کارپوریٹ کلچر اور ملکی معیشت
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں مسلسل گزشتہ برسوں سے ارتکازِ دولت کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
کسی ملک کی معیشت کے معیار کو سمجھنے کے لیے کاروبار کی تین اہم اکائیوں کا جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ کارپوریٹ انداز میں کاروباری معاملات طے کرنا ترقی اور خوشحالی کی علامت ہے۔ (1) ریٹیل (2) کمرشل (3) کارپوریٹ۔ عام کاروبار زندگی میں ان تینوں کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شعبہ ہائے زندگی میں ان کا موثر اطلاق ایک فطری عمل ہے۔
ریٹیل سے مراد عام یا چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والا، کمرشل یوں سمجھ لیں ریٹیل کا بڑا بھائی، وہ کاروباری حضرات جن کا لین دین درمیانے درجے کے کاروباری معاملات سے ہو، تیسری اہم اکائی ''کارپوریٹ'' وسیع پیمانے پر کاروبار کا عمل، ملٹی نیشنل کمپنیاں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے تحت چلنے والے ادارے، کارپوریٹ سیکٹر کے زمرے میں آئیں گے۔ پی آئی اے، بینکس، پاکستان اسٹیل، کے ای ایس سی وغیرہ کارپوریٹ سیکٹر کی نمایاں مثالیں ہیں۔
جدید سائنسی مشینری سے پیداواری طریقوں میں جہاں اضافہ ہوا ہے وہاں انسانی محنت سے حاصل کرنے کی استعداد میں قابل ذکر کمی آئی ہے، جس سے ہماری آبادی کی بیشتر افرادی قوت بے روزگار ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسی محرومی ہے جس سے معاشرے میں جرائم جنم لیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے غربت انسان کو گمراہ کردیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دہائی میں بیروزگاری نے ٹارگٹ کلنگ، ڈکیتی ، بھتہ خوری جیسے گھناؤنے جرائم میں تیزی سے اضافہ کیا ہے۔
فری مارکیٹ اکانومی، نجکاری عمل اور ڈی ریگولیشن کے تحت ترتیب دی جانی والی انڈسٹریل پالیسوں کے نفاد کے باوجود ملک میں مثبت تبدیلی کے بجائے ارتکاز دولت نے عوام کو غربت کی راہ دکھائی۔ بدامنی، لاء اینڈ آرڈر کی بگڑتی ہوئی خراب صورتحال، لوڈشیڈنگ، انرجی کرائسس جیسی اندرونی خراب صورتحال نے ہمارے کارپوریٹ سرمایہ کار کو چین اور بنگلہ دیش جیسے کارپوریٹ ممالک میں منتقل ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ باقی ماندہ صنعتیں نان پروفیشنل ٹھیکیداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی گئیں ہیں۔ اشیائے پیداوار کوالٹی کے بجائے کوانٹیٹی کے اصول کے تحت کروڑوں روپے مالیت کی اشتہار بازی نے مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ کیا ہے۔ ملک کا بینکنگ نظام تہہ و بالا ہو کر رہ گیا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر میں بینکوں کی کارپوریٹ سرمایہ کاری کے بجائے ریٹیل کسٹمرز کو قرضہ دے کر ان سے سود کی مد میں بھاری رقوم وصول کی جاری ہیں۔ صارفین کو قرضے کی دلدل میں پھنسایا جارہا ہے۔
ہم بحیثیت قوم اﷲ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہماری سرزمین کو بے شمار معدنیات، قدرتی وسائل، پہاڑ، دریا، سمندر، قدرتی کانیں، زرعی نہری نظام جیسی دولت سے مالا مال کیا۔ ان تمام نعمتوں کے ہوتے ہوئے ہمیں بیرونی امداد بھاری سود پر منحصر قرضوں کی کیوں ضرورت پڑتی ہے؟ سیاحت کے شعبے کو فروغ دے کر کثیر مقدار میں زرمبادلہ کے حصول کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ درحقیقت مجموعی طور پر معاشی صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مہنگائی کا تناسب لاکھوں روپے میں جب کہ ملنے والی تنخواہوں اور اجرتوں کا تناسب چند ہزار میں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں مسلسل گزشتہ برسوں سے ارتکازِ دولت کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ دولت مند اشرافیہ طبقہ اور غریب کے درمیان ایک طویل فاصلہ قائم ہوچکا ہے۔ ملک کی آزادی سے لے کر اب تک قلت ہے تو وہ صرف پاک دامن اور ایماندار قیادت کی، قانون و انصاف کی، اسی لیے میاں نواز شریف کی حکومت کی کابینہ میں شامل زاہد سرفراز کو قانون کی وزارت کا قلم دان سونپا گیا تھا جو انھوں نے واپس کردیا، بعد میں ان کو سائنس و ٹیکنالوجی کا قلمدان دیا گیا۔
مشاہدے میں یہ بات آئی ہے ملک کے کارپوریٹ ڈھانچے کی ناکامی کے بعد انسانی فلاح و بہبود کے تحت چلنے والے فلاحی ٹرسٹ، فاؤنڈیشن اور این جی اوز کے تحت چلنے والے ادارے کے قیام میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یہ ادارے کس حد تک اپنی کارکردگی میں کامیاب ہوئے ہیں، ایک تفصیلی جائزے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ کاری کا انحصار عوام کی بچتوں پر بھی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے بچت کے نظام کو بے حد متاثر کیا ہے۔ کسی ملک کے کارپوریٹ سیکٹر کو جانچنا ہو تو وہاں کے اسٹاک ایکسچینج کی ٹریڈنگ کا جائزہ لیں، جو ایک عرصے سے بحران کا شکار ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کس قسم کی ٹوٹی پھوٹی معیشت کا ہم شکار ہو رہے ہیں۔ یاد رکھیے! خود انحصاری اور سادہ طرز زندگی اپنا کر ہی ہم معاشی طور پر بہتری لاسکتے ہیں۔
کارپوریٹ سیکٹر کی تباہی کا بڑا سبب بھتہ خوری، دہشت گردی، قانونی شکنی ہے۔ سرمایہ دار اپنا سرمایہ لگانے سے گریز کررہا ہے، حالیہ اخباری اطلاع کے مطابق گزشتہ رواں مالی سال نجی کارپوریٹ سیکٹر نے بینکوں سے قرضے کی حصول میں عدم دلچپسی دکھائی اور پہلے 11 ماہ کے دوران صرف 45 ارب 45 کروڑ روپے قرض لیے جو گزشتہ سال کی نسبت 78 فیصد کم ہے، جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران نجی شعبے نے بینکوں سے 210 ارب 32 کروڑ روپے قرض لیا تھا۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق اسٹیل مل سمیت حکومتی تحویل میں چلنے والے اداروں نے بھی رواں مالی سال اپنی مالی مشکلات بینکوں سے قرضے کی صورت میں پوری کیں۔ نجی شعبہ بلکہ مالیاتی اداروں نے بھی رواں مالی سال قرضوں کی ادائیگی کے شیڈول میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کیا۔ مالیاتی اداروں کے بینکاری نظام سے قرضے بھی 51 فیصد سے کم ہو کر 31 کروڑ 90 لاکھ روپے رہ گئے ہیں۔ اس بدترین صورت حال کو دیکھتے ہوئے ملک کے ماہرین معاشیات کی رائے یہ ہے کہ شرح سود میں مسلسل کمی کے باوجود نجی شعبے کے قرضوں میں کمی کی بنیادی وجہ صرف اور صرف بدامنی اور توانائی بحران ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رواں مالی سال کے دوران نجی شعبے کے قرضوں میں 165 ارب روپے کی نمایاں کمی ہوئی ہے۔ ملک کے بیشتر ادارے بشمول نجی مالیاتی اداروں نے اپنا بیشتر انتظامی ڈھانچہ ٹھیکیداروں کے سپرد کیا ہوا ہے۔
حکمرانوں کی خدمت میں عرض ہے کہ اس ملک کے تمام اثاثے قوم کی امانت ہیں۔ خدارا آپ صنعتوں کو نجی تحویل میں ضرور دیں، مگر یہ کیا ہورہا ہے کہ نجی تحویل کے بجائے پورے ملک میں ٹھیکیداری کا نظام رائج ہے۔ یہ نظام ملک کو تباہی کے دہانے پر لے جا رہا ہے، آپ کا تعلق معزز کارپوریٹ فیملی سے ہے۔ دولت کی منصفانہ تقسیم کو اپنا یقین بنائیں۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام بھی کسی حد تک قوم کے لیے مفید ہے، ٹھیکیداری نظام نہیں۔ ملکی وسائل کا بہتر طریقے سے استعمال یقیناً اس ملک کو مثالی ریاست بناسکتا ہے۔ نئے اقدامات سے پوری قوم کارپوریٹ کلچر، خداحافظ اور ٹھیکیداری نظام ''خوش آمدید'' کہنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ فقط انسانی جانیں بچانے والا اہم شعبہ فارماسوٹیکل رہ گیا ہے ٹھیکیداری نظام سے۔ اﷲ خیر کرے۔ موجودہ خراب اور بھیانک صورت حال کو دیکھ کر قاضی احسن بدایونی نے خوب کہا ہے ۔
بگڑے ہوئے حالات سنبھالے نہیں جاتے
پیچ ایسے پڑے ہیں کہ نکالے نہیں جاتے