائے عوام پر براہ راست ٹیکس لگایا جائے گا۔ ایسے میں اگر اس ملک میں کوئی سیاسی بحران پیدا ہوا تو پھر جمہوریت نہ بچ سکے گی۔
چین اور چین کے نعرے عوام کو چین سے نہ بٹھا سکیں گے۔ مصر میں تو اخوان کی منظم تنظیم ہے جو سر بہ کف ہے مگر یہاں تو سب کے سب آمریت کے پیدا کردہ حکمران ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جو تحریک چلی تھی اس کے نتیجہ میں لوگ ذوالفقار علی بھٹو سے معاہدہ کرچکے تھے مگر ضیاء الحق نے مہلت نہ دی اور موقع کو فوری طور پر استعمال کیا اور جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ مصر میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا مگر مصر میں آزاد خیال اور سلفی عقائد کے حامی ایک میز پر اگر جلد نہ بیٹھے تو پھر یہ خونریزی اور بڑھے گی۔ در اصل مسلم امہ نیل کے ساحل سے تابہ خاک کاشغر کلمہ شہادت اور کلمہ اول قرآن اور حدیث پر تو ایک ہے مگر تشریحات اور تفصیلات پر ان کا مکتب الگ الگ ہے۔ اسی لیے جامعہ ازہر کے رہنما مرسی حکومت کے خلاف ہو گئے تھے۔
آج پاکستان میں فرقہ واریت موجودہے جس کے نتیجے میں تفرقہ کی داغ بیل مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہے مگر کوئی حکومت پاکستان میں اپنے مینڈیٹ کا خود احترام نہیں کرتی۔ مثلاً پیپلز پارٹی نے پارٹی کی تنظیم نو سے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔ 1970میں عوام طاقت کا سر چشمہ ہیں مگر مشرقی پاکستان کے عوام کو خارج از گفتگو کر دیا گیا، اپنے مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد عوام کو کسی حد تک آسانیاں ضرور ملیں مگر کئی مرتبہ مینڈیٹ ملنے یعنی اقتدار حاصل کرنے والی پارٹی اپنے منشور سے رو گردانی کر بیٹھی۔ جب پارٹی اپنے منشور سے رو گردانی کرتی ہے تو پھر اس کو حکومت کرنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ پارٹی منشور سے انحراف کا مطلب یہ ہوا کہ مینڈیٹ جاتا رہا۔
لہٰذا پاکستان میں جو بھی مینڈیٹ کا شور مچاتے ہیں وہ در حقیقت اپنا مینڈیٹ چند ہفتوں میں کھو بیٹھتے ہیں اور اپنے مینڈیٹ کے خلاف کام جاری رکھتے ہیں، مزدور کی تنخواہ15 ہزار کے نعرے پھر مزدور کی تنخواہ میں 20 فیصد کٹوتی، مہنگائی کی مد میں کیا معنی۔ مینڈیٹ کے ہر چیز کا انحصار چین پر! یہ کونسی سیاسی بصیرت ہے۔ ایک ہاتھ میں چین، دوسرے ہاتھ میں امریکا، اس کے نتائج کیا ہوں گے جب کہ پڑوسی ممالک خصوصاً افغانستان سے تعلقات سرد جنگ جیسے ۔ پورے ملک خصوصاً کراچی میں ایسا کچھ جیسے تھر میں ہرن کا شکار، بہترین شکار گاہ لیاری اورنگی، کٹی پہاڑی اور مضافاتی علاقے ، پوری رات قتل و غارت لوٹ مار جاری رہتی ہے۔ اور اب نقل مکانی ۔ متوسط طبقہ کے لوگ ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا میں رہزنی، شب روز رات بھر یہ ڈھول بجتا رہتا ہے۔
بالکل ایسے ہی جیسے تھر پارکر میں ہرن کا شکار۔ ایسے ہی کیا جاتا ہے کہ صحرا میں اور جھاڑیوں کے گرد و نواح میں ڈھول بجایا جاتا ہے اور ہرن ڈھول کی آواز سے سہم جاتے ہیں اور اس طرف ہنکایا جاتا ہے جہاں شکاری موجود ہوں۔ رات بھر کے جاگے سہمے ہرن بہ آسانی جال میں پھنس جاتے ہیں۔ یہی حال اہل کراچی کا ہے۔ صدیوں سے آباد پرانے کراچی کے لوگ نقل مکانی پر مجبور اور ایسا ہی کوئٹہ کے ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کے ساتھ جن کے پاس رقم ہے وہ ڈیفنس آرہے ہیں اور یہاں پراپرٹی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں مگر ہزارہ کمیونٹی مختصر قیام کے بعد بیرون ملک پناہ لے رہی ہے۔ ان کی جائیدادوں اور دکانوں، مکانوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے یا ان کو اونے پونے بیچنا پڑ رہا ہے۔ یہ سب کیا مینڈیٹ ہے ایسے شہر اور ملک میں کون سرمایہ کاری کرے گا۔ جہاں انسان محفوظ نہیں ہے۔ رقم محفوظ نہیں، بھتہ ایک کاروباری جز بن گیا ہے ورنہ جان سے گئے ، ایسی جمہوریت عوام کو کیا دے رہی ہے جہاں حاکم امن قائم کرنے کے نام پر آئے اور امن قائم کرنے کے محض پکے راگ گائے جاتے ہیں۔ ابھی اے پی سی ہونے کو ہے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ مور کے پروں سے کل جماعتی کانفرنس (APC) منعقد نہیں ہوتی یا سڑکوں پر جھاڑو نہیں دی جاتی۔