مرسی کا جرم

عشروں بعد یہ پہلا موقع تھا جب مصری حکومت پوری طرح غزہ کے ساتھ تھی۔

قومی اسمبلی کے انتخابات میں 70 فیصد نشستوں پر کامیابی، سینیٹ کے انتخابات میں 84 فیصد نشستوں پر فتح، صدارتی انتخابات میں 52 فیصد ووٹوں سے اکثریت اور آئینی مسودے کے حق میں 64 فیصد ووٹ۔ قاہرہ میں واقع صدارتی محل سے حسنی مبارک کو رخصت ہوئے 2 سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس عرصے میں کم از کم 4 مواقعوں پر مصری عوام کو اسلامی تحریکوں اور لادین جماعتوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مرحلہ درپیش تھا۔

ایک جانب 'اسلام ہی حل ہے' کا نعرہ تھا، تو دوسری طرف 'سیکولر مصر' کو ملکی ترقی کا ضامن قرار دیا جارہا تھا مگر مصری عوام نے ہر بار اپنا وزن اسلامی تحریکوں کے پلڑے میں ڈالا۔ مصر میں اسلام پسندوں کی یہ کامیابیاں روز اول سے ہی مغرب کے لیے ناقابل قبول تھیں۔ وجہ صاف ظاہر تھی، اشتراکیت کا تجربہ ناکام ثابت ہوا، مغربی لادینی نظام اب انسانیت کو ذلت اور پستی کی گہرائیوں میں دھکیل چکا ہے، ایسے میں کہیں اسلامی نظام کا کامیاب تجربہ مغرب کی کامل شکست کا باعث نہ بن جائے۔ اسی لیے ابھی محمد مرسی کو ایوان صدر میں قدم رکھے چند روز ہی ہوئے تھے کہ ملک میں سازشوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ محمد مرسی نے بزرگ آرمی چیف حسین طنطاوی کی جانب سے بغاوت کی خفیہ سازش کو ناکام بنا کر انھیں رخصت کیا تو پڑوس میں اسرائیل نے فسلطین پر حملہ کردیا۔

عشروں بعد یہ پہلا موقع تھا جب مصری حکومت پوری طرح غزہ کے ساتھ تھی۔ مصری وزیراعظم نے نہ صرف اسرائیلی فضائی حملوں کے دوران غزہ کا دورہ کیا بلکہ مصری صدر نے جب کھل کر فلسطینیوں کی حمایت کی تو تاریخ میں پہلی مرتبہ اسرائیل نے حماس کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے معاملات طے کیے اور شکست سامنے دیکھ کر صرف 8 روز میں جنگ ختم کردی۔

محمد مرسی نے شام میں بشارالاسد کی ظالمانہ کارروائیوں کی سخت مذمت کی۔ عرب ممالک پہلے ہی خوفزدہ تھے کہ کہیں انقلاب کی یہ لہریں ان کی سرحدوں سے نہ ٹکرا جائیں۔ اسی لیے جب مصر میں فوجی بغاوت ہوئی تو جہاں امریکا، یورپ اور اقوام متحدہ نے آنکھیں اور زبان بند کرلیں وہیں ایران، اسرائیل، سعودی عرب اور خلیجی ممالک نے سجدہ شکر ادا کیا۔ مرسی کی صدارتی محل سے رخصتی تو اسرائیل اور بشارالاسد کی اپنی فتح تھی، اگر کسی شخصیت نے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلانیہ مصری افواج کے اقدام کی مذمت کی تو وہ ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان تھے۔

گزشتہ صدی کے وسط میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد سے مصر میں دو ہی قوتیں ہیں، ایک اخوان المسلمون اور دوسری مصری فوج۔ مصر میں فوج 1945 سے 2012 تک ملک کی سیاہ و سفید کی مالک بنی رہی۔ اس عرصے میں اخوان المسلمون پر مصری افواج نے تشدد و تعذیب کے ناقابل بیان ہتھکنڈے استعمال کیے۔ سید قطب اور عبدالقادر عودہ جیسے بلندپایہ علمی شخصیات سمیت درجنوں افراد کو اقامت دین کی کوششوں کے جرم میں پھانسیاں دی گئیں۔


ہزاروں افراد کو عشروں تک جیلوں میں بند کرکے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہزاروں اخوانیوں کو ملک سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا گیا مگر 64 سال تک شدید آزمائش اور ابتلا اخوان کو کمزور کرسکی اور نہ مصر ی عوام میں اس کی مقبولیت میں کمی آئی، اسی لیے 2011 میں مبارک کی رخصتی سے دسمبر 2012 میں آئین کی منظوری تک جتنے بھی مراحل آئے مصر ی عوام نے اخوان المسلمون کی مکمل حمایت کی اور اب جب کہ صدر محمد مرسی نظر بند ہیں تو لاکھوں افراد ملک بھر میں ان کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

محمد مرسی کے ایک سالہ دور صدارت پر نظر ڈالی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ان کی قیادت میں ایک نیا مصر ابھر رہا تھا۔ مصر جسے مشرقی وسطیٰ میں کلیدی اہمیت حاصل ہے، ڈاکٹر مرسی کی زیرقیادت اسرائیلی مظالم کے خلاف فلسطینی عوام کا پشتی بن چکا تھا، ملک میں رشوت، اقربا پروری اور کرپشن کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کیے جارہے تھے، اسمارٹ کارڈز کے ذریعے شہریوں کو سستی روٹی فراہم کی جارہی تھی، محمدمرسی ماضی کے صدور کی طرح قلعہ بند رہنے کے بجائے عوام کے درمیان رہتے اور گھر سے قریبی مسجد میں نماز ادا کرتے، بلاسود معیشت کی حوصلہ افزائی کررہے تھے، عشروں سے شورش زدہ علاقے سینا کی ترقی کے لیے عملی اقدامات میں مصروف تھے،

ملازمین کی تنخواہوں میں نمایاں اضافہ کیا گیا، ان کی اہلیہ نے خاتون اول کا لقب اختیار کرنے سے انکار کردیا، مصری تاریخ میں پہلی بار حقیقی دستور دیا گیا جسے 64 فیصد عوامی اکثریت نے منظور کیا، عشروں سے بند غزہ کا راستہ کھولا تو فلسطینی عوام مرسی زندہ باد کا نعرہ لگائے بغیر نہ رہ سکے۔ ایک سال کے دوران مصری عوام کو اظہار رائے کی مکمل آزادی تھی جو مصریوں کے لیے بالکل نئی چیز تھی، اب کوئی خفیہ ادارہ انھیں راتوں رات یا دن دہاڑے کسی جھوٹے الزام میں لاپتہ نہیں کرسکتا تھا۔ مصری صدر یہ سب کچھ ان حالات میں کررہے تھے کہ جب حسنی مبارک کے سرپرست اوباما یہ فرما رہے تھے کہ 'مصر اب ہمارا دشمن نہیں تو دوست بھی نہیں رہا۔'

ایک جانب تو مصری صدر کے یہ احسن اقدامات تھے، دوسری جانب فوج، عدلیہ اور میڈیا کا گٹھ جوڑ دن رات حکومت کو ناکام بنانے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ عدالت نے سب سے تاریخی کارنامہ تو یہ انجام دیا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار حقیقی جمہوری عمل سے منتخب ہونے والی اسلام پسندوں پر مشتمل پارلیمنٹ کو تحلیل کردیا مگر اخوان المسلمون نے صبر سے کام لیا۔ جب دستور ساز اسمبلی نے عوامی مطالبات کی روشنی میں آئین کی تدوین کا عمل مکمل کرلیا تو عدالت نے اس اسمبلی کی ہی بساط لپیٹنے کا فیصلہ کرلیا مگر اس سے پہلے کہ جج صاحبان یہ فیصلہ سناتے محمد مرسی نے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے انقلاب کے تحفظ کی خاطر مبارک کی باقیات پر مشتمل عدلیہ کو ایسا کرنے سے روک دیا۔ سازشوں کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا، مصری افواج کے سربراہ حسین طنطاوی لادین عناصر کے ساتھ مل کرمرسی کا تختہ الٹنے کی سازش میں مصروف تھے کہ محمد مرسی نے اس سے پہلے انھیں چلتا کردیا۔ بیوروکریسی عملاً عدم تعاون پر آمادہ تھی۔ 70 سالہ دور آمریت میں لادین افراد پر مشمل جو اشرافیہ اور تاجر برادری ملک میں وجود میں لائی گئی تھی وہ بھی جمہوری عمل سے زیادہ خوش نہ تھی، اس لیے کہ اب عوام و خواص کی تفریق ختم ہورہی تھی۔

مغرب اور مصری فوج و عدلیہ کا خیال تھا کہ محمد مرسی ان مشکلات کا سامنا نہ کرپائیں گے اور مستعفی ہوجائیں گے مگر جب اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر محمد مرسی ان سازشوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوگئے تو مرسی مخالف ملکی اور بین الاقوامی عناصر کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ فوجی ٹینکوں اور بندوقوں کی طاقت سے محمد مرسی کو معزول کردیا جائے۔ دوسری جانب التحریر اسکوائر پر جمع مرسی مخالف مظاہرین کی اخلاقی حالت کا عالم یہ تھا کہ صرف 2 سے 3 دن میں ڈچ صحافی سمیت 100 کے قریب خواتین کی عزت لوٹ لی۔

مصرکی تازہ صورتحال یہ ہے کہ فوج سے تعاون کے صلے میں آئینی عدالت کے سربراہ کو ملک کا صدر بنادیا گیا ہے، عوام کی جانب سے مسترد کردہ محمد البرادعی کو وزیراعظم بنانے کی خواہش بھی بار بار زبان پر آرہی ہے۔ دوسری جانب لاکھوں افراد ڈاکٹر مرسی کی حمایت میں سڑکوں پر موجود ہیں۔ قاہرہ اور اسکندریہ کی شاہراہوں پر صرف ایک ہی نعرہ گونج رہا ہے 'محمد مرسی کل بھی ملک کے صدر تھے، مرسی آج بھی ملک کے صدر ہیں۔' محمد مرسی کی جبری معزولی پاکستان کے لیے بھی کسی صدمے سے کم نہیں ہے، اس لیے کہ صدر محمد مرسی نے جب پاکستان کا دورہ کیا تو65 سال بعد یہ پہلا موقع تھا جب کوئی مصری صدر پاکستان آیا ہو۔ ماضی کے مصری صدور ہمیشہ ہی بھارت کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔
Load Next Story